Ticker

6/recent/ticker-posts

یہ شریعت بزدلوں کے لیے نہیں اتری! شریعت کی حقیقت اور اہمیت

یہ شریعت بزدلوں کے لیے نہیں اتری! شریعت کی حقیقت اور اہمیت

از قلم : مجاہد عالم ندوی
استاد : ٹائمس انٹرنیشنل اسکول محمد پور، شاہ گنج پٹنہ
رابطہ نمبر : 8429816993

شریعت بزدلوں کے لیے نہیں اتری ہے، نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے، ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک اور پانی کے بہاؤ پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے، یہ ان بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہوں، جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاؤ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہوں، جو صبغة اللّٰہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں، اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔

مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاؤ بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے، اس کی آفرینش کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس راستے پر رواں کر دے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے، صراط مستقیم ہے، اگر دریا نے اپنا رخ اس راستے سے پھیر دیا ہے تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے، جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے کے لیے راضی ہو جائے۔

شریعت کی حقیقت اور اہمیت

حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے، وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا، اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صرف کر دے گا، کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پروا نہ ہوگی، وہ ہر اس نقصان کو گوارا کر لے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو، حتی کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں، اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہو جائیں، اور پانی کی موجیں اس کو نیم جاں کر کے کسی کنارے پر پھینک دیں، تب بھی اس کی روح ہرگز شکست نہ کھائے گی، ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔

شریعت کی حقیقت اور اہمیت

قرآن تمہارے سامنے ہے، انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں تمہارے سامنے ہیں، ابتداء سے لے کر آج تک کے علم برداران اسلام کی زندگیاں تمہارے سامنے ہیں، کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جدھر اڑائے اُدھر اڑ جاؤ ؟ پانی جدھر بہائے اُدھر بہہ جاؤ ؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جاؤ ؟ اگر مدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی کی بعثت کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ ہوا کی موجیں تمہاری ہدایت کے لیے اور حیات دنیا کا بہاؤ تمہاری رہنمائی کے لیے اور زمانہ کی نیرنگیاں تمہیں گرگٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں، خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا، اس ذات حق کی طرف سے تو جو پیغام بھی آیا ہے اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے، اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے، اور دنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے، ایمان داروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستے پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں، انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض کے لیے جہاد کیا ہے، اس جہاد میں اذیتیں اٹھائ ہیں، نقصان برداشت کیے ہیں، اور جانیں دی ہیں، ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتار زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا نہیں بنایا۔

شریعت کی حقیقت اور اہمیت

اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایت آسمانی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں نقصان اور مشکلات اور خطرات دیکھتا ہے اور ان سے خوف زدہ ہو کر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوشحال کامیاب اور سر بلند نظر آتے ہیں، تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے، مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو اور دنیا کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اور اس کے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر بھی اس کا پیر ہے؟ نافرمانی خود ایک بڑا جرم ہے، اس پر جھوٹ اور فریب اور منافقت کا اضافہ کر کے آخر کیا فائدہ اٹھانا مقصود ہے ؟

یہ خیال کہ زندگی کا دریا جس رخ بہہ گیا ہے اس سے وہ پھیرا نہیں جا سکتا عقلا بھی غلط ہے، اور تجربہ و مشاہدہ بھی اس کے خلاف گواہی دیتا ہے، دنیا میں ایک نہیں سیکڑوں انقلاب ہوئے ہیں اور ہر انقلاب نے اس دریا کے رخ کو بدلا ہے، اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال خود اسلام ہی میں موجود ہے۔

حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا یہ دریا کس رخ پر بہہ رہا تھا ؟ کیا تمام دنیا پر کفر و شرک کا غلبہ نہ تھا ؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی ؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغ دار نہ بنا رکھا تھا ؟ کیا اخلاق پر فواحش، معاشرت پر نفس پرستی، معیشت پر ظالمانہ جاگیرداری و سرمایہ داری، اور قانون پر بے اعتدالی کا تسلط نہ تھا ؟ مگر ایک تن واحد نے اٹھ کر تمام دنیا کو چیلنج دے دیا، تمام ان غلط خیالات و نظریات اور غلط طریقوں کو رد کر دیا جو اس وقت دنیا میں رائج تھے، ان سب کے مقابلے میں اپنا ایک عقیدہ اور اپنا ایک طریقہ پیش کیا، اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دنیا کے رخ کو پھیر کر اور زمانے کے رنگ کو بدل کر چھوڑا۔

تازہ ترین مثال اشتراکی تحریک کی ہے، انیسویں صدی میں سرمایہ داری کا تسلط اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے تھا، کوئی بزدل مرغ باد نما اس وقت یہ تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ جو نظام ایسی ہولناک سیاسی اور جنگی قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے اس کو الٹ دینا بھی ممکن ہے، مگر انہی حالات میں ایک شخص کارل مارکس نامی اٹھا اور اس نے اشتراکیت کی تبلیغ شروع کی، حکومت نے اس کی مخالفت کی، وطن سے نکالا گیا، ملک ملک کی خاک چھانتا پھرا، تنگ دستی اور مصیبت سے دو چار ہوا، مگر مرنے سے پہلے اشتراکیوں کی ایک طاقت ور جماعت پیدا کر گیا، جس نے چالیس سال کے اندر نہ صرف روس کی سب سے زیادہ خوفناک طاقت کو الٹ کر رکھ دیا بلکہ تمام دنیا میں سرمایہ داری کی جڑیں ہلا دیں اور اپنا ایک معاشی اور تمدنی نظریہ اس قوت کے ساتھ پیش کیا کہ آج دنیا میں اس کے متبعین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے، اور ان ممالک کے قوانین بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں، جن پر سرمایہ داری کی حکومت گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہے، مگر انقلاب یا ارتقا ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے، اور قوت ڈھل جانے کا نام نہیں ڈھال دینے کا نام ہے، مڑ جانے کو قوت نہیں کہتے، موڑ دینے کو کہتے ہیں، دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا، جو لوگ اپنا کوئی اصول، کوئی مقصد، کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں، جو بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں، جو خطرات و مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں، جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو، جو ہر سانچے میں ڈھل جانے اور ہر دباؤ سے دب جانے والے ہوں، ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا، تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کا کام ہے، انہی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رخ پھیرا ہے، دنیا کے خیالات بدلے ہیں، مناہج عمل میں انقلاب برپا کیا ہے، زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے۔

پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستے پر جا رہی ہے اس سے وہ پھیری نہیں جا سکتی، اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ نہیں ہے، مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کے بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا سچا اعتراف کرنا چاہیے، اور جب تم اس کا اعتراف کر لو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہو سکتا ہے، نہ کوئی اصول اور نہ کوئی ضابطہ، اس کو تو ہر طاقت ور کے آگے جھکنا پڑے گا، وہ کبھی اپنے کسی اصول اور کسی ضابطے کا پابند نہیں ہو سکتا، اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا۔
 
(مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کتاب تنقیحات سے ماخوذ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے