Ticker

6/recent/ticker-posts

اترپردیش الیکشن اور مسلم سماج کا فیصلہ Uttar Pradesh Election Aur Muslim Samaj Ka Faisla

اترپردیش الیکشن اور مسلم سماج کا فیصلہ

ڈاکٹر ایم اعجاز علی (سابق ممبرپارلیمنٹ راجیہ سبھا)

اب تک جو رزلٹ دیکھا گیا ہے اس کے حساب سے اترپردیش اور بہار کے عوام کا ووٹ ہی دراصل وزیراعظم کی کرسی کا مالک ہے۔ یہ جسے چاہے اسے اس کرسی پر بٹھادے اور جسے نہ چاہے اسے ایک جھٹکے میں بے دخل کردے۔ لہذا ان دونوں ریاستوںمیں ووٹ بہت سوچ سمجھ کے بعد ہی پڑتا چلا آرہا ہے۔ بہار میںتو الیکشن ہوا، جس میں دوبارہ این ڈی اے کی حکومت تشکیل ہوئی اور نتیش کمار کو پھر سے وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ گزشتہ حکومت سے اس مرتبہ کی حکومت میں فرق اتنا ہے کہ بھاجپا بڑی پارٹنر بن گئی اور نتیش کمار کمزور وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کرسی پر بیٹھے۔ اب یوپی کی باری ہے۔ گرچہ یہاں بہوجن سماج پارٹی، کانگریس اور اویسی برادران بھی میدان میں کھڑے ہیں اور یوگی جی کو وزیراعلیٰ کی کرسی سے بے دخل کرنے میں سیاسی طاقت جھونکے ہوئے ہیں، لیکن سیاسی ماحول تو یہی دکھا رہا ہے کہ مقابلہ بی جے پی (این ڈی اے) اور سماج وادی پارٹی اتحاد کے درمیان ہی ہوناہے۔ اسی طرح یہ بھی طے ہے کہ اس مرتبہ بھی اترپردیش کا الیکشن ’کمیونل ایشوز‘ پر ہی ہوگا۔ نہ تو یوگی جی ’ہندو-ہندو‘ کرنے سے پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی اویسی برادران ’اے مسلمانو…‘ کہنے سے باز آئیں گے۔ ان دونوں گروپ کے نعرے بازی کے بیچ مہنگائی، بے روزگاری، بدحالی، غریبی، بدعنوانی اور جرائم کے اٹھتے گراف کو کنٹرول تو نہیں کیا جاسکتا ہے۔ البتہ آپسی اتحاد، مذہبی رواداری اور ملک کی بنیادی ترقیات کا گراف دن بدن نیچے کی ہی طرف جاتا ہے۔ اس میں بھی مذہبی رواداری وسماجی یکجہتی وہ فیکٹر ہے جس میں درار پڑجائے تو سنبھالنے میں صدیاں گذرجاتی ہیں۔

1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے بعد دو قومی نظریہ

یاد کیجئے کہ 1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے بعد دو قومی نظریہ کی جو آگ بنکم چٹرجی (آنندمٹھ کے ذریعہ) ہندومہاسبھا، مسلم لیگ اور آر ایس ایس نے آپسی ٹکرائو کے نام پر بھڑکائی کیا وہ آج تک بجھ سکی۔ بلکہ اور بڑھتی چلی گئی اور اتنی بڑھی کہ اب تو دھرم سنسدوں کے ذریعہ کھلے عام دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔

مسلمانوں کی سمجھ داری یہی ہونی چاہئے کہ...

بہرحال مسلمانوں کی سمجھ داری یہی ہونی چاہئے کہ ٹکرائو کی سیاست سے اسی طرح منھ پھیرلیں جیسے حرام چیز یا گندگی کو دیکھ کر منھ موڑ لیتے ہیں۔ اقتدار میں حصہ داری لینے سے ہم روکنا نہیں چاہتے ہیں کیوںکہ جمہوریت میں حصہ داری تو چاہئے ہی لیکن چیلنج یا ٹکرائو سے نہیںبلکہ میل ملاپ سے حاصل کریں۔ اس کام میں پہل بھی مسلمانوںکو ہی کرنا ہوگا۔ سنگھ پریوار تو ہر موقع اور ہر ایشو پر مسلمانوںکو چھیڑے گا اور جان بوجھ کر ٹکرائو کے لیے اکسائے گا۔ وہ جانتا ہے کہ زیادہ تر مسلم سربراہان جذباتی یعنی ’سنکی‘ ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات کو ذرا سا چھیڑنے پر وہ سخت سے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور ان کے اسی ردعمل کو وہ اسلام کا چہرہ بناکر اپنی سماج کو خبردار کرتے ہیں۔ جبکہ ایسی بات نہیںہے۔ اسلام تو ’حکمت انقلاب‘کا نام ہے۔ یہاں تو ’سنک‘ اور ’انا‘ کی کوئی گنجائش ہی نہیںہے۔ لیکن اللہ نے ہندوستان کی سرزمین پر مسلمانوںکو حکومت کرنے کا 800 برسوں تک موقع کیا دیا کہ یہاںکے مسلمانوںکا ذہن صرف حکومتی ہوکر رہ گیا۔ اسلام کے سماجی مشن کو خارج کرکے صرف اقتدار کی حصولیابی ہی مسلم سربراہوں کا اوڑھنا بچھونا ہو کر رہ گیا ہے،جو کسی بھی حساب سے آج کے ماحول کے موافق نہیں ہے۔ سیاسی حساب سے مسلمانوںکو اب ’سماجی انصاف‘ کے حامیوںکے حمایتی بن کر رہنے میںہی فائدہ ہے۔ انہوں نے اپنی طرف سے کچھ حصہ داری دے دی تو ٹھیک اور نہیں دی تو بھی ٹھیک، لیکن انہیں سے لڑ کر ’سماجی انصاف‘ کی تحریک کو کمزور کرنے میں نقصان ہی نقصان ہے اور ہر حساب سے نقصان ہے۔ ان کے ساتھ رہ کر ہی ہم ہندوستان کے ماحول کو مذہبی رواداری کی طرف پھر سے موڑ سکتے ہیں۔ نفرت کی بنیاد پر برادران وطن سے الگ ہونے کے بجائے ان کے ساتھ انہیں کے بھیس وبول چال میں رہ کر انہیںاپنے شرعی عملوں سے رب العالمین، رحمت اللعالمین، اور دستور العالمین (قرآن حکیم) کے بارے میں جانکاری دینا ممکن ہے اور جو ہمارے کاندھوںپر دی گئی ذمہ داری ہے۔

Dr Ejaz Ali
Dr Ejaz Ali
یاد رکھئے سنگھی جماعت ’سماجی انصاف‘ کے خلاف ہے وہ تو ’کمیونل انصاف‘ (مذہبی انصاف) کے نام پر تفریق پیدا کرکے مذہبی رواداری کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات جبکہ قابل غور ہے کہ ہندوستان میں ’کمیونل انصاف‘ کوئی ایشو ہی نہیںہے۔ ہندوستانی آئین کے مطابق اور پہلے سے بھی مذہب کے نام پر کسی بھی ٹکرائو کا یہاں کوئی کھیل نہیںرہا ہے۔ سیاسی غلبہ دکھانے کے لیے صاحب اقتدار نے مذہب کے نام پر جو کھیل کھیلنا شروع کیا ہے یہ اسی کا اثر ہے کہ مذہب کے نام پر دنگے فساد ہونے لگے ہیںاور یہ کرسی حاصل کرنے کا اب آسان فارمولہ بن گیا ہے۔ ’کمیونل انصاف‘ کی تحریک کو ختم کرنے اور ’سماجی انصاف‘ کی لہر کو بڑھاوا دینے کے لیے ہمیں ہی اپنی حکمت کو بدلنی ہوگی۔ سماجی طور پر اپنے مزاج سے علیحدگی ختم کرنے کے ساتھ سیاسی کھیل میں ایسے ایشوز کو مضبوطی سے پکڑنا ہے ،تاکہ برادران وطن کا بھی ساتھ ملے۔ مثلاً مہنگائی، بیروزگاری، غریبی، بدحالی، کمزوروں کا استحصال،شراب نوشی، بدعنوانی، جرائم، سیلاب، خشک وغیرہ۔ اس بات سے انکار نہیںکیا جاسکتاہے کہ ہندوستانی مسلمان مسائل سے گھرا ہوا ہے۔ تحفظ، تجارت (روزی روٹی) اور تعلیم ان کے اہم مسائل ہیں،لیکن ان چیزوںکو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی فی الوقت انہیں ابھارنے کے بجائے ہندوستان کے دلت وپسماندہ سماج کو زیادہ ابھارنا چاہئے۔ روایتی طور پر جکڑے ہوئے برہمنوادی نظام میں برادران وطن کو پسماندہ اور دلت طبقات ہی ایک طاقت کے طور پر ابھرے ہیں اور یہ اوپری طبقات کے برادران وطن کو ہضم نہیں ہوپارہا ہے۔ ہندوستان میں اصل مقابلہ تو اعلیٰ ذات واچھوت (دلت) کے درمیان کا ہے (کمنڈل بنام منڈل) جس میں اچھوتوں کا ساتھ دینے میں ہی فی الوقت مسلمانوںکا بھلا ہے۔ کمنڈل بنام منڈل کی لڑائی مضبوطی سے جاری رہے۔ یہی ہمارا نشانہ ہونا چاہئے۔ اچھوتوںکے ساتھ اتحاد ہی مسلمانوںکے عام مسائل (تحفظ، تجارت، تعلیم) کے حل کا راستہ نکل سکتاہے،ورنہ ٹکرائو کی سیاست تو اب تیزی سے میانمار جیسی صورت حال کی طرف لے کر چلی جائے گی۔ہمارے سربراہان کو اس بات کی غلط فہمی ہے کہ دنیا میں 50 سے زائد مسلم ممالک ہیں اس لیے ہندوستان میں ہمیں سیاسی برابری ملنا چاہئے اور اسی کے لیے موقع ملتے ہی چیلنج بھی کیا جاتا ہے، لیکن ہماری تو صلاح یہی ہے کہ عام مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے اپنے اس رویہ کو خیرباد کہہ دیں۔ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پڑوسی ملک میانمار میں جو کچھ ہوا وہ وہاں کے مسلم سربراہوں کی غلط پالیسی کے سبب ہوا ہے۔ ان کے ٹکرائو کی سیاست اور علیحدہ پسندی کے مزاج کے ’بھکت بھوگی‘ میانمار کے عام مسلمان ہوئے جنہیں وہاں سے بھاگ کر دوسرے ممالک خاص طور سے بنگلہ دیش جانا پڑا اور جہاں وہ بنجاروں کی زندگی گذارنے کومجبور ہیں۔

اس مضمون کے ذریعہ ہم یوپی کے مسلمانوںکو یہی مشورہ دینا چاہتے ہیںکہ وہ کمنڈل سے الگ ہونے والے منڈلیوں مثلاً سوامی، دارا اور راج بھر کے درد کو سمجھیں کہ اترپردیش میں وزیراعلیٰ کی کرسی سے یوگی جی کو ہٹانا دراصل کیوں ضروری ہے اور سماج وادی اتحاد کو مضبوط کرنا کیوں ضروری ہے۔ یوپی کے مسلمانوں کوبنگال کے طرز پر ہی ووٹنگ کرنی چاہئے اور وہ بھی خاموشی کے ساتھ اور جب تک سماج وادی اتحاد کو حکومت بنانے تک کا رزلٹ نہ مل جائے تب تک ہر قدم پر حکمت کے ساتھ چلنا ہے،کیوںکہ سنگھ پریوار اترپردیش میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دے گا۔ سنگھ جانتا ہے کہ ’یوپی تو دہلی‘ ہے۔ حالانکہ مایاوتی جی، اکھلیش یادو سے سینئر ہیں اور دنگے فساد پر زیادہ کنٹرول رکھنے کا ان کا ریکارڈ ہے، لیکن فی الوقت ان کی ہوا کمزور لگتی ہے، اس لیے ہندوستان کو سنگھیوںسے آزاد کرانا ہے تو یوپی کو یوگی جی کے چنگل سے چھڑانا ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ اس الیکشن میں مسلمانوںکو عقلمندی سے کام لیتے ہوئے اکھلیش یادو اور ان کے معاونین کو یکطرفہ ووٹ دے کر کامیابی سے ہمکنار کرانا ہوگا۔ کسی بھی صورت حال میں اس مرتبہ بی ایس پی، کانگریس، اتحادالمسلمین، پیس پارٹی یا راشٹریہ علماء کونسل کے چکر میں پڑنا ہی نہیںہے۔ ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی سنگھ پریوار بوتھ مینجمنٹ میںاپنی ساری طاقت جھونک دے گا۔ ہمیں چاہئے کہ پلاننگ کے ساتھ ووٹ اس طرح دیںکہ سنگھ پریوار کو پتہ تک نہ چلے کہ مسلمانوںکا ووٹ کس طرف جارہاہے۔ حکمت عملی سے اگر ہم سنگھ پریوار کو بوتھ پر بھی اس غلط فہمی میں دوبار لکھیںکہ مسلمانوںکا ووٹ بکھر گیا ہے تو یہ سب سے بہتر ہوگا جبکہ اندرونی طور پر ووٹ کو قطعی بکھرنے نہ دیں۔ بہار میں مسلمانوںنے ایسا کیا ہے تبھی تو آج تک بھاجپا کا غلبہ نہیں ہوسکا، ورنہ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں تو سنگھ پریوار نے اتنی مضبوط گھیرابندی کی تھی اور اتنی طاقت جھونکی تھی کہ ’سماجی انصاف‘ کا مکمل صفایا ہی ہوجاتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اسدالدین اویسی بھی سنگھ پریوار کی مدد میں ہی لگے ہوئے تھے لیکن یہاں کے مسلمانوںنے بہت حکمت سے کام لیا اور سماجی انصاف کی بچی ہوئی طاقت کو بچاکر رکھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے