Ticker

6/recent/ticker-posts

زمیں کو بیچ کر سیاست کر رہا ہوں میں Zameen Ko Bech Kar Dekho Siyasat Kar Raha Hun Main

زمیں کو بیچ کر سیاست کررہا ہوں میں

مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ
ایک دن جنگل میں تمام درندوں کی بیٹھک ہوئی چونکہ دیگر جانور درندوں سے کمزور تھے اس لیے ان سب کو ان کے سامنے سرنڈر ہونا پڑتا تھا، حکمرانی درندوں ہی کی تھی خفیہ میٹنگ میں یہ بات چل رہی تھی کہ اتنا وسیع اور کشادہ جنگل میں ہماری حکومت ہے ہم طاقتور ہیں کیوں نہ ہم تمام کمزور جانوروں کو کھا جائیں ؟ جتنے درخت 🌲 ہے سب کو بیچ دیں، تمام پھولوں کو نیست و نابود کر دیں پھر ہم آرام سے بیٹھے حکومت کریں گے، ہمارے فیصلوں پر کوئی اعتراض کرنے والا نہیں ہوگا، ہمارے خلاف کوئی احتجاج نہیں ہوگا، ان تمام باتوں پر سب متفق ہوگئے اور اس پر مہر ثبت کردیا گیا، جب مجلس برخواست ہونے لگی تو ایک بوڑھا بھیڑیا 🐺 کراہتے ہوئے دبی آواز سے کہنے لگا،۔ بھائی آپ نے فیصلہ تو درست کیا ہے لیکن مجھے ذرا یہ بتاؤ کہ جب جنگل میں کچھ باقی نہیں رہیگا تو تم لوگ حکومت کس پر کرو گے؟؟ بوڑھے بھیڑئیے کی آواز سن کر سب بغلیں جھانکنے لگے اور عقل محو تماشا بنی رہی کسی سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔

جنگل میں تو ایک ہوشیار درندہ تھا

خیر جنگل میں تو ایک ہوشیار درندہ تھا جس کے مشورہ سے جنگل میں اس کی حکمرانی قائم رہی ہم انسانوں کی بات کریں تو یہاں عقل روبہ پرواز ہے، ہوای باتیں ہوتی ہیں، أفکار فضا میں پلتے ہیں، مشورے بھی آسمانوں پر کئے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ زمینی سطح پر ہر کام تنزلی کا شکار ہے،باتیں ہوتی ہیں ترقی کی اس کے لئے طرح طرح کے وعدے کئے جاتے ہیں لیکن جب اس کے بروئے کار لانے کا وقت ہوتا ہے تو فضا کو تلاش کیا جاتا ہے اور زمین کو لالی پاپ دیکر صبر کو طول دیا جاتا ہے، امن و آشتی کے علمبردار حکومت کے طرف سے گلی گلی، چپہ چپہ، قریہ قریہ، امن کے گیت گاتے ہیں، انسانی جانوں کے تحفظ کی غزل خانی ہوتی ہے بہن بیٹیوں کی ناموس کے راگ الاپے جاتے ہیں لیکن جب پرواز فضا میں تیرتے ہیں تو پھر زمین لہو سے لالہ زار نظر آتی ہے، ایک خون آشام منظر ہوتا ہے جس سے دل پھٹا جاتا ہے اور سانسیں اکھڑ جاتی ہیں،جب ملک کی تعمیر و ترقی کی بات ہوتی ہے تو زمین پر تعمیر شدہ چیزوں کو فضای مشوروں کے تحت فروخت کرکے اپنی عظمت اور ناموری کی دہائی دیتا ہے اور زمین کو فقر و فاقہ کا ہار پہنا کر انسانوں کی بے بسی کا اعتراف بے شرمی سے کی جاتی ہے، جب مذہب و ملت اور کسی کے دھرم پر یا دھامرک گرو اس کے رشی منیوں پر کیچڑ اچھا لا جاتا ہے تو تیرتے ہوئے جمہوریت کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور جب اسی جمہوریت کی بیخ کنی کی جاتی ہے تو مجرموں کو ہوا میں تیرتی دھواں کے ذریعہ لفافہ بھیج کر اس کرتوت کی مبارکباد دی جاتی ہے، لیکن زمینی سطح پر اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا جھوٹا راگ الاپے جاتے ہیں، یہ منظر یا یوں کہ لیجئے اس طرح کے اور اس میں چھپے کتنے منصوبے جو خفیہ ہوتے ہیں اور خفیہ ہی اس پر عمل درآمد کرنے کی پلاننگ ہوتی ہے تو پھر ملک پر ترس آتا ہے، آنسو کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں، لیکن ہر درد بے سود اور ہر آنسو عبث ہو جاتے ہیں،۔ ملک کا قدیم اور اہم سرمایہ جب دوسروں کے ہاتھوں لاوارث کی طرح فروخت ہوتے ہوئے آنکھیں دیکھتی ہیں تو ایسا لگتا ہے بینائی ختم ہو جائے اور آنکھیں کبھی دوبارہ یہ منظر نہ دیکھے،۔ یہاں تو انسانوں کا سودا بھی موت کے ہاتھوں ہونا لگا ہے، دین و شریعت بھی ڈکٹٹیروں کے ہاتھوں فروخت ہوکر مٹ جانے کی باتیں ہوتی ہیں۔

خدا خیر کرے پیارے بھارت پر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی

خدا خیر کرے پیارے بھارت پر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی جہاں بولنا، لکھنا سب بیکار ہوگیا ہے، مظلوموں کی صدائیں بھی صدا بہ صحرا ہو گئی ہیں، بس اب بتاریخ اور عظمت رفتہ کے ہی گن گا سکتے ہیں اور مستقبل کی خیر منا سکتے ہیں اس امید کہ ساتھ کہ ان شاء اللہ حالات بدلیں گے اور فسطائی طاقتیں سرنگوں ہوکر اپنی تاریخ بھی کھو بیٹھیں گے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے