عام بجٹ : حاشیہ پر عوام | Aam Budget - Hashiya Par Awaam
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
یکم فروری ۲۰۲۲ء کو ہندوستان کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے سال ۲۳-۲۰۲۲ء کا عام بجٹ پارلیامنٹ میں ڈیجیٹل پیش کیا، یہ ایک پیپر لیس بجٹ تھا، جسے انہوں نے اپنے نوے (۹۰)منٹ کی تقریر میں ممبران پالیامنٹ اور رواں نشریہ کے ذریعہ عوام کے سامنے رکھا، ایک دن قبل جو اقتصادی سروے انہوں نے پیش کیا تھا، اس سے لوگوں کی امید بڑھی تھی کہ شاید ٹیکس کی ادائیگی کے لیے مقررہ سیلیب میں تبدیلی لائی جائے گی، جس سے اوسط درجہ کے تاجر، کسان اور عوام کو راحت ملے گی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا، حکومت نے نئے ٹیکس لگانے سے احتراز اور احتیاط کو ہی عوام کے لیے راحت کا سامان سمجھ لیا، چوں کہ اگلا بجٹ ۲۴-۲۰۲۳ء کا انتخابی بجٹ ہو گا اس لیے ہم کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں تھے، مرکزی حکومت نے اس بجٹ کے ذریعہ ملک کے مالدار ترین گھرانوں کو خوش کیا ہے، جس کے نتیجے میں کار پوریٹ ٹیکس میں کمی کر دی گئی ہے، بجٹ کی خاص باتوں پر توجہ دیں تو معلوم ہوگا کہ در آمد کی جانے والی اشیاء میں تیس (۳۰) فیصد ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے، دفاعی بجٹ میں دس(۱۰) فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے، اچھی بات یہ ہے کہ وزارت اقلیتی امور کے لیے بجٹ میں چھ سو چوہتر کروڑ کی رقم بڑھادی گئی ہے، پاسپورٹ میں ای چیپ لگا یا جائے گا، حیرت ناک بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے کرپٹو کرنسی کی مالیت کو نہ صرف تسلیم کر لیا ہے، بلکہ اسے کاروبار میں رواج دینے کے لیے رزرو بینک کو ذمہ داری دی ہے، البتہ کرپٹو کرنسی پر تیس(۳۰) فی صد ٹیکس بھی دینا ہوگا، توقع کی جاتی ہے کہ اس بجٹ کے اثرات کپڑے، چمڑے کے سامان، موبائل، فون چارجر، جوتے، ہیرے اور جواہرات پر پڑیں گے اور یہ سستے ہوں گے، جبکہ غیر ملکی چھاتا، نقلی زیورات، ہندوستان میں تیار شدہ دوائیں مہنگی ہوں گی، بجٹ میں نو جوانوں کو خود انحصار (آتم نربھر) بھارت کے تحت سولہ لاکھ اور میک انڈیا کے تحت ساٹھ(۶۰) لاکھ ملازمتیں دی جائیں گی، اسی(۸۰) لاکھ نئے گھر بنائے جائیں گے، چار سو(۴۰۰) نئی وندے بھارت ٹرینیں چلائی جائیں گی۔
حسب سابق اس بجٹ میں ہندوستان کے عام شہری، مزدور، کسان، غیر منظم سکٹر میں کام کرنے والے لوگوں کو پوری طرح نظر انداز کیا گیا ہے، مہنگائی کم کرنے کے لیے بھی اس بجٹ میں کوئی منصوبہ نہیں ہے، چھوٹے روزگار اور گھریلو صنعت چلانے اور قائم کرنے والوں کے لئے بھی کسی رعایت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے، حالاں کہ کورونا اور لاک ڈاؤن کی مار سب سے زیادہ اسی طبقہ پر پڑی ہے، ان کے کاروبار تباہ ہو گیے اور ان کے پاس نئے کاروبار کھڑے کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، ملازمتوں کی فراہمی کے لیے چھوٹے کاروباری مرکز کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے، منریگا کے فنڈ میں اضافہ نہ کرنے کی وجہ سے چند ایام کے لیے جو کام کمزور طبقات کو مل جایا کرتے تھے اب اس میں بھی اضافہ نہیں کیا جا سکے گا، کیوں کہ فنڈ کے حساب سے ہی لوگوں کو کام پر لگایا جا سکتا ہے اس طرح دیکھا جائے تو عام بجٹ نے عوام کو حسب سابق حاشیہ پر رکھا ہے، اور اس میں کوئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آتی۔
نوے (۹۰)منٹ کا بجٹ بھاشن انتہائی خشک تھا، سابق میں اس خشکی کو دور کرنے کے لیے بجٹ بھاشن میں اردو اشعار کا سہارا لیا جاتاتھا، اس بار اس کی بھی کمی محسوس ہوئی، اس کے علاوہ بجٹ میں معاشیات سے متعلق جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق انگریزی زبان سے ہوتا ہے، انگریزی اصطلاحات کا سمجھنا اس شخص کے لیے جس کا تعلق معاشیات سے فنی طور پر نہیں ہے دشوار ترین عمل ہے، ادھر چند سالوں میں ان انگریزی اصطلاحات کو سنسکرت زدہ ہندی میں بدلنے کا مزاج بنا ہے وہ اسے مزید دشوار تر کر دیتا ہے، اس لیے عوام کی دلچسپی بجٹ تقریر کے سننے سے بالکل نہیں ہوتی، وہ دیکھنا چاہتی ہے کہ مہنگائی اس بجٹ سے گھٹے گی یا بڑھے گی، بے روزگاری میں کس قدر کمی آئے گی، روزگار کے مواقع کیا ہوں گے، ان کی دلچسپی بجٹ کے بعد سینسکس اور نفٹی کے اعداد وشمار کے شیر بازار میں گھٹنے، بڑھنے سے بھی رہتی ہے، اگر حصص کی قیمتوں میں اچھال آیا، جیسا اس بار کے بجٹ کے بعد ہوا ہے تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بجٹ متوسط لوگوں کے لیے نہیں بڑے کارپوریٹ اور تاجر گھرانوں کے لیے مفید ہے، اگر شیر بازار میں گراوٹ آئی تو معلوم ہوتا ہے کہ اس بجٹ میں غریبوں کے لیے بھی کچھ ہے، یہ ان کی سوچ ہے، ضروری نہیں کہ آپ اس کی تائید بھی کریں۔
بجٹ تقریر کے نہیں سمجھنے کا اثر ہمارے سیاسی رہنماؤں پر بھی خوب پڑتا ہے، ان کے یہاں نہ سمجھنے کی وجہ سے موافقت ومخالفت کا پیمانہ حکومت کی موافقت یا مخالفت پر مبنی ہوتا ہے، حزب اقتدار کے لوگ بجٹ کو مثبت، ہندوستان کو آگے لے جانے والا کہتے نہیں تھکتے، جب کہ حزب اختلاف کے نزدیک بجٹ جیسا بھی ہو مایوس کن ہی ہوتا ہے، ان کے یہاں گفتگو بجٹ کے جزئیات پر نہیں ہوتی، بلکہ مجموعی طور پر ہی اسے رد کر دیا جاتا ہے، اس طریقۂ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے، سیاسی رہنماؤں کو بیان بازی سے پہلے اپنی پارٹی کے معاشی شعور رکھنے والوں سے تجزیہ کرا کر ہی رائے زنی کرنی چاہیے، بغیر سمجھے رائے زنی کرنا نہ ان کے لیے مفید ہے نہ ملک کے لیے۔
0 تبصرے