Ticker

6/recent/ticker-posts

ائمہ کی برطرفی، مسئلہ اور حل

ائمہ کی برطرفی، مسئلہ اور حل

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور، واٹسپ نمبر 8860931450
ہم نے اس موضوع پر 2020 میں ایک مضمون بعنوان ”اماموں مرو، شور مچاتے کیوں ہو “ لکھا تھا اس مضمون میں اماموں کی ایک تنظیم کی ضرورت اور مختصر طور پر اس تنظیم کے طریقہ کار پر گفتگو کی گئی تھی، جو مذکورہ بالا مسئلے ( ائمہ کی بے وجہ برطرفی ) کو بھی حل کرے گی، کاش کہ کوئی مرد آہن اٹھے اور اس کام کو انجام دے، درحقیقت یہ کام ایک باضابطہ منظم تنظیم ہی انجام دے سکتی ہے۔ سردست باشعور ائمہ حضرات بھی ”اپنی مدد آپ“ کے تحت ”بے وجہ برطرفی“ کے خلاف کھڑے ہوسکتے ہیں یہ مضمون اسی نیت سے مرتب کیا گیا ہے، پیش خدمت ہے۔

ائمہ کی برطرفی کا موجودہ طریقہ ایک الجھا ہؤا مسئلہ ہے

ائمہ کی برطرفی کا موجودہ طریقہ ایک الجھا ہؤا مسئلہ ہے بھارت کے پس منظر میں بعینہٖ ”مسئلۂ طلاق“ کی طرح، جوکہ عوام علماء اور عدالت کے درمیان تختہ مشق بنا ہؤا ہے، مختلف فرقوں کے علماء کرام کی الگ الگ رائے، عوام کا عمل ان آرا کے برعکس، عدالتوں کے فیصلے سب سے جدا۔

چند شہروں کی بڑی مساجد کو چھوڑ کر موجودہ طریقہ یہ ہے کہ امام کی برطرفی کے لیے کسی بھی مقتدی کا بس ناراض ہوجانا کافی ہے اور بس، ناراضگی کی وجہ چھوٹی بھی ہوسکتی ہے اور بڑی بھی۔ بعض ائمہ کو اس لیے بھی علیحدہ کیا گیا کہ نماز کے اندر حالت قیام میں ان کے دونوں قدموں کے درمیان چار انگل سے زائد کا فاصلہ تھا اور اس وجہ سے بھی کہ وہ نماز جلدی پڑھاتے ہیں، اس وجہ سے بھی کہ امام صاحب سلام کے بعد کعبے کی طرف پشت کرکے بیٹھتے ہیں، اس وجہ سے بھی کہ امام صاحب سلام پھیرنے کے بعد بہت مختصر دعا مانگتے ہیں، اس وجہ سے بھی کہ امام صاحب سلام پھیرنے کے بعد فوراً اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں، اس وجہ سے بھی کہ امام صاحب کو گھر سے آکر ظہر کی نماز پڑھانی تھی مگر وہ عصر یا مغرب میں آتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ برطرفی کا کوئی تعلق عام طور پر ذمے داری کی ادائیگی و عدم ادائیگی سے نہیں بلکہ اکثر و بیشتر عوام کے رسمی دین کے خلاف یا پہلے سے چلی آرہی کسی ڈگر کے خلاف بولنے یا عمل کرنے سے ہے اور یا پھر محلے کے کسی مسئلے میں دخل اندازی دینے سے ہے۔

مساجد کی کمیٹیاں

اس میں کوئی شک نہیں کہ مساجد کی کمیٹیاں خواہ وہ کتنی ہی گئی گزری ہوں مدارس کے وحدہُ لاشریک مہتمموں سے بدرجہا بہتر ہیں اور مساجد دینی خدمات اور مسلمانوں کی اصلاح کے اعتبار سے مدارس کے مقابلے میں زیادہ وسیع امکانات اور وسیع میدان رکھتی ہیں، اس لیے بہت ضروری ہے کہ مساجد کے اثرات کو مسلم معاشرے میں مزید فعال اور بہتر کرنے کے لئے صالح اور متحرک ائمہ کرام کی ”بے وجہ برطرفی“ کے سلسلے کو روکا جائے۔ غلطیاں دونوں طرف سے ہوتی ہیں، ہمارے محترم ائمہ کرام کے ذہن میں امامت کا یہ غلط تصور ہے کہ وہ آزاد ہیں، وہ جو چاہے کریں، جہاں چاہیں جائیں، مساجد اور امامت کی بنیادی ذمے داریوں کو من چاہے طریقے سے ادا کریں، کمیٹی کو ہمیں سمجھانے یا ٹوکنے کا کوئی حق نہیں، وہ ہم سے باز پرس بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ ہم ”امام“ ہیں۔

ائمہ حضرات اچھی طرح جان لیں کہ امام ہونے کا مطلب

ائمہ حضرات اچھی طرح جان لیں کہ امام ہونے کا مطلب ”بے قید ذمے داری“ نہیں، آپ امام ہیں تو یقیناً آپ کے سر کچھ ذمے داریاں بھی ہیں ان کی پابندی بھی لازمی ہوگی، آپ کو کچھ حدود و قیود کا لحاظ بھی رکھنا ہوگا اصول ہے کہ ’جس قدر بڑا عہدہ اسی قدر بڑی ذمے داری اور پابندی۔

ائمہ کی برطرفی معقول بنیاد پر ہو تو کوئی بات نہیں

ائمہ کی برطرفی معقول بنیاد پر ہو تو کوئی بات نہیں، معقول بنیاد پر برطرفی حسن انتظام کا حصہ ہے، مگر معقول وجہ کیا ہے ؟ اس کی کوئی واضح تشریح نہیں ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ انتہائی مضحکہ خیز باتوں کی وجہ سے ائمہ کو برطرف کر دیا جاتا ہے اس غلط چلن کا ائمہ کرام پر یہ منفی اثر ہوتا ہے کہ وہ اپنی بھرپور صلاحیت مسجد أہل محلہ اور ان کے بچوں پر نہیں لگا پاتے، جب انجام اچانک اور بے وجہ ”برطرفی“ ہی ہے، تو کوئی آدمی کیوں اپنے آپ کو کھپائے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ برطرفی کے واضح اصول و اسباب اور وجوہات متعین کیے جائیں پھر مساجد کی کمیٹیوں و متولیوں کو ان کا پابند کیا جائے علماء کرام و دانشورانِ ملت اور مقررین حضرات کے ذریعےان کی تشہیر و تفہیم کرائی جائے۔

آئیے ! کوشش کرتے ہیں، سب سے پہلے تو مسجد کی اصل ذمے داریوں کو متعین کیا جائے جو حضرت امام صاحب کے لئے وظیفۂ امامت کا درجہ رکھتی ہیں جوکہ پانچ ہیں۔
1۔ پنج وقتہ نماز اور اذان کی پابندی۔
2۔ بچوں کو قرآن پاک ناظرہ، کم از کم ”پارۂ عم“ حفظ، ضروری مسائل اور اردو زبان کی تعلیم لکھنا پڑھنا۔
3۔ مسجد کی صفائی و ستھرائی۔
4۔ اسلام کے ارکانِ خمسہ (کلمہ، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج ) کی ترغیب اور تفہیم۔
5۔ حرام امور سے امت کو بچاتے رہنا مثلاً شراب، جوا، چوری زنا، فضول خرچی، آپسی جھگڑے وغیرہ۔
یہاں ضروری ہے کہ کمیٹی و متولی حضرات کی ذمے داری بھی متعین کی جائے، ان لوگوں کی اصل ذمے داری 5/ ہیں۔
1۔ مسجد اور مسجد کی چیزوں و املاک کی حفاظت کرنا اور ان میں اضافہ کرنا۔
2۔ مسجد کے خزانے میں اضافے کی راہیں نکالنا اور اس کے لئے کوشش کرنا۔
3۔ امام صاحب کی مذکورہ ذمے داریوں میں معاون بننا ناکہ مخالف۔
4۔ اہل محلہ کو امام اور مسجد سے جوڑے رکھنا۔ 
5۔ امام کے تقرر کے وقت مذکورہ بالا ذمے داریوں کو امام صاحب کے سامنے پیش کرنا اور ان سے ایفائے عہد لینا۔

حل
سب سے پہلے تو یہ جان لینا ضروری ہے کہ تمام مسجدیں وقف ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، مساجد کا کوئی بھی انسان خودمختار مالک نہیں ہوتا، کمیٹی ہو متولی ہو یا امام، سب کے سب اللہ کے گھر کے خادم ہیں، انتظامی ضرورت کی وجہ سے کچھ لوگوں کو خاص کردیا جاتا ہے، مساجد کی کمیٹیوں و متولیوں کی اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں، انکو کوئی اختیار نہیں کہ کسی امام کو بغیر کسی جائز اور معقول وجہ کے برطرف کریں۔ ائمہ کرام کو اسی وقت مسجد سے برطرف کیا جائے جب ان سے کوئی ایسی واضح اور فاش غلطی صادر ہو جائے جو قرآن و سنت کی روشنی میں حرام و ناجائز ہو یا امور مفوضہ میں بار بار توجہ دلانے کے بعد بھی احساس ذمہ داری پیدا نہ ہو اور محلے کے مسلمانوں کی اکثریت — ناکہ صرف کمیٹی — اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ اب امام صاحب کا یہاں مسجد میں رہنا صرف اور صرف نقصان کا باعث ہے۔

مساجد میں ائمہ کرام کی دگرگوں حالت اور ان کی برطرفی

مساجد میں ائمہ کرام کی دگرگوں حالت اور ان کی برطرفی کی ایک بڑی وجہ تبلیغی جماعت کے متشدد افراد بھی ہیں، تبلیغی جماعت کے افراد، ائمہ کرام کے کام اور ذمے داریوں کو دین کا کام نہیں سمجھتے، ردعمل میں ائمہ کرام پوری تبلیغی جماعت کے وجود پر ہی سوال اٹھا دیتے ہیں، نتیجتاً آپس میں ایک دوسرے کے خلاف خفیہ مشوروں کا آغاز ہوجاتا ہے، انجام کار امام صاحب کی برطرفی ناگزیر ہوجاتی ہے، اسلئے ائمہ کرام تبلیغی جماعت کے تعلق سے ایسا رویہ اختیار کریں کہ ان کی قابل قدر خدمات ہرگز متاثر نہ ہوں، اصلاح کا ایسا دل آویز طریقہ کریں کہ صرف ناخن کٹے انگلی نہیں، غلو اور ”ہم ہی صحیح ہیں “ والا ذہن بھی ختم ہوجائے۔ خیال رہے کہ تبلیغی جماعت میں جو کچھ بھی غلو اور تفرقہ پسندی کے جذبات ہیں وہ سب تبلیغی جماعت سے منسلک علماء کرام کے بے سوچے سمجھے دیے گئے” بے ڈھنگے بیانوں “ کا نتیجہ ہے تبلیغی جماعت سے منسلک عوام آج بھی اپنے علمائے کرام سے بندھی ہوئی ہے اور ان سے رابطے میں ہے، کاش کہ یہ علمائے کرام مشورہ اور تحقیق حال کے بعد مساجد اور ائمہ کرام کے تعلق سے کوئی واضح اور قابل عمل طریقہ اختیار کریں، کچھ سرخ لکیریں کھینچ دیں تاکہ ائمہ کرام و تبلیغی جماعت کے حضرات ان سرخ لکیروں سے دور رہیں۔

ہماری قوم مذکورہ بالا ہدایات آسانی سے مان جائے اور مساجد کو اکھاڑہ بنانے سے باز آجائے، آپ یقین جانیے کہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے، اسلئے ضروری ہے کہ وہ ائمہ کرام جو نیک اور صالح ہوں مساجد کی ذمے داریوں کو تندہی سے انجام دے رہے ہوں، پھر بھی ”برطرفی کے مسئلے“ سے دوچار ہوں، تو انکو چاہیے کہ قانون کا سہارا لیں۔ ہمارے محترم وکیل اور جنرل سیکرٹری ”اجماع گروپ “ جناب طارق فاروقی صاحب کی لیگل ایڈوائز کے مطابق آئین کی دفعہ 25 Industrial Dispute Act کے تحت اگر کوئی شخص مسلسل 240 دن کام کرتا ہے تو اسے نکالا نہیں جاسکتا بغیر قانونی کارروائی کے۔ اس قانون کا سہارا لیں اور بے وجہ برطرف کرنے والوں کو سبق سکھائیں۔ ہمارے بعض ساتھیوں کا کہنا ہے کہ تم ائمہ کرام کو بھڑکا رہے ہو، ان کی غلط رہنمائی کررہے ہو، مساجد کے معاملات کو ایسے کورٹ کچہری میں نہیں گھسیٹنا چاہیے۔

میں ایسے مخلص دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب تک ایسا نہیں ہوگا اس وقت تک نہ ہماری قیادت بیدار ہوگی نہ کمیٹیاں اور نہ متولی حضرات، نہ مضبوط نظام بنے گا اور نہ ہی ائمہ کرام کے مسائل حل ہونگے نہ مساجد سے امت مسلمہ کما حقہ فائدہ اٹھا پائے گی، یہ فارمولہ ”تخریب تکمیل کی شرط ہے“ کے قبیل سے ہے۔
23/ جنوری 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے