Ticker

6/recent/ticker-posts

کانگریس اور بی جے پی کا فرق سمجھنا ضروری ہے

کانگریس اور بی جے پی کا فرق سمجھنا ضروری ہے


انتخاب و ترتیب / محمد قمر الزماں ندوی
آج ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے، بلکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے، جو ہندوستان کے سیاسی حالات سے عدم واقفیت کی وجہ سے کانگریس اور موجودہ زعفرانی پارٹی یعنی بھاجپا کو ایک ہی سمجھتے ہیں، بلکہ کانگریس کو نمبر ایک کا دشمن قرار دیتے ہیں، یقینا کانگریس کی منافقت اور اس کی شاطرانہ چال اور مکر و فریب کی وجہ سے قوم ملت ملک و وطن اور خصوصا مسلمانوں کو یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں، اور کانگریس کی غلطیوں کی وجہ ہی سے فاشسٹ اور فرقہ پرست طاقتوں کو طاقت و قوت اور مضبوطی ملی ہے، اگر کانگریس جس کو اقتدار اور حکومت کرنے کا سب سے لمبا موقع ملا اگر وقت پر فرقہ پرست طاقتوں اور تنظیموں پر قدغن لگادیتی اور فرقہ پرستی کے عفریت کو قت پر مار دیتی، تو آج ایسے حالات ملک کے نہیں ہوتے اور خود کانگریس کی یہ ذلت، درگت اور حالت نہیں ہوتی کہ اب اس کو ابھرنے اور طاقت ور ہونے میں سالوں لگ رہے ہیں لیکن ابھی تک وہ ہار اور ناکامی ہی جھیل رہی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ کانگریس اور بھاجپا کے بچار اور فکر میں بہت ہی فرق ہے، کانگریس اور بھاجپا کو ایک ہی سکہ کے دو رخ بتانا، میری رائے میں صحیح اور نہیں ہے، کانگریس کی ایک تاریخ ہے، ملک کی آزادی میں مسلمانوں کے بعدسب سے زیادہ کردار اسی پارٹی کا ہے، اس پارٹی سے ہمارے علماء اکابر اور دانشوران جڑے اور ملک کو آزادی ملی۔ یہ بھی صحیح ہے کہ اس پارٹی میں ہمیشہ دو وچار دھارے کے لوگ رہے، خالص سیکولر دھارے کے لوگ اور سیکولر کا لبادہ اوڑھے ہندتوا کے حامی اور پرچارک، جب جو حاوی رہے انہوں نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق ہندوستان میں اپنا کام کیا اور اپنی فکر کی اشاعت کی۔ مجلس کے کچھ سرپھرے نوجوان آج کل مستقل کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے خلاف جو تحریریں اور تصویریں ہوتی ہیں اور ان کی جو کمیاں اور خامیاں ہیں اس کو میرے پرسنل پر پوسٹ کرتے ہیں، مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس آئینے میں کانگریس اور سپا کو دیکھ لیجئے اور اپنی سوچ بدلئے، پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی سیاسی پارٹی سے میری کوئی وابستگی نہیں ہے، اور نہ کسی پارٹی کا میں اندھ بھگت ہوں۔ ملکی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے جو بات جس وقت اور جس ماحول میں زیادہ درست ہوتی ہے اور جس کی ضرورت ہوتی ہے اس پر رائے زنی کرتا ہوں اور لوگوں کو بھی اس کی طرف متوجہ کرتا ہوں۔ بنگال، بہار اور جھارکھنڈ کے الیکشن کے موقع پر بھی میں نے یہ خدمت انجام دی، یہ میری زندگی کے مشن میں سے ہے، مجھے کسی سیاسی شخصیت سے ذاتی طور پر نہ دشمنی اور بیر ہے اور نہ ہی کسی کا معتقد، سندھ بھگت اور مرید ہوں۔ بس سیاہی اور سفیدی کا فرق بتاتا ہوں اور زہر کو کبھی تریاق نہیں کہتا، چاہے اپنے یا بیگانے خوش ہوں یا ناراض، زہر ہلال کو قند کہنا میرا شیوہ نہیں ہے، جو بات حق سمجھتا ہوں وہ بے لیت و لعل کہہ دیتا ہوں۔ بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ بہت سے مجلسی لوگوں اور دوستوں کو سمجھاوں کہ موجودہ زعفرانی حکومت اور کانگریس کی آیڈیلوجی میں بہت فرق ہے، اس فرق کو بھی سمجھنے کی ضرورت بھی ہے، سب کو ایک برابر دشمن سمجھنا یہ صحیح نہیں ہے، میں اس پر لکھنا چارہا تھا، لیکن آج ہمارے ایک دوست نے ایک تحریر بھیجی ہے، جس میں انہوں نے بھاجپا اور کانگریس کے فرق کو اچھی طرح سمجھایا ہے، ان کا یہ تجزیہ درست اور صحیح معلوم ہے، ممکن ہے بہت سے قارئین کا اس سے اتفاق نہ ہو۔ ہم اپنے قارئین کی خدمت میں استفادہ کے لیے وہ تحریر پیش کرتے ہیں۔

کانگریس وہی پارٹی ہے جس نے ہندوستان کو آزاد کرانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا

ایک مدت مدید تک ملک عزيز پر کانگریس کی حکمرانی رہی ہے۔ کانگریس وہی پارٹی ہے جس نے ہندوستان کو آزاد کرانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ ہندو مہا سبھا اور مسلم ليگ کے بیچ یہ دیش کے تمام طبقات اور مذہبی کمیونٹیز کی پارٹی کی حیثیت سے ابھری اور ہمیشہ اس نے اسی بات کا دعوی کیا کہ اس کی پالیسی کثرت میں وحدت کی ہے۔ اصولی طور پر یہ بات درست بھی ہے کہ کانگریس ملک کے آئین پر بھروسہ کرتی ہے اور اس کے تکثیری ماحول کو برقرار رکھنا چاہتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ حسب ضرورت کانگریس نے بھی مذہبی کارڈ کھیلے ہیں اور ملک کے باشندگان کو مذہبی اور دوسرے خطوط پر بانٹنے کا کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف حالات اور مختلف خطوں میں علاقائی پارٹیاں ابھری ہیں اور انہوں نے اپنی حیثیت تسلیم کروائی ہے۔ بہار اور یوپی سامنے کی مثال ہے۔ کانگریس کے ساتھ ایک بات شروع سے رہی ہے کہ اس میں دو دھارے بیک وقت کام کرتے رہے ہیں۔ ایک سوشلسٹ دھارا اور ایک سنگھی دھارا۔ شروعاتی زمانے میں سوشلسٹ دھارا کی نمائندگی نہرو اور مولانا آزاد وغیرہ جیسے قائدین سے ہوئی اور سنگھی دھارے کی نمائندگی سردار ولبھ بھائی پٹیل اور راجندرپرساد جیسے لوگوں سے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ دو دھارے لگ بھگ ہمیشہ ہی کانگریس میں رہے اور جب جس کو مضبوطی مل گئی اس کا اثر ملک پر صاف نظر آيا۔

آزادی سے پہلے ملک کی تقسیم سے

برعکس طور پر بی جے پی ہندو مہا سبھا اور آرایس ایس سے بننے والی وہ پارٹی ہے جو ملک کے آئین پر اس طرح سے بھروسہ نہیں کرتی جس طرح سے آئین کے ماننے والوں کو کرنا چاہیے۔ 2014 میں بھاری اکثریت سے جیت کر آنے کے بعد اگر بی جے پی کے نیتا یہ کہتے سنے گئے کہ ہم آئین بدلنے آئے ہيں تو یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں تھی۔1947 میں آزادی سے پہلے ملک کی تقسیم سے مسلم ليگ کی فرقہ وارانہ سیاست تو ختم ہوگئی لیکن ملک کے سامنے ہندو مہا سبھا اور آرایس اایس کی فرقہ واریت کا چیلنج بنا رہا۔ کانگریس اپنی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے مختلف مواقع سامنے آنے کے باجود ان ملک و سماج دشمن عناصر پر قدغن لگانے سے گریزاں رہی، جس کا خمیازہ آج اسے خود بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ کم بڑی بات نہیں کہ پوری کانگریس کو ملک کے اولین وزیراعظم پنڈت نہرو جیسے معتبر قائد کا دفاع کرنے میں پریشانی کا سامنا رہا۔بی جے پی تہذیبی یک رنگی کی قائل اور پرچارک ہے۔ اسے ملک کی کثرت میں وحدت کی روایت سے بیر ہے، وہ پورے ملک کو بھگوارنگ میں رنگنا چاہتی ہے اور دوسری کسی بھی مذہبی کمیونٹی کو بطور عام اور مسلمانوں کو بطور خاص دوسرے نمبر کا شہری بنادینا چاہتی ہے۔

ہمارا رویہ عام طور سے عمومی تبصرے کا ہوتا ہے اس لیے ہم بہت آسانی سے کانگریس اور بی جے پی کو ایک بتا دیتے ہیں۔کانگریس کے پاس آرایس ایس جیسی کوئی تنظیم نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کے یہاں افکار ونظر کی سطح پر تنوع اور اختلاف بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس کی مضبوطی کے دو رمیں اس سے ایسے لوگ بھی جڑ جاتے ہیں جو مکمل طور سے اس کی بنیادی اور اصولی آئیڈیا لوجی کے خلاف ہوتے ہیں، جبکہ بی جے پی کے لگ بھگ سارے ممبران آر ایس ایس سے ہوکر آتے ہیں، ان کے یہاں فکری تنگ نظری اور فکری اتحاد دونوں پائے جاتے ہیں۔

محمد قمر الزماں ندوی
سمجھنے والی بات یہ بھی ہے کہ بی جے پی کو آپ اپنا سمجھیں بھی تو وہ آپ کی اپنی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد ہی آپ کی دشمنی پر رکھی گئی ہے جب کہ کانگریس اصولی طور پر ایک ایسی پارٹی ہے جو دیش کے سیکولر ڈھانچے اور آئین پر بھروسہ رکھتی ہے اور اسے بچانے اور آگے بڑھانے کی پابند عہد ہے۔

ویسے 2014 کے بعد کے حالات نے ملک کے سیکولر ذہن کے حامل افرا د کو یہ تو بتاہی دیا ہے کہ بی جے پی کے اقتدار کا کیا مطلب ہے لیکن ہم مسلمانوں کو یہ بہر حال سمجھنا ہوگا کہ ہمارا کردار خاص طور سے انتخاب کے موقع سے کیسا رہے گا۔جہاں جہاں علاقائی پارٹیاں مضبوط ہیں اور ان کے جیتنے کے امکانات ہیں اور وہ ہمارے ساتھ اچھا رویہ بھی رکھتی ہیں تو انہیں جتانے کی کوشش کرنا عقلمندی بھی ہے اور ضرورت بھی لیکن جہاں بی جےپی اور کانگریس کا راست مقابلہ ہے یا جہاں دوسری علاقائی پارٹیاں کمزور ہیں، وہاں کانگریس کو ووٹ کرنا ہی عقلمندی ہوگی۔ ویسے یہ بات یا درکھنے کی ہے کہ کانگریس اس طرح سے کبھی مسلمانوں کی پارٹی نہیں رہی جس طرح سے کبھی کبھی کچھ لوگ ہنگامہ کرتے ہیں، اس طرح کے بیانات سیاسی ہوتے ہیں اور ان کا مطلب صرف رجھانا یا الو بنانا ہوتا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ بی جے پی کے مقابلے میں وہ بہر حال نسبۃ ایک سیکولر پارٹی ہے۔ہمیں ظفر محمود صاحب سے مکمل اتفاق ہے کہ اگر کانگریس ابھی خود پریشان ہے اور وہ کسی طرح فرقہ واریت کے اس بھوت سے ملک کو نکالنا چاہ رہی ہے تو مسلمانوں کو تھوڑا تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے لیکن اس تحمل کا مطلب سیاسی ناوابستگی یا ایسا سکوت بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے جس سے بحیثيت ملت ہماری موت کا پیغام جاتا ہو"۔ ناشر مولانا علاءالدین ایجوکیشنل، سوسائٹی، جھارکھنڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے