دعوت بھی ایک حل ہے : توصیف القاسمی
تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور، واٹسپ نمبر 8860931450
انسان ہو قومیں ہوں یا طرز ہائے زندگی و طرز ہائے حکومت، ہر جگہ افکار کی حکمرانی ہوتی ہے، افکار کے تحت ہی انسان اپنے آپ کو، قومیں اپنی ڈگر کو، زندگی اپنے دھارے کو، حکومتیں اپنی روش کو بدلتی ہیں، اسی سے یہ فارمولہ وجود میں آیا ہے کہ ” اپنی سوچ بدلو دنیا بدل جائگی“
Change Your Thought The World Will Be Changed
ہم دعوت کا مقابلہ جہاد سے نہیں کر رہے ہیں، قرآن وحدیث میں جہاد بالسیف Jihad by the sowrd کی اپنی اہمیت ہے جو تا قیامت رہے گی، ہم ان لوگوں کی محنت و کوشش کو بھی بنظر افتخار دیکھتے ہیں جو بشمول سیاست و معیشت اسلام و مسلمانوں کے کسی بھی شعبے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
غیر مسلم حضرات کو اسلام سے قریب کرنا اور ان کو اچھے انداز میں واقف کرانا وقت کی شاید سب سے بڑی اور اہم ضرورت ہے
ہم اپنے اس مضمون میں بھارتی مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی غیر مسلم حضرات کو اسلام سے قریب کرنا اور ان کو اچھے انداز میں واقف کرانا وقت کی شاید سب سے بڑی اور اہم ضرورت ہے، دعوت کے ذریعے اسلام سے نابلد و ناواقف لوگوں کو اسلام سے روشناس کرایا جاتا ہے، جن کے دلوں میں شکوک وشبہات ہیں انکو دور کیا جاتا ہے، دعوت ہی کے ذریعے ایسے بے پناہ لوگوں تک رسائی ہوتی ہے جو سچائی کی تلاش کا جذبہ لئے جھوٹے مذاہب اور غلط افکار کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں، آپ یقین کیجیے کہ ایسے لوگ دنیا میں بہت بڑی تعداد میں ہیں جنکو جہاد بالسیف کی نہیں بلکہ ”بے آمیز دین“ کی ضرورت ہے اور انکی یہ ضرورت بلا شبہ دعوت ہی کے ذریعے پوری ہوگی، دعوت ہی کے ذریعے ان متشدد ہندوؤں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے جو ظلم و ناانصافی پر اترے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے بھڑکنے اٹھنے کی جڑ میں نفرت اور غلط فہمیاں ہیں جو بہرحال دعوت ہی سے ختم ہو پائیں گی۔
دعوت کیا ہے
دعوت کیا ہے ؟ دعوت در اصل انسانوں کو خود ساختہ مذاہب و افکار سے نکال کر توحیدی افکار کی دنیا میں لانے کا نام ہے ۔ قرآن کے مطابق دعوت کی بدولت آپکا کٹر دشمن گہرا دوست بھی بن سکتا ہے ۔ ( حم السجدہ 34)
دو واقعے
طالبان نے 2016 میں انگریزی زبان و ادب کے ایک آسٹریلوی پروفیسر کو کابل یونیورسٹی سے اغوا کر لیا تھا یہ پروفیسر امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے حکام کو انگریزی زبان سکھانے کے لئے کابل یونیورسٹی میں استاد مقرر کیا گیا تھا، بدقسمتی سے طالبان کے ہتھے چڑھ گیا، 2019 میں ایک معاہدے کے تحت ان کی رہائی وجود میں آئی، یہ پروفیسر ( جو اب جبریل عمر ہوچکے ہیں ) طالبان کے ذریعے اسلام سے متعارف ہؤا اور پھر مشرب بہ اسلام ہوگیا ۔ مغربی طاقتوں پر یہ خبر بجلی بن کر گری اور پروفیسر کے کسی دماغی بیماری میں مبتلا ہونے کا پروپیگنڈہ کرنے لگے، 15/ اگست 2021 کو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد مذکورہ پروفیسر نے دوبارہ پھر افغانستان جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور طالبان کی مدد کرنے کا اعلان کیا ۔ یہ واضح طور پر اسلام کی دعوتی طاقت کا ثبوت ہے، جو پروفیسر اپنی فنی صلاحیت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے افغانستان آیا تھا، وہی پروفیسر قبول اسلام کے بعد اب اپنی تمام تر طاقت و فنی صلاحیت افغانستان میں طالبان اور اسلام کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ یہ مضمون زیرِ ترتیب تھا اخبارات میں یہ خبر عام ہوئی کہ سفید فام برطانوی شہری کرسٹوفر جنکا اصلا تعلق لندن سے ہے — نے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ہاتھوں پر اسلام قبول کرلیا اور اب طالبان کا ہر طرح سے ساتھ دینے کے لئے تیار ہے۔
اس طرح کی بہت سی خبریں آتی رہتی ہیں، ہم کو جان لینا چاہیے کہ اسلام کی شروعاتی تاریخ بھی دعوت ہی کی بدولت بنی تھی اس وقت بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیاب دعوت سے ابوبکر جیسے باشعور، عمر جیسے بہادر، عثمان جیسے غنی، علی جیسے جواں مرد، خالد ابن الولید جیسے امور جنگ کے ماہر، حضرات نے اسلام کو غالب کیا مسلمانوں کے سر فخر سے بلند کیے اور اس وقت کی عالمی طاقتوں کو زیر کیا۔
آج بھی مسلمانوں کو وہی دعوت کا ”پرانا راستہ“ اختیار کرنا پڑے گا، دعوت کے ذریعے حوصلہ مند افراد اور باکمال نوجوان حاصل کرنے ہوں گے، کچھ کر گزرنے والے نوجوانوں کو اسلام کا شیدائی بنانا ہوگا ۔ مغربی ملکوں میں ”انقلاب بذریعہ دعوت“ کا آغاز ہو چکا، وہاں کتنے ہی اعلی تعلیم یافتہ نوجوان اسلام کی آغوش میں آچکے ہیں، خوش قسمتی سے یہ نوجوان کسی بھی مسلک کی پابندی اور اس کی اشاعت کے ”حرام پھنڈوں“ سے آزاد ہوتے ہیں، وہ قرآن و سنت کو سادہ انداز میں سمجھتے ہیں اور اسی کو پھیلاتے بھی ہیں، نتیجتاً اسلام وہاں کے ”از کارِ رفتہ مذاہب “ اور مغربی افکار پر چوٹ کرنے لگا ۔ یہ سچ ہے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام ہر زمانے میں اور ہر خطۂ زمین میں ہوتا رہا ہے، حالات و انقلابات خواہ کتنے ہی بے رحم اور ناسازگار ہوئے مسلمان انفرادی طور پر ہی سہی دین کی دعوت دیتے رہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ بحیثیتِ مجموعی مسلمان یہ کام نہیں کرسکے، بالخصوص مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہونے کے بعد سرحدوں کے پھیلاؤ اور مقابل کو زیر کرنے کی فکر تو کی گئی مگر خلق خدا کے دین و ایمان کی نہیں۔
اکیسویں صدی میں مولانا وحید الدین خان صاحب مرحوم ایک ایسے داعی اور عالم دین تھے جنہوں نے امت مسلمہ کی توجہ ”دعوت “ کی طرف مبذول کرائی اور پوری طاقت سے کرائی کہ آج کے زمانے میں دنیا کو بذریعہ ”جہاد و قتال“ نہیں، بلکہ بذریعہ ”دعوت“ فتح کیا جائے، مولانا وحیدالدین خان صاحب مرحوم نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اس حقیقت کو جانیں کہ اسلام کی نظریاتی طاقت Ideological power، احکام کی سادگی simplety of orders، فطری روحانیت، تمام مذاہب و انسانی نظریات کی ہر طرح کی طاقت سے بڑھ کر ہے، تو مسلمان جذبۂ خیر خواہی کے تحت کیوں غیر مسلموں کو دعوت نہیں دیتے ؟ مسلمان غیر مسلموں کے سامنے آخری حد تک کیوں ”اظہار دین“ نہیں کرتے ؟ کیوں عصری علوم و افکار کو سمجھ کر جدید متکلمین نہیں بن جاتے ؟
قیامت کی خوفناکیوں اور جہنم کی ہولناکیوں پر اگر مسلمانوں کا ایمان ہے تو ان پر فرض کے درجے میں لازم اور ضروری ہے کہ بھارت کے کروڑوں مشرکوں کو ہزاروں جھوٹے خداؤں کے چنگل سے نکال کر ایک خدائے واحد کے ”بندے“ بنائیں، اسی طرح مغربی دنیا کے ملحدین کو موحدین بنائیں، یہ کام ہرگز ہرگز بم بارود کی گھن گرج، گولیوں کی دندناہٹ میں نہیں ہوسکتا، ذہن و دماغ کو موافق اسلام کرنے کے لئے صرف اور صرف ”جذبۂ خیر خواہی“ چاہیے اور بس ۔ مولانا وحیدالدین خان صاحب کہتے تھے کہ مسلمان غیر مسلموں کی طرف سے پہنچنے والی تمام تکلیفوں پر یک طرفہ صبر کریں۔
آخر ہم مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ ہزاروں سال سے یہاں کے کروڑوں لوگ جہنم کا ایندھن بن رہےہیں، کیا ان تک اسلام پہنچانا اور ان کو جہنم سے بچانا ہمارا شرعی و اخلاقی و انسانی فریضہ نہیں ہے ؟ یقیناً یہ ہمارا فرض ہے کیونکہ وہ بھی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور ہمارے بھٹکے ہوئے بھائی ہیں ۔ ہم کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ غیر مسلموں کو دعوت دینا ایک ایسا فریضہ ہے کہ کوئی بھی عذر ہم کو خدا کی سخت باز پرس سے بچا نہیں سکتا ۔ اس قدر بڑی تعداد میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد جہنم کا ایندھن بنے اور ہمیں احساس تک نہ ہو، یہ تو ہمارا عجیب تصور آخرت ہے ؟ ہزاروں سال سے کروڑوں جھوٹے خداؤں کی عبادت ہوتی رہے اور ہماری توحیدی غیرت نہ جگے، ہماری حب خداوندی کا یہ عجیب دعویٰ ہے ؟
دعوت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دو ہیں، ایک مسلکی شدت پسندی، اس شدت پسندی نے اسلام کی تعبیر وتشریح کو انتہائی پیچیدہ تر بنادیا، مستحبات و مباح درجے کی چیزیں اصل دین قرار دے دی جاتی ہیں اور انتہائی سطحی باتوں پر کفر و ایمان، جنت و جہنم کے فیصلے کردیے جاتے ہیں، مسلکی شدت پسندی ہی کا اثر ہے کہ ہمارے ادارے اور داعی حضرات ہرگز ہرگز اپنے مسلک کے علاوہ دیگر علماء کرام کی کتابیں تقسیم تو دور کی بات، نہ خود پڑھتے ہیں اور ناہی دوسروں کو پڑھنے دیتے ہیں، خواہ وہ کتابیں کتنی ہی شاندار اور منطقی انداز میں کیوں نہ لکھی گئی ہوں ؟ یقین جانیے ایسے ملا اور ایسا دین نہ خدا کو قبول ہے اور نہ اس کی مخلوق کو، ۔ دوسری بڑی وجہ خود مسلمان ہیں، مسلمان وسیع پیمانے پر غیر مسلم حضرات سے تعلقات رکھتے ہیں مگر ان کو اسلام کے بنیادی عقائد سے واقف نہیں کراتے، حتیٰ کہ بہت سے غیر مسلم حضرات مسلمانوں سے ترجمہ قرآن وغیرہ کا مطالبہ کرتے ہیں، مگر مسلمان یہ سوچ کر فراہم نہیں کرتے کہ کہیں وہ انکی بے ادبی نہ کردے، اگر کوئی شخص از خود اسلام قبول کر بھی لے تو مسلمان اس کے ساتھ سماجی تعلقات نہیں بنا پاتے۔
بحیثیتِ مجموعی دعوت کیسے دیں ؟
ہر مسجد، ہر مدرسے، ہر تنظیم کو اپنے سسٹم میں غیر مسلموں کو قریب کرنے اور ان کو خالص اسلام ( توحید رسالت اور آخرت ) کی دعوت دینے کے لیے فنڈز اور طریقہ کار متعین کرنا چاہیے، مدارس اسلامیہ، مسلم تنظیموں کے دفاتر اور مساجد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات آتے رہتے ہیں ان لوگوں کو غیر مسلکی انداز میں اسلام پر لکھی گئی شاندار کتابوں کا ”پیکٹ“ بناکر بطور گفٹ دینا چاہیے ۔ مدارس اسلامیہ، تنظیموں اداروں اور مالدار مسلمانوں کو چاہیے کہ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات سے ’انعامی مقابلوں کے ذریعے‘ اسلام کا مطالعہ کرائیں، ان سے مختلف موضوعات پر مضامین لکھوائیں، مضامین کی تیاری کے لئے مفت قرآن و حدیث اور اہم کتابیں ان کی زبان میں فراہم کرائیں۔
دعوت کے تعلق سے خانقاہوں اور درگاہوں کا موجودہ کردار انتہائی غلط اور اسلام کے برعکس ہے، مسلمانوں کے تمام مسالک بشمول ”مسلک اعلیٰ حضرت“ درگاہوں کے کفر و شرک کے ٹھکانے بن جانے پر متحد ہیں، حالانکہ تاریخی اعتبار سے ان درگاہوں میں مدفون بزرگانِ دین کبھی اشاعت اسلام کا نشان امتیاز تھے۔
یہ سچ ہے کہ خانقاہوں اور درگاہوں کے پاس دولت کی کمی نہیں وہاں کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ خالص اسلام ( توحید رسالت آخرت ) کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اپنے نظام میں تبدیلی کریں، اسلام پر لکھی ہوئی غیر مسلکی علماء کرام کی شاندار کتابوں کی فری تقسیم کا سسٹم بنائیں، بالخصوص ہندی انگلش وغیرہ زبانوں میں ترجمہ قرآن کریم اور سیرت پر مواد فراہم کرنے کا انتظام کریں۔
ہمارا سماج نو مسلموں کو اپنے میں کھپا نہیں پاتا، ان کے ساتھ رشتے ناطے استوار نہیں کرپاتا، نتیجتاً نومسلم حضرات بہت سی دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں ۔ یہ ہمارے سماج کا بدترین کردار ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ اسلام قبول کرنے والے افراد کے ساتھ سماجی تعلقات بنائیں، ان کے ساتھ رشتے ناطے جوڑیں۔
اگر مجموعی طور پر یہ کام نہیں ہو پارہا ہے تو یہ ہی کام ہم اپنے محدود دائرے میں انفرادی طور پر بھی کرسکتے ہیں اگر ہمارا شعور بیدار ہو، منصوبے اور پلان کی اہمیت سے آگاہ ہوں، افکار اور سوچ کس طرح بدلتی ہے ؟ ان طریقوں سے آگاہ ہوں، تو ہم میں سے اسلام کو گہرائی سے جاننے والے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے طور پر غیر مسلم حضرات سے منصوبہ بند اور دیرپا تعلقات قائم کرے اپنی جیب خاص سے رقم خرچ کرکے ان تک اسلامی لٹریچر پہچائے، عید شادی بیاہ وغیرہ تقریبات میں ان کو مدعو کریں، ایک داعی کی حیثیت سے اسلامی اقدار و شناخت کے ساتھ ان کی تمام مذہبی و غیر مذہبی تقریبات میں حاضر ہو اور پورے حوصلے و ہمت کے ساتھ شریک ہو، ان کے سوالات و خدشات کو سمجھ کر علمی انداز میں حل کرے، اپنی بات تھوپے نہیں ان کی اقدار کے و افکار کے ساتھ حقارت آمیز رویہ اختیار نہ کرے بلکہ عملی کردار اور خالص اسلامی تعلیمات سے ان کے ضمیر کو جھنجھوڑے، غلط فہمی اور حقیقی اسلامی تعلیمات سے ان کو آگاہ کرے۔
17/ فروری 2022
0 تبصرے