Ticker

6/recent/ticker-posts

دعوت اور اس کا طریقۂ کار

دعوت اور اس کا طریقۂ کار


تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

مسلم و غیر مسلم حضرات کو دین کی دعوت دینا بقدرِ علم و استطاعت ہر مسلمان پر ضروری ہے، قرآن مجید میں ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے اس کو دوسروں تک پہنچادو بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ (المائدہ ) دعوت کا لفظ اور اس کا طریقہ کار ایک وسیع معنی و مفہوم رکھتا ہے، زبانی وعظ و نصیحت سے لیکر صالح کردار تک، أہل خانہ کی تربیت سے لیکر قوم کی اصلاح تک، مکتب سے لیکر تمام اداروں تک، مسلم سے لیکر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تمام غیر مسلم حضرات تک، گھر کی چہار دیواری سے لیکر بین الاقوامی معاملات تک سب دعوت کے معنی ومفہوم میں آتے ہیں، ہر مقام ہر ادارے ہر پلیٹ فارم کے ذریعے دین کی دعوت دی جاسکتی ہے۔ قطر میں منعقد فیفا ورلڈ کپ 2022 دعوت کے اس مفہوم کی جیتی جاگتی مثال ہے، خیال رہے کہ حکومت قطر نے کھیل کے ایک عالمی پلیٹ فارم کو انتہائی حسن تدبیر کے ساتھ دعوت دین میں تبدیل کردیا فیفا ورلڈ کپ ( الکأس العالمی ) کے ابتدائی مرحلے ہی میں 558 لوگوں نے اسلام قبول کیا مشہور مبلغ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک سمیت سینکڑوں علماء کرام کو فیفا ورلڈ کپ میں تعینات کیا گیا تاکہ اسلام کے تعلق سے ہر سوال کا جواب دیا جاسکے۔


اس لیے ”دعوت کے معنی ومفہوم “ کو کسی ایک نہج کسی ایک طریقہ کار میں مخصوص کردینا فرقہ پرستی اور تنگ نظری ہے۔ جس طرح ہر کام میں شعور و حکمت درکار ہوتی ہے بعینہ اسی طرح ”دعوت دین“ میں بھی شعور و حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دعوت میں شعور و حکمت کیا ہے ؟ وہ وقت شناسی مزاج شناسی اور طریقہ دعوت سے واقفیت کا نام ہے، جس طرح تمام مریضوں پر ایک ہی دوا کام نہیں کرتی اسی طرح تمام انسانوں کے لئے ایک ہی طریقہ دعوت کار گر نہیں ہوتا۔ جو بھی علماء کرام اللہ کے دین کی تبلیغ کر رہے ہیں نشر و اشاعت کر رہے ہیں خواہ وہ کسی بھی لائن سے کر رہے ہوں اور کسی بھی میدان میں کر رہے ہوں وہ تمام کے تمام قابل مبارکباد ہیں قابل احترام ہیں۔


بہت سے حضرات معلوم کرتے ہیں کہ غیر مسلموں میں دعوت دین کا کام کیسے کریں ؟ اسی طرح بہت سے ساتھی معلوم کرتے ہیں کہ اس کام کے لئے فنڈز کہاں سے مہیا کریں ؟ دونوں سوالوں کا جواب بالترتیب پیش خدمت ہے۔ جواب ذکر کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محترم قارئین اپنی بعض غلط فہمیاں دور کرلیں۔

1۔ یہ غلط فہمی دور کرلیں کہ آپ مسلکی ذہن و دماغ کے ہوتے ہوئے دین خالص اور توحید خالص کی دعوت دے سکتے ہیں۔

2۔ شخصیت پرستانہ مزاج سے دیگر مذاہب کی شخصیات اور ان کے نظریات کو آپ کنڈم نہیں کرسکتے، اس لیے ضروری ہے کہ آپ کے اندر عقل و نقل دلائل و براہین کی بنیاد پر اپنی اور مخاطب کی تمام شخصیات کی حمایت یا مخالفت کرنے کا حوصلہ و جذبہ ہو۔


3۔ اچھی طرح سمجھ لیں دعوت کا کام دولت کمانے کا ذریعہ نہیں ہے، اس میدان میں جو داعی حضرات آپ کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں وہ تمام کے تمام بغیر کسی استثناء کے قوم کو ٹھگ رہے ہیں جعلی مہتمموں اور خود ساختہ مذہبی و غیر مذہبی قائدین کی طرح۔

4۔ اس جھوٹے خول سے بھی باہر نکلیں کہ فلاں داعی اسلام کے ہاتھ پر اتنے ہزار یا لاکھ لوگوں نے اسلام قبول کرلیا، یہ حقیقت سے زیادہ پروپیگنڈہ ہے۔


ہمارے بعض جوشیلے نوجوان سمجھتے ہیں کہ جب میں نے مخاطب کے تمام سوالات حل کردیے، اندیشے ختم کردیے، اس کے دلائل توڑدیے تو وہ میری بات کیوں قبول نہیں کرتا ؟ اور پھر وہ مایوس ہوکر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اچھی طرح سمجھ لیں کہ دعوت کا کام ایک انتہائی صبر آزما کام ہے، سامنے والے کے ذہنی سانچے کو آپ یک لخت نہیں بدل سکتے اور مناظرانہ لہجہ اور ہار جیت کی نفسیات سے تو بالکل نہیں بدل سکتے، خود قرآن کے مطابق قبولیت حق اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے وہ اپنا انعام جس کو چاہے دے اور جس کو چاہے نہ دے اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُۚ ترجمہ: آپ جسکو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ہاں اللہ جس کو چاہے ہدا دے سکتا ہے۔ تو مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ نتائج سے بے پرواہ ہوکر مسلسل کوشش کرتے رہیں، رضائے الٰہی ہو یا حصول جنت دونوں ہی انسان کی مسلسل کوششوں پر منحصر ہیں، نتائج پر نہیں۔ دعوت کا کام درحقیقت انتہائی محبت اور آخری درجہ کی انسان دوستی کام ہے، دعوت کے کام میں اپنے ہی جیسے انسانوں کو جہنم کے خوفناک عذاب سے بچانا مقصود ہوتا ہے، اور بس۔ اب اصل سوالوں پر آتے ہیں، پہلا سوال یہ تھا کہ غیر مسلموں میں دعوت کا کام کیسے کریں ؟
 غیر مسلم حضرات کو اسلام کی دعوت دینے کے بہت سے طریقے ہیں، اگر آپ کے اندر دعوت کا حقیقی جذبہ ہے تو دعوت کے بے پناہ مواقع اور راستے آپ کو نظر آجائیں گے۔
 

ہم ڈھُونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

دعوت کی سب سے مضبوط، زود اثر اور تیر بہدف صورت یہ ہے کہ آپ اخلاق نبوی کے حامل ہوں، صاحب کردار ہوں، آپ دینا تو جانتے ہوں مگر لینے سے پورے طور پر غافل ہوں قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا ترجمہ : کہو میں اس کام پر کچھ نہیں مانگتا۔ ایک صاحب کردار شخص ہزاروں کتابوں سینکڑوں وعظ ونصیحت سے بہتر ہوتا ہے وہ ایک زندہ دین ہوتا ہے وہ چلتی پھرتی کتاب ہوتی ہے ان پڑھ سے انپڑھ بھی اس کو پڑھ سکتا ہے، وہ بیک وقت متن اور تفسیر دونوں ہوتا ہے انبیاء کرام علیہم السلام اسی لیے اخلاق کے اعلٰی ترین معیار پر ہوتے تھے، اس لیے داعی حضرات کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں میں ہوں یا غیر مسلم حضرات میں ہر جگہ صاحب کردار بن کر رہیں، سچائی کا پیکر بن کر رہیں نفع ہو یا نقصان ہر صورت میں اصول پسند بن کر رہیں۔ دعوت دین کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ غیر مسلم حضرات کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو ان کی زبان میں اسلامی لٹریچر فراہم کریں، ان سے تعلقات استوار کریں غیر مسلم حضرات کو کسی بھی عنوان سے اپنے یہاں بلائیں، یوم آزادی independence day یوم جمہوریہrepublic day بیاہ شادی وغیرہ پر ان کو مدعو کریں اور پھر ان کو اسلامی لٹریچر سیرت کی کتابیں ترجمہ قرآن وغیرہ بطور تحفہ کے دیں اور اگر آپ کو غیر مسلم حضرات اپنی کسی بھی مذہبی وغیرہ مذہبی تقریب میں شرکت کے لیے بلاتے ہیں تو اسلامی لٹریچر کے ساتھ وہاں پر ضرور شریک ہوں، آپ جس مخاطب کو لٹریچر فراہم کر رہے ہیں وہ کس ذہن و دماغ کا ہے ؟ اس کی پہچان بہت ضروری ہے، آج کل زیادہ تر غیر مسلم حضرات ملحد atheist ہوتے ہیں تو ان لوگوں کے لیے مبنی بر توحید کتابیں فائدہ مند ہونگی، ایسی کتابیں جن میں الحاد پر چوٹ کی گئی ہو الحاد کے اصول و نظریات کو توڑا گیا ہو ملحد حضرات کو دی جائیں، ڈارون کے نظریہ ارتقاء پر بامعنی تنقید کی گئی ہو، مولانا مودودی، مولانا وحیدالدین خان صاحب اور ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے اور دیگر علماء و جدید تعلیم یافتہ حضرات نے اس تعلق سے کافی کام کیا ہے انکے مواد سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔


اسی طرح عام ہندوؤں کی اب تین تین قسمیں ہوچکی ہیں آریہ سماجی، مورتی پوجک اور امبیڈکر وادی یا بدھسٹ، مذکورہ بالا تینوں قسموں کے لئے ایک ہی قسم کا لٹریچر ناکافی ہوگا ان کے پس منظر کو سامنے رکھ کر اسلامی مواد فراہم کرنا بہت ضروری ہے، ہاں یہ سچ ہے کہ توحید خالص کے تینوں ہی محتاج ہیں بلکہ خود مسلمان بھی محتاج ہیں۔ دعوت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ کسی سرکاری افسر کے پاس جائیں یا بینک میں جائیں یا ہوسپٹل وغیرہ جائیں یا اسکول و کالجز میں جائیں تو وہاں کے عملے کو ٹیچرز اور پروفیسرز وغیرہ حضرات کو ضرور اسلامی لٹریچر فراہم کریں، سیاسی لیڈروں وکیلوں افسروں اور ججز حضرات کو تو کوئی باقاعدہ تقریب منعقد کرکے ان حضرات کو مہمان خصوصی Cheif guest بناکر اسلامی لٹریچر فراہم کرنا چاہیے۔ موجودہ زمانے کے اندر نشرو اشاعت کے میدان میں سوشل میڈیا بہت طاقتور ہتھیار بن کر ابھرا ہے کئی نوجوان علماء نے سوشل میڈیا کی بدولت دعوت کے میدان میں کافی کام کیا ہے مگر ابھی بھی سوشل میڈیا پر ہزاروں علماء کرام کی ضرورت ہے یہ علماء بھارت کے پس منظر میں ہندی زبان میں ہونے چاہئیں اور عالمگیریت کے پس منظر میں انگلش زبان میں۔


دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کام کے لئے فنڈز کہاں سے مہیا کریں ؟ یہ ایک انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے کہ ہمارے اداروں تنظیموں اور مہتمموں کی، اسی طرح مالدار مسلمانوں کی اس طرف بالکل توجہ نہیں ہے۔ دعوت کے کام کی اہمیت جاننے والے حضرات کو میں اپنا طرز عمل بتلاتا ہوں، مفید ہو تو قبول کرلیں، وہ یہ کہ آپ اپنی آمدنی میں سے بقدرِ استطاعت کچھ رقم اس کام کے لئے مخصوص کریں اور ان پیسوں سے ترجمہ قرآن وغیرہ کتابیں خرید کر آہستہ آہستہ اس عمل کا آغاز کریں، جتنا بھی کرسکتے ہوں ضرور کریں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ امام ہیں تو اپنے حلقہ اثر میں پچیس تیس معتمد آدمیوں کی ایک لسٹ بنائیں اور ان کو اکٹھا کرکے اپنا منصوبہ سمجھائیں ان شاءاللہ آپ کا فنڈز کا مسئلہ حل ہوجائے گا اس فنڈ کو احتیاط کے ساتھ دعوتی خدمات میں صرف کریں، پھر جب بھی آپ کسی غیر مسلم بھائی کو لٹریچر دیں تو ان حضرات میں سے ایک دو صاحب کے ہاتھ سے دلائیں، اس طرح کرنے سے فنڈ کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہوجائے گا، ان شاءاللہ۔

اور اگر آپ صالح کردار والے مہتمم یا کسی تنظیم کے سربراہ ہیں ہیں تو اس عظیم کام کے لئے مدرسہ و تنظیم کا ”امدادی فنڈ“ استعمال کیجیے شعبہ دعوت تبلیغ کے تحت غیر مسلموں میں دعوت کے لیے اور ان سے ربط و ضبط کے لئے منصوبے اور پلان بنائیے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے