ایک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھرا اٹھے!
از: ڈاکٹر آصف لئیق ندوی،عربی لیکچرر. مانو
8801589585
کرناٹک میں حجاب نے ہندوتوا وادیوں کو بے حجاب کردیا: صوبہ کرناٹک میں حجاب پر پابندی کی ناپاک پلاننگ اوراسکے خلاف مسکان خان کی جراتمندی و بہادری جیسے اقدامات نے نہ صرف باحیا خواتین ومسلم طالبات میں ایک شان ومنزلت اور احساس برتری پیداکردی ہے بلکہ ملک کے مظلوموں، بے سہاروں، بے زبانوں، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں امید وکرن کی ایک روح پھونک دی ہے! پورے ملک میں مسکان کی تکبیر کی گونج نے بجلی کی طرح کام کیاہے، ویڈیومیں قید اس کی آوازاور حرکات وسکنات نے چشم زدن میں سب کو اپنا اسیر بنا لیاہے،دھیرے دھیرے پوری دنیامیں حق وباطل کے اس نظارے نے اپنا اثر دکھایاہے۔
آج بھی یہ خبر سوشل میڈیاسمیت ہرجگہ گردش کررہی ہے، جس نے نہ صرف غیرتمندوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے بلکہ انسانی برادری کے شعورووجدان کو بیدار کردیاہے، ہر شخص کی زبان پر حجاب ہی حجاب کا چرچا جاری ہے، خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، سکھ ہو یا عیسائی سبھوں نے ارباب اقتدار، ہندتوانظریے کے حاملین اور شرپسند عناصر کے رویے کو کوسناشروع کردیا اور حجاب کے بہانے مسلمانوں کو نشانے بنانے کاکھیل تصور کیاہے اور اس بدبختانہ چال و سازش کے خلاف حق کی تلوار اور باتوں کی دھار سے سبھوں نے ظالموں کاسامناکرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔
شاید ہی کوئی بدبخت ہوگا! جس نے تکبیر کی غیبی طاقت کا اب تک اندازہ نہ کیا ہو!مذہبی آزادی کی اس جنگ میں قولا فعلا یا کم از کم دل میں بڑا سمجھ کر کسی طرح سے حصہ لینے سے پیچھے رہ گیا ہو! ہر کس وناکس نے اس ناانصانی کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے، کسی نے اپنی بہترین تحریر و تقریر سے اسکی بھرپور ترجمانی کی ہے، توکسی نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے مافی ضمیر کو ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے، کوئی اپنے عمدہ کمنٹ وتبصرے سے اس لامتناہی سلسلے کی کڑی میں جڑنے کی ہمت کی ہے غرض کہ سب کے سامنے ایک بڑا ہدف ہے کہ ہندتوا نظریے سے اس ملک کو کیسے نجات دلایاجائے! اسکے حاملین کو کیسے اکھاڑ کر پھینکا جائے! اس نظریے نے ملک کااب تک جو خستہ حال کردیاہے وہ کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ملک کی معیشت ڈوب کر رہ گئی ہے! مہنگائی کا بے تحاشہ عروج ہوگیاہے! بے روزگار نوجوانوں کونوکری اورروزگار کی عدم فراہمی ہے اور دور دور تک اسکا کوئی گمان نظر نہیں آرہاہے، اب دستور و آئین کی پامالی کا ڈرامہ کب تلک لوگ برداشت کرے!
سبھوں نے ملک کی بقا و تحفظ کااب عزم مصمم کرلیا ہے، مسکان خان کے اس پرعزم و پرہمت واقعے سے باطل کے دل پر تیر کی طرح چوٹ لگانے کا ہنر سیکھ لیاہے، شمشیر کیطرح وار کرنے کا بڑا حوصلہ حاصل کرلیاہے اور دستور کو زندہ رکھنے کا آپس میں عہد و پیمان کرلیا ہے، اسی معاہدے کیساتھ ہم سب اپنی اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں جڑ گئے ہیں، حتی کہ راقم نے بھی اسی فیصلے کیساتھ آپکے ساتھ ہے، شاید ہی کوئی ہندوستانی شہری ہوگا جو ٹال مٹول یا شش وپنج کے عالم میں اب تک مبتلا ہوگااور ملک کے آئین کی پاسداری میں اپنا نام درج نہیں کروایا ہوگا، جبکہ پورا ملک میچ فکسنگ کے طرز پر دستور فکسنگ کے رویے سے نالاں و بیزار ہے۔ اور پانچوں صوبوں میں ہوتے ہوئے اسمبلی انتخابات میں کھلاڑیوں کوسبق سکھانے کے لئے پرعزم ہے،باطل کے ایوانوں میں عوام وخواص کے اس بیداری کو دیکھ کر کھلبلی مچی ہوئی ہے،سچ کہا ہے کسی کہنے والے نے کہ۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اسکو اپنی منزل آسمانی میں
الحمد للہ اسوقت ملک کے طول و عرض میں حجاب و نقاب کی حمایت اور خواتین اسلام کے دستوری حقوق کے تحفظ میں مسلسل مظاہرے منعقد ہورہے ہیں، مردوں سے زیادہ خواتین وطالبات پرعزم نظر آرہی ہیں، غافل ومحروم القسمت افراد بھی اس معاملے میں اپنی موجودگی اور چابک دستی کا احساس دلا رہے ہیں، گویا کہ پوراملک اسی فکر میں ڈوبا ہوا ہے، وہ تو اچھا ہوا کہ مسکان کے واقعے کے ویڈیوگرافر نے ملک کی لاج رکھ لی اور پوری قوم کی عزت بلند کرنے کے لئے وہ کلپ شیئر کردی، ہم مسکان کیساتھ ساتھ اس ویڈیوگرافر کوبھی بڑے انعام واکرام کا مستحق سمجھتے ہیں، کیونکہ انہوں نے بروقت اس واقعے کو بعینہ قید کیا اور ملک کی عوام اور انکی عدالت کے حوالہ کیا، ہم ایسے باغیرت افراد واشخاص سے بہترین توقعات رکھتے ہیں اور مزیدامیدقوی کرتے ہیں کہ وہ ملک کے چاروں طرف اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ہوتے ہوئے دردناک واقعات، افسوسناک فسادات،حق تلفی و ناانصافی کے المناک مناظروشواہدات کوبعینہ قید کرکے سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کی عدالت میں پیش کریں گے، اسوقت ملک کے گوشے گوشے میں احتجاجات و مظاہرے کاسلسلہ بہت تیزی کیساتھ جاری ہے، ملک کے تعلیمی اداروں سے بھی اسکی بہترین نمائندگی ظاہر ہو رہی ہے،سب کو عوام کے درمیان لائیں گے، الحمد للہ اب تو بعض ایسے میڈیا اور ذرائع ابلاغ والے جن سے اس سلسلے میں قطعی کوئی اچھی امید نہیں تھی مگروہ بھی کسی نہ کسی طرح سے انگلی کٹاکر شہیدوں کی فہرست میں اپنا نام درج کروا رہے ہیں، شاید کہ اب انکو احساس ہوگیا ہے کہ ہمارے آقا بہت جلد ملک کی حکمرانی سے دستبردارہونے والے ہیں، پھر کوئی انکا نام لیوابھی باقی نہیں رہنے والا ہے۔
شاید ہی ملک کا کوئی اخباریا آن لائن پورٹل ہوگا جو ملک میں اسلاموفوبیا کی اس خطرناک پالیسی پر اپنا احتجاج شائع نہیں کیا ہو، سبھوں نے حجاب کی حمایت میں ہرطرح کی خبریں شائع کیں، اپنی بہترین نمائندگی سے ملک کے دستور وآئین کاپاس ولحاظ کیااور اسی بات کی سب سے امید بھی کی جاتی ہے، یہاں تو اب غیر بھی اپنے اپنے طرزروش سے بادل نخواستہ ہی سہی کچھ نا کچھ اپنی انسانیت اورانکے ساتھ ہمدردی کا ثبوت فراہم کرتے نظر آرہے ہیں۔ ایسے لوگوں اور میڈیا والوں سے ہماری دیرینہ خواہش بھی ہے کہ وہ مسکان کی خبریں سناسنا کر اور دکھا دکھاکر حق بات کی خوب ترجمانی کرتے رہیں اور اپنے آقا کے سامنے و ہی تاثر پیش کریں جیسا کہ تن تنہا کرناٹک کی ایک لڑکی ذات نے سینکڑوں شرپسندوں اور گیدڑوں کے درمیان رہ کر شیرنی کا رول پیش کیااور اپنی جان وعزت کی کوئی پرواہ کئے بغیر وہ تاریخی اور مثالی نمونہ رقم کیا جو اچھے اچھے مرد بالخصوص گودی میڈیا کے افراد پیش کرنے سے قاصر ہیں!
مسکان نے تکبیر مسلسل کی صدا کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ اللہ کی ذات ہی سب سے بالا وبرتر ہے، اسی کے حکم سے دنیا اور دنیا والوں کانظام چل رہاہے اور اسی کا لشکرہرجگہ غالب ہو کر رہنے والا ہے،سورہ صافات میں اللہ تعالی کا کھلا فرمان ہے کہ ”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہونے والا ہے۔“ مسکان کے واقعے نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی سے خوف نہیں کھایا جاسکتا، تکبیر وتہلیل کی غیبی طاقت کیساتھ اکیلالڑتے ہو ئے کامیاب ہوجاناہی خدا کے یہاں ہمیشہ ہمیش کی زندگی کا خطاب پاجاناہے، اور یہی اصل کامیابی بھی ہے، انہوں نے اکیلی ایک طرف اپنے مخالفین کو سبق سکھایاتودوسری طرف اپنی قوم وملک کے نوجوانوں کو جرأت وہمت کا بیش بہا تحفہ اور اسلامی کردار کا بہترین نمونہ پیش کرکے باطل سے مقابلہ کا کھلا ثبوت فراہم کردیا، جس کی بلند شان و منزلت کی کوئی قیمت ادانہیں کی جاسکتی۔ آج بھی ملک کے چپے چپے میں مسلم قوم بالخصوص شہر کرناٹک میں ایسے بے باک رہنما، سچے مجاہد اور انگریزوں کے پکے دشمن یعنی شیر میسور کی بہادر بیٹیاں اور شیرنیاں جب تک زندہ ہیں،اسوقت تک کوئی خدا اور اسکے بندے کا نام ونشان نہیں مٹاسکتے،قانون صرف اللہ کا چلنے والاہے، جن بیٹیوں اور بیٹوں کے اوصاف پر ملک کو ناز ہے، امت کو فخر ہے، اسلام کواسکی شدید ضرورت ہے، دستور وآئین کو اعزازہے، مسلمانوں کواسی فکر ونظر کی تلاش ہے، جن سے بڑی توقع وامید بھی ہے۔۔۔ کاش کے پورے ملک کا کردار اس شان ومرتبے سے متصف ہوجاتا!برادارن وطن کی نظر بھی حق کی تلوار بن جاتی! عورتوں کی یہ اعلی صفات برادران وطن بالخصوص مسلمانوں، مسلم طلبا وطالبات، انکی نسلوں اور نوجوانوں میں مکمل سرایت کرجاتی۔ میری بھی قوم وملک سے یہی تمنا اور آرزوہے کہ
ایک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھراٹھے
نظر تلوار بن جائے نفس جھنکار ہوجائے
سوشل میڈیا پر ایک غیرمسلم نوجوان لڑکا اور لڑکی بھی ہندتوا کی اس ناپاک پالیسی سے ملک کو مامون ومحفوظ رکھنے کی باتیں کہتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، ایک ہندو عورت بھی حجاب کے مسئلے کو لے کر حکومت کو لعن طعن اور مسلم خواتین کی حمایت کرتی ہوئی نظر آرہی ہے، بڑے بڑے سیاسی لیڈر بھی اس پر اپنی حیرت و تعجب کا برملا اظہار کررہے ہیں، خود بی جے پی کے بعض قدآور لیڈرنے بھی عوام و خواص کا مزاج وامتزاج کا مطالعہ کرلیا ہے، مگروہ اپنی رفتار وروش کوبدلنے کے بجائے قوم وملک کواصل موضوع سے بھٹکانے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، شاید کہ انہوں نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ گیم الٹا پلٹ جائے گا، پانچ صوبوں میں سیاسی مفادات کے حصول کے لیے جو کھیل کھیلا گیا اب کھلاڑی نے بھی یہ بھانپ لیا ہیکہ ہمارابستر سمٹنے والا ہے، ہر جگہ سے ہمارا صفایا ہونے جارہا ہے، چلو چلتے ہوئے اپنی نازیبا حرکتوں سے اپنی اصلیت کی ایک اورچھاپ چھوڑ جائیں؟! ہر جگہ سے فاشسٹوں کا صفایا تقریباطے ہے۔
عوام نے ہرجگہ سے اپنا رجحان اور مزاج وامتزاج کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ہے، اب وہ کسی طرح سے بھی ہندو مسلم کی باتوں میں آنے والے نہیں ہیں!انکا صاف طور پر کہنا ہے کہ مسلم حکمرانوں کے طویل دور اقتدارمیں جب ہندو خطرے میں نہیں تھے تو آج بی جے پی کے دور اقتدار میں ہندو خطرے میں کیسے آگئے؟ یہ محض سیاسی چال ہے، جس کو اب برادران وطن اپنے ذہنوں سے خارج کرتے ہوئے یکجہتی ویگانگت سے رہنے کا فیصلہ اور عہد ومعاہدہ کرنے جارہے ہیں۔حجاب کے اس واقعے نے جہاں ایک طرف مسلم خواتین و طالبات کوملک کی شاہینوں کیطرح پرعزم کردیا ہے وہیں طاغوتی طاقتوں کو انکے ناپاک نظریات نے ملک کی عوام کے سامنے بالکل بے حجاب کردیا ہے اور ہندتواوادیوں کو خود انکے رویے اور طرز عمل نے سرعام ذلیل ورسوا کردیا ہے، حجاب کے موجودہ مسئلے سے انکے ناپاک عزائم ومنصوبے کاجو خطرناک پہلو قوم وملک کی سامنے دودوچار کیطرح ظاہر ہوا ہے،انکے سیاہ چہرے کاویسا واضح تصوراس سے پہلے محسوس نہ کیا گیا کہ جس عمل سے برادران وطن بھی ناراض وخفا ہوتے نظر آرہے ہیں اور ہر سطح سے اس گھناؤنی حرکت ورویے پر اپنے افسوس و دکھ کا اظہار کررہے ہیں اور حجاب کے مسئلے کو اسلامی تعلیمات کا حصہ سمجھتے ہوئے دستور وآئین کے خلاف کارروائی اور ہندتوا پالیسی کا غلط اقدام تصور کر رہے ہیں، جو عمل قرآن و سنت اور مذہبی آزادی کے خلاف بھی ہے، پورے ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اس مسئلے نے ہندوستان کی شبیہ خراب کردی ہے۔امریکہ کا تازہ تبصرہ بھی حجاب اور مذہبی آزادی کے حق میں ہے، مگر دنیا کے معروف مفکر نوم چومسکی نے کشمیرمیں مظالم کی تاریخ اورہندوستان میں نفرت انگیز تقاریر اور تشدد کے حوالے سے بگڑتے ہوئے صورتحال پر خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ مودی حکومت منظم طریقے سے جمہوریت کو تباہ کررہی ہے اورملک کو ہندوراشٹریہ بنارہی ہے۔ وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے..تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔
جس پر ہندوستان کا رد عمل بھی آج کے اخبارات میں آپ کے سامنے ہے اور حجاب کے مسئلے پر وزیراعظم نے بھی اپنی طویل خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری حکومت مسلم بہن بیٹیوں کیساتھ ہے، مگر یہ صرف لفاظی ہے، جس پر عمل نداردہے، قول وعمل میں بالکل تضاد ہے، اگر حقیقت سے اسکا جوڑ ہوتا تو ہری دوار میں جس شر انگیزی کا مظاہرہ ہندو مذہبی سنسدوں نے کیا، اس کے پیش نظر ان کا کچھ مذمتی بیان کیوں نہیں سنا گیااسی لئے نوم چومسکی کا خدشہ بالکل واضح نظر آرہا ہے؟ امید تھی کہ ملک کے وزیراعظم اور بڑے ذمہ دار اور دستور و آئین کے محافظ پوری مضبوطی کے ساتھ اور واضح الفاظ میں اس قسم کے انسانیت سوز بیانات اور ملک کی سالمیت کو ملیامیٹ کر دینے والے افکار و نظریات کے خلاف نہ صرف یہ کہ اپنا شدید مذمتی بیان جاری کرتے بلکہ خود شرپسند عناصر اور تنظیموں کے لئے ایسا ڈھانچہ اور خاکہ باشندگان ملک کے سامنے پیش کرتے جس سے ہندومسلم نفرت وعداوت کے جذبات واحساسات کو پروان چڑھانے والی حرکتوں پرمکمل روک تھام لگتی اور قوم وملک میں خیر سگالی کی امید وکرن پیدا ہوتی اور برادران وطن میں انکا اعتماد و بھروسہ بحال ہوتا۔ مگر ایسا اب تک نہیں ہوسکا۔جوارباب اقتدار کی بڑی بدنصیبی اور محرومی کی بات ہے۔اسلئے عاجز آکر مردوں کے مقابلے میں عورت ذات نے اپنے کردار و عمل سے جو پیغام عمل دیا ہے، وہ مرد حضرات کے لئے بھی لمحہء فکریہ ہے، اورتمام وزراء وارباب حل وعقد کیلئے نمونہ بھی! یقینا ملک کی شاہینوں کی کوشش بہت قابل تعریف اور لائق ستائش ہے، جس نے پورے ملک کی خواتین بالخصوص مسلم طالبات کو حجاب کے لیے پرجوش اورپراعتماد بنادیا ہے بلکہ ہندو پالیسیوں کے خلاف ہر جگہ اس جیسے اقدامات کی ضرورت کا احساس دلادیا ہے، اور تمام ہندوستانیوں کو اسی عزم وحوصلے کیساتھ تیار ہونے اور میدان میں ڈٹے رہنے کی رہنمائی کردی ہے، جمہوریت، عدل و انصاف، مذہبی آزادی، مساوات و برابری اور اخوت و مودت کی فضا ہندوستانی آئین کی وہ بنیاد ہیں، جو صدیوں سے ہمارے ملک کی شناخت اور پہچان رہی ہیں، ہندو مسلم اتحاد و سمان کی اعلی مثال رہی ہیں، ساڑھے آٹھ سو سالہ مسلم حکمرانوں نے اپنے دور اقتدار میں اس اتحاد کا بھرپور خیال کیا تھا اور بعد کے امراء کو اسکی بڑی تلقین کی تھی، مگر انگریزوں نے اسکو نظر بد لگادی، اور اپنے نفاق و چالبازی سے اس اتحاد واتفاق کو پارہ پارہ کرکے رکھ دینے کی ہرممکن کوشش کی، اسی وجہ سے کچھ عرصوں کے لیے ملک انگریزوں کے ہاتھ لگ گیا، جنہوں نے قومی جمہوری اقدار کی دھجیاں اڑا کر رکھ دینے کی جرأت کرنی چاہی تو سب سے پہلے جس بلند ہمت سلطان، باغیرت محب وطن اور عظیم مردمجاہد شیر میسور نے انگریزوں کی ہوا اکھاڑ کر رکھ دینے کی قسم کھائی، جو اسی ریاست کرناٹک سے تھے، کئی جنگوں میں انگریزوں کو شکست فاش دی اور اپنے عزم و حوصلے کی جو مثال تن تنہا انہوں نے پیش کی، تاریخ آزادی میں ویسا مرد مجاہد نے نہیں دیکھا گیا، باطل کے خلاف انکا اقدام تاریخی تھا جسکا شیر میسور نے آغاز کیا، اور وہی جنگ آزادی کے بانی بھی کہلائے، وہ بڑے پرجوش و پرحمیت اور دوراندیش مجاہد تھے جنہوں نے انگریزوں کی بزدلانہ حرکتوں کا جب تک وہ زندہ رہے،منہ توڑ جواب دیتے رہے اور ہر جنگ میں دشمنوں کا چھکا چھڑا کر رکھ دیا۔ آج اسی فکر کی ترجمانی مسکان خان کی ذات وشخصیت سے ملک کو دیکھنے کو مل رہا ہے۔افسوس کے غداروں نے ٹیپوسلطان کے ساتھ دغا کیا جیسا کہ آج مسلم قوم میں بھی ایسے کردار کے افراد بھی پرورش پارہے ہیں جو نام کے مسلمان تو ہیں مگر عمل اور کردار سے اسلام اور مسلمانوں کیلئے عار ہیں، وہ بھی اپنے ہی ارباب اقتدار کے دھوکے بازوں کی وجہ سے انگریزوں کے ظلم کا شکار ہوگئے اورپورے ملک سے انکا صفایا کرنے سے رہ گئے، بالآخر دھوکے کے نتیجے میں انہوں نے شہید ہوجانا گوارا تو کیا مگر پیٹ دکھانا منظور نہیں کیا، ٹیپو سلطان کا وہ تاریخی جملہ کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کے ہزار دن کی زندگی سے بہتر ہے، آپکو بھی یاد ہوگا، اسی لئے تو انگریزوں نے ان کی شہادت کے بعد انکے سینے پر چڑھ کر یہ کہا تھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ آج اسی زرخیز سرزمین پر اسی فکر کی حامل لڑکیاں پرورش پارہی ہیں،جس کاظہور ایک نقاب پوش مسلم طالبہ کے ذریعے ہوا، جنکی زبان سے تکبیر مسلسل کے بلند وبالا کلمات مصیبت کی گھڑی میں انکے منہ سے نکلے جس جرأت وہمت کا مظاہرہ ٹیپو سلطان نے اپنی زندگی اور شہادت کے وقت کیا، ٹیپو سلطان کے تاریخی جملے کی طرح اللہ اکبر کا نعرہ بھی ہندتووادیوں کے ناپاک عزائم ومنصوبے پر بجلی بن گر ا جو ان کے آشیانوں کو تار تار کردینے کا ضامن ثابت ہوا، اسی بہادری کا چرچا پورے ملک میں اتنی تیزی سے پھیلا کہ ہر فرد و بشر اور مرد وزن متحمس ہوگیا، مولانا محمودمدنی نے انکے لیے انعام کا بھی اعلان کیا، یقینا وہ بڑے انعام اور حوصلہ افزائی کی مستحق ہے، جو خدا ہی اسے عطا کرے گا۔ ہم بھی اس مثالی طالبہ کی پابند نقاب، محافظ آزادی، طلبگار آئین، پاسدار دستور کے اوصاف کے بڑے مداح ومعترف ہیں اور سلطان ٹیپو جیسے رہنما کی بیٹیوں کو ہزاروں سلام پیش کرتے ہیں اللہ ان کی غیرت و حمیت کوتمام مسلمان مردوعورت کے لئے نمونہ بنائے۔۔اشتیاق حیدر کی زبانی۔۔تونے ڈٹ کر کفر وباطل کا کیا جو سامنا۔۔۔لاج رکھ لی تو نے پوری قوم کی توقیر کی۔
0 تبصرے