Ticker

6/recent/ticker-posts

کیا مسلمان ایک جذباتی قوم ہے؟ Kya Musalman Jazbati Qaum Hai

کیا مسلمان ایک جذباتی قوم ہے؟


محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ
پڑوسی ملک پاکستان کے ایک مشہور صحافی اور کالم نگار کا اپنے ملک میں موجود، ایک یورپی ملک کے سفیر سے گہرے روابط و مراسم تھے، یہ یورپی سفیر عام سفیروں کی طرح نہ تھا، بلکہ سفارتی اور ڈپلومیسی تجربہ کے ساتھ وہ ایک دانشور اور تجزیہ نگار بھی تھا، قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ اس کا محبوب مشغلہ تھا، بقول اس صحافی اور کالم نگار کے ان کا سفیر دوست، جب سیاسی، ملکی، بین الاقوامی حالات، خارجہ پالیسی اور مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو کرتا اور دلائل دیتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ غبار چھٹ رہا ہے، اور حقائق سامنے آرہے ہیں، ماضی کے تجربوں کی بنیاد پر وہ مستقبل کی ایسی پیشن گوئی کرتا کہ آنے والا زمانہ نظروں کے سامنے پھرنے لگتا۔ یہ سفیر جب سبکدوش ہوکر اور اپنی ملازمت پوری کرکے واپس اپنے ملک جانے لگا، تو مذکورہ صحافی نے ان سے آخری انٹرویو لیا، آخری ملاقات کی تفصیلات اپنے ملک کے ایک مشہور اخبار میں شائع کی، اس گفتگو میں مسلمانوں کے تعلق سے اس یورپی سفیر کے تاثرات میں مسلمانوں کی پانچ بیماریوں اور کمیوں کی نشان دہی کی گئی تھی، ان میں پہلی کمی اور بیماری موجودہ مسلمانوں کی یہ بتائی گئی تھی، اور جو بالکل حقیقت بھی ہے، کہ مسلمان ایک جذباتی قوم ہے، خصوصا نوجوانوں میں جذباتیت حد درجہ پائی جاتی ہے،حد یہ ہے کہ جب نوجوان طبقہ کسی سے اس کی تحریر و تقریر سے متاثر ہوتا ہے تو وہ ذہنی طور پر اس شخصیت کا غلام ہوجاتا ہے اور اس کی اندھی تقلید پر اتر جاتا ہے، اس سفیر نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ:


"پہلی بیماری تم لوگوں کی انتہائی درجے کی جذباتیت ہے، جو تمہیں سوچنے سمجھنے سے تجزیہ کرنے سے اور دعویٰ کا ثبوت دینے سے روکتی ہے، اس کی وجہ تعلیم کی کمی بلکہ تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ یا ایک تاریخی روایت کا تسلسل ہے، مجھے نہیں معلوم، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام جذبات کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں، میں یہ سن کر حیران ہوتا ہوں، کہ تحریک پاکستان میں عوام تمہارے محبوب قائد کی تقریر انگریزی میں سنتے تھے، اور بغیر سمجھے لبیک کہتے تھے، یہ بات فخر سے بیان کرتے وقت تم لوگوں کو یہ بھی سوچنا چاہیےکہ یہی وہ عوام ہیں جو بغیر سوچے سمجھے ہر بھٹو، ہر جمشید دستی، ہر پیر سپاہی ہر نجومی اور ہر تعویز فروش کو کامیاب کراتے ہیں، اس جذباتیت کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ تم لوگ کسی ثبوت، کسی شہادت کے بغیر اپنی رائے کی درستی پر اصرار کرتے ہو، اور مرنے مارنے پر تل جاتے ہو، کچھ لوگ آنکھیں بند کرکے طالبان کو الزام دیتے ہیں، اور کچھ امریکا کو اور ثبوت دونوں کے پاس نہیں ہیں، اور یہ صرف ایک مثال ہے"۔ ( ماہنامہ ندائے حرم نومبر ۲۰۱۹ء)


مذکورہ سفیر کے یہ تاثرات اگر چہ پڑوسی ملک کے مسلمانوں بارے میں تھے، لیکن یہ بیماری اور کمی اکثر مسلمانوں کی ہے، خصوصا ہندوستانی مسلمان اور نوجوان طبقہ جذباتیت میں اپنے پڑوسی ملک کے مسلمانان کے شانہ بشانہ ہیں۔ یہ جذباتیت سب سے زیادہ الیکشن کے وقت اور کسی پارٹی اور امیدوار کی حمایت کے وقت ظاہر ہوتی ہے۔ ابھی اترپردیش میں صوبائی الیکشن چل رہا ہے، پہلے مرحلے کی وونگ ہوچکی ہے، ساری پارٹیاں خم ٹھوک کر میدان میں اترنے جارہی ہیں، چند مسلم پارٹیاں بھی میدان میں اتر رہی ہیں، جن کے آنے سے اور میدان میں کودنے سے اکثر سیدھا فائدہ فرقہ پرست پارٹیوں کو ملتا ہے۔ لیکن مسلمان اور خاص طور پر مسلم نوجوان اس قدر جذبات میں ہیں کہ وہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ اب کی بار فلاں کی سرکار۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ مسلمان پارٹی یوپی اسمبلی میں حزب مخالف میں تھی، پچھلے الیکشن میں صرف چند سیٹوں سے حکومت بنانے میں ناکام رہ گئی تھی، اس بار تھوڑی سی سمجھداری سے مسلمان کام لے لیں گے، تو فلاں صاحب کی پارٹی کی حکومت بن ہی جائے گی، یہ غلط فہمی ہے خام خیالی ہے، مسلمان، اور مسلم قوم کی بنیاد پر یہاں کی سیاست کامیاب نہیں ہوسکتی، ہم اگر دس بیس فیصد مسلمان متحد ہو جائیں گے کہ ہم مسلمان کو ہی ووٹ دیں گے، تو اس کا نتیجہ یہ آئے گا کہ وہ جو اکثریت میں ہیں وہ بھی متحد ہو جائیں گے پھر کیاہوگا؟ وہ سب جانتے ہیں، ہندوستان کے موجودہ حالات میں حکمت عملی یہی ہے کہ مسلمان، اور مسلم پارٹیاں،سیکولر پارٹیوں کے ساتھ ملکر الیکشن لڑیں، ان پارٹیوں کی حمایت کریں اور فرقہ پرست پارٹیوں کو شکست دیں۔ کچھ دنوں پہلے جھارکھنڈ، بنگال اور بہار کے صوبائی الیکشن میں بھی اس طرح کے حالات آئے تھے، مسلم پارٹیوں کی وجہ سے خطرہ تھا کہ مسلمانوں کے ووٹ بٹ جائیں گے، منتشر ہو جائیں گے اور دوبارہ وہی سرکار بن جائے گی، اس وقت ہم نے اور ہمارے جیسے قلم کاروں نے ایک مہمم چلائی تھی کہ مسلمانوں کا ووٹ منتشر نہ ہونے پائے، مسلمانوں نے اور سیکولر ووٹروں نے سوجھ بوجھ سے کام لیا،الحمد للہ اس میں بہت حد تک کامیابی ملی۔ بہار میں کچھ مسٹیک ہوا،اگرچہ کہ جذباتی مسلمانوں نے ہم لوگوں کو کانگریس کا ایجنٹ اور دلال تک بھی کہا، گالیاں بھی دیں اور نہ جانے کیا کیا کہا۔ لیکن ہم لوگوں نےاس کی پرواہ نہیں کی، یہی جواب دیا کہ ہم کو روشنی دکھانا ہے، دکھاتے رہیں گے۔ ہم نہ سیاہی کے دشمن ہیں نہ سفیدی کے دوست، ہم کو تو صرف آئینہ دکھانا ہے سو دکھاتے رہیں گے، چاہے اپنے یا بیگانے خوش ہو یا ناخوش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت اترپردیش میں الیکشن کا ماحول ہے، بہت ہی نازک اور حساس موقع ہے،قوم و ملت کو حکمت عملی اپنانے کی تلقین کی جارہی ہے، لیکن ایک طبقہ ہے جو ضد اور عناد پر ہے اور جذباتیت کا بری طرح شکار ہے وہ کسی طرح حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، ان کی جذباتیت سے امت کا نقصان اور دشمن کا فائدہ ہوتا ہے، ابھی حجاب کے مسئلہ کو اتنی ہوا دینے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ابھی احتجاج اور پروٹیسٹ کا موقع ہے، ابھی صرف قانونی چارہ جوئی کی ضرورت ہے، لیکن صاحب ہیں اور ان کے لوگ ہیں کہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ خدا خیر کرے

نہ سمجھو گے تو مٹ جاو گے اے ہندی مسلمانو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

ناشر مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے