Ticker

6/recent/ticker-posts

مثنوی قطب مشتری کا خلاصہ | قطب مشتری کا تنقیدی جائزہ Qutub Mushtari Summary

مثنوی قطب مشتری کا خلاصہ | قطب مشتری کا تنقیدی جائزہ


قطب مشتری
قطب مشتری ملا وجہی کی لکھی ہوئی اردو کی قدیم ترین مثنویوں میں سے ایک ہے۔کہا جاتا ہے کہ ملا وجہی نے مثنوی قطب مشتری کو محض بارہ دنوں میں لکھی تھی۔

مثنوی قطب مشتری کے متعلق یہ بات بے حد اہم ہے کہ یہ ملاوجہی کی طبع زاد مثنوی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو گولکنڈہ کی بھی پہلی طبع زاد مثنوی ہونے کا شرف حاصل ہے۔

مثنوی قطب مشتری کب اور کہاں لکھی گئی

مثنوی قطب مشتری ۱۶۰۹ میں اس وقت لکھی گئی جب ملا وجہی محمد قلی قطب شاہ کے ملک الشعراء تھے۔ ملا وجہی کا شمار قطب شاہی عہد کے بڑے شاعروں اور نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی پیدائش ابراہیم قطب شاہ کے عہد حکومت میں گولکنڈہ میں ہوئی۔ ملا وجہی کو شاعری اور نثر نگاری دونوں پر قدرت و مہارت حاصل تھی۔ملا وجہی نے نثر میں سب رس جیسی مشہور داستان تصنیف کی جسے اردو کے نثری ادب کی پہلی تصنیف اور پہلی تمثیلی داستان ہونے کا شرف حاصل ہے۔


مثنوی کا نام قطب مشتری کیوں رکھا گیا

قطب مشتری مثنوی کو ملاوجہی نے قلی قطب شاہ کی فرمائش پر لکھی تھی۔ اس میں قلی قطب شاہ اور مشتری کے عشق کی داستان بیان ہوئی ہے اس لیے اس کا نام قطب مشتری رکھا گیا۔ اردو ادب کے تاریخ نویسوں کی رائے میں یہ وہی حسینہ ہے جو بھاگمتی کے نام سے مشہور ہے۔ بھاگمتی حسین ہونے کے ساتھ ساتھ رقص و موسیقی میں بھی کمال رکھتی تھی۔ قلی قطب شاہ زمانۂ شہزادگی میں ہی اس پر فریفتہ ہو گیا تھا اور چھپ چھپ کر اس سے ملاقاتیں کرتا تھا۔ بادشاہ نے پہلے تو اسے باز رکھنے کی کوشش کی مگر ایک بار جب اپنی محبوبہ سے ملاقات کے لئے شہزادے نے طوفانی دریا میں گھوڑا ڈال دیا تو باپ کی محبت اُمر آئی۔ اس نے دریائے موسیٰ پر پل بنوا دیا کہ شہزادہ اس پار جا کر بھاگمتی سے ملاقات کر سکے۔ تخت شاہی پر بیٹھنے کے بعد محمد قلی قطب شاہ نے بھاگمتی کو حرم میں داخل کرکے قطب مشتری کا خطاب دیا اور اس کے نام پر ایک شہر بھاگ نگر بسایا۔ بعد کو اس کا خطاب حیدر محل اور اس شہر کا نام حیدر آباد ہو گیا۔ وجہی نے مثنوی میں اصل قصہ کو ذرا بدل کر بیان کیا ہے۔ خیال ہے کہ یہ تبدیلیاں خود بادشاہ کی فرمائش پر ہی کی گئی ہیں۔

شاعری کے میدان میں مثنوی قطب مشتری کا مقام

مثنوی قطب مشتری نے شاعری کے میدان میں قابل رشک مقام حاصل کیا ہے اور کلاسیکی ادب میں بھی اس مثنوی کا شمار ہوتا ہے۔ سب سے پہلے مولوی عبدالحق نے اسے مرتب کیا۔ فنی اعتبار سے یہ مثنوی بلند درجہ رکھتی ہے۔ واقعات زنجیر کی کڑیوں کی طرح مربوط ہیں۔ زبان بھی بہت رواں ہے، فارسی الفاظ کا استعمال اس سلیقے سے ہوا ہے کہ وہ مقامی لفظوں میں گھل مل گئے ہیں۔ جذبات نگاری، منظر نگاری، معاشرت کی عکاسی اس مثنوی کی اہم خصوصیات ہیں۔ تشبیہات و استعارات کے برمحل استعمال نے اسے اعلیٰ درجے کا کارنامہ بنا دیا ہے۔ مثنوی کے قصے کے درمیان بہت سی غزلیں اور رباعیاں بھی پیش کی گئی ہے جو قطب شاہ اور مشتری کے لیے لکھی گئی ہیں۔


اس مثنوی میں کل 12 کرداروں سے کام لیا گیا ہے۔ یہ سبھی کردار کسی نہ کسی سیارے کے نام پر ہیں۔مثنوی قطب مشتری میں شہزادے کا نام قطب ہے اور اسی مناسبت سے مشتری، زہرہ، عطارد، مریخ، مہتاب اور بہت سے نام ہیں جو کہ سیاروں کے نام ہیں۔اب اس مثنوی کا خلاصہ دیکھیے۔

مثنوی قطب مشتری کا خلاصہ

ابراہیم قطب شاہ کے ہاں کوئی بیٹا نہیں تھا۔ دعاؤں کے بعد ایک چاند سا بیٹا پیدا ہوا۔ جوان ہوا تو اس کے حسن اور بہادری کی دھوم مچ گئی۔ ایک رات خواب میں اس نے ایک پری رو شہزادی کو دیکھا اور ہزار جان سے خوابوں کی شہزادی پر عاشق ہو گیا۔ اب جو آنکھ کھلی تو عجب عالم تھا، سوائے رونے کے اسے کوئی چیز نہیں بھاتی تھی۔


بادشاہ کو معلوم ہوا تو وہ بہت پریشان ہوا۔ شہزادے کے لئے کرناٹک، گجرات، چین اور ایران کی دوشیزاؤں کو جمع کیا اور کہا کہ جو شہزادی اس شہزادے کا دل جیت لے اسے بہت سے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔

لیکن شہزادہ پر کسی کا جادو نہ چلا۔ بادشاہ نے شہزادہ سے کرید کرید کر پوچھا تو اس نے خواب کا واقعہ سنایا۔ اب تو بادشاہ کو اور فکر دامن گیر ہوئی۔ اس نے مشورہ کے لئے عطارد کو طلب کیا۔ عطارد اپنے زمانے کا لاثانی مصور اور ساری دنیا کا سفر کئے ہوئے تھا۔ بادشاہ کی بات سن کر اس نے کہا کہ اس وقت دنیا کی حسین ترین دوشیزہ بنگالی کی ایک شہزادی مشتری ہے۔ اس کی ایک بہن زہرہ بھی ہے۔ جو حضرت داؤد علیہ السلام سے زیادہ خوش الحان ہے۔

اس نے کہا کہ مشتری کی ایک تصویر بھی اس کے پاس ہے۔ تصویر لا کر بادشاہ کو دکھائی گئی۔ بادشاہ نے شہزادہ کو دکھائی، شہزادہ تصویر دیکھ کر پہچان گیا کہ یہی وہ خوابوں کی پری ہے جسے وہ خواب میں دیکھ کر ہزار جان سے قربان ہو رہا تھا۔


اب شہزادہ اور عطارد سوداگر بن کر سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ کہیں پہاڑ جیسے اژدہوں سے مقابلہ ہوتا ہے کہیں عامل و عابد سے ملاقات ہوتی ہے اور کہیں بادشاہ مغرب کی بیٹی سے۔چلتے چلتے ایک ایسے مقام سے بھی گزرتے ہیں جہاں ایک راکشس رہتا تھا۔شہزادہ اس کے قلعے کی طرف جاتا ہے تو وہاں اسے ایک آدم ذات ملتا ہے۔ وہ اسے بتاتا ہے کہ یہ راکشس جہاں بھی آدم زاد کو دیکھتا ہے پکڑ لیتا ہے۔اسے بھی اسی نے قید کر رکھا ہے اور وہ حلب کے بادشاہ سلطان خان کے وزیراعظم اسد خان کا بیٹا ہے۔ مریخ خان اس کا نام ہے، خواب میں ایک پری رو کو دیکھ کر عاشق و دیوانہ ہو گیا ہے اور اسی پری رو کی تلاش میں، جس کا نام زہرہ ہے اور جو بنگالے کی شہزادی ہے، نکلا ہے۔ جو لوگ ساتھ تھے وہ دغا دے گئے۔ اب میں اکیلا اس خرابے میں قید ہوں۔


پوچھنے پر محمد قلی نے بھی اپنا حال بیان کیا اور کہا کہ اب ہم دونوں دوست ہیں اور ان دو مچھلیوں کی طرح ہے جو ایک ہی جال میں پھنس گئی ہوں۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سامنے سے راکشس آتا دکھائی دیتا ہے۔ شہزادہ آیت الکرسی کا حصار باندھتا ہے اور جنگ کرکے راکشس کو قتل کردیتا ہے۔

اب پھر یہ سفر پر روانہ ہوتے ہیں اور قلعہ گلستان میں پہنچتے ہیں، جو پریوں کا علاقہ ہے۔ یہاں مہتاب پری شہزادہ پر عاشق ہو جاتی ہے اور شہزادے کو محل میں بلاتی ہے۔ شہزادہ دوران ملاقات راکشس کو ہلاک کرنے کا واقعہ بیان کرتا ہے۔یہ سن کر مہتاب پری خوش ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ بھی آزاد ہو گئی ہے۔ اس پر محفلِ عیش کا حکم دیا جاتا ہے اور شراب کا دور چلتا ہے۔شہزادہ مہتاب پری کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول ہو جاتا ہے تو عطارد قطب شاہ سے بنگالے جانے کی اجازت طلب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ جلد شہزادہ کو وہاں بلوائے۔


عطارد بنگالے پہنچتا ہے اور شہزادی کے محل کے قریب ایک جگہ پر مصوری شروع کر دیتا ہے۔ اس کے کمال فن کی شہرت سارے ملک میں پھیل جاتی ہے اور مشتری اسے بلوا کر محل کو آراستہ کرنے کا حکم دیتی ہے۔عطارد دن رات لگ کر محل کو آراستہ کرتا ہے۔ مشتری دیکھتی ہے تو دنگ رہ جاتی ہے۔اتنے میں اس کی نظر ایک تصویر پر پڑتی ہے جسے دیکھ کر مشتری دیوانی سی ہو جاتی ہے اور پوچھتی ہے کہ یہ کس کی تصویر ہے؟

عطارد بتاتا ہے کہ یہ قطب شاہ کی تصویر ہے لیکن ایک پری اس پر عاشق ہو گئی ہے۔ مشتری یہ بات سن کر رونے لگتی ہے، عطارد دیکھ کر کہتا ہے کہ وہ جلد اسے بلوا دے گا۔ اور شہزادے کو بلوانے کے لیے ایک آدمی بھیجتا ہے۔ جیسے ہی شہزادے کو اطلاع ملتی ہے وہ مہتاب پری سے اجازت لے کر روانہ ہوجاتاہے اور مہتاب پری اسے بطور نشانی ترنگ بادپا گھوڑا دیتی ہے۔ شہزادہ بنگالہ پہنچ کر مشتری سے ملاقات کرتا ہے۔ شراب کا دور چلتا ہے اور دونوں اتنے مست ہو جاتے ہیں کہ عطارد کو کہنا پڑتا ہے کہ شہزادے تیرا مال ہے تو اتادل نہ کر


شہزادہ قطب شاہ مریخ خان کا حال بھی بیان کرتا ہے اور طے ہوتا ہے کہ زہرہ سے شادی کرکے بنگالہ کی بادشاہی مریخ خان کو دے دی جائے۔ اس کے بعد قطب شاہ مشتری کے ہمراہ دکن روانہ ہوتا ہے اور وہاں دونوں کی شادی دھوم دھام سے ہوتی ہے اور باپ قطب شاہ کو اپنی سلطنت دے دیتا ہے۔اور باقی کی زندگی عیش وعشرت سے گزارتے ہیں۔اس طرح یہ مثنوی ایک خوشگوار انجام کو پہنچ کر اختتام پذیر ہوتی ہے۔


مثنوی قطب مشتری کے اہم کرداروں کے نام

محمد قلی قطب شاہ
مشتری
زہرہ
مریخ خان
عطارد
اسد خان
شاہ سلطان
میروان
مہتاب پری
سلکھن پری وغیرہ

قطب مشتری کے اہم کرداروں کا تعارف

قلی قطب شاہ: ابراہیم قطب شاہ کا بیٹا، مشتری کا عاشق اور اس مثنوی کا ہیرو۔

ابراہیم قطب شاہ: گولکنڈہ کا بادشاہ اور قلی قطب شاہ کا باپ۔

مشتری: بنگالے کی شہزادی، قلی قطب شاہ کی معشوقہ اور اس مثنوی کی ہروئن۔

زہرہ: مشتری کی بہن جس کی شادی مرّیخ خان سے ہوتی ہے۔

عطارد: اپنے زمانے کا مشہور مصوّر اور سیاح۔(اس مثنوی کا سب سے جاندار کردار)

مریخ خان: اسد خان کا بیٹا،زہرہ کا عاشق۔

اسد خان: حلب کے بادشاہ کا وزیر اَعظم۔

شاہ سرطان: حلب کا بادشاہ۔

مہتاب پری: جو قطب شاہ پر فریفتہ ہوجاتی ہے، اس سے قطب شاہ کی ملاقات قلعۂ گلستاں میں ہوتی ہے۔

قلعۂ گلستاں: پریوں کا علاقہ، جہاں مہتاب پری رہتی ہے۔

راکشش: قطب شاہ جسے ہلاک کر دیتا ہے۔

سلکھن پری: مہتاب پری کی کنیز۔

گولکنڈہ کی پہلی طبع زاد مثنوی کون سی ہے؟

جنوبی ہند(گولکنڈہ) کی مشہور اور پہلی طبع زاد مثنوی قطب مشتری جسے ملّا اسد اللہ وجہی نے محمد قلی قطب شاہ کی فرمائش پر ۱۰۱۸ھ مطابق ۱۶۰۹ء میں لکھی تھی۔ اس مثنوی میں سلطان محمد قلی قطب شاہ اور مشتری کی عشق کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ اس مثنوی کو سب سے پہلے مولوی عبدالحق نے مرتب کیا۔

مثنوی قطب مشتری پر مولوی عبد الحق کا تبصرہ

مولوی عبد الحق اس مثنوی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’ اگرچہ وجہی نے بہت کچھ دعوی کیا ہے اور تعلّی کی ہے،لیکن یہ مثنوی کوئی اعلیٰ پایہ کی نہیں ہے۔ ہاں اس اعتبار سے کہ قدیم ہے اور اس زمانے کا ایسا مرتب کلام کم ملتا ہے، قابل قدرہے‘‘۔

لیکن مولوی عبد الحق کو وجہی کی اس مثنوی کی خوبیوں کا اعتراف بھی ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ لکھتے ہیں

’’ وجہی کا کلام بہت سلیس، صاف اور ستھرا ہے، البتہ زبان قدیم ہے اور محاوروں کی وجہ سے ہمیں مشکل معلوم ہوتی ہے۔ بعض بعض مقامات پر اس نے بعض خیالات کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے‘‘۔(قطب مشتری،مرتبہ مولوی عبد الحق)

مثنوی قطب مشتری کا خلاصہ | قطب مشتری کا تنقیدی جائزہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے