Ticker

6/recent/ticker-posts

مولانا محمد مرتضیٰ اسعدی کی ذات اور ان کا نام

مولانا محمد مرتضیٰ اسعدی مرحوم کی ذات اور ان کا نام

مختلف واٹسپ گروپ کے ذریعے معلوم ہؤا کہ مولانا محمد مرتضیٰ اسعدی ناظم شعبہ اوقاف دارالعلوم دیوبند (پ 1947 متوفی 23/ جنوری بروز اتوار 2022 بوقت عشاء ) کا انتقال ہوگیا، مولانا کی ذات اور ان کا نام بہت بچپن سے غالباً 1998 سے سنتے آرہے تھے — اس وقت میں والد محترم مولانا محمد عرفان صاحب کے ساتھ مدرسہ عربیہ حیات العلوم نلہیڑہ میں ناظرہ قرآن پڑھتا تھا — یہ سن کر فطرتاً افسوس بھی ہوا اور قلق بھی، کیونکہ مولانا ملی اداروں، سماجی خدمات اور گاڑہ برادری کی اصلاح کے اعتبار سے ایک متحرک اور فعال آدمی تھے۔

شریعتِ اسلامی کی رو سے اہل ایمان پابند ہیں کہ وہ اپنے مرحومین کی اچھائیاں بیان کریں، ان کے کفن کو داغدار کرکے اپنے نامہ اعمال کو سیاہ نہ کریں، ادھر ہمارے مذہبی قلم کاروں میں ایک زمانے سے یہ غلط رجحان پیدا ہو چلا کہ شخصیتوں کی زندگیوں کو زیرِ قلم لاتے ہوئے جہاں بھاری بھرکم الفاظ، مشکل ترکیبیں، بڑے بڑے القاب کا استعمال کرتے ہیں، وہیں پراسرار کرامات، زائد از ضرورت عبادات کا معمول، وظائف کی بھرمار، ضرور بیان کرتے ہیں، جو اکثر و بیشتر من گھڑت ہوتی ہیں۔ اس طرزِ تحریر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ زیر بحث شخصیت کی حقیقی زندگی پردۂ خفا میں چلی جاتی ہے اور ”جادوئی زندگی“ جو عوام و خواص کسی کے کچھ کام کی نہیں وہ مشہور ہوجاتی ہے، اسلیے میں ہمیشہ اس طرزِ تحریر سے بچتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ شخصیت کی حقیقی زندگی موضوعی اعتبار سے قارئین کرام کے سامنے پیش کی جائے۔ خیر !

حضرت مولانا محمد مرتضیٰ صاحب 1947 میں ضلع سہارنپور کے گاؤں بیلڑہ میں پیدا ہوئے

قارئین کرام ! حضرت مولانا محمد مرتضیٰ صاحب 1947 میں ضلع سہارنپور کے گاؤں بیلڑہ میں پیدا ہوئے، والد محترم کام نام ”محبوب حسن“ اور والدہ محترمہ کا نام ”صغری“ تھا جوکہ برادری کے مشہور گاؤں ”سوہنچڑہ“ کی رہنے والی تھی، ابتدائی تعلیم کا آغاز محلے کی مسجد سے ہؤا، ماشاءاللہ بچپن سے ہی ذہین تھے، مولانا مرحوم کا حافظہ بہت غضب کا تھا اس کا ثبوت یہ ہے کہ مسجد کے امام حافظ محمد بشیر صاحب خیل پوری کے پاس کم عمری ہی میں ( 9/ سال کی عمر میں ) بہت جلد حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کرلی تھی غالباً 9/ ماہ میں حفظ مکمل کرلیا تھا، گھر والوں کا خیال ہے کہ مکتبی تعلیم کے بعد تقریباً ایک سال مدرسہ خادم العلوم باغونوالی میں بھی تعلیم حاصل کی، اندازہ ہے کہ 1958 میں جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ میں داخل ہوئے، فارسی اور عربی سال سوم تک جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ میں، پھر سال چہارم اور پنجم مظاہر علوم سہارنپور میں، واضح رہے کہ مولانا کے نام کے ساتھ ”اسعدی“ کا اضافہ مولانا اسعد اللہ ناظم اعلیٰ مظاہر علوم سہارنپور کے ساتھ خصوصی تعلقات کا نہ صرف پتہ دیتا ہے بلکہ یہی حقیقت ہے۔ مظاہر علوم کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا، 1969 دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد عملی میدان میں قدم رکھا تو جنوری 1970 میں بحیثیت محرر جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ میں تقرر ہوا، اس وقت جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ کے مہتمم جناب مولانا محمد حشمت علی صاحب ( متوفی 11/ جنوری 1996) تھے، مولانا محمد مرتضیٰ صاحب جامعہ میں دفتری حساب وکتاب کے ساتھ ساتھ ابتدائی عربی کتابیں بھی پڑھاتے تھے، مدارس اسلامیہ کے ماحول میں ایک ہی آدمی سے مختلف طرح کی ذمہداری لینا ایک عام بات تھی، مدارس کے ماحول میں اس قسم کے بابرکت افراد آج بھی پائے جاتے ہیں، مولانا مرحوم یہاں جولائی 1980 تک رہے یعنی دس سال، پھر یہاں سے اگلے ہی ماہ اگست میں جامع مسجد سہارنپور میں مینیجر کے طور پر آپکا تقر ہؤا یہاں بھی بحسن خوبی اپنی ذمے داری ادا کی، جامع مسجد کی آمدنی پر خاص توجہ دی، مولانا یہاں پر مئی 1993 تک رہے یعنی تیرہ سال، وقت کی پابندی، کام کی لگن، بے ضرر خاموشی یہ وہ صفات تھی جنکی وجہ سے آپ دارالعلوم دیوبند کے وسیع نظام کا حصہ بنے، مولانا محمد اسعد مدنی (متوفی 6/ فروری 2006 ) صدر جمیعت علمائے ہند جو اس وقت جامع مسجد کمیٹی کے بھی صدر تھے — کے اشارے پر اور اسی طرح مسلم فنڈ ٹرسٹ کے بانی مولانا حسیب صدیقی مرحوم ( وفات 9/ جنوری 2019) نے بھی مولانا کو دارالعلوم دیوبند آنے کی ترغیب دی انہی حضرات کے مشورے و ایماء پر آپ 1993 ہی میں بحیثیت محرر دارالعلوم دیوبند تشریف لائے، پھر ترقی کرکے مولانا مرحوم شعبہ اوقاف دارالعلوم دیوبند کے ناظم بنائے گئے اور تاحیات پابندی کے ساتھ اپنی ذمے داریوں کو ادا کرتے رہے۔ 2017 میں راقم اپنے چھوٹے بھائی مولوی محمد شاہد سلمہ کے کہنے پر مولانا مرحوم سے ملنے دارالعلوم دیوبند گیا، یہ ملاقات پہلی اور آخری تھی، مگر کافی طویل تھی، دارالعلوم دیوبند، جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ اور گاڑہ برادری کے بارے میں بہت سی باتیں ہوئی، گفتگو سے اندازہ ہوا کہ مولانا مرحوم مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند سے کافی ہے تکلف اور خوشگوار تعلقات رکھتے ہیں، دوسرے یہ کہ جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ مولانا مرحوم کا حافظہ بہت شاندار تھا، برادری سے متعلق کتنے ہی واقعات، لوگوں کے حالات، ماہ و سال مع تاریخ، متعلقہ لوگوں کے فون نمبرات اکثر و بیشتر اپنے حافظے پر زور دے کر بتلادیے۔

وفاداری ان کے مزاج اور معمول سے زیادہ ان کے ایمان کا حصہ تھی

مولانا مرحوم نے جہاں بھی کام کیا وہاں کے بن کر رہے، وہاں کی ہر چیز سے وفاداری ان کے مزاج اور معمول سے زیادہ ان کے ایمان کا حصہ تھی، مولانا مرحوم کی 51/ سالہ پیشہ ورانہ زندگی پر غورکریں تو مندرجہ ذیل تین خصوصیات صاف ظاہر ہوتی ہیں، 1۔ وقت کی پابندی 2۔ اپنے کام سے لگن 3۔ ڈیوٹی سے زیادہ کام کرنے کا جذبہ۔

ان ہی خصوصیات کی وجہ سے راقم مجبور ہوا کہ ان کی زندگی کے بارے میں کچھ لکھوں، یہ ہی انکی پوری زندگی کا خلاصہ ہے اور یہ ہی آئندہ نسلوں کے لیے سبق۔

تجربے کار حضرات کہتے ہیں کہ کوئی بھی کام رابطے سے ہوتا ہے یا ضابطہ سے، مولانا مرحوم دونوں ہی چیزوں کا بھرپور خیال رکھتے تھے رابطوں کی حفاظت ضابطوں پر مواظبت (پابندی) ان کی فطرت تھی اسکا ثبوت یہ ہے کہ علاقے کے وہ افراد جن کے درمیان ذہنی اور نظریاتی فاصلے ہیں ان دونوں ہی فریقوں سے بیک وقت علیک سلیک رکھتے اور کبھی چغلی نہ کرتے، صرف اپنے تعلقات کی حفاظت اور بس۔

مولانا مرحوم ملازمت کے ساتھ ساتھ ملی اداروں اور تنظیموں کی بھی معاونت کرتے تھے

مولانا مرحوم ملازمت کے ساتھ ساتھ ملی اداروں اور تنظیموں کی بھی معاونت کرتے تھے، چنانچہ مولانا مرحوم جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ کی کیمٹی کے لمبے زمانے تک ممبر رہے، جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ سے مولانا مرحوم کو عشق کی حد تک لگاؤ تھا، جامعہ کا سفیر جب ان کے گاؤں بیلڑہ آتا تو مولانا دارالعلوم دیوبند سے ایک دن کی چھٹی لیتے اور گاؤں میں سفیر کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے، وفات سے ایک روز قبل یعنی 22/ جنوری 2022 کو جامعہ میں شوری کی میٹنگ ہوئی تو 74/ سال کا یہ اولو العزم بوڑھا اپنے ناتواں پیروں پر کھڑے ہوکر کہتاہے کہ ”حضرت مہتمم“ صاحب کے انتقال کے بعد اراکین شوری کی یہ پہلی میٹنگ ہورہی ہے، ہم سب کو چاہیے کہ اپنے اپنے گاؤں اور علاقوں میں مدرسے کا بھرپور تعاون کریں، اساتذہ و سفراء کے ساتھ گھومیں، مسلم فنڈ ٹرسٹ دیوبند کی ناگل برانچ کے نگراں بھی تھے، جمیعت علمائے ہند کے ساتھ بھی کام کیا، جامع مسجد سہارنپور میں رہتے ہوئے ہم عصر علماء کرام کے ساتھ ملکر ”امارت شرعیہ ہند “ قائم کی، اسی طرح گاڑا برادری کی انجمنوں میں بھی کام کرتے رہے، راقم کے چھوٹے بھائی محمد شاہد سلمہ نے مولانا سے کہا کہ گاڑوں کی انجمنوں کا کوئی فائدہ تو نظر نہیں آتا، مولانا نے جواب دیا کسی بھی چیز کی تجدید کاری نہ کی جائے تو زمانہ اس پر دھول مٹی چڑھا کر اس کی قبر تیار کردیتا ہے، ایک وقت تھا کہ گاڑا برادری کی انجمن اس قدر مضبوط تھی کہ بہت سے لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ شادی بیاہ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہی کریں۔

مولانا مرحوم درمیانہ قد سے ذرا پستہ تھے، اعضاء جسم کے بالکل مناسب، عام مولویوں کی طرح توند کے عذاب سے آزاد، ایک مشت سے ذرا کم‌ خشخشی ڈاڑھی، لمبا چہرا، خاموش طبیعت، پرسکون چال، آواز میں بھاری پن مگر ٹھہر کر بولتے، بولنے سے پہلے ذرا سوچتے، دیکھنے والوں کو دھن کے پکے محسوس ہوتے، پاس بیٹھ کر چہرے پر نگاہ جمائیں تو زمانۂ قدیم کے مسلم فلسفی معلوم ہوں، کروفر سے دور، ”ہٹو بچو“ سے نالاں، سرپر دو پلی ٹوپی مڑھی ہوئی، اکثر و بیشتر واسکٹ زیب تن رہتے، موسم سرما میں شیروانی اور مفلر میں بھی نظر آجاتے۔

ماشاءاللہ مولانا مرحوم کے یہاں چار لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں سبھی شادی شدہ ہیں، ان میں سے چار صاحب اولاد ہیں اور کائنات کے وسیع تر نظام میں سے اپنے حصے کی ذمے داری پوری کر رہے ہیں، دو اللہ تعالی سے اولاد کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور بلاشبہ وہ کسی کی دعا رد نہیں کرتا۔

آدمی کوئی ہو، طاقتور ہو کہ کمزور، صحت مند ہو کہ بیمار، مومن ہو کہ کافر، نبی ہو کہ امتی، مالدار ہو کہ غریب، سب کا ایک ہی انجام، موت کا انتقام، موت کا انتقام، کہنے والے کہتے رہ گئے ”حرکت قلب“ بند ہونے سے ہوئی ہے مولانا کی شام ! درحقیقت موت کا اٹل فیصلہ کر گیا اپنا کام، رہے سدا اللہ کا نام۔
 اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل نصیب فرمائے، آمین
تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450
26/ جنوری 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے