Ticker

6/recent/ticker-posts

معراج النبی کی تاریخ | شب معراج کی فضیلت | واقعہ معراج احادیث کی روشنی میں

معراج النبی کی تاریخ | شب معراج کی فضیلت | واقعہ معراج احادیث کی روشنی میں

معراج النبی
۔۔۔۔۔۔۔
از قلم : سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔۔۔۔۔
کعبہ سے بیت المقدس کا فاصلہ ٢١١٣ کیلو میٹر ہے۔ چشم زدن میں رسول اعظم صلی اللہ وسلم کا کعبے سے بیت المقدس پہنچ جانا خود ایک معجزہ ہے۔ابو جہل معراج النبی کی خبر سن کر اسے جھٹلانے کی کوشش کرنے لگا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بلا چوں و چرا، بلا تامل معراج نبی کی تصدیق فرمادی اور ہمیشہ کے لیے صدیق کے لقب سے ملقب ہوگئے۔

معراج النبی کی تاریخ | شب معراج کی فضیلت | واقعہ معراج احادیث کی روشنی میں

رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر اقدس صرف بیت المقدس تک محدود نہیں تھی، بلکہ چشم زدن میں آپ بیت المقدس سے آسمان تشریف لے گئے، پھر وہاں سے سدرۃ المنتہٰی، پھر لامکاں۔


کائنات میں تقریبا" اٹھارہ ہزار عالمین ہیں۔ان میں سے ایک عالم ہمارا بھی ہے جسے ملکی وے/آکاش گنگا کہا جاتا ہے۔ملکی وے ایک کہکشاں ہے جو ٤٠٠ بیلین ستاروں کا مجموعہ ہے۔ان ستاروں میں سے ایک ستارا ہے سورج۔سائنس دانوں کے مطابق سورج کے سسٹم کو سولر سسٹم /شمسی نظام کہا جاتا ہے۔اس سولر سسٹم میں کئی سیارے ہیں، ان میں سے ایک سیارا ہمارا ہے جسے نیلا سیارا یعنی ارتھ کہا جاتا ہے، جسے اردو میں کرہء ارض کہتے ہیں۔ارتھ سے سورج کی دوری کتنی ہے؟١٤٩٠ لاکھ کیلو میٹر۔ دوری کی مناسبت سے ارتھ سے قریب ترین جو ستارہ ہے‌ اس کا نام ہے سورج۔جب ارتھ سے قریب ترین ستارے یعنی سورج کی دوری ارتھ سے ١٤٩٠ کیلو میٹر ہے تو اندازہ لگائیے ارتھ سے پہلا آسمان، پھر دوسرا آسمان، تیسرا آسمان، چوتھا آسمان، پانچواں آسمان، چھٹا آسمان، ساتواں آسمان کی دوری کتنی ہوگی۔ان سبھوں کے آگے سدرۃ المنتہٰی کی دوری کتنی ہوگی؟ اور پھر لامکاں؟

داستان اسرا و معراج

مکاں سے لامکاں پہنچنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا معجزہ ہے جو کسی بھی دوسرے نبی کو حاصل نہیں ہوا۔ واقعہء معراج و اسرا حضور صلی اللہ علیہ کی ان خصائص سے ہے جس کے ذریعے آپ کے درجات عالیہ کا اظہار ہوتا ہے۔ چنانچہ کتاب رب میں ہے:

پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں کہ ہم اسے عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔

سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

چلا وہ سرو چمن ‌خراماں نہ رک سکا سدرہ سے بھی داماں
پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آں سے گزر چکے تھے

اس شعر میں مشبہ بہ موجود ہے، لیکن مشبہ نہیں ہے۔گویا سرکار اعلیٰ حضرت نے‌ اس شعر میں بہت خوب صورت استعارے کا استعمال فرمایا ہے اور استعارا، تشبیہ سے بلیغ تر ہوتا ہے۔

محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حیرت سے سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے

اس شعر میں سرکار اعلیٰ حضرت نے جیومیٹری / اقلیدس کے اصولوں کا بہت حسین پیرائے سے استعمال فرمایا ہے۔


کمان امکاں کے جھوٹے نقطو تم اول آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے

اس شعر میں ‌ جیومیٹری / اقلیدس کے اصولوں کا استعمال ہے اور صنعت تجنیس زائد کی خوب صورتی بھی ہے۔

خرد سے کہہ دو کہ سر جھکا لے گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے

اس شعر میں خرد کی تجسیمیت لاجواب ہے۔


آئنسٹائن کے نظریہء اضافت کے مطابق ایک میٹر/مادہ کو اینرجی/توانائی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اس نظریہ کو اگر استعمال کیا جائے تو پلک جھپکتے ہی کوئی شیء یا کوئی انسان دور دراز کی منزل تک پہنچ سکتا ہے، لیکن یہ تھیوری ای =ایم سی سکویر تھیوری ہی رہی، کبھی بھی پریکٹیکل ایکٹ نہیں بن سکی۔


ایک طویل ریسرچ کے بعد انسان چاند تک ہی پہنج سکا ہے۔ کرہء ارض سے چاند کی دوری صرف چار لاکھ کیلومیٹر ہے۔ آج سے پندرہ سو سال پہلے رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم پلک جھپکتے ہی صرف آسمان ہی نہیں، بلکہ آپ لامکاں بھی پہنچے اور واپس کرہء ارض میں تشریف بھی لائے۔

اس لیے راقم الحروف نے کہا ہے:

تم چاند گیے گر وہ گیا عرش سے آگے
پرواز کا سلطان ہے معراج کا دولھا

اس عظیم الشان معجزے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم صرف بشر نہیں بلکہ افضل البشر بھی ہیں، افضل الجملہ خلائق بھی ہیں۔آپ صرف نبی نہیں بلکہ افضل الانبیاء بھی ہیں، امام الانبیا ء بھی ہیں۔


آپ کا امام الانبیاء ہونا بیت المقدس میں ادا کی گئی انبیاء کی نماز جماعت سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ سرکار اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :

نماز اقصیٰ میں تھا یہی سر عیاں ہو معنیء اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کرگیے تھے

اس شعر میں ایک سے زائد صنعت تضاد کی رعنائی ہے۔

انبیاء پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے۔وحی کے تین طریقے ہیں :


١.فرشتے کے ذریعہ پیغام پہنچانا۔تمام‌ انبیاء پر اس انداز سے وحی نازل فرمائی گئی۔
٢. پردے‌ کے پیچھے سے کلام کرنا۔۔۔۔جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا گیا۔
٣.خدا اپنے دیدار سے بھی مشرف کرے اور کلام بھی کرے۔یعنی‌ براہ راست کلام کرنا۔


تیسری قسم کی وحی سے‌ صرف رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو سرفراز فرمایا گیا۔اس سے بھی ثابت ہوا کہ رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم صرف نبی نہیں بلکہ افضل الانبیاء ہیں۔

مفسرین کرام نے مختلف مقامات پر یہ ثابت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیدار الٰہی فرمایا اور آپ معراج جسمانی سے سرفراز ہوئے۔ چنانچہ سرکار اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

یہی سماں تھا کہ پیک رحمت خبر یہ لایا کہ چلیے حضرت
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے

اس شعر میں صنعت تلمیح کی خوبی ہے۔


تبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش لن ترانی کہیں تقاضے وصال کے تھے

اس شعر میں صنعت اقتباس کا جمال ہے

حجاب اٹھتے ہیں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے

اس شعر میں صنعت تکریر کا حسن بھی ہے اور صنعت طباق کی جلوہ فشانی بھی۔

وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر 
اسی کے جلوے اسی سے ملنے اسی سے اس کی طرف گیے تھے

اس شعر میں صنعت مراعات النظیر کی رعنائی بھی ہے اور صنعت تکریر و تضاد کی جلوہ گری بھی۔


سائنس دانوں کے مطابق ساؤنڈ /آواز حرکت کرتی ہے تو آواز سنی جاتی ہے۔اگر ساؤنڈ بولنے والے کی زبان سے نکل کر سننے والے کے کان تک حرکت نہ کرے تو آواز سننا ناممکن ہے۔ساونڈ کی حرکت کے لیے میڈیم/درمیانہ کی ضرورت ہوتی ہے۔بغیر میڈیم کے ساؤنڈ حرکت نہیں کرسکتی۔ میڈیم تین قسم کا ہوتا ہے۔سولڈ/ ٹھوس مادہ، لیکویڈ/ مائع، گیس/ ہوائے بسیط۔ساونڈ، سولڈ میڈیم میں سب سے تیز حرکت کرتی ہے، لیکویڈ میں درمیانی رفتار سے حرکت کرتی ہے اور گیس میں کم رفتار سے حرکت کرتی ہے۔ گویا آواز سننے کے لیے سولڈ، لیکویڈ یا گیس میڈیم کا موجود‌ رہنا ضروری ہے۔

سپیس / خلا میں کسی بھی میڈیم کا فقدان رہتا ہے۔اسی لیے جب سپیس سائنٹسٹ/ خلائی سائنس داں/ خلا نورد، سپیس پہنچتے ہیں تو وہ آواز ایک دوسرے کی سن نہیں پاتے ہیں، نہ ہی وہ کسی سماوی مخلوق کی آواز سن سکتے ہیں۔


لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج سپیس بھی پہنچے اور لامکاں بھی۔ مختلف آسمانوں میں آپ کئی انبیاء سے ہم کلام ہوئے۔کہیں حضرت آدم علیہ السلام سے تو کہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے، کہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تو کہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے۔بلکہ آپ امت کے لیے روزانہ نمازوں کی تعداد کی تخفیف کرانے کے سبب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کئی بار ہم کلام ہوئے۔

سپیس میں انبیائے کرام کی آواز سننا، ان سے ہم کلام ہونا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم معجزہ ہے۔اس ایوینٹ/ واقعے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف بشر نہیں بلکہ افضل البشر ہیں، افضل الجملہ خلائق ہیں۔

شب معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تین خاص چیزیں مرحمت فرمائی گئیں:

١.نماز پنجگانہ
٢.سورہء بقرہ کی آخری آیات
٣.امت کی بخشش

یہ امت مسلمہ کے لیے سعادت کی بات ہے کہ نماز کی فرضیت کا تحفہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ سے براہ راست ملا۔نماز کا تحفہ مکاں میں‌ نہیں لا‌ مکاں میں ملا۔ نماز کا تحفہ کسی فرشتے کے ذریعہ نہیں ملا، بلکہ خدا سے براہ راست ملا۔نماز کا تحفہ حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعہ نہیں ملا، بلکہ رب کریم سے براہ راست ملا۔خداوند‌ قدوس کا ہم پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:اے حبیب، آپ کی امت پر روزانہ پانچ وقت نماز پڑھنا فرض ہے۔یہ اگرچہ گنتی میں پانچ‌ نمازیں ہونگی لیکن ان کا ثواب اتنا ‌مرحمت فرماؤنگا جتنا پچاس نمازوں کا ہوتا ہے۔"


حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک سے تعبیر فرمایا۔اسی لیے راقم الحروف نے اپنے نعتیہ کلام میں یہ شعر کہا :

تحفے میں عبادت دی جو آنکھوں کی ہے ٹھنڈک
تسکین کا عنوان ہے معراج کا دولھا

راقم‌ الحروف کے جس کلام میں یہ شعر ہے اس کے چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیں: 

اس دہر میں ذیشان ہے معراج کا دولھا
اور عرش کی بھی جان ہے معراج کا دولھا

اس واسطے قدسی کی قطاریں ہیں فلک پر
اللہ کا مہمان ہے معراج کا دولھا

خاکی ہوں کہ نوری ہوں زمینی ہوں کہ عرشی
سب خلق کا ارمان ہے معراج کا دولھا

صدیق بنا مان کے کوئی بنا فاروق
ایمان کی یوں جان ہے معراج کا دولھا

جبریل کے کافوری لبوں نے دیے بوسے
ہاں نور کا انسان ہے معراج کا دولھا

تم چاند گیے گر وہ گیا عرش سے آگے
پرواز کا سلطان ہے معراج کا دولھا

تحفے میں عبادت دی جو آنکھوں کی ہے ٹھنڈک
تسکین کا عنوان ہے معراج کا دولھا

"عینی" ہے ہر اک شخص پہ سرکار کا احسان
یوں مظہر منان ہے معراج کا دولھا
از قلم : سید خادم رسول عینی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے