Ticker

6/recent/ticker-posts

سب سے اچھا وہ ہے، جس کے اخلاق و کرادر اچھے ہوں : خطاب جمعہ

سب سے اچھا وہ ہے، جس کے اخلاق و کرادر اچھے ہوں : خطاب جمعہ

خطاب جمعہ۔۔۔۔۔۔ ۱۸/ فروری
سب سے اچھا وہ ہے، جس کے اخلاق و کرادر اچھے ہوں
محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

قرآن و حدیث کی روشنی میں اگر کسی کو سب سے اچھا اور بہتر انسان قرار دیا جائے تو سب سے بہتر اور کامل وہ شخص قرار دیا جائے گا جو اخلاق حسنہ اور کردار و کریکٹر کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے ممتاز اور نمایاں ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ احب عباد اللہ احسنکم خلقا۔ (المستدرک للحاکم ۴/ ۱۹۸)

اللہ کے بندوں میں سے اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ بااخلاق ہے۔

اسلام میں اخلاق حسنہ کی اہمیت کیا ہے ؟

اسلام میں اخلاق حسنہ کی اہمیت کیا ہے ؟ اس کا اندازہ اس لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کی اصل غرض و غایت اخلاق و اعمال کے مکارم و محاسن کی تکمیل قرار دیا۔

پتہ یہ چلا کہ سماج و معاشرہ اور انسانی سوسائٹی میں سب سے زیادہ ایمان میں کامل اور سب سے بہتر اور کامیاب شخص وہ ہے، جو اخلاق حسنہ میں ممتاز اور نمایاں ہے۔ ایسا شخص اللہ تعالی کو بھی سب سے زیادہ محبوب ہوگا اس لئے کہ اللہ تعالی کے یہاں مقام محبوبیت حاصل کرنے کے لئے کمال ایمان ضروری ہے، اور کمال ایمان جس قدر حسن اخلاق سے حاصل ہوتا ہے، اتنا نفلی عبادات سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔


لوگ غلط فہمی کی وجہ سے اللہ تعالٰی کا محبوب و منظور اسے سمجھتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ عبادت گزار ہو، قیام لیل کا پابند، اوابین کا عادی ہو، تلاوت و تسبیحات اور ذکر و اذکار میں ہمیشہ مشغول رہتا ہو۔ لیکن اس حدیث شریف نے اس غلط فہمی کو دور کر دیا۔

اس میں شک نہیں کہ نفلی عبادات سے اللہ کا قرب و تقرب حاصل ہوتا ہے فرائض میں ہوئ کمیاں اور نقائص کی تلافی ہوتی ہے لیکن قرب الہی حاصل کرنے کا اس سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو حسن اخلاق سے آراستہ کرے۔ چنانچہ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ان احبکم الي و اقربکم منی فی آلاخرة مجالس احسانکم اخلاقا و ان ابغضکم الیی و ابعدکم منی فی الآخرة اسوءکم اخلاقا۔ ( جامع ترمذی حدیث نمبر ۲۰۱۸)

تم میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اور آخرت میں ہم نشینی میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں اخلاق میں سب سے زیادہ اچھے ہوں گے، اور تم میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور آخرت میں مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو تم میں اخلاق کے اعتبار سے زیادہ برے ہوں گے۔


انسان حقیقت میں ایک اخلاقی وجود ہے۔ اس کے اچھے یا برے ہونے کا اصل معیار، کسوٹی اور پیمانہ اخلاق ہی ہے۔ زندگی کی قدر و قیمت متعین کرنے میں اصل فیصلہ کن چیز اخلاق ہی ہے۔ اس لئے کامیاب اور مبارک باد ہیں وہ لوگ جو اخلاقی لحاظ سے اپنے کو بہتر حالت میں دیکھنے کی دل میں تمنا اور خواہش رکھتے ہیں۔

 یہ حقیقت ہے کہ انسان کو دنیا میں جو کچھ عطا ہوا ہے ان میں ایمان اور عمل صالح کے بعد سب سے بہتر چیز حسن اخلاق ہے۔ 
چنانچہ روایت میں آتا ہے قبیلہ مزینہ کے ایک شخص سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! انسان کو جو کچھ عطا ہوا ہے اس میں سب سے بہتر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسن اخلاق (بیہقی شعب الایمان )


اخلاق کی اہمیت اور اس کے مقام و مرتبہ

اخلاق کی اہمیت اور اس کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ان احادیث سے لگایا جاسکتا ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اخلاق در حقیقت فطری جذبات و احساسات ہی کا دوسرا نام ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک غیر مرئ شے ہے۔ جس کا اظہار آدمی کے مختلف اعمال و افعال اور کردار و سلوک سے ہوتا رہتا ہے۔ ارادہ و اختیار و احساسات کے صحیح اور بہترین استعمال سے اس زندگی کی نمود ہوتی ہے جس کو ہم مثالی اور پسندیدہ زندگی کہتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی کو مختلف اکائیوں میں تقسیم کرنے کے بجائے اسے ایک ۰۰ کل۰۰ قرار دیا۔ اور زندگی کے ہر پہلو اور اس کے ہر شعبہ سے متعلق خواہ اس کا تعلق معاشرت و معیشت سے ہو یا حکومت و سیاست سے، اخلاق کے صحیح اصول و ضوابط بیان فرمائے۔ انہیں عملا زندگی میں برت کر دکھایا اور انہی اصولوں پر سوسائٹی اور ریاست کا نظام اور نظم و نسق قائم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق و کردار کو فرسودہ اور محدود تصور سے پاک کرکے اسے وسیع تر مفہوم بخشا اور اس کو آفاقیت عطا فرمائ، یہاں تک کہ انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا کوئی حصہ بھی اخلاق سے الگ اور آزاد نہ رہا اور زندگی اس اصول و ضابطہ سے ہم آہنگ ہوگئ جو اصول و ضوابط ہم کو کائنات میں کار فرما دکھائی دیتا ہے (کلام نبوت ۲/


انسانی زندگی میں اخلاق حسنہ کی اہمیت

انسانی زندگی میں اخلاق حسنہ(حسن خلق) کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی سے مخفی و پوشیدہ نہیں ہے اور اس کی اہمیت و افادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا۔ قوموں کی تاریخ میں کسی ایسی قوم کی مثال نہیں ملتی، جس میں نیکی و بدی خیر و شر اور صحیح اور غلط کا سرے سے کوئی تصور نہ پایا جاتا رہا ہو۔ جو لوگ جبریت (Determinism) کے قائل ہیں وہ بھی علی الاعلان اس بات کا دعوی نہیں کر سکتے کہ ان کے نزدیک جھوٹ اور سچ میں حق اور ناحق میں صحیح اور غلط میں یا ایمان داری اور مکر و فریب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس سے کس کو انکار ہے ؟ کہ تقوی و طہارت، سچائ، راستی، خیر پسندی اور سلامت روی انسان کی مطلوب صفات ہیں۔ انسانی ضمیر کے لئے یہ کبھی ممکن نہیں ہو سکتا کہ وہ ایفائے عہد کے مقابلے میں مکر و فریب کو، ایثار و قربانی کے مقابلے میں خود غرضی کو اور جذبئہ اخوت و ہمدردی کے مقابلے میں بغض و عناد، حسد و تعصب اور ظلم و ستم و جبر و تشدد کو بہتر سمجھنے لگے۔


اخلاق کی قدر و قیمت اور حقیقت

اخلاق کی قدر و قیمت اور حقیقت کو سمجھانے اور ذھن میں نقش کرنے کے لئے ماہرین اخلاقایات نے بہت کچھ لکھا ہے۔ جس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے۔

انسانوں سے کسی خاص قسم کے اخلاق کے مطالبے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہم انسان کو صاحب اختیار و ارادہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے کہ جہاں کوئ ارادہ و اختیار نہ پایا جاتا ہو وہاں کسی اخلاق و کردار کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اخلاق کا تعلق اور نسبت انسان کے ارادہ و اختیار سے ہے۔ انسان کو دنیا میں ارادہ و اختیار کی آزادی حاصل ہے اس لئے اس کا ایک اخلاقی وجود ہے۔ یہی چیز ہے جو اسے عام حیوانات سے ممتاز کرتی ہے۔ ( کلام نبوت ۲/ ۱۵)

انسانی زندگی میں اخلاق کی اس قدر اہمیت اور ضرورت

انسانی زندگی میں اخلاق کی اس قدر اہمیت اور ضرورت کے بعد بھی معیاری اور انسانی اوصاف و کمالات اور اخلاق و کردار کے حامل کم ہی لوگ ملتے ہیں لیکن اس سے ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ اچھے اور باکردار لوگوں کی تعداد ہمیشہ اور ہر زمانے میں کم رہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت اور سچائی کو ایک جامع مثال سے سمجھایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انما الناس کالابل المأة لا تکاد تجد فیھا راحلة (بخاری و مسلم )

لوگ ان سو اونٹوں کے مانند ہیں جن میں مشکل ہی سے تم کسی کو سواری کے قابل پا سکو۔

یعنی جس طرح اونٹوں کی ایک کثیر تعداد میں اپنے مطلب کا اونٹ آسانی سے نہیں ملتا یہی حال انسانوں کا بھی ہے۔ کہ بااخلاق، معیاری اور انسانی اوصاف و کمالات کے حامل لوگ کم ہی ملتے ہیں۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جامع حدیث ہمارے پیش نظر رہے تو ہم اس صورت حال سے کبھی بدل اور مایوس نہیں ہوں گے۔ اور ہمارے اندر اس یقین کا استحضار بھی ہوگا کہ تھوڑے افراد بھی معیاری قسم کے میسر آجائیں تو وہ ایک بڑی اکثریت پر بھاری ہوں گے۔ اور ان کے ذریعہ سے بڑے سے بڑا کارنامہ انجام پاسکتا ہے تاریخ انسانی ہمیں یہی بتاتی ہے اور اس کی ہزاروں مثالیں تاریخ کے روشن اور تابندہ صفحات میں موجود ہیں۔


ہم سب کو یہ تسلیم ہے کہ حسن اخلاق اپنے ظاہر اور نتائج کے اعتبار اور لحاظ سے اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑی عطا ہے۔ حسن اخلاق میں جو جاذبیت، کشش، مقناطیسیت اور حسن و جمال پایا جاتا ہے اس کا کسی اور شے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اخلاق میں جو مقناطیسی قوت اور اثر ہے وہ کسی کرامت (Miracle ) میں بھی نہیں ہے۔ اخلاقی طاقت سے دشمنوں کے دل بھی مفتوح ہو جاتے ہیں۔ اور ایک داعی و مبلغ اور ہادی و رہبر کی زندگی میں تو اخلاق کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور نرم دلی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور نرم دلی کو قرآن مجید نے خدا کی رحمت قرار دیا ہے۔ کار نبوت کے انجام دینے میں اس اخلاقی وصف کی جو اہمیت ہے اس پر بھی قرآن نے روشنی ڈالی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے : فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک فاعف عنھم و استغفر لھم و شاورھم فی الامر( آل عمران : ۱۵۹) اے نبی ص ! یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم (آپ) لوگوں کے لئے نرم مزاج ہو۔ اگر کہیں تم تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمہارے پاس سے چھٹ جاتے۔ تم انہیں معاف کردو اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کرو اور دین کے کام میں انہیں بھی شریک مشورہ رکھو۔

محمد قمرالزماں ندوی
محمد قمرالزماں ندوی
غرض یہ کہ حسن اخلاق انسان کے لئے ایک لازمی اور ضروری وصف ہے۔ یہ وہ وصف ہے جس سے بہت سی چیزوں کی تلافی ممکن ہے۔ یہاں تک کہ اپنے اخلاق کے ذریعہ سے آدمی اس شخص کے درجہ اور مقام کو بھی حاصل کرلیتا ہے جو راتوں میں عبادت کرتا ہے اور دن میں روزہ رکھتا ہے۔ بااخلاق مومن حقیقت کی نگاہ میں ہمیشہ اللہ تعالی کی بندگی و اطاعت کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس کی روح پاکیزگی اور اس کی فطرت و طبیعت کی صالحیت اسے ہمیشہ اعلی درجہ کی روحانیت اور کردار کے اعلی مقام سے جوڑے رکھتی ہے۔

نوٹ خطاب جمعہ کا بقیہ حصہ کل ملاحظہ کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے