Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو غزل اردو شاعری : میرا عُدو جو ہے صفتِ ذم کے ساتھ ہے ۔ ڈاکٹر مقصود جعفری

اردو غزل اردو شاعری : میرا عُدو جو ہے صفتِ ذم کے ساتھ ہے ۔ ڈاکٹر مقصود جعفری

تازہ غزل
ڈاکٹر مقصود جعفری

میرا عُدو جو ہے صفتِ ذم کے ساتھ ہے
یعنی وہ اہلِ شر سے ہے، ہم دم کے ساتھ ہے

کُچھ راس آ سکی نہ یہ بزمِ طرب ہمیں
اک یاسِ مُستقل دلِ پُر غم کے ساتھ ہے

کس کے لہو کی سُرخی شفق پر ہے لالہ رنگ
یہ کس کا خُون تیغۂ دو دم کے ساتھ ہے

آئی کسی کی یاد تو آنکھیں برس پڑیں
اک یاد ہے جو دیدۂ پُرنم کے ساتھ ہے

جامِ سفال قسمتِ رنداں سہی مگر
اک دُردِ جام اب بھی کفِ جم کے ساتھ ہے

جس کارواں کو حُرمتِ پرچم رہی عزیز
وہ کارواں تو آج بھی پرچم کے ساتھ ہے

ابرِ رواں نے جعفری مسحور کر دیا
یہ میرا دل تو گیسوۓ برہم کے ساتھ ہے
۱۵ فروری ۲۰۲۲
نیو یارک


تازہ غزل : خار زاروں کو اگر ہم بھی گُلستاں کہتے

ڈاکٹر مقصود جعفری

خار زاروں کو اگر ہم بھی گُلستاں کہتے
پھر تو ہم صحنِ گُلستاں کو بیاباں کہتے

گردنیں کاٹتے پھرتے ہیں بنامِ مسلک
شرم آتی ہے مجھے خود کو مسلماں کہتے

میں نے انساں کو سرِ دار و رسن دیکھا ہے
عمر گزری ہے مری نوحۂ انساں کہتے

دل تو اب غُنچۂ صد چاک کی صورت ہوا چاک
اِس لیے دل کو ہیں صد چاکِ گریباں کہتے

اہلِ زر اب تو غریبوں کا لہو پیتے ہیں
ساغرِ مے کو ہیں ہم خونِ غریباں کہتے

ہم نے ایمان کے معیار بدلتے دیکھے
پیکرِ کفر کو ہیں صاحبِ ایماں کہتے

جعفری خانۂ درویش بنا ہے زنداں
اب تو افلاک کو ہیں گوشۂ زنداں کہتے
۱۲ فروری ۲۰۲۲
نیو یارک


تازہ غزل : اُس چشمِ نیم باز نے مخمور کر دیا

ڈاکٹر مقصود جعفری

اُس چشمِ نیم باز نے مخمور کر دیا
یعنی شرابِ ناب نے مسحور کر دیا

اِس قُفلِ لب کو توڑنا آساں نہ تھا مگر
شہرِ خموش نے مجھے مجبور کر دیا

جو کچھ مِلا ہے اُس کو مقّدر سمجھ لیا
جو کچھ نہ مِل سکا اُسے مقدور کر دیا

کس نے بنایا گوشۂ زنداں ہر ایک گھر
کس نے گھروں میں لوگوں کو محصور کر دیا

دل کی خوشی ہے عارضی اور رنج مُستقل
یہ کیا خوشی ہے جس نے کہ رنجور کر دیا

دل پر نزولِ شعر کی کیفیتیں نہ پوچھ
اِس غم نے دل کو جلوہ گہہِ طُور کردیا

ظرفِ تہی سے جعفری آتی ہے یہ صدا
دولت نے مُشتِ خاک کو مغرور کر دیا
۹ فروری ۲۰۲۲
نیویارک


تازہ غزل : کیا تیرگی میں شُعلۂ انوار ہم نہ تھے

ڈاکٹر مقصود جعفری

کیا تیرگی میں شُعلۂ انوار ہم نہ تھے
کیا آسماں پہ برقِ شرر بار ہم نہ تھے

صحرا میں اُس کا نام و نشاں تک نہ مِل سکا
جس قافلے کے قافلہ سالار ہم نہ تھے

مسلک رہا ہمارا تو انسان دوستی
بہرِ عدو بھی باعثِ آزار ہم نہ تھے

پیتے رہے جو کاسۂ سر میں شرابِ ناب
صد شُکر ایسی بزم میں میخوار ہم نہ تھے

یہ تو ضمیر بیچ کے زر دار بن گئے
مُردہ ضمیر لوگوں میں زردار ہم نہ تھے

’’ اِس سادگی پہ کون نہ مر جاۓ اے خدا‘‘
عہدِ فریب کاری میں ہشّیار ہم نہ تھے

’’دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں “
کیا جعفری سے صاحبِ کردار ہم نہ تھے؟
۱۰ فروری ۲۰۲۲
نیو یارک
New York, NY, USA

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے