Ticker

6/recent/ticker-posts

اپنے اندر جذبئہ شکر پیدا کیجئیے | Apne Andar Jazba e Shukr Paida Kijiye

اپنے اندر جذبئہ شکر پیدا کیجئیے

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

انسان کا مزاج کچھ ایسا ہے کہ جو کچھ اس کو ملا ہے، اس پر وہ آسودہ اور مطمئن نہیں ہوتا اور جو کچھ نہیں ملا ہے، اس کے پیچھے بھاگتا اور ڈوڑتا ہے، حیران اور پریشان رہتا ہے۔اسی مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ ہر آدمی اس دنیا میں غیر مطمئن زندگی گزارتا ہے۔کوئی بظاہر خوش نصیب آدمی، جس کو لوگ قابل رشک سمجھتے ہیں وہ اندر سے اتنا ہی بے چین اور غیر مطمئن ہوتا ہے، جتنا وہ لوگ اس کو رشک کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔دنیا میں ہر شخص اور ہر انسان کو کوئی نہ کوئی نعمت (اور مخصوص صلاحیت و انعام و خوبی) ملی ہوئی ہے، کسی کو کم کسی کو زیادہ۔مگر جس شخص کے اندر شکر اور احسان شناسی کا جذبہ اور کیفیت نہیں ہوتی وہ ہمیشہ غیر حاصل شدہ نعمت کی طرف متوجہ رہتا ہے اور اس نعمت کے نہ حاصل ہونے کی وجہ سے اندر اندر بے چین و بے کل ہوتا ہے اور کڑھتا رہتا ہے اور اپنی زندگی بے کیف بنا لیتا ہے، جو نعمت ہر وقت اسے حاصل ہے اور جس سے وہ لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے، اسے حقیر، بے وقعت اور معمولی سمجھتا ہے۔جو شخص اپنی زندگی کی روش اور راستہ و طریقہ ایسا بنا لیتا ہے، اور اپنی حاصل شدہ نعمتوں کی قدر نہیں کرتا اسے معمولی اور بے حیثیت خیال کرتا ہے، ایسے آدمی کے اندر اپنے خدا کے لئے شکر کا جذبہ نہیں ابھرتا، وہ ہمیشہ پریشان، غیر مطمئن اور بے کل و مضطرب نظر آتا ہے، بلکہ بسا اوقات ذھنی ڈپریشن کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔


ہمارے ایک تعلق والے ہیں، جو میری تحریروں کے بہت قدرداں ہیں، اور خود علم و عمل کے جامع ہیں، ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کے تریبت یافتہ ہیں۔انہوں نے مجھ کو بتایا کہ ایک بار وہ ایک مرکزی ادارے یعنی ایک بڑے دار العلوم گئے (جہاں ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا ) وہاں وہ ایک بہت بڑے استاد سے ملنے گئے، جن کو علمی حلقوں میں بہت مقبولیت حاصل تھی اور وہ کسی شعبہ کے صدر بھی تھے۔ علیک سلیک کے بعد چائے ناشتہ کا دور چلا اس درمیان انہوں نے، (ڈاکٹر صاحب نے) حال و احوال اور خیریت معلوم کی تو مولانا صاحب کہنے لگے کہ اس دار العلوم میں سب غریب اور مالی اعتبار سے کمزور ہمیں ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے کہا ارے مولانا صاحب آپ کے یہاں تو اعلی فرنیچر قالین اور ضرورت کی ہر چیز اعلی معیار کی موجود ہے، آپ غریب کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہاں کئی اساتذہ ہیں جن کے پاس کار ہے اور شہر میں پلاٹیں ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مولانا صاحب!


آپ کے لئے یہ پلاٹ اور کار والے مولانا نمونہ ہیں یا اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ اور اسوہ و آئیڈیل ہیں جن کے یہاں ہفتوں اور مہینوں چولہا نہیں جلتا تھا اور خشک کھجور پر اکتفا فرمالیتے تھے۔اس کے بعد تو مولانا صاحب چھپ اور لاجواب ہوگئے، اور موضوع کو دوسری جانب محول کردیا۔ مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ زندگی کا کون سا مرحلہ اور لمحہ آپ کے لئے بہت دشوار کٹھن اور بہت سخت ہوتا ہے؟۔ تو اس میں سے ایک وہ وقت اور مرحلہ بھی ہے جب کوئی بظاہر دنیا دار اور عصری تعلیم یافتہ کسی مولانا اور مولوی کو صبر اور توکل کی تعلیم دے اور ان کو عزیمت کی راہ دکھائے۔اس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے کہ ہم کیسے وارثین انبیاء ہیں۔ حالانکہ یہ نوبت مرحلہ بہت کم آتا ہے۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کا نظام خدا نے کچھ اس طرح بنایا ہے اور یہاں کا سسٹم کچھ اس طرح برپا کیا ہے، کہ یہاں مکمل آرام و راحت عیش و عشرت اور سکون و اطمینان کسی کو حاصل نہیں ہے۔ہر ایک کو کچھ ملا ہے اور کچھ نہیں بھی ملا ہے۔ایک علاقہ اور صوبہ و خطہ کا آدمی وہاں کے مسائل و مشکلات اور پریشانیوں سے گھبرا کر دوسرے علاقہ میں چلا جاتا ہے۔ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں جاکر اسے معلوم ہوتا ہے، کہ یہاں تو وہاں سے زیادہ مشکل، پریشانی اور دقتیں ہیں، ا دنیا میں اولاد والے کے لیے مسائل ہیں تو بے اولاد کے بھی مسائل، ناخواندہ کے لئے مسائل ہیں۔ تو علم والے کے لیے بھی مسائل ہیں۔کم آمدنی والے کے مسائل ہیں تو زیادہ آمدنی والے کے بھی مسائل ہیں۔ اگر کمزور اور بے زور آدمی کے مسائل ہیں، تو ان کے بھی مسائل ہیں جن کو زور و قوت اور عہدہ و منصب حاصل ہے۔غرض دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو مسائل سے گھرا نہ ہو۔یہ دنیا امتحان اور آزمائش کی دنیا ہے، یہاں کسی کو مسائل سے فرصت نہیں۔بس انسان کو چاہیے کہ فرمان رسالت کی پیروی کرے کہ دینی معاملات میں اپنے سے اوپر والوں کو دیکھے اور دنیاوی زندگی، عیش و عشرت اور آرام و آسائش کے معاملہ میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھے۔یہی نسخہ اور تشخیص اس بے سکونی اور بے اطمینانی کی دوا اور زہر کا تریاق ہے۔

انسان کو چاہیے کہ وہ جن مسائل کے درمیان ہے اس کو صبر و تحمل، برداشت، شگفتگی اور استقامت و عزیمت کے ساتھ برداشت اور گوارہ کرے اور اس فانی دنیا میں اپنا سفر جاری رکھے۔اس کی توجہات کا مرکز اور زندگی کا حاصل، مقصد اور خلاصہ خدا کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہو نہ کہ مسائل سے پاک زندگی کا مالک بننا۔کیونکہ وہ تو آخرت سے پہلے ممکن ہی نہیں ہے۔ مسائل سے پاک زندگی صرف جنت میں ہوگی جو دائمی آرزوؤں چاہتوں اور تمناؤں کا محل ہے۔جہاں کے بارے میں خدا تعالٰی کا اعلان ہے۔ ولکم فیھا ماتشتھی انفسکم و لکم فیھا ما تدعون.
 
ناشر /مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے