بسیرا : اردو افسانہ - مسرور تمنا
ریشماں۔
تم مجھے چاھتی ہو نہ ھمارے ہونے والے رشتے سے خوش ہونا
اپنی آنکھوں میں بے پناہ محبت لیے وہ اسے دیکھ رہاتھا
ریشماں شرما کر اندر غائب ھوگئ
اس بار وہ جواد صاحب کے بلاوے پر انڈیا آے تھے
ظفر کی چاھت خواب آرزو سب تھی ریشم
دیکھا نوید بھای جان نے بتایا بھی نہیں اور ریشم کا رشتہ طے کردیا
مگر اندر ہی اندر خوش تھیں کیونہ شبانہ بیگم نے کہا تھا
ایک ہی بچی ہے نظروں کے سامنے رہے گی
مگر نوید کی ممی نے غرور سے کہا تھا خاندان سے باہر شادی کرونگی
اب دیکھو ریشم کسی اور کی ہورہی
میری تو دنیا لٹ رہی میرے دل میں اسی کا بسیرا ہے
نوید بہت اداس تھا
مگر وہ بہت خوش تھیں اور کہا
شام کو جلدی گھر انا
ارے تمکین آپا اتنی صبح ریشماں کی ممی نے کہا
تو وہ مسکرایں
شبانہ شام سے پہلے چلی انا
مٹھای کاڈبہ دیتے ہوے غرور
سے بولیں نوید کی بات پکی ھوگئ
شام میں انگوٹھی کی رسم ہے
لڑکی لاکھوں میں ایک اور کڑوڑوں کی مالک ہے
اور کیا ریشماں کی شادی کی تاریخ پکی ہوی
نہیں آپا آپکے بنا کوی کام تھوڑے ھوگا
ویسے کل ہی طے ھوناتھی آپکو کال کر ہی رہی تھی
اچھا شام کو چلی انا
میں بھی کل آونگی
ریشم کو ضرور لانا
نوید نے دیکھا تمکین بیگم نے ریشم کے برابر اپنی ہونے والی بہو کو بٹھایا جو ہیرے جوہرات سے سجی تھی
مگر وہ ہیرا نہیں تھی
عام سے نقوش والی عذرا کی دولت کے لیے نوید کا دل توڑ دیا
ریشماں دلھن بنکر آتی تو بھلا اتنی دولت کہاں نصیب تھی
انہیں اپنے گھر آنے والی دولت تو صاف دکھایے دی
مگر آننے گھر کا اجالا نوید
اندھیرے میں ڈوب گیا اسکے دل میں اب اندھیروں کا بسیرا تھا
دولت کی روشنی اسے دور نہیں کر سکتی
0 تبصرے