غیر مسلموں کے تیوہاروں میں شرکت
کسی مسلمان کے لیے غیر مسلموں کے تیوہاروں میں شرکت اور اس میں مدد اور معاونت کرنا درست نہیں ہے۔ مذہب اسلام اس بارے میں انتہائی حساس اور غیرت مند واقع ہوا ہے، اسی لیے آستانوں (نصب) پر قربانی درست نہیں قرار دیا، جہاں بت پرست قربانی کیا کرتے تھے۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے حضور ﷺ سے اہل ایران یعنی پارسیوں کی طرح نیروز و مہرجان( پارسیوں کا تہوار) کی عید منانے کی اجازت چاہی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پسند نہیں کیا اور اس کی اجازت نہیں دی۔ طلوعِ آفتاب، غروبِ آفتاب اور استواء یعنی زوال کے وقت نماز پڑھنے سے اس لیے منع کیا گیا کہ اس وقت آفتاب پرست اور بت پرست قومیں عبادت کیا کرتی تھیں، یوم عاشورا کا روز یہود بھی رکھتے تھے۔ اس لیے امتیاز کے لیے اس کے ساتھ ایک اور روزہ ملانے کا حکم فرمایا گیا۔
کیا مسلمان کے لیے غیر مسلموں کے تیوہاروں میں شرکت اور مدد اور معاونت کرنا درست ہے؟
جو دین، اسلام و کفر کے معاملہ میں اس قدر حساس اور غیرت مند ہو، کیوں کر یہ سوچا اور سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ غیر اسلامی تہواروں میں اور ان کی رنگ ریلیوں میں شرکت کی اجازت دے گا اور اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھے گا۔ یہ ایک طرح کا کفر کا تعاون ہے جس سے قرآن نے منع کیا ہے۔
قرآن مجید نے موالات سے بھی منع کیا ہے، یعنی غیر مسلموں سے گہری دلی اور قلبی دوستی کرنے سے منع کیا ہے، البتہ تجارت زراعت اور کاروبار اور ظاہری دوستی اور تعلق کی اجازت ہے۔
اس لیے مسلمانوں کو ان کے ساتھ اس قدر میل جول نہیں رکھنا چاہیے کہ ان کی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہوجائے، البتہ ملازمت اور پیشہ کی وجہ سے ان کے درمیان رہنے کی بارہا نوبت آتی ہو، تو ایسے لوگوں کو جب بھی موقع ملے، اللہ والوں کی صحبت میں جانا چاہیے اور ان سے ملاقات کرنی چاہیے، ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے، تاکہ کفر و شرک کے ماحول کے اثرات، تاریکیاں اور کثافت ختم ہوں، بڑے بڑے علماء کے بارے میں پڑھا کہ انہوں نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی، لیکن وہ موقع پاتے ہی اہل اللہ اور بزرگوں کی صحبت میں جاتے اور اپنے ایمان کی بیٹری کو وہاں جاکر چارج کرتے۔ افسوس کہ اب یہ مزاج ہمارے اندر سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ بلکہ ہمارے ماحول میں تو یہ مزاج ہی نہیں ہے۔ خدا ہم سب کو اس کی توفیق دے آمین
محمد قمر الزماں ندوی
جنرل سیکریٹری/ مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
0 تبصرے