انسانوں کی تقسیم اور اسلام کا تصور مساوات اور برابری
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللّٰہ رب العزت نے انسان کو قابل احترام واکرام بنایا، اس کی شکل وصورت کو دوسری مخلوقات سے اتنا خوبصورت اور اتنا ممتاز کر دیا کہ جو دیکھے دیکھتا رہے، کامنی کی مورت اور موہنی سی صورت، یہ بھی بتایا کہ سارے انسان کا سلسلہ ایک آدم سے ملتا ہے، جو اس کائنات میں انسانوں کا باوا ہے اور آدم مٹی سے بنائے گیے تھے، ذات پات، اونچ نیچ، چھوٹ چھات کے لیے انسانی سماج میں گنجائش نہیں ہے، اسلام کی یہ واضح تعلیمات اپنے کو بر تر سمجھنے اور دوسرے کو کم تر سمجھنے کی فطرت رکھنے والے بر ہمنوں کو پسند نہیں کیوں کہ ان کے یہاں انسانوں کی درجہ بندی ہے، برہمن، چھتری، دیشن اور شودر، اس برہمنی تقسیم میں حکومت اور راج پاٹ کا سارا اختیار برہمن کو مل گیا اور سب سے کمزور پوری زندگی غلامی پر مامور شودر قرار پائے۔انہیں باور کرایا گیا کہ تمہاری پیدائش اسی لیے ہوئی ہے کہ تم ہماری غلامی کرو اور ہمارے گوموت کو صاف کرو، اس تقسیم کے نتیجے میں سماج کا یہ طبقہ جو پہلے شودر اور اب دلت اور ہریجن کہا جاتا ہے، سماج سے کٹ کر رہ گیا اور وہ اچھوت قرار پایا، وید اور پران کے اشلوک اس کے کان میں پڑ جانے پر شیشہ پگھلا کر ڈالا جاتا رہا، اس کی ساری استعمال کی چیز ایسی نجس وناپاک قراردی گئیں جس کو بڑی ذات والے چھو بھی نہیں سکتے تھے۔
اس صورت حال نے ان کے اندر احساس کمتری پیدا کر دیا، وہ دوسری ذات کے لوگوں کے سامنے گردن اٹھا کر چل نہیں سکتے تھے، جوتے پہن کر ان کے دروازوں سے گذر نہیں سکتے تھے، اچھی نوکریاں ان کے لیے دستیاب نہیں تھیں، اس لیے معاشی طور پر بھی وہ مفلس وقلاش، دوسروں کے رحم وکرم پر اور دوسرے کے پھینکے ہوئے جوٹھے کھا کھا کر زندگی گذارتے رہے، مسلمانوں میں اس فکر کے رواج پانے کی کوئی وجہ نہیں تھی، لیکن ہم جس سماج میں رہتے ہیں، اس کے چاہے ان چاہے اثرات ہماری زندگی پر پڑتے ہیں، اور ہم اس تہذیب وثقافت وکلچر کو اپنا لیتے ہیں، مسلم سماج کے ساتھ بھی یہی ہوا، اس نے ان چاہے ہندو سنسکرتی کو قبول کر لیا اور ان کے یہاں بھی اشراف وارذال کی تقسیم انسانوں کے درمیان ہو گئی، کہیں زمین دار اور رعیت کی تقسیم ہوئی، کہیں ذات پات کی لعنت نے اپنے پاؤں جما لیے، لسانی اور علاقائی عصبیت نے بھی بانٹنے کا کام کیا۔
اس طرح یہاں بھی چھوٹی ذات بڑی ذات کا غیر اسلامی تصور داخل ہو گیا، آزادی کے بعد دستور میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے ہریجنوں اور دلتوں کے لیے رزرویشن پر زور دیا تا کہ وہ سماج کی میں اسٹریم مین شامل ہو جائیں؛ چونکہ ہمارے یہاں ذات پات کا تصور مذہبی طور پر نہیں تھا اس لیے مسلمانوں کو وہ سہولتیں ان دفعات کے تحت حاصل نہیں ہو سکیں، جو ہندوؤں کے یہاں اسی کام کے کرنے والے کو حاصل تھیں، سرکاری مفادات کے حصول کے لیے مسلمانوں نے بھی ذات پات کی بنیاد پر رزرویشن کا مطالبہ کیا، جس میں کچھ کامیابی تو ملی؛ لیکن سماج میں اس بنیاد پر کھائی اور گہری ہو گئی، لالو پرشاد یادو کے عہد حکومت میں اسے خوب ہوا دیا گیا اور ہر ذات کی الگ الگ ریلیوں کا انعقاد کیا گیا اس طرح ہر برادری کی تنظیم وجود میں آگئی، مؤمن، راعین، حوارین، کے نام پر تنظیمیں پہلے سے موجود تھیں؛ لیکن اب اس میں صدیقیین اور دوسری بڑی ذات سے متعلق لوگوں کی بھی تنظیم قائم ہو گئی، اس صورت حال مسلمانوں کے درمیان آپسی رسہ کشی میں اضافہ ہوا اور ان خود ساختہ بنیادوں پر سیاسی سماجی اور معاشی مفاد کے حصول کی کوشش تیز تر ہو گئی ؛ حالانکہ اللّٰہ رب العزت نے قبائل اور خاندان کو صرف تعارف کا ذریعہ قرار دیا ہے، اس بنیاد پر کوئی بھی شخص مکرم ومعظم نہیں ہو سکتا، قابل احترام تو وہ ہے جو اللّٰہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے یعنی بڑائی کی بنیاد تقویٰ ہے، نہ کہ ذات پات، اسلامی صاف وشفاف تعلیمات یہی ہے کہ انسان ایک نفس سے پیدا ہوا ہے؛ اس لیے مندرجہ بالا بنیادوں پر انسانوں کی تقسیم کو کسی بھی درجے میں شرعی نہیں کہا جا سکتا ۔
اسلام کے اس تصور مساوات اور برابری کو کچھ لوگ کمزور کرنا چاہتے
اسلام کے اس تصور مساوات اور برابری کو کچھ لوگ یہ کہہ کر کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ پھر شادی بیاہ میں کفو کی رعایت کا کیا مطلب ہے، در اصل یہ اعتراض ایک غلط فہمی پر مبنی ہے کہ شریعت نے کفو میں رشتہ ضروری قرار دیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، کفاء ت اور برابری دین میں ہو یہ شرعی مطالبہ ہے؛ اسی لیے دین میں اختلاف ہونے کی صورت میں رشتہ ہو ہی نہیں سکتا، بقیہ اور چیزیں جو اس نام پر رائج ہیں، وہ وقتی مصلحت کی بنیاد پر اپنے اپنے طور پر لوگوںنے رائج کر لیا ہے ۔ اصل کفو کا ترجمہ Maichingہے، دین میں Maichingقرآن کریم کا مطالبہ ہے، بقیہ لڑکی کو حق ہے کہ وہ اپنی زندگی گذارنے کے لیے جن چیزوں میں برابری ضروری سمجھتی ہے، اسے دیکھ لے، کیا آپ کو یہ غیر فطری لگتا ہے کہ جب عورتیں ساڑی کے ساتھ بلاؤز، چوڑی چپل بلکہ چھوٹے بچوں کے کپڑوں میں بھی Maichingدیکھتی ہیں، تو جس کے ساتھ پوری زندگی گذارنی ہے اور خوش گوار زندگی کامدار جس پر ہے اس کا حق اس سے چھین لیا جائے، در اصل یہ کفائت رشتے کو مستحکم اور پائیدار بنانے کے لئے ہے، ایسا ہو سکتا ہے کہ ذات برادری، معیار زندگی، خاندانی وقار دونوں خاندان کا برابر ہو، لیکن لڑکا کچے چمڑے کا کام کرتا ہو اور لڑکی عطر والے کی بیٹی ہو تو سب کچھ برابر ہونے کے با وجود ایک دوسرے کا کفو انہیں نہیں قرار دیا جاسکتا، کیونکہ چمڑے کی بو کے ساتھ عطر کی خوشبو کا جوڑ نہیں ۔
0 تبصرے