Ticker

6/recent/ticker-posts

مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا خلاصہ | Masnavi Kadam Rao Padam Rao Ka Khulasa

مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا خلاصہ

مثنوی قدم راؤ پدم راؤ بہمنی دور کی منظوم داستان ہے۔اس کے مصنف کا نام فخرالدین نظامی ہے۔مثنوی کدم راو پدم راو دکنی زبان میں لکھی گئی ہے دکنی زبان کو دکنی اردو بھی کہا جاتا ہے۔یہ مثنوی قدیم اردو کی پہلی تصنیف ہے۔مثنوی کے طور پر دکنی زبان کا یہ پہلا شاہکار تخلیقی ادب ہے جس کو فخر دین نظامی بیدری نے حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا ہے۔

مثنوی قدم راؤ پدم راؤ کا بنیادی اسلوب قدیم سنسکرت اور پراکرت کی ملی جلی زبان ہے۔ چوں کہ فخر الدین نظامی بیدری مقامی سنسکرت کے اسالیب سے بہت متاثر اور مانوس بھی تھے اسلئے اس کی مثالیں دیکھتے ہی بنتی ہے۔

کون پرس جونا گرے پاؤ تھیں
کون رکھ جونا ڈلے باؤ تھیں
روئی گھانس تھی آگ جانپی جائے جے جائے
تب اوگھڑ کیا کچھ سکے چھپائے


مثنوی ’’کدم راوپدم راو‘‘ اردو کی پہلی مثنوی ہے

ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق نظامی نے یہ مثنوی بہمنی خاندان کے مشہور فرمان روا احمد شاہ ولی بہمنی کے عہد حکومت ۸۲۵ھ ؍ ۱۴۲۱ء تا ۸۳۹ھ؍ ۱۴۳۵ء میں لکھی۔ مثنوی نگاری میں فن اور اس مثنوی کا شعری اسلوب دلکش ہے اور اس میں ایک خاص قسم کی روانی بھی موجود ہے۔

کدم راؤ پدم راؤ کی زبان بہت مشکل ہے

کدم راؤ پدم راؤ کی زبان بہت مشکل اور عسر الفہیم ہے ان پر سنسکرت، پراکرت اور علاقائی زبانوں کے الفاظ کا گہرا اثر ہے، زبان و بیان اور لسانی خصوصیات کے اعتبار سے یہ بولی گہرائی سے خالی اور قریب ہے ،اس میں دواسلوب پائے جاتے ہیں اور یہ ساڑھے پانچ سو سال سے زیادہ پرانی تصنیف ہے اور اردو ادب کی اولین روایت کی نمائندگی کرتی ہے۔اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کدم راؤ پدم راؤ کے بیان میں یا پھیلاؤ کا احساس نہیں ہوتا بلکہ بات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کا انداز ملتا ہے۔


مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا نام کیسے پڑا

اس مثنوی کا اصل نام کیا تھا یہ بھی اس وجہ سے معلوم نہیں ہے کہ مثنوی کے ابتدائی اور آخری صفحات غائب ہیں۔ مثنوی کے دو کردار ہیں۔ ایک کدم راؤ جو راجہ ہے، دوسرا پدم راؤ جو وزیر ہے۔

مولانا نصیر الدین ہاشمی نے انہی کرداروں کی مناسبت سے اس کا نام "مثنوی کدم راؤ پدم راؤ" رکھ دیا ہے اور یہ مثنوی اب اسی نام سے مشہور ہے۔ ہاشمی صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مثنوی جو کدم راؤ پدم راؤ سے موسوم تھی ہم نے لطیف الدین ادریسی مرحوم تاجر کتب کے پاس دیکھی تھی اور اسی زمانہ میں اس کے نوٹ اخذ کئے تھے۔ ممکن ہے نواب سالار جنگ مرحوم کے مخطوطات میں موجود ہو۔


لیکن کتب خانہ سالار جنگ کی وضاحتی فہرست کی اشاعت کے بعد اب یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ وہاں بھی اس مثنوی کا کوئی نسخہ موجود نہیں ہے۔ ہاشمی صاحب کے اس بیان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خود تاجر کتب نے اس مثنوی کا نام کدم راؤ پدم راؤ رکھ دیا تھا۔ اور یہی نام ہاشمی صاحب نے قبول کر لیا۔ اس کا بھی امکان ہے کہ کتب خانہ خاص انجمن ترقی اردو پاکستان کا یہ نسخہ وہی ہو جسے نصیر الدین ہاشمی نے لطیف الدین ادریسی کے پاس دیکھا تھا۔

مخطوطہ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کے مصنف کا نام فخردین اور تخلص نظامی تھا۔ مثنوی میں کئی جگہ اس نے اپنا نام اور تخلص ساتھ ساتھ استعمال کیا ہے اور التزام یہ رکھا ہے کہ پہلے ایک شعر میں وہ خود کو اپنے پورے نام فخر دین سے مخاطب کرتا ہے اور ایک یا دو شعر کے بعد وہ اپنا تخلص لاتا ہے۔ کئی جگہ اس نے صرف اپنا نام فخر دین استعمال کیا ہے۔


نظامی کی زندگی کے حالات کسی تذکرہ و تاریخ میں نہیں ملے، مثنوی کی داخلی شہادت کے پیش نظر صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ احمد شاہ دلی البہمنی کے زمانہ میں بیدر میں تھے۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ دربار سے وابستہ تھے یا نہیں۔ وہ فارسی داں ضرور تھے اس لئے کہ مثنوی کے سارے عنوانات فارسی میں لکھے گئے ہیں۔

مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کی اشاعت کے بعد یہ بات اب اختلافی نہیں رہتی کہ مثنوی میں اشعار کی تعداد کتنی ہے؟ جیسا کہ متن سے ظاہر ہے اس مثنوی میں اشعار کی تعداد 1032 ہے اور 1033 واں شعر نامکمل ہے۔ اس کے بعد کے اشعار ضائع ہو گئے ہیں۔

مثنوی قدم راؤ پدم راؤ اور اس کا خلاصہ

مثنوی کدم راؤ پدم راؤ اپنی ہیئت کے اعتبار سے فارسی مثنوی کی مقررہ ہیئت اور فعولن فعولن فعولن فعل کے وزن میں لکھی گئی ہے۔ آخری رکن کہیں کہیں فعل کی جگہ فعول ہوگیا ہے۔ یہ تبدیلی قانون اوزان و بحور کے مطابق ہے اور حسب قاعدہ پہلے حمد آتی ہے، پھر نعت رسول اور اس کے بعد بانی سلطنت بہمنی کی مدح آتی ہے۔ چونکہ مدح کے اشعار بھی مخطوطہ میں پورے نہیں ہیں اور مدح کے بعد کے بھی کئی صفحات کم ہیں اس لئے فوراً قصہ شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا سوال تھے جو راجہ کدم راؤ نے اپنے وزیر پدم راؤ سے پوچھے تھے۔ مخطوطہ کے صفحات بیچ بیچ میں غائب ہونے کی وجہ سے قصہ کا تسلسل بھی بار بار ٹوٹ جاتا ہے۔


قدم راؤ پدم راؤ کے قصے کا آغاز

قصہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ کدم راؤ (راجہ) اپنے وزیر (پدم راؤ) سے کہہ رہا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے بات کرنا اچھا نہیں ہے۔ میں نے جو کچھ تجھ سے کہا ہے (وہ کیا کہا تھا اشعار کے بیچ میں سے ضائع ہو جانے کے باعث معلوم نہیں کیا جا سکتا) اس پر اچھی طرح غور کر کے مجھے جواب دے۔ اگر تو اپنی خطا بخشوانا چاہتاہے اور بعد میں پچھتانا نہیں چاہتا تو صحیح صحیح جواب دے۔ یہ بات کہہ کر راجہ محل میں چلا گیا، وہ اتنا غصہ میں تھا کہ اس نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ کس نے سلام کیا اور کس نے سلام نہیں کیا۔ غصہ میں بھرا ہوا راجہ محل میں جاکر سنگھاسن پر بیٹھ گیا۔ اس کی اس حالت کو دیکھ کر محل کی رانیاں اور کنیزیں گھبرا گئیں۔ پہر رات گئے تک اس کی یہی حالت رہی، کوئی عورت اسے رام نہ کر سکی۔ جب رانی نے اس کا ہاتھ ڈرتے ڈرتے پکڑا تو راجہ کدم راؤ نے کہا کہ اور باتیں چھوڑو اور یہ بتا کہ ناگن نے کیا چھند کیا تھا۔ کدم راؤ نے رانی سے یہ بھی کہا کہ کسی غیر عورت کے ساتھ برا کام کرنے سے زیادہ برا دنیا میں کوئی اور کام نہیں ہے۔ اسی کا نام دونوں جہان میں روشن ہوتا ہے جو پرائی عورت کو اپنی ماں بہن سمجھتا ہے۔


"پھر گفتن کدم راؤ باناگنی" کی سرخی آتی ہے جو کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے اس لئے کہ قصے کے لحاظ سے گفتن راؤ پدم راؤ باناگنی ہونا چاہئے۔ ناگنی سے بات کر کے پدم راؤ کدم راؤ کو ختم کرنے کے لئے دبے پاؤں جاتا ہے۔ اس نے دیکھا کہ اس کے سرہانے پان پھول رکھے ہیں۔ وہ اس خیال سے اس پر جا بیٹھا کہ جیسے ہی راجہ پھول پان کی طرف رخ کرے گا وہ اسی وقت اسے کاٹ کھائے گا۔ پدم راؤ ابھی اسی خیال میں تھا کہ اتنے میں رانی کدم راؤ کے پاس گئی اور اس کے پاؤں دبانے لگی۔ پاؤں دبانے سے راجہ کی آنکھ کھل گئی۔ وہ ڈری ہوئی تو تھی ہی کہنے لگی کہ ہماری زندگی تمہاری محبت پر قائم ہے۔ اگر راجہ کھل کر بات کرے تو میں اس کا صحیح جواب دوں۔

کدم راؤ نے رانی سے کہا:

سنا تھا کہ عورت بہت فریب جانتی ہے۔ ایسا فریب آج میں نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا۔ میں اس وقت سے بہت حیران و پریشان ہوں۔ بھلا کہاں اچھی ذات کی ناگن اور کہاں ادنی ذات کا سانپ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ ناگن کی کوڑیال سے میل کھا رہی ہے۔ خدا نے مجھے حاکم بنایا ہے۔ میں اس بات کو برداشت نہ کرسکا اور تلوار لے کر اسی وقت سانپ کو مار ڈالا، لیکن ناگن جان بچاکر بھاگ گئی اور میری تلوار سے اس کی دم کٹ گئی۔ یہ واقعہ دیکھ کر مجھے عورت پر بھروسہ نہیں رہا۔


اس واقعہ کے بعد سے اے رانی، مجھے تیرا اعتبار بھی نہیں رہا۔ سونے کی چھری بھی پیٹ میں نہیں ماری جاتی۔ سانپ کا ڈسا ہوا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔ اور دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک مار مار کر پیتا ہے۔

رانی نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ اگر راجا سنے تو میں کچھ عرض کروں۔ جو کچھ تو نے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے۔ اگر میرا کوئی قصور ہے تو میں جان دینے کو تیار ہوں۔ لیکن دوسرے کا قصور مجھ پر نہ ڈالا جائے۔ برائی بھلائی دنیا میں ساتھ ساتھ ہیں۔ چاند اتنا حسین ہے لیکن اس میں بھی داغ ہے۔ کون سا مرد ہے جس کا پاؤں نہیں ڈگمگاتا اور کون سا درخت ہے جو ہوا سے بچ رہتا ہے۔ تمام پتھر ایک قیمت کے نہیں ہوتے۔ سب عورتوں کو ایک جیسا نہیں سمجھنا چاہئے۔ اگر تو اپواس رکھے گا تو رعایا بھی بھوکوں مرے گی اور محل بھی فاقہ کرے گا۔ کیا تو نے نہیں سنا کہ جان خوش تو جہان خوش۔ نہ تیرا کوئی عقلمند بیٹا ہے اور نہ کوئی دوست ہے، آخر تیرا راج کون سنبھالے گا؟ جو کچھ تونے دیکھا وہ گزر چکا اور جو نقش و نام ہیں وہ بھی نہیں رہیں گے۔ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنی چاہئے۔ جس کے بدلے میں بھلائی حاصل ہو۔


کدم راؤ نے کہا:

اے رانی! تو نے شوہر پرستی کی جو بات کہی وہ بالکل سچ ہے لیکن ٹوٹے ہوئے دل کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ٹوٹے ہوئے ہاتھ کو کانپ(پتلی سی بانس کی لکڑی) سے باندھا جاسکتا ہے لیکن ٹوٹے ہوئے دل کو کسی چیز سے بھی سہارا نہیں دیاجا سکتا۔ پاپ اگر میرا باپ بھی کرے تو مجھے پسند نہیں۔ مجھے سکھ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب کسی کو سچائی پر چلتا ہوا دیکھتا ہوں، عورت اسی وقت تک عقلمند رہتی ہے جب تک وہ کسی دوسرے مرد کو نہ دیکھے۔ مرد عورت کے چھل فریب سے واقف نہیں ہے۔ وہ ظاہر میں محبت جتاتی ہے مگر دل میں دشمنی رکھتی ہے۔ اس عورت کا مرجانا بہتر ہے جو اپنے شوہر کے سوا کسی دوسرے مرد کا تختہ مشق بنے۔
رانی نے کدم راؤ کی بات سنی۔ (یہاں تسلسل ٹوٹ جاتا ہے )


کدم راؤ نے پدم راؤ سے کہا کہ:

آج میرا تماشا دیکھ، اس وقت وہاں کدم راؤ اور پدم راؤ کے سوا دوسرا کوئی نہیں تھا۔ کدم راؤ نے اپنے وزیر سے کہا کہ میں دوست اس شخص کو جانتا ہوں کہ جو لالچ کے بغیر دوستی نبھائے۔ تیرا ایک فقرہ بھی میرے لئے سوا لاکھ کے برابر ہے۔ تو سیانا اور عقلمند ہے اس لئے یہ بات اگر میں تجھ سے نہ کہوں تو پھر کس سے کہوں، گنوار آدمی سے بات کہنے کی وہی صورت ہے جیسے پنجرے میں سے ہوا اور چھلنی میں سے پانی نکل جاتا ہے۔

پدم راؤ کدم راؤ کی زبان سے یہ باتیں سن کر خوش ہوا اور کہا کہ اگر راجہ مجھ پر پورا بھروسہ اور اعتماد رکھتا ہے تو میرے ماتھے پر کستوری ملے تاکہ میں اپنے گھرانے میں عزت کے ساتھ واپس جاؤں اور دنیا میں میرا نام روشن ہو، کدم راؤ نے اس کی پیشانی پر کستوری ملی اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ پہلے ناگ کے سر پر پدم نہیں تھا۔ یہ اسی وقت سے پیدا ہوا جب کدم راؤ نے اپنا ہاتھ پدم راؤ کے سر پر کھا۔


پدم راؤ کھڑا ہوا اور راجہ سے عرض کی کہ سنا ہے کل سے آپ فاقہ کشی (اپاس) کرنے والے ہیں اگر آپ ایک دن بھی کسی رنج سے بھوکے رہیں گے تو ملک خراب اور ہیرا نگر(کدم راؤ ہیرا نگر کا راجہ تھا) برباد ہو جائے گا۔ اگر آپ بھوجن کریں گے تو مجھے سکھ ہوگا۔ آج برت رکھنا اچھا نہیں ہے اور جو اس بات کو اچھا کہتا ہے وہ آپ کا دشمن ہے اگر آپ خوشی کے ساتھ کھانا نہیں کھائیں گے تو میں اپنے گھر نہیں جاؤں گا۔

کدم راؤ نے کہا کہ:

اے پدم راؤ تو اگر سچ مانے تو کہوں کہ میں اب تک پردیسیوں کی خدمت سے محروم ہوں۔ حالانکہ ہمیشہ سے ہمارا یہی قاعدہ رہا ہے، ساسان و جم بھی اسی ریت پر چلتے رہے ہیں۔ کسی پردیسی کو لے کر آؤ کہ میں اس کی خدمت کروں اور دان دوں۔

پدم راؤ نے عاجزی سے کہا کہ:

دنیا کے چلنے پھرنے والوں کو اپنے پاس مت بلاؤ کہ یہ آس دے کر نراس کر جاتے ہیں۔ ان لوگوں کی عادتیں خراب ہوتی ہیں۔ میں یہ بات ہمدردی کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔ کدم راؤ یہ بات سن کر بگڑ گیا اور کہا کہ تو مسافروں اور پردیسیوں کو برا کیوں کہتا ہے۔ ان سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میرے سامنے ان کی کیا حقیقت ہے تو اس کی فکر نہ کر اور ایک مسافر کو بلاکر لا۔


پدم راؤ چھت تک اونچا ہوا اور پہر رات تک عاجزی کرتا رہا۔ اس نے بار بار یہی کہا کہ اے راجہ میری بات مان لے۔ یہ لوگ تیرے سامنے تجھے چاند سورج قرار دیتے ہیں لیکن دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔ کسی سادھو کو اپنے پاس نہ بلا۔ جوگی لوگ بغیر شراب اور گوشت کے نہیں رہتے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تجھے بھی اسی راہ پر نہ ڈال دیں۔ اس میں گھڑی بھرکا سکھ ہے لیکن اس کے خمار کا دکھ زیادہ بھاری ہوتا ہے۔

پدم راؤ نے کہا کہ میں ایک عرض اور کرتا ہوں، کدم راؤ نے جواب دیا کہ تیری بات کو اسی طرح چھپاؤں گا جس طرح سمندر میں موتی پوشیدہ ہوتے ہیں۔

پدم راؤ نے کہا ہمیں دنیا سے کیا غرض ہے۔ ہمیں تو صرف آپ سے کام ہے۔ آپ کے سوا ہمیں کون پال سکتا ہے۔

کدم راؤ اس بات سے بہت خوش ہوا اور اپنے وزیر کو بڑا قیمتی لباس عطا کیا۔

کدم راؤ نے کہا کہ پورے خاندان کو بلاکر انہیں خلعت دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، پدم راؤ نے سارے خاندان شاہی کو بلایا اور ہر ایک کو مرتبے کے موافق سرفراز کیا۔ اس کے بعد کدم راؤ نے کہا کہ کسی پردیسی کو بلاکر مہمان داری بھی کرنی چاہئے۔


اہل دربار میں سے ایک نے کہا کہ باہر سے مچھندر کا بیٹا گھورناتھ آیا ہوا ہے۔ بہت بڑا جوگی ہے۔ اور بہت سے علوم سے واقف ہے۔ وہ یقیناً آپ کے دربار کے لائق ہے۔ راجہ نے یہ سن کر جواب دیا کہ اسے فوراً حاضر کیا جائے۔ وہ آدمی اسی وقت گھورناتھ کے پاس گیا اور کہا کہ جلدی چل۔ تجھے راجہ نے طلب کیا ہے۔ گھور ناتھ راجہ کے دربار میں حاضر ہوا تو راجہ نے پوچھا کہ تونے کون کون سے ملک دیکھے ہیں۔ گھورناتھ نے اس بات کے جواب میں بےحد لاف زنی کی اور راجہ کو ایسا مسحور کیا کہ وہ اس کا گرویدہ ہو گیا۔

چند ہی روز میں راجہ کا یہ حال ہوگیا کہ اسے جوگی کے بغیر چین نہ پڑتا تھا۔ جب جوگی نے راجہ سے کہا کہ میں لوہے کو سونا بنا سکتا ہوں تو کدم راؤ نے لوہے کا ڈھیر جمع کردیا جسے اگھورناتھ نے سونا بنا دیا۔ کدم راؤ اس کا اور بھی گرویدہ ہوگیا۔ اب وہ جوگی کے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ اگھور ناتھ نے اس کے بعد راجہ کو "دھنور بید" کی تعلیم دی جسے کدم راؤ نے ایک مہینے میں سیکھ لیا، ادھر رعایا حیران تھی کہ آخر رواجہ نے ایک جوگی کی صحبت کیوں اختیار کرلی ہے۔


ایک دن اگھور ناتھ نے کہا کہ:

اے راجہ! دھنور بید تو معمولی بات ہے میں تو آپ کو "امر بید" بھی سکھا سکتا ہوں۔ مگر مجھے قول دینا ہوگا کہ یہ کسی دوسرے کو آپ نہیں بتائیں گے۔ یہ کہہ کر اگھور ناتھ نے راجہ سے کہا کہ اگر عجائبات دیکھنے ہیں تو ایک جانور لے کر آئے، راجہ محل میں گیا اور وہاں سے ایک طوطا لے کر آیا جسے رانی نے بڑی محبت سے پالا تھا۔ راجا اسے پھل کھلاتا، اپنے ہاتھ میں لئے جوگی کے پاس آیا۔ اگھور ناتھ نے کہا کہ اے راجہ اب اس کا گلا چبا ڈال۔ میں ابھی کرامات دکھاتا ہوں۔

راجہ نے ایسا ہی کیا طوطا مرگیا اور سادھو نے اپنی روح طوطے کے جسم میں داخل کر دی اور اڑ کر راجہ کے ہاتھ پر آبیٹھا۔ طوطے نے کہا راجہ بتا میں کون ہوں؟ کچھ دیر کے بعد وہ پھر اپنے جسم پر واپس آگیا اور طوطا بھی زندہ ہوگیا۔ یہ دیکھ کر راجہ ششدر رہ گیا اور جوگی کا پہلے سے بھی زیادہ گرویدہ ہوگیا، پھر کہا یہ عمل مجھے بھی سکھا دے۔


اگھور ناتھ نے پہلے راجہ سے قول لیا کہ اور پھر اسے "امر بید" سکھا دیا۔ راجہ نے جیسے ہی اس کے منتر سیکھنے شروع کئے محل کا کلس (1) ٹوٹ گیا۔

(1: یہی بدشگونی اس وقت ہوئی تھی جب محمد بن قاسم کی فوجیں راجہ داہر کی فوجوں کا محاصرہ کیے پڑی تھیں کہ ایک تیر سے شہر کے سب سے بڑے مندر کا کلس ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد شہر کے لوگوں کو اپنی شکست کا یقین ہو گیا (جمیل جالبی )

اکھرنات منتر سکھایا رہس
یکایک پڑیا ٹوٹ مندر کلس

لوگوں نے راجہ کدم راؤ سے بہت کہا یہ بدشگونی کی بات ہے مگر راجہ نے پروا نہ کی اور علم سیکھتا رہا۔ جو لوگ غور و فکر کے بغیر کام کرتے ہیں وہ دھن مال راج پاٹ جس چیز کے بھی مالک ہوں گنوا دیتے ہیں۔ جب راجہ نے امر بید بھی سیکھ لیا تو ایک جوگی نے کہا کہ اب اس کا تجربہ کرکے دیکھو۔ چنانچہ جیسے ہی راجہ نے اپنی روح کو طوطے کے جسم میں داخل کیا، اگھور ناتھ جوگی نے اپنی روح کو راجہ کدم راؤ کے جسم میں داخل کر دیا۔ اب راجہ طوطا بن گیا اور جوگی راجہ بن گیا۔

لیکن جوگی کدم راؤ کے روپ میں آکر بہت پچھتایا۔ کیونکہ نہ وہ محلات کی تفصیلات سے واقف تھا اور نہ محل کے آدمیوں میں سے کسی کو جانتا تھا۔ آخر اسے ایک تدبیر سوجھی۔ اس نے دربار عام کیا اور اس طرح سب سے متعارف ہونا چاہا۔


ایک دن پدم راؤ نے راجہ (جو دراصل جوگی تھا) سے پوچھا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ جب تک اکھر ناتھ آپ کے دربار میں نہیں تھا راج پاٹ کا سب کام ٹھیک چل رہا تھا۔ اب یہ سب کام آپ نے چھوڑ رکھا ہے۔ راجہ نے کہا کہ جوگی نے میرے ساتھ بڑا دھوکا کیا ہے۔ اور میں نے اسے مار ڈالا ہے۔ دیکھ اس کی لاش ہے۔ لاش کو دیکھ کر لوگ حیران ہوئے کہ آسمان میں تھلی لگانے والا جوگی کیسے مر گیا۔

جوگی نے سوچا ہوگا کہ اگر راجہ جو طوطے کے بھیس میں ہے زندہ رہا تو پھر اپنے روپ میں آسکتا ہے اس لئے اسے مروا دینا چاہئے۔ یہ سوچ کر ایک دن راجہ نے پدم راؤ سے کہا کہ طوطا مجھے برا بھلا کہہ کر گیا ہے۔ منادی کرا دو کہ جو اسے پکڑ کر لائے گا اسے انعام و اکرام سے سرفراز کیاجائے گا۔


ڈھنڈور پھرا دے گلیاں کو چریاں
کہ راواں گیا راؤ دے گالیاں
کہ جے پار دی کوئی آنے تسے
ستتر (77) نگر دان دیوں اسے

پدم راؤ نے سمجھایا کہ اس طرح بدنامی ہوگی۔ چونکہ کدم راؤ کے روپ میں جوگی نہ محلات کو جانتا تھا اور نہ کسی کنیز باندی کو پہچانتا تھا نہ اسے صحیح طریقہ سے بات کرنے کی تمیز تھی۔ اس لئے جب وزیر نے بار بار اس سے اس کی وجہ دریافت کی تو وہ بہت ناراض ہوا اور تلوار لے کر اسے مارنے کے لئے دوڑا۔ لیکن پدم راؤ اس کا وار بچا گیا اور اسے اپنی گرفت میں لے کر اس کی نگرانی شروع کردی۔ وہ ابھی تک اسے کدم راؤ ہی سمجھے ہوئے تھا حالانکہ وہ کدم راؤ کے بھیس میں اگھور ناتھ تھا۔

اب اصلی راجہ کدم راؤ کا حال سنئے۔

وہ طوطا بنا ہوا اڑتا رہا اور اپنی جان بچاتا اِدھر ادھر مارا مار پھرتا رہا۔ کبھی شکاری پرندوں سے اپنی جان بچاتا۔ کبھی دھوپ کی شدت سے بچنے کے لئے ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر جاتا۔ ایک دن وہ طوطوں کا ایک غول دیکھ کر ان کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ اپنے محل پر پڑی اور وہان اس نے پدم راؤ کو بھی دیکھا۔ یہ دیکھ کر وہ نیچے اترا اور وہاں گیا جہاں اس کا وزیر پدم راؤ تھا۔ کدم راؤ طوطے نے پدم راؤ سے بات کی اور کہا کہ:
اے پدم راؤ! کیا تو نے مجھے پہچانا۔


پدم راؤ نے انکار کیا۔ بڑے لیت و لعل اور باہمی گفتگو کے بعد کدم راؤ نے جو طوطے کے روپ میں تھا۔ پدم راؤ کو وہ واقعہ یاد دلایا جب ان دونوں کے سوا وہاں کوئی تیسرا نہیں تھا۔ اس پر پدم راؤ نے پوچھا:
کدم راؤ توں کیوں ہوا، کھول کہہ

اس کے بعد طوطے نے سارا واقعہ جوگی کے دھوکا دینے اور اپنے طوطا بن جانے کا سنایا۔ یہ سن کر پدم راؤ نے کہا۔

تو میں ساچ میرا گسائیں کدم
پدم راؤ تجہ پاد کیرا پدم

کہ تو سچ مچ میرا آقا کدم راؤ ہے، اور میں پدم راؤ تیرے پیر کی خاک ہوں۔ اور کہا کہ اے پنکھ راؤ! مجھے زبان دے کہ یہ بات جو میرے تیرے درمیان ہوئی ہے اسے تو ویسے ہی چھپا کر رکھے گا جیسے سیپی موتی کو چھپاکر رکھتی ہے۔ کدم راؤ نے زبان دی، پھر پدم راؤ نے جوگی کی ساری باتیں بتائیں۔ اس کے بعد رات کے وقت پدم راؤ چپکے سے سیدھا اس جگہ گیا جہاں جوگی کدم راؤ کے روپ میں سو رہا تھا۔

چلیا ساندھرے ساندھرے ناگ راؤ
کہ جیوں نیرسو دھن چلے اپ بھاؤ


اور سوتے میں اس کے پاؤں کی انگلی کاٹ لیا۔ کاٹتے ہی زہر اس کے جسم میں چڑھنے لگا۔ اور اگھور ناتھ کی روح کدم راؤ کے جسم کو چھوڑ کر پرواز کر گئی۔ اس کے بعد وہ دوڑ کر طوطے کے پاس آیا، طوطا اڑ کر وہاں آیا اور پھر "امر بید" کی مدد سے وہ دوبارہ اپنے جسم میں داخل ہو گیا۔ پدم راؤ نے راجہ کو یہ بھی بتایا کہ جوگی ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھا۔ نہ محل میں گیا اور نہ رانی سے ملا۔ یہ بات سن کر کدم راؤ بہت خوش ہوا، خوش ہوکر اس نے پردھان پدم راؤ کی عزت افزائی کی۔ اور حکم دیا کہ ساری دنیا کو دان اور خیرات دو۔ ہر طرف خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔
طبل ڈھول بر غوں نفیراں اٹھے

جشن منانے کا یہ سلسلہ چھ مہینے تک جاری رہا۔ پھر راجہ اپنے محل میں گیا اور سنگھاسن پر بیٹھا۔ اس کے بعد کا حصہ مخطوطے میں نہیں ہے، ضائع ہو گیا۔

یہ خلاصہ "مثنوی کدم راؤ پدم راؤ" کا۔
کدم راؤ انسان ہے، اور ہیرا نگر کا راجہ ہے جیسا کہ مثنوی کے شعر 282 اور 822 سے ظاہر ہوتاہے۔

رہیا بھوک دن دیس توں گھنٹہ پر
تل اوپر ہوا لوک ہیرا نگر
اکایک کہوں کیوں اپس نانوہوں
کدم راؤ ہیرا نگر کا سوہوں


پدم راؤ اس کا وزیر ہے جو "ناگ راجہ" ہے۔ یہ بات بار بار مثنوی میں آتی ہے۔ پدم راؤ ارادہ کرتا ہے کہ کدم راؤ کو مار ڈالے تو یہ شعر آتے ہیں

چلیا ساندرے ساندرے ناگ وات
سلادن کدم راؤ تب ناگ جات
بچارن کیا جیو سوں ناگ راؤ
کہ جب پھول لے راؤ تب دیوں گھاو

ایک اور جگہ جب کدم راؤ خوش ہوتا ہے تو پدم راؤ کہتا ہے کہ اے راجہ میرے سر پر کستوری مل تاکہ میں عزت سے گھر جاؤں اور میرے سر پر ہاتھ پھیر۔ جیسے ہی کدم راؤ نے ہاتھ پھیرا پدم راؤ کے سر پر پدم ظاہر ہوگیا۔ اس سے پہلے ناگ کے سر پر پدم نہیں تھا

نتھا آدتھیں ناگ کے سر پدم
تدھاں تمہیں ہوا جددھر یا ہت کدم

پدم راؤ بہت لمبا ناگ تھا۔ جب کدم راؤ اصرار کرتا ہے کہ وہ مسافروں او ر جوگیوں کی خدمت کرے گا تو پدم راؤ اتنا اونچا اٹھتا ہے کہ چھت سے لگ جاتا ہے۔

پدم راؤ اوبھا ہوا چھات لگ
بناتی گئی تن پہر رات لگ
کبیاراؤ دھرناگ را وہ ڈروں
کہ راجہ راؤ انگھیں بناتی کروں


ایک اور جگہ جب پدم راؤ کو معلوم ہوا کہ طوطا تو اصل میں کدم راؤ ہے تو اس نے پھن زمین پر بچھا دیا۔

سنیا راؤ یہ بول اکھوڑ کر
بچھا دیا پدم راؤ پھن کیہہ پر

"عذر خواہی کردن پدم باکدم" کے عنوان کے تحت یہ شعر پڑھیے۔
پدم راؤ اٹھیا مہا کردبن
کنڈل پھیرا دبھا ہوا سروبن
کھڑا تیر ہو جیوں رہیا تھا اڈھل
کماں ہو پڑیا پنکھ کے پائے تل

غرض کہ یہ بات مثنوی سے بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ پدم راؤ ناگ راجہ تھا اور کدم راؤ کا وزیر تھا۔ ایسی کہانیاں جن میں انسان کے وزیر یا مشیر جانور ہو یا چرند پرند ہوتے تھے ہم نے آپ نے سب نے سنی اور پڑھی ہیں۔ اور یہ بھی ایسی ہی کہانیوں میں سے ایک ہے۔

مماثلات

حضرت سلیمانؑ نہ صرف جن و انس کے بادشاہ تھے بلکہ چرند پرند بھی ان کے مطیع تھے۔ الف لیلہ میں بھی جانوروں کے قصے اس انداز سے آتے ہیں کہ وہ انسان معلوم ہوتے ہیں۔ انوار سہیلی میں بھی جانور انسان کی طرح چلتے پھرتے، بولتے چالتے نظر آتے ہیں۔ تمثیلی کہانیاں عام طور پر اسی انداز میں مشرق و مغرب میں ملتی ہیں۔ خارجی روح کا قصہ مختلف صورتوں میں تو بر صغیر سے لے کر مصیبر یڈیز تک آریائی نسل کی تمام قوموں میں ملتا ہے۔ عقلی مذاہب کے آنے سے پہلے جادو اور سحر ہی انسان کے لئے مذہب کا درجہ رکھتے تھے۔ جادو یا سحر کے اثرات ساری مقدس کتابوں میں نظر آتے ہیں۔ سحر سامری، معجزات اور عصائے موسوی سب ذہن انسانی کے اسی انداز فکر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جادو مذہب اور پھر سائنس، ان تین درجوں سے انسان نے اب تک سفر ارتقاء طے کیا ہے۔


روح کی تبدیلی اور ایک روپ سے دوسرے روپ میں منتقل ہو جانے کے قصے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب انسان طلسم، سحر اور جادو پر ایمان رکھتا تھا اور اس معاشرے میں جادوگر کا وہی درجہ ہوتا تھا جو آج ایک عالم، یا ڈاکٹر کا ہوتا ہے۔ سر جیمس فرینزر نے اس موضوع پر جو مواد جمع کیا ہے وہ قابل توجہ ہے۔

ہیڈا کے طلسم گر کے اوزاروں میں ایک ہڈی شامل ہوتی ہے جس میں وہ رخصت ہونے والے روھوں کو بند کرلیتا ہے اور جن لوگوں کے جسموں سے وہ نکلی ہوں ان میں واپس ڈال کر انہیں دوبارہ زندہ کردیتا ہے۔ روحوں سے متعلق ان تصورات نے جب قصہ کہانیوں کے روپ دھارے تو وہاں بھی یہی طلسم نظر آنے لگے۔ قصہ کہانیاں کسی قوم کے عقیدہ اور فکر کا اظہار ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں سر جیمس فرینزر نے چند مثالیں دی ہیں۔


ایک ہندوستانی قصہ میں ایک راجہ اپنی روح کو ایک برہمن کی لاش میں منتقل کردیتا ہے اور خود اس کے خالی جسم میں ایک کبڑا اپنی روح کو داخل کردیتا ہے۔ اس طرح کبڑا راجہ اور راجہ برہمن بن جاتا ہے۔ تاہم کبڑے کو اس بات پر آمادہ کیاجاتا ہے کہ وہ ایک مرے ہوئے طوطے میں اپنی روح ڈال کر اپنی مہارت کا ثبوت دے۔ ادھر راجہ جو موقع کی تاک میں رہتا ہے اپنے جسم پر دوبارہ قبضہ کرلیتا ہے۔

اسی قسم کی ایک کہانی فروعی اختلاف کے ساتھ ملایا والوں کے ہاں بھی ملتی ہے۔ کسی بادشاہ نے بلا کسی وجہ کے اپنی روح ایک بندر میں منتقل کردی۔ اس پر چالاک وزیر نے جھٹ اپنی روح بادشاہ کے جسم میں پہنچا دی اور اس طرح سلطنت اور ملکہ پر قبضہ کرلیا۔ اس دوران میں اصلی بادشاہ بندر کے روپ میں بڑا غم کھاتا رہا۔ لیکن ایک دن نقلی بادشاہ جو جوا کھیلا کرتا تھا، مینڈھے لڑوارہا تھا کہ وہ مینڈھا جس پر اس نے بازی لگائی تھی مارا گیا۔ اس میں جان ڈالنے کی بہتری کوششیں کی گئیں لیکن ایک بھی کارگر نہ ہوئی، تاآنکہ بنے ہوئے بادشاہ نے ایک سچے کھلاڑی کی طرح اپنی جان مینڈھے میں ڈال دی اور وہ جی اٹھا۔ اتنے میں اصل بادشاہ جو موقع کی تلاش میں تھا بڑی ہوشیاری سے اپنے پرانے جسم میں منتقل ہوگیا جسے وزیر بے سوچے سمجھے چھوڑ گیا تھا۔ اس طرح بادشاہ تو اپنے اصلی روپ میں آگیا اور غاصب وزیر مینڈھا بنا کیفر کردار کو پہنچ گیا۔


ایسا ہی ہرموٹمس کلے زدمنے نامی ایک شخص کا یونانی قصہ ہے جس کی روح اپنے جسم کو چھوڑ کر دو ر دور کی خبریں لاتی تھی جنہیں وہ اپنے دوستوں کو سنایا کرتا۔ ایک دن اتفاق سے جب اس کی روح گھومتی پھررہی تھی دشمنوں نے اس کے جسم پر قبضہ کرلیا۔ اور اسے جلا ڈالا۔
مثنوی گلزار نسیم میں بھی تبدیلی جسم کی مثال موجود ہے۔ اپی لی لیس (ALELIUS) کا زریں گدھا (GOLDEN ASS) یوروپ کا پہلا طویل قصہ کہاجاتا ہے۔ یہ قصہ یونان کے آخری دور سے تعلق رکھتا ہے، اس میں بھی ایک لڑکی کی روح ایک گدھے میں ڈال دی جاتی ہے اور وہ اس روپ میں مارا مارا پھرتا ہے۔

مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کا قصہ بھی فروسی تبدیلی کے ساتھ ہندوستان اور ملایا کے ان ہی قصوں سے مماثل ہے اور مزاجا اسی دورک ے تصورات کا حامل ہے۔ جب انسان جادو اور سحر پر ایمان رکھتا تھا، دھنور بید اور امر بید جو جوگی نے کدم راؤ کو سکھائے ہیں جادو کے انتہائی مدارج ہیں اور نقل روح اسی کا ایک حصہ ہے۔ اسی وجہ سے پردیسیوں کے ساتھ میل جول سے گریز کی احتیاط بھی کی جاتی تھی۔اس دور کے انسان کا خیال تھا کہ پردیسی عام طو پر جادوگر ہوتے ہیں۔ اسی لئے بادشاہوں کو پردیسیوں سے دور رکھاجاتا تھا۔ بادشاہ چونکہ اپنی قوم کا محافظ ہوتا تھا اس لئے اس کی حفاظت ساری قوم سے زیادہ ضروری سمجھی جاتی تھی۔
اس دور کے تصورات میں جو چیز سب سے زیادہ خطرناک ہو سکتی تھی وہ جادو یا سفلی علم تھا۔ کدم راؤ پردیسیوں سے ملنے پر اصرارکرتا ہے۔ پدم راؤ اسے منع کرتا ہے اور سمجھاتا ہے کہ پردیسی اچھے نہیں ہوتے۔ یہ سامنے تجھے چاند سورج قرار دیتے ہیں لیکن ان کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔ اور آخر میں ہوا بھی یہی کہ بادشاہ منع کرنے کے باوجود جوگی سے ملا اور جوگی نے اسے اپنا گرویدہ بناکر طوطا بنادیا اور خود بادشاہ بن کر تخت پر بیٹھ گیا۔


اجنبیوں کے مضر اثرات کے خلاف پیش بندی اس زمانہ میں اسی لئے ضروری سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ جب وہ سفیر جنہیں مشرقی روما کے شہنشاہ جسٹن دوم نے ترکوں کے ساتھ صلح کے شرائط طے کرنے کے لئے بھیجا تھا، اپنی منزل مقصود پر پہنچے تو انہیں لینے کے لیے شامن (آئمہ مذہب) وہاں موجود تھے، جنہوں نے ان سفیروں کے مضر اثرات دور کرنے کے لئے باضابطہ ایک رسم تزکیہ ادا کی۔ جیمس فریزر نے لکھا ہے کہ ایک سیاح جس نے وسطی بورنیو کا سفر کیا تھا بیان کیا کہ آس پاس بسنے والی خبیث روحوں سے زیادہ لوگ ان روحوں سے ڈرتے ہیں جو دور دراز ملکوں سے مسافروں کے ہمراہ آتی ہیں۔ یہ جادو کے دور کے انسان کا ایک عام رویہ اور طرز فکر تھا اور وہ واقعی ان پر اسی طرح ایمان رکھتا تھا جیسا آج کا انسان اپنے عقلی مذہب و عقائد پررکھتا ہے۔
کدم راؤ پدم راؤ کے قصے کی بنیاد بھی انسان کے اسی فکری و تہذیبی مزاج پر قائم ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے