Ticker

6/recent/ticker-posts

صحافت ایک مشن ہے، اس کا سیدھا رشتہ سماج سے: وجے کمار چودھری

صحافت ایک مشن ہے، اس کا سیدھا رشتہ سماج سے: وجے کمار چودھری

بھارت کے تعمیر نو میں اردو اخبارات کا اہم رول : شرون کمار

اردو پر ہی نہیں بلکہ سبھی زبانوں کے اخبارات کو بحران کا سامنا:شیوانند تیواری

اردو صحافت کے دوسو سال مکمل ہونے پر اردومیڈیافورم بہار کے زیراہتمام سیمینار، گفتگوو مشاعرہ کا انعقاد

sahafat l-ek-mission-hai

پٹنہ، صحافت ایک مشن ہے یہ منافع خوری کی چیز نہیں ہے۔ اس کا رشتہ سیدھے سماج سے ہوتا ہے۔ عام لوگوں کا بھلا جس میں ہو، سماج کے مسئلہ کو حکومت کی دہلیز تک پہنچانے اور حکومت کی پالیسیوں کو عوام تک پہنچانے کا نام صحافت ہے۔ مذکورہ باتیں وزیرتعلیم جناب وجے کمار چودھری نے اردو صحافت کے دو سوسال مکمل ہونے کے موقع پر آج اردو میڈیا فورم کے زیراہتمام بہار اردو اکادمی میں منعقد عظیم الشان تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیرموصوف نے کہا کہ صحافت میں غلط چیزوں کی مذمت ہونی چاہئے اور صحیح چیزوں کی ستائش ہونی چاہئے۔ اس سے سماج میں تبدیلی آتی ہے۔ آج سوشل میڈیا کے آجانے سے بڑا چیلنج پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ صحافت صرف حقیقت بیان کرتا ہے اور وہ عوام کو ڈائرکشن بھی دیتا ہے کہ اب کیا ہونا چاہئے۔ جبکہ سوشل میڈیا بغیر تحقیق کے صرف انفارمیشن دینے کا کام کرتا ہے۔ جس سے کبھی کبھی حالات بگڑ جاتے ہیں۔ باتیں بگڑتی تب ہیں جب میڈیا اہل کار خبریں پہنچانا چھوڑ خبریں فروخت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اور جب آپ کا نشانہ فروخت کرنا ہوجائے تو وہ سیدھے منافع سے جڑ جاتا ہے جس سے خبریں پراگندہ ہوتی ہیں اور آج کل تو الیکٹرانک میڈیا پر باضابطہ دانشور حضرات اسپانسرڈ بحث کرتے ہیں۔ جس سے روشن خیال لوگوں کا نقصان ہوتا ہے انہوںنے کہا کہ آج جب اردو میڈیا فورم دوسوسالہ جشن اردو صحافت منارہی ہے تو میں یہ عرض کروں کہ آج سے دو سو سال قبل کلکتہ سے اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما نکلا تھا جس کے مدیر اور مالک ہریہردت اور سدا سکھ دونوں ہندوتھے۔



انہوں نے کہا کہ اخبار صرف اخبارنہیں ہوتابلکہ صحافت ادب کی بنیاد ہوتی ہے جو ادب تہذیب سے جڑ جائے وہ سماج کو روشنی دکھانے کا کام کرتی ہے۔ سماج جب بے سمت ہوجاتا ہے تو ادب اس کو راستہ دکھاتی ہے اور ادب کی بنیاد صحافت ہے۔ انہوںنے خورشید اکبر کے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ یہ افواہ غلط ہے کہ ہائی اسکولوں سے اردو کی لازمیت ختم ہوگئی ہے اس لئے اردو کی لازمیت کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جس اسکول میں بھی اردو کے طلباءہوں گے وہاں اردو ٹیچر کو مامور کرنے کا کام کیا جائے گا۔ وزیرموصوف نے کہا کہ نتیش کمار حکومت اس ریاست کے عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے مسلسل کام کررہی ہے۔ اور ایمانداری سے کام کررہی ہے۔ خصوصا اقلیتی طبقہ کے مسائل کو حل کرنے کا بھی کام ہورہا ہے۔ باوجود اس کے اگر آپ لوگوںکو کسی بھی محکمہ سے شکایت ہے تو مجھ سے براہ راست مل کر مسائل رکھیں ۔ اس کا حل کیا جائے گا۔


sahafat l-ek-mission-hai

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیہی ترقیات کے وزیرجناب شرون کمار نے کہا کہ بھارت کے تعمیر نو میں اردو اخبارات کا اہم رول رہا ہے۔ مولانا محمدعلی، جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، سر سیداحمد خان وغیرہ نے اپنے اخبارات کے ذریعہ آزادی کی جنگ لڑی اور عوام کو بیدار کیا۔ جس سے بھارت کو آزادی ملنے میں مدد ملی۔ انہوںنے کہا کہ جس طرح ہماری حکومت نے دیگر شعبوں میں کام کیا اسی طرح ہم لوگ اردو کی فلاح و بہبود کے لئے بھی کام کررہے ہیں۔ کیونکہ اردو بہت میٹھی اور شیریں زبان ہے۔ یہ ہندوستان کی زبان ہے بہار کے لوگ اپنی زبان سے بہت محبت کرتے ہیں۔بہار کی مٹی میں اتنی تاثیر ہے اگر بہار کے لوگوں کا امتحان آسمان پر بھی ہوجائے تو کامیاب ہو جائیں گے۔ انہوںنے کہا کہ وزیراعلی نتیش کمار صرف ووٹ کی سیاست نہیں کرتے وہ سب کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ اردو صحافت کے لئے جو لوگ بھی آگے چل رہے ہیں ان کے مسائل کو حل کیا جائے گا۔


راشٹریہ جنتا دل کے نائب صدر جناب شیوانند تیواری نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج صرف اردو پر ہی نہیں بلکہ سبھی زبانوں کے اخبارات کو بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بد قسمتی سے اردو اور ہندی کا بٹوارہ ہوگیا ۔ اردو کو جب سے مسلمانوں کی زبان سمجھا جانے لگا۔ اسی وقت سے اردو صحافت بحران کا شکار ہوگئی۔ آج کل تو بہت سہولیات ہیں۔ لیکن ایک زمانہ تھا جب گاندھی جی چمپارن آئے تھے تو اس وقت خبروں کی ترسیل میں کافی دشواریاں تھیں۔ پھر بھی گاندھی کو گاندھی بنانے کا کام اردو صحافت نے کیا تھا۔

صدارتی خطبہ میں مفتی ثناءالہدی قاسمی نے کہا کہ اردومیڈیا فورم کی جانب سے دو سو سالہ جشن میں جو آوازیں اٹھی ہیں اسے حل کیا جائے گا۔ ہمیں خوشی ہے کہ فورم کی جانب سے جو آواز اٹھی ہے اس کو قبول کیا گیا۔ انہوںنے فورم کے تمام ارکان کا شکریہ ادا کیا کہ کورونا اور نامساعد حالات کے باوجود پروگرام کو منعقد کرنے میں کامیابی حاصل کی۔


اردو میڈیافورم کے سرپرست اشرف فرید نے اردو صحافت کا منظرنامہ پیش کیا اور کہا کہ آج اردو اخبار نکالنا بہت ہی مشکل کام ہے ۔ اقتصادی پریشانیوں کی وجہ سے کئی اخبارات بند ہوگئے ہیں۔ لہذا انہوںنے اس جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔

جلسہ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور کنہہ مشق شاعر ناشاد اورنگ آبادی نے مہمانوں کے لئے استقبالیہ نظم پڑھی۔ نظامت کے فرائض اردو میڈیا فورم کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر ریحان غنی بحسن خوبی انجام دیتے ہوئے کہا کہ اگر اردو اخبارات میں بھی سلیقے سے رپورٹنگ کی جائے اور ایمانداری سے چیزیں رکھی جائیں تو حکومت کی توجہ مبذول ہوسکتی ہے۔ لہذا حکومت پر الزام لگانے کے بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ انہوںنے اردو، عربی، فارسی کے پروفیسروں کی بحالی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اردو اخبار کی جو رپورٹنگ کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ اس موقع پر صحافت پر ڈاکٹر ذاکر حسین کی ایک ضخیم کتاب کا اجراءکیا گیا۔


اس موقع پر شاعری اور اردو صحافت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پٹنہ کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کہا کہ شاعری اور صحافت میں بے حد گہرا رشتہ ہے۔ اگر یہ دونوں جڑواں بہنیں نہیں ہیں تو سہیلی ضرور ہیں۔ اور دونوں ایک دوسرے کی معاون ہیں۔ اگر شاعر اپنی مقبولیت کے لئے اخبار کا سہارالیتا ہے تو وہ عوامی بن جاتا ہے اور اخبارات بھی شہرت کا سبب بنتے ہیں۔

تقریب سے خطاب کرنے والوں میں مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلرپروفیسر توقیر عالم، معمر صحافی محمد مظاہرالدین ایڈوکیٹ کے نام قابل ذکر ہیں۔

شکریہ کی تجویز اردومیڈیا فورم کے سکریٹری ڈاکٹرانوارالہدی نے پیش کی۔ اس موقع پر اردو میڈیا فورم کے نائب صدر ڈاکٹر اظہاراحمد، ڈاکٹر سیدشہبازعالم، سکریٹری اسحاق اثر، کنوینر رابطہ کمیٹی نواب عتیق الزماں، ضیاءالحسن، میڈیا کمیٹی کے کنوینر ساجد پرویز، انواراللہ، مبین الہدی، جاوید احمدنے پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔


پروگرام میں شرکت کرنے والی اہم شخصیتوں میں انوارالحسن وسطوی، کلیم اشرف، شہنواز عطا، آفتاب احمد، راجیش کمار، محمد حسنین، محمد نعمت اللہ، اشرف استھانوی، سید مسعودالرحمان، ڈاکٹر اسلم جاوداں، ڈاکٹر عبدالواحد انصار، ڈاکٹر مکرم حسین ندوی، ڈاکٹر اشرف النبی قیصر، شاہ فیض الرحمان، کاشف رضا، کاشف احمد، نوشاداحمد، وغیر ہ کے نام قابل ذکرہیں۔

دوسرے اجلاس میں مشاعرہ کا انعقادکیا گیا جس میںپروفیسر اعجاز علی ارشد، اثرفریدی، افتخار عاکف، ناشاد اورنگ آبادی، معصومہ خاتون، نکہت آرا، معین گریڈیہوی، بے نام گیلانی ندیم جعفری، ڈاکٹر شمع یاسمین نازاں، ڈاکٹر نسیم فرحانہ نے اپنی شاعری پیش کی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے