تمارے سر کی ترکی ٹوپیاں کیا ہوا باشا؟ ایک نظم از سنگانی مشتاق، ونیام آبادی
کیا ہوئیں باشا
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
تمھارے سر کی تُرکی ٹوپیاں وہ کیا ہوئیں باشا
بڑے رُومال، اُجلی لُنگیاں وہ کیا ہوئیں باشا
چبوترے جو کبھی پہچان تھے اچھے مکانوں کے
بڑے لوگوں کی اُجلی داڑھیاں وہ کیا ہوئیں باشا
وہ اُجلی چادریں اور کالے بُرقعے سیدھے سادے سے
اور اُن میں سمٹی سمٹی بیبیاں وہ کیا ہوئیں باشا
بڑوں سے بات کرتے وقت سر کو ڈھانپ لیتی تھیں
حیا پیکر ، مثالی بیٹیاں وہ کیا ہوئیں باشا
بروز عید جانا عید گاہ کو بیل گاڑی میں
چونّی اور اٹھنّی عیدیاں وہ کیا ہوئیں باشا
وہ مٹی کی پلیٹوں قابوں میں میلاد کی دعوت
مہکتے دالچے بریانیاں وہ کیا ہوئیں باشا
سیاست دوغلا پن سب کے لہجوں سے جھلکتا ہے
شہر کی بھولی بھالی ہستیاں وہ کیا ہوئیں باشا
جسے دیکھو لگا ہے چاپلوسی میں امیروں کی
حمیّت، حوصلے، بے باکیاں وہ کیا ہوئیں باشا
سمجھتی تھیں پڑھانے کو عبادت سے بھی افضل جو
رفیقی ؔ سیدھی سادی ہستیاں وہ کیا ہوئیں باشا
0 تبصرے