Ticker

6/recent/ticker-posts

عید کی نماز کالی پٹی باندھ کر Eid Ki Namaz Kali Patti Bandhkar

عید کی نماز کالی پٹی باندھ کر


تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

یوٹیوب چینل نیوز میکس پر ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب صاحب مسلمانوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ بطور احتجاج بازو پر کالی پٹیاں باندھ کر عید کی نماز پڑھیں، تاکہ ملک و بیرون کی توجہ بھارتی مسلمانوں کی بے بسی پر مبذول کرائی جاسکے۔

محمد ادیب صاحب کی مذکورہ بات پر ابھی تک کسی قابلِ ذکر عالم قائد یا کسی تنظیم کے صدر نے کوئی تائیدی یا تردیدی بیان نہیں دیا۔ ملت کا ایک معزز اور ہمدرد انسان کوئی رائے دے اور علماء و قائدین سے تأیید چاہے تو ضروری ہوجاتا ہے کہ اس کی بات پر غوروخوض کیا جائے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ نماز —جوکہ ایک خالص عبادت ہے — کو بطور احتجاج استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اس سوال کا صحیح جواب تو حضرات مفتیان کرام اور ماہر شریعت حضرات ہی دے سکتے ہیں مگر مسئلے کی فقہی گہرائی میں جانے سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ جب ہمارے علماء کرام نے سیکولرازم — جو کہ ایک غیر اسلامی نظریہ ہے — کی حمایت کی ہے تو اس کے ضمن میں اس قسم کی چیزیں از خود جواز و عدم جواز کی بنیادیں کھو دیتی ہیں اور اصل بنیاد خالص نفع و نقصان بن جاتا ہے۔

ہمارے یہاں مسئلہ کریڈٹ کا ہے، کریڈٹ سب کو چاہیے کرنا کچھ نا پڑے، نا حکومت کی سختیاں برداشت کرنی پڑیں ناعوام کی تنقید، بغیر کچھ کرے دھرے ہی ”قائد اعظم“ بن جائیں۔ یہی رائے اگر کسی حضرت کی ہوتی تو اس کی حمایت و مخالفت کا سلسلہ چل نکلتا۔ میری رائے ہے کہ ”بطور احتجاج عید کی نماز کالی پٹیاں باندھ کر پڑھنا“ کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہے، عید کے موقع پر جہاں پوری امت مسلمہ نماز عید ادا کرے گی وہاں بھارتی مسلمان پرامن اور خاموش احتجاج بھی کریں تو اس میں کیا برائی ہے ؟ جس طرح سے حکومت ظلم پے ظلم کیے جارہی ہے اور یکطرفہ کارروائی کررہی ہے، جس طرح بھارت میں نسل کشی کے امکانات بڑھ رہے ہیں، عدالتوں سے زیادہ حکومتی غنڈے فیصلے کررہے ہیں، ملک کا اجتماعی ضمیر پراگندہ ہوچکا ہے، آئے دن مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی کال دی جارہی ہے، ان چیزوں کو دیکھ کر خاموش رہنا صبر کی علامت نہیں بلکہ ڈر اور خوف کی پہچان ہے۔

ہاں یہ اندیشہ اپنی جگہ درست ہے کہ ہمارا یہ پرامن اور خاموش احتجاج کہیں تشدد پر نہ اتر آئے ؟ اس کے لیے ائمہ وخطیب صاحبان کو پابند کیا جائے کہ ہمارا یہ احتجاج ایک ”خاموش اور پرامن احتجاج“ ہے صرف کالی پٹی باندھیں اور بس، عید گاہ اور مساجد میں احتجاج کے تعلق سے کوئی بات ہی نہ کی جائے صدقۂ فطر وغیرہ پر بات کی جائے، دوسرے کسی حساس موضوع کو چھیڑا ہی نہ جائے۔ گلیوں کے چھٹ بھیا نیتاوں کو کنٹرول کیا جائے بلکہ ان کے ہاتھ میں ہرگز ہرگز کمان نہ دی جائے۔ اوپر مذکورہ تمام تجاویز میری انفرادی رائے ہیں میں محترم قائدین سے دست بستہ درخواست کرونگا کہ وہ اس رائے پر غور وفکر کریں، اگر بہتر ہوتو مزید شرائط و ضوابط مرتب کرکے باقاعدہ اپنے لیٹر پیڑ کے ذریعہ اعلان کریں پلاننگ بنائیں، کوشش کریں کہ پورے ملک میں ایک ساتھ پرامن اور خاموش احتجاج ہو، اگر پورے ملک ممکن نہ ہو تو کچھ شہروں میں تو ہو ہی جائے۔

نوٹ : یہ میری انفرادی رائے ہے میں تمام مسلمانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ قائدین کے فیصلوں کا انتظار کریں اور ان ہی کے فیصلوں پر راضی رہیں، تنہا کوئی قدم نہ اٹھائیں، اچھی طرح سمجھ لیں کہ چار لوٹوں سے سیلاب نہیں آتا۔

24/ اپریل 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے