Ticker

6/recent/ticker-posts

شب قدر ایک جائزہ : روحانی و نورانی کیفیت والی رات

شب قدر ایک جائزہ : روحانی و نورانی کیفیت والی رات

مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ

7061674542

یوں تو رمضان المبارک کا ہر لمحہ گم کردہ انسانیت کو سیدھا راستہ دکھانے اور کور چشموں کی آنکھیں کھولنے کیلئے تازیانہ کا درجہ رکھتا ہے، البتہ رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات"" شب قدر"" ہے یہ رات خاص طور پر روحانی و نورانی کیفیت کے ساتھ لوگوں پر طاری ہوتی ہے جس میں بندگان خدا اپنے مالک حقیقی کے ساتھ رشتہ جوڑنے میں پورے ذوق و شوق کے ساتھ دربار الہی میں حاضر رہتے ہیں اور اپنے مالک حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہونے میں ان کو عجیب لطف محسوس ہوتا ہے، اس رات میں رب کریم کے دربار عفو و کرم میں آہ و بکا گریہ و زاری توبہ و استغفار میں ایمان والوں کا پر کیف سماں بندھ جاتا ہے، اور کئے گئے اعمال کی تاثیر خوابیدہ روح میں خالق و مالک کی محبت پیدا کرنے لگتی ہے اور توبہ و استغفار و دیگر اعمال صالحہ کی پاکیزگی و بلند کرداری کے نیک اثرات دیکھتے ہی دیکھتے مرتب ہونے لگتے ہیں اور انسان اطاعت و فرمانبرداری کی سرمستیوں سے سرشار ہوکر اپنے رب کریم کے دربار عالی میں کبھی نماز تو کبھی تلاوت اور کبھی ذکرو اذکار اور کبھی دعا تو کبھی ندامت کے آنسو بہاکر اپنے خالق کی خوشنودی کی تلاش میں رات کی تاریکیوں میں اپنے آپ کو مصروف رکھتا ہے، گویا ساجد و مسجود، عابد اور معبود کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہونے لگتی ہیں اور انسانی زندگی میں ایک عظیم انقلاب پیدا کرنے کیلئے مالک حقیقی کی خصوصی توجہ بندوں کی طرف مبذول ہونے لگتی ہیں۔

غرض یہ رات بہت بابرکت ہے اس رات میں خصوصیت کے ساتھ اللہ رب العزت اپنی رحمت کے تر جھونکوں سے خشک دلوں کو سیر کرنے کیلئے خصوصی انعام و اکرام کا معاملہ فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس رات کی صحیح قدردانی نصیب فرمائے۔


شب قدر اس امت کا خصوصی امتیاز ہے

اس انعام کا سبب
شب قدر اس امت کا خصوصی امتیاز ہے اس عطیہ خدا وندی کے مختلف اسباب احادیث مبارکہ میں منقول ہیں، اب اختصار کے ساتھ احادیث صحیحہ کی روشنی میں چند اسباب بیان کئے جارہے ہیں تاکہ ہمارے اند صحیح تڑب و طلب پیدا ہو اور ہم اپنی تمام توانائی اور پوری جد و جہد کا محور دنیاوی زندگی کی معیشت کو نہ بنائیں بلکہ ہدایات ربانی و فرمان نبوی کے مطابق اس بابرکت رات کی اہمیت کا لحاظ رکھتے ہوئے خدا طلبی و خدا ترسی کے ساتھ اس رات میں ہم انتھک کوشش کریں۔

شب قدر کی یہ سعادت صرف امت محمدیہ کو

اللہ تعالیٰ نے شب قدر کی یہ سعادت صرف امت محمدیہ کو عطا فرمائی ہے، پہلی امتوں کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی تاکہ اس امت کے لوگ معمولی عمر و تھوڑی زندگی کے باوجود زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرسکیں، چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر در منثور میں مشہور و معروف صحابی حضرت انس رض کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرمایا کہ۔ ۔ شب قدر اللہ تعالیٰ نے میری امت کو عطا فرمائی پہلی امتوں کو نہیں، ( فضائل رمضان ص٣٧)

(٢) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی امتوں کی عمریں دکھلا دی گئیں جب آپ نے دیکھا کہ پہلی امتوں کی عمریں بہت زیادہ ہیں اور آپ کی امت کی عمریں تو ان کے اعتبار سے نہایت معمولی ہیں اگر اس آمت کے افراد نیک اعمال میں امم سابقہ کی برابری حاصل کرنا چاہیں تو دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اس بات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید رنج ہوا ایسے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے شب قدر کی دولت عطا فرمائی، (۔ الترغیب والترہیب ج٢ ص ١٠٢)

(٣) ایک حدیث میں یہ تعجب خیز واقعہ موجود ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا تذکرہ کیا جو ایک ہزار سال تک مسلسل جہاد کرتا رہا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ سن کر بہت تعجب ہوا اس پر خدا وند تعالیٰ نے سورۃ القدر نازل فرمائی جس کے اندر اس امت کی ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں سے افضل و بہتر بتلایا گیا، ۔ ۔ ( رمضان المبارک اور ان کے مسائل ص ٢٨)

(٤) حضرت علی و عروہ رض روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار شخصوں کا تذکرہ کیا جنہوں نے اسی اسی برس تک عبادت و ریاضت میں اپنی پوری زندگی کو اس طرح بسر کیا ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں نہیں گزرا وہ چار خوش نصیب افراد یہ تھے۔

حضرت ایوب علیہ السلام ٢ حضرت زکریا علیہ السلام ٣ حضرت حزقیل علیہ السلام٤ یوشع بن نون علیہ السلام، جب صحابہ کرام نے آپ کا یہ فرمان مبارک سنا تو حیرت و استعجاب کے عالم میں تمنا کرنے لگے کہ کاش ہماری بھی اتنی طویل مدت تک عبادت خدا وندی میں زندگی بسر ہوتی، ایسے موقع پر حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلۃالقدر پڑھ کر سنائی، اس بات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیحد خوشی ہوئی، ( روح المعانی ج ١٥ ص ٢٢٢)

ان روایات کے علاوہ اور بھی وجوہات بیان کی گئی ہیں اور مذکورہ روایت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ"" شب قدر"" امت محمدیہ کا خصوصی امتیاز ہے جو خاص اس امت محمدیہ کو عطا فرمائی گئی ہے۔

لیلۃالقدر کے نام کی وجہ

لیلۃالقدر کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے علماء اکرام نے قدر کے دو معنی بیان کئے ہیں (١) عظمت و شرف (٢) تقدیر و حکم۔ ۔ امام زہری و دیگر علماء نے پہلے معنی کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ علت بیان فرمائی ہے کہ چونکہ یہ رات عظمت و رفعت اور بزرگی وشرافت کی بنیاد پر نہایت عظیم الشان رات ہے اس لئے اس کو لیلۃالقدر کہا جاتا ہے، اور علامہ ابو بکر رزاق نے اس رات کو لیلۃالقدر کہے جانے کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ بد اعمالیوں کے سبب جس شخص کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی اس رات میں آہ وزاری، توبہ و استغفار، عبادت الہی میں مشغول رہنے کے سبب وہ شخص صاحب قدر و شرف بن جاتا ہے اور اس رات کی پاکیزہ قدروں کے سبب وہ شخص نیکی و احسان کے اعلی ترین مقام تک پہنچ جاتا ہے اور ترقی و کامرانی کی راہ ہموار کرکے وہ باقیمت بن جاتاہے اسی لئے اس رات کو لیلۃالقدر کہا جاتا ہے۔

اس رات کو لیلۃالقدر اس لئے کہا جاتا ہے کہ

اور دوسرے معنی کا لحاظ کرتے ہوئے اس رات کو لیلۃالقدر اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات کیلئے جو تقدیر ازلی میں لکھا ہے اس کا وہ حصہ جو اس سال رمضان سے آئندہ رمضان تک پیش آنے والا ہے اور اس دوران جو واقعات و حادثات رونما ہونے والے ہیں اللہ تعالیٰ اس رات میں اپنے ان فرشتوں کے حوالے فرما دیتے ہیں جن کے متعلق کائنات کی تدبیر و تنفیذ امور ہیں، انسان کی موت و حیات، روزی بارش وغیرہ کی مقدار بھی ان فرشتوں کو لکھوا دیتے ہیں الغرض سال بھر کا نظام طے کیا جاتا ہے اور اسی نظام کے تحت پورا سال گزرتا ہے، اسی وجہ سے اس رات میں خدا کے نیک بندے کثرت سے خدا کی یاد میں مشغول رہتے ہیں اور پوری رات آہ و زاری میں بسر کرتے ہیں، /روح المعانی ص٢٢١ج ١٥/

شب قدر کی تعیین

قرآن کریم و احادیث صحیحہ کی روشنی میں اس بات پر علماء اکرام کا اتفاق ہے کہ شب قدر رمضان المبارک میں آتی ہے البتہ اس کی تعیین کے سلسلہ میں علماء اکرام سے متعدد اقوال منقول ہیں، اور ان سب اقوال میں صحیح قول یہ ہے کہ شب قدر رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں آتی ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رض آپ کا ارشاد نقل کرتی ہیں، ، کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، ( بخاری شریف ج١ ص ٢٧١)

مگر آخری عشرہ کے اندر کؤی تاریخ متعین نہیں بلکہ ان راتوں میں طاق راتیں سب سے زیادہ احتمال رکھتی ہیں، چنانچہ جمہور علماء کے نزدیک اس طرح کی روایات و آثار کی بنیاد پر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتیں یعنی۔ ٢١ ٢٣، ٢٥، ٢٧، ٢٩، خاص طور پر اس کا زیادہ احتمال ہے، ( معارف القرآن ص١٥٢ج ٨ )

شب قدر کو پوشیدہ رکھنے کی وجہ

اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر شب قدر کو متعین نہیں فرمایا ہے کہ فلاں رات شب قدر ہے، بلکہ اس پر عظمت رات کو لوگوں پر مخفی رکھا تاکہ لوگ اسی رات میں اپنی عبادت و ریاضت پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں، بلکہ شب قدر کی تلاش کے بہانے بیشتر راتوں میں عبادت کی توفیق مل جائے، اور آخرت کی لازوال نعمتوں کی خاطر اللہ تعالیٰ کی قربت و نزدیکی کی راہ ہموار کی جائے۔

ایک حدیث میں آپ کا ارشاد گرامی نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کی اطلاع دینے کیلئے باہر تشریف لائے تو مسجد ہی کے اندر دو صحابی ایک حق کے معاملے میں آپس ہی میں لڑرہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان مصالحت کیلئے تشریف لے گئے اور صلح صفائی میں مشغول ہو گئے اسی دوران آپ کے قلب مبارک سے شب قدر کا علم نکال لیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس وقت تمہارے پاس شب قدر کی اطلاع دینے کیلئے آیا تھا وہ کس شب میں واقع ہے لیکن فلاں فلاں کی لڑائی تمہارے لئے محرومی کا ذریعہ بنی۔

قارئین مکرم۔۔۔
لکھنے پڑھنے کیلئے تو اس رات کے تعلق سے بہت کچھ ہے لیکن اس طوالت میں نہ جاکر پورے یقین و خلوص کے ساتھ ثواب کی نیت سے ہم اخیر عشرہ کی راتوں میں خوب سے خوب عبادت کریں اور چونکہ اخیر عشرہ جہنم سے خلاصی کا ہے اس لئے ہمیں جہنم سے خلاصی بھی مانگنی چاہیے کیونکہ جہنم کی ہولناکی ہم برداشت نہیں کرسکتے، بیس دن میں ہم نے جو غفلت کی کوتاہی برتی اس کیلئے ندامت کے آنسو بہانا ہے اور ائندہ اس سے باز رہنے کی توفیق بھی مانگنی ہے، اگر رمضان المبارک میں ہماری مغفرت نہ ہوئی اور ہم اپنے رب کو نہ منا سکے تو پھر ہم سے بڑھ کر کوئی محروم القسمت نہیں ہوگا پھر آخر وہ کون سا وقت ہوگا جب ہم اپنے خالق کو منا سکیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس مہینہ کی قدردانی نصیب فرمائے اور اسی مہینہ میں ہمیں جہنم سے آزادی کا پروانہ بھی عطا فرمائے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے