Ticker

6/recent/ticker-posts

اورنگزیب عالمگیر کی حقیقت پر ایک نظر Aurangzeb Alamgir Ki Haqeeqat Urdu

اورنگ زیب عالمگیر کی حقیقت پر ایک نظر


aurangzeb-alamgir-ki-haqeeqat-urdu


یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

مغل بادشاہوں میں اورنگ زیب عالمگیر رح (اصل نام محی الدین) کی شبیہ انتہائی صاف ستھری تھی، وہ عدل پرور، انصاف پسند اور عادل و منصف بادشاہ تھے، مذہبی رواداری ان کی خمیر میں تھی، مانوتا اور انسانیت کے وہ داعی تھے، انہوں نے بلا تفریق مذہب و ملت اور قوم و برادری ہندوستان کی تمام رعایا کا خیال رکھتے ہوئے حکومت کی، اگر اس نے مسجدیں بنوائیں اور اس کے اتنظام و انصرام کے لئے زمینیں وقف کرائیں، تو قومی یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے اور مذھبی رواداری کا خیال رکھتے ہوئے مندروں کے اخراجات کے لئے وافر مقدار میں زمینیں بھی مندروں کے نام کیا، تاکہ اس کے انتظام اور اخراجات میں دقت نہ ہو، یہ وہ حقائق ہیں، جس کا اعتراف بڑے بڑے غیر مسلم مورخوں نے اپنی کتابوں میں کیا ہے، اور خاص طور پر بنارس کے کئ مندروں کو دی گئ زمینوں کی تفصیلات پرانی تحریروں اور رقعات میں خود اورنگ زیب عالمگیر کی تحریروں اور دستخط کے ساتھ موجود ہے۔ افسوس کہ ہم مسلمان بھی مسلم بادشاہوں اور خاص طور اورنگ زیب عالمگیر کی صحیح تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔

اورنگ زیب عالمگیر کو بد نام کرنے کی کوشش

آج تاریخ کو مسخ کرکے سب سے زیادہ بدنام اور متہم اورنگ زیب عالمگیر ہی کو کیا جاتا ہے، اور کیا جارہا ہے، فرقہ پرست طاقتیں پوری طاقت صرف کررہی ہیں کہ کس طرح مغلوں سے نفرت کا ماحول پیدا کیا جائے اور ان کے کردار اور کارناموں کو مشکوک ٹھہرایا جائے نیز ان کو متشدد اور ظالم حکمراں ثابت کیا جائے، اس کے لیے جتنی سطحیت پر یہ لوگ آسکتے تھے، وہاں تک پہنچ گئے ہیں، بیت الخلا اور استنجا خانے پر ان کے نام کو لکھا جارہا ہے، اس سے سمجھ سکتے ہیں کہ باطل طاقتیں دشمنی اور تعصب میں اور کتنے نیچے جانا چاہتی ہیں۔ افسوس کہ بہت سے مسلمان بھی اپنی نادانی، بزدلی، مرعوبیت اور تاریخ سے ناواقفیت کی وجہ سے دشمن طاقتوں کا آلہ کار بن رہے ہیں اور مغل حکمرانوں سے اپنے تعلق رشتہ اور نسبت کی نفی کر رہے ہیں، ضرورت تھی کہ تاریخی حقائق کو سامنے رکھا جاتا، مسلم بادشاہوں کی مذہبی رواداری اور ان کی عدل پروری سے برادران وطن کو اور خود ناواقف مسلمانوں کو واقف کرایا جاتا، لیکن ایسا کچھ نہ کرکے خود مسلمانوں کا ایک طبقہ مغل حکومتوں سے پالا جھاڑنا شروع کردے اور اورنگ زیب سے زیادہ بہتر شیوا جی کو ثابت کرنے لگے، یہ انتہائی افسوس اور حیرت کی بات ہے۔

اورنگ زیب عالمگیر رح کی ذاتی زندگی

اورنگ زیب عالمگیر رح ذاتی زندگی میں انتہائی خدا ترس متقی اور پرہیز گار اور اچھے اخلاق و کردار اور ستودہ صفات کا حامل بادشاہ تھا۔ ان کا خود کا اعتراف ہے کہ ہم نے اپنے ذاتی فائدے کے لئے خزانے کی ایک چونی بھی استعمال نہیں کیا۔ آئیے آج ہم اپنے قارئین کو ملا جیوں رح (جو ان کے استاد تھے) کے ساتھ پیش آئے اورنگ زیب عالمگیر کا ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہیں۔

مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے استاد

مُلا احمد جیون ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے استاد تھے۔

اورنگ زیب اپنے استاد کا بہت احترام کرتے تھے۔ اور استاد بھی اپنے شاگرد پر فخر کرتے تھے۔

جب اورنگ زیب ہندوستان کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے غلام کے ذریعے استاد کو پیغام بھیجا کہ وہ کسی دن دہلی تشریف لائیں اور خدمت کا موقع دیں۔

اتفاق سے وہ رمضان کا مہینہ تھا اور مدرسہ کے طالب علموں کو بھی چھٹیاں تھی۔

چنانچہ انہوں نے دہلی کا رُخ کیا۔
استاد اور شاگرد کی ملاقات عصر کی نماز کے بعد دہلی کی جامع مسجد میں ہوئی۔

استاد کو اپنے ساتھ لے کر اورنگ زیب شاہی قلعے کی طرف چل پڑے۔ رمضان کا سارا مہینہ اورنگ زیب اور استاد نے اکھٹے گزارا۔

عید کی نماز اکھٹے ادا کرنے کے بعد مُلا جیون نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا۔

بادشاہ نے جیب سے ایک چونّی نکال کر اپنے استاد کو پیش کی۔

استاد نے بڑی خوشی سے نذرانہ قبول کیا اور گھر کی طرف چل پڑے۔

اس کے بعد اورنگ زیب دکن کی لڑائیوں میں اتنے مصروف ہوئے کہ چودہ سال تک دہلی آنا نصیب نہ ہوا۔

جب وہ واپس آئے تو وزیر اعظم نے بتایا۔
مُلا احمد جیون ایک بہت بڑے زمیندار بن چکے ہیں۔
اگر اجازت ہو تو اُن سے لگان وصول کیا جائے۔
یہ سن کر اورنگ زیب حیران رہ گئے کہ ایک غریب استاد کس طرح زمیندار بن سکتا ہے۔

انہوں نے استاد کو ایک خط لکھا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی
مُلا احمد جیون پہلے کی طرح رمضان کے مہینے میں تشریف لائے۔

اورنگزیب نے بڑی عزت کے ساتھ انہیں اپنے پاس ٹھرایا۔
مُلا احمد کا لباس بات چیت اور طور طریقے پہلے کی طرح سادہ تھے۔ اس لیے بادشاہ کو ان سے بڑا زمیندار بننے کے بارے میں پوچھنے کا حوصلہ نہ پاسکا۔

ایک دن مُلا صاحب خود کہنے لگے:
آپ نے جو چونّی دے تھی وہ بڑی بابرکت تھی۔
میں نے اس سے بنولہ خرید کر کپاس کاشت کی خدا نے اس میں اتنی برکت دی کہ چند سالوں میں سینکڑوں سے لاکھوں ہو گئے۔

اورنگ زیب یہ سن کرخوش ہوئے اور مُسکرانے لگے اور فرمایا:

اگر اجازت ہو تو چونّی کی کہانی سناؤں۔
ملا صاحب نے کہا ضرور سنائیں۔
اورنگ زیب نے اپنے خادم کو حکم دیا کہ چاندنی چوک کے سیٹھ “اتم چند” کو فلاں تاریخ کے کھاتے کے ساتھ پیش کرو۔ سیٹھ اتم چند ایک معمولی بنیا تھا۔

اسے اورنگ زیب کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔

اورنگ زیب نے نرمی سے کہا: آگے آجاؤ اور بغیر کسی گھبراہٹ کے کھاتہ کھول کے خرچ کی تفصیل بیان کرو۔

سیٹھ اتم چند نے اپنا کھاتہ کھولا اور تاریخ اور خرچ کی تفصیل سنانے لگا۔

مُلا احمد جیون اور اورنگ زیب خاموشی سے سنتے رہے ایک جگہ آ کے سیٹھ رُک گیا۔

یہاں خرچ کے طور پر ایک چونّی درج تھی لیکن اس کے سامنے لینے والے کا نام نہیں تھا۔

اورنگ زیب نے نرمی سے پوچھا:

ہاں بتاؤ یہ چونی کہاں گئی؟
اتم چند نے کھاتہ بند کیا اور کہنے لگا: اگر اجازت ہو تو درد بھری داستان عرض کروں؟

بادشاہ نے کہا: اجازت ہے۔
اس نے کہا: اے بادشاہِ وقت! ایک رات موسلا دھاربارش ہوئی میرا مکان ٹپکنے لگا۔

مکان نیا نیا بنا تھا اور تما م کھاتے کی تفصیل بھی اسی مکان میں تھی۔

میں نے بڑی کوشش کی، لیکن چھت ٹپکتا رہا۔

میں نے باہر جھانکا تو ایک آدمی لالٹین کے نیچے کھڑا نظر آیا۔ میں نے مزدور خیال کرتے ہوئے پوچھا، اے بھائی مزدوری کرو گے؟

وہ بولا کیوں نہیں۔
وہ آدمی کام پر لگ گیا۔ اس نے تقریباً تین چار گھنٹے کام کیا، جب مکان ٹپکنا بند ہوگیا تو اس نے اندر آکر تمام سامان درست کیا۔ اتنے میں صبح کی اذان شروع ہو گئی۔

وہ کہنے لگا:

سیٹھ صاحب! آپ کا کام مکمل ہو گیا مجھے اجازت دیجیے، میں نے اسے مزدوری دینے کی غرض سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک چونّی نکلی۔

میں نے اس سے کہا:
اے بھائی! ابھی میرے پاس یہی چونّی ہے یہ لے، اور صبح دکان پر آنا تمہیں مزدوری مل جائے گی۔

وہ کہنے لگا یہی چونّی کافی ہے میں پھر حاضر نہیں ہوسکتا۔ میں نے اور میری بیوی نے اس کی بہت منتیں کیں۔

لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا دیتے ہو تو یہ چونّی دے دو ورنہ رہنے دو۔

میں نے مجبور ہو کر چونّی دے دی اور وہ لے کر چلا گیا۔

اور اس کے بعد سے آج تک وہ نہ مل سکا۔ آج اس بات کو پندرہ برس بیت گئے۔

میرے دل نے مجھے بہت ملامت کی کہ اسے روپیہ نہ سہی اٹھنی دے دیتا۔

اس کے بعد اتم چند نے بادشاہ سے اجازت چاہی اور چلا گیا۔ بادشاہ نے مُلا صاحب سے کہا:

یہ وہی چونّی ہے۔
کیونکہ میں اس رات بھیس بدل کر گیا تھا تا کہ رعایا کا حال معلوم کرسکوں۔

سو وہاں میں نے مزدور کے طور پر کام کیا۔
مُلا صاحب خوش ہو کر کہنے لگے۔ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ یہ چونّی میرے ہونہار شاگرد نے اپنی محنت سے کمائی ہوگی۔ اورنگ زیب نے کہا:

ہاں واقعی‘ اصل بات یہ ہے کہ میں نے شاہی خزانہ سے اپنے لیے کبھی ایک پائی بھی نہیں لی۔

ہفتے میں دو دن ٹوپیاں بناتا ہوں۔ دو دن مزدوری کرتا ہوں۔ میں خوش ہوں کہ میری وجہ سے کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوئی یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔

بحوالہ: کتاب/تاریخِ اسلام کے دلچسپ واقعات
ناشر مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
9506600725

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے