Ticker

6/recent/ticker-posts

چند گھنٹے جامعہ ام سلمہ دھنباد جھارکھنڈ میں

چند گھنٹے جامعہ ام سلمہ دھنباد جھارکھنڈ میں


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

سفر انسان کی ضرورت بھی ہے، اور شوق و خواہش بھی، سفر کو وسیلئہ ظفر بھی کہا گیا ہے، کیوں کہ اس سے فائدے اور نئے نئے تجربات حاصل ہوتے ہیں، لوگوں کے مزاج و مذاق، نفسیات اور ان کے طرز زندگی اور رہن سہن بود باس، نیز اس ملک خطہ اور صوبہ و علاقہ کے دینی علمی معاشی سماجی تاریخی اور جغرافیائی حالات سے واقفیت بھی ہوتی ہے۔ اس لئے سفر کے فائدے سے کسی کو انکار نہیں، لیکن سفر نمونئہ سقر بھی ہوتا ہے، کیوں کہ سفر میں انسان کو اپنی مانوس و مامون جگہ کو چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔ راستہ میں مشکلات خطرات و خدشات در پیش آتے ہیں (موجودہ ملکی حالات میں تو سفر کرنے سے گھبراہٹ ہونے لگی ہے، لوگ مشکل ہی سے سفر کے لیے آمادہ ہوتے ہیں، بے مقصد اور بلا ضرورت تو سفر کرنے کی اجازت اہل خانہ اور رشتہ دار بالکل نہیں دیتے، صاف منع کردیتے ہیں کہ موجودہ ملکی حالات میں بلا ضرورت صرف سفر سیر و تفریح کے لیے، قطعا اس کی گنجائش نہیں ہے)۔ صحت و زندگی کی بابت بھی خطرات و خدشات اور اندیشے لگے رہتے ہیں اور دینی و شرعی معمولات میں بھی کمی و کوتاہی واقع ہو جاتی ہے اور کما حقہ ادائیگی دشوار ہوجاتی ہے، اس لئے شرعی اعتبار سے بلا ضرورت سفر کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا ضرورت سفر کو پسند نہیں فرمایا۔ مسلم شریف کی حدیث ہے ( *السفر قطعة من النار*) (مسلم شریف حدیث نمبر ۱۹۲۷) سفر جہنم اور آگ کا ٹکڑا اور حصہ ہے۔ لیکن دینی علمی دعوتی اور جائز دنیوی مقاصد کے لئے سفر کرنا درست ہی نہیں، بلکہ کہیں کہیں اور وقت پڑھنے پر ضروری بھی ہے۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم* نے ان مقاصد کے لئے سفر کیا اور بعد میں تابعین اور تبع تابعین محدثین اور فقہاء نے طلب علم کے لئے سفر کی جو مشقتین برداشت کی ہیں، وہ *علوم الحدیث* کا مستقل باب ہے اور ان کے علمی اسفار کی پوری تاریخ آج بھی کتابی شکل میں محفوظ ہے۔ اسی طرح صحابہ اور سلف صالحین سے تجارت، کسب معاش اقرباء اہل تعلق سے ملاقات اورعیادت وغیرہ کے لئے کثرت سے اسفار منقول ہیں۔ اسلامی عبادات میں حج و عمرہ اور اعلاء کلمة اللہ کے لئے جہاد دو ایسی عبادتیں ہیں جو سفر کے بغیر انجام نہیں پاتی۔ (سوائے حج بدل کے)۔ سفر کی دقتوں اور زحمتوں ہی کی وجہ سے شریعت نے سفر میں بہت سے مسائل میں سہولت اور آسانیاں رکھی ہیں۔

خاکسار کو بھی آئے دن سفر سے سابقہ پڑتا ہے، پہلے شوقیہ بھی سفر کرتے تھے، لیکن اب سفر کے نام سے گھبراہٹ ہونے لگتی ہے، لیکن پھر بھی سفر میں نکلنا ہی پڑتا ہے۔

۱۵/ مئی ۲۰۲۲ء کو راقم الحروف نے جامعہ ام سلمہ دھنباد جھارکھنڈ کے لیے رخت سفر باندھا، مقصد سفر تھا، اپنی بڑی بچی، ، طیبہ فرحین، ، کا جامعہ ام سلمہ میں داخلہ کرانا، اس سلسلہ میں مولانا آفتاب عالم ندوی دھنبادی سے پہلے ہی گفت و شنید ہوچکی تھی، ۱۶/ مئی کی صبح کو جامعہ ام سلمہ دھنباد پہنچ گیا، (اس سے پہلے بھی ایک بار کنڈہ سے لاک ڈاؤن میں کار 🚗 کے ذریعہ فیملی کے ساتھ گھر آرہا تھا، تو ایک دو گھنٹے کے لیے وہاں رکنا ہوا تھا اور جامعہ کی زیارت ہوئی تھی نیز مولانا آفتاب عالم ندوی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا) ۱۶/ مئی کی صبح کو جب جامعہ پہنچا۔ ۔ ۔ ۔

تو سوء اتفاق مولانا سے ملاقات نہیں ہوسکی، مولانا رانچی کے سفر میں تھے، جس کا قلق رہا، لیکن فون پر برابر رابطہ کرتے رہے اور آسانی کیساتھ بچی کا داخلہ ہوگیا، بچی اپنے ساز و سامان کیساتھ ہاسٹل میں شفٹ ہوگئی، بچی آخری ملاقات کے وقت اس قدر آبدیدہ ہوگئی کہ قریب تھا کہ اس کا حوصلہ ٹوٹ جائے، اس کو ساتھ ہی گھر واپس لانا پڑے، لیکن سمجھانے ترغیب دینے اور علم کی اہمیت بتانے کے بعد اس کا حوصلہ بڑھا، جان میں جان آئی، یہ پہلا موقع تھا کہ وہ اپنے والدین سے الگ ہوئی تھی، اور ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کرنی تھی۔ اسی دن رات کو واپسی تھی، اس لیے جامعہ میں چند گھنٹے قیام کے بعد اپنے بعض قریبی شاگردوں کے یہاں مختصر قیام و طعام کے بعد رات دس بجے واپسی کے لیےاے سی بس پر سوار ہوا، ٹکٹ پہلے سے بک تھا، سات گھنٹے مسلسل سفر کے بعد صبح چار بجے گھر پہنچ گیا۔ بس سے سفر کی وجہ بدن ٹوٹ گیا تھا درد بیچارہ پریشان تھا کہ کہاں سے اٹھے۔

خیر چونکہ یہ سفر بچی کی تعلیم و تربیت نیز اس کے داخلہ کے حوالے سے تھا، اس لیے اس سفر نامہ میں بچیوں کی تعلیم و تربیت کی اہمیت و ضرورت اور جامعہ ام سلمہ کا مختصر تعارف پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ بلا مبالغہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو کام ایک جماعت کرتی ہے وہ مولانا آفتاب عالم ندوی تنہا کر رہے ہیں، ان کام اکیڈمک انداز کا ہے۔ مولانا دھنبادی ایک ذہین فطین اور باصلاحیت و بابصیرت عالم دین ہیں، علم و عمل کے جامع ہیں، صلاحیت کے ساتھ صالحیت کے بھی پیکر ہیں، ان کی زندگی کا ایک اہم ہدف بچیوں کی دینی و دنیوی تعلیم کی فکر اور بچیوں کی دینی و شرعی تربیت ہے اور وہ اس ہدف میں الحمدللہ کامیاب ہیں۔

لڑکیوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کی فکر وقت کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ کیونکہ خواتین انسانیت کا نصف حصہ ہیں، وہ نصف، جس سے ماں کی ممتا، بیٹی اور بہن کی محبت اور بیوی کا سکون ملتا ہے، جو انسانیت کے لیے تسکین دل و جان ہے۔ اور جو اس رنگا رنگ کائنات میں اصحاب دل نگاہ اور ارباب ایمان و صلاح کی نظر میں خیر متاع الدنیا کا مصداق ہے، اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا کہ
 
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

یہ حقیقت ہے کہ عورت کی ذات صنف نازک اور جنس لطیف ہے، اس لیے شریعت نے بہت سے امور میں اس کو علحیدہ رکھا اور بہت سے واجبات و فرائض سے فارغ رکھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فطرت نے اس کے اندر اثر انداز ہونے کی بہت زیادہ صلاحیت بھی ودیعت کی ہے، اسلام نے اس کو سماج میں بلند مقام دیا، جب کہ دیگر اقوام نے اس کو ایک عضو ناکارہ سمجھا اور اس کی توہین و تذلیل کی۔ اسلام نے عورتوں کی صلاحیتوں کو سماج کی تعمیر میں صرف کرنے کی راہ نکالی، اس کے لیے فعال اور موثر کردار فراہم کیا اور اس نے عورت کے وجود کو مستقل حیثیت دی۔


اس نے عورت کو اظہار رائے کی ایسی آزادی عطا کی کہ ایک معمولی خاتون بھی خلیفہ وقت کا برسر عام محاسبہ کرسکتی تھی۔ اس نے تعلیم و تعلم کے لیے راستہ کھولا اور خود پیغمبر وقت نے ہفتہ میں ایک دن اور مقام ان کے لیے متعین کیا۔ لڑکیوں کی تعلیم کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ خاص کا یہ حال تھا کہ باندیوں تک کو علم سے آراستہ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا، ، جو اپنی باندی کی بہتر تربیت کرے اور اچھی تعلیم دے، پھر اسے آزاد کردے اور اس سے نکاح کرلے، اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ بخاری عن ابی بردہ رضی اللہ عنہ۔

حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں بیٹی کی تربیت کرنے کی صراحت موجود ہے۔ مجمع الزوائد ۸/۱۵۸ اس ترغیب نے قرن اول ہی میں خواتین میں ایک عظیم تعلیمی و تربیتی انقلاب پیدا کردیا۔ اور علوم شرعیہ اور دیگر علوم صنعت حرفت میں اس صنف نازک نے بلندی کے اوج کمال کو حاصل کیا۔ تنہا حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی احادیث کی تعداد بائیس سو دس ہیں۔ فن تفسیر میں جن صحابہ کرام کو ید طولیٰ حاصل تھا، ان میں ایک اہم نام حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا بھی ہے، جنہوں نے اکابر صحابہ پر علمی گرفت فرمائی اور اساطین امت نے ام المومنین کی گرفت کو قبول کیا ہے۔ فقہ و فتاویٰ میں بھی صحابیات کی ایک ممتاز تعداد تعداد موجود تھی جن کے ناموں کی تفصیل باعث طوالت ہے۔ فن کتابت سے بھی بہت سی عورتیں واقف تھیں، نیز حفظ قرآن مجید کا ذوقِ بھی خواتین میں عام تھا۔ علاوہ دینی علوم کے عورتوں کے حسب حیثیت دوسرے ضروری علوم و فنون کی بھی قدر کی جاتی تھی، چرخہ کاتنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ترغیب دی، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا خنجر بناتی تھیں۔ مسلم۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی زوجہ ذاتی صنعت و کاریگری اور اس کی کمائی سے اپنے علاوہ شوہر اور بال بچوں کی کفالت کرتی تھیں۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا کا پکوان ممتاز تھا، شوہر کے پیسے صحیح طور پر خرچ کرنے اور بچوں کی نگہداشت پر توجہ دینے کی خود آپ نے خواتین کو ترغیب دی۔ طب و علاج سے بھی خواتین دلچسپی لیتی تھیں۔ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی طبی معلومات بہت زیادہ تھیں۔ یہ کچھ عہد رسالت اور خیر القرون ہی میں موقوف نہیں، بعد کے زمانے میں بھی خواتین اسلام میں اہل علم و فضل و کمال کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے۔ گو حال میں اور درمیان میں اس میں کمزوری اور پستی ضرور آئی کہ اس طبقہ کا حق مارا گیا اور علم و فضل کے اعلیٰ مقام تک ان کی رسائی نہیں ہوسکی، لیکن اب پھر یہ احساس بیدار ہوا ہے کہ خواتین کو علم و فضل کے میدان میں آگے بڑھایا جائے اور ان کو ان کا کھویا مقام دلایا جائے، کیونکہ ان کے ذریعے ہی نسلوں کی تربیت ہوتی ہے، اور تربیت کے لیے تعلیم ضروری ہے۔ اس جانب جامعہ ام سلمہ نے اور اس کے معماروں نے بھر پور توجہ کی ہے اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا ہے، جس کی مختصر کارکردگی پیش خدمت ہے جو شنیدہ بھی ہے اور دیدہ بھی، اور جس کی تفصیلات وہاں کے تعارف نامہ سے بھی لی گئی ہے۔


جامعہ ام سلمہ دھنباد جھارکھنڈ۔ تعارف اور خدمات


جامعہ ام سلمہ دھنباد جھارکھنڈ
زیر انتظام :علامہ سید سلیمان ندوی ایجوکیشنل سوسائیٹی (رجسٹرڈ)
......
اسلامی نہج پر مسلم
لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے 27 سال
.......
دینی وعصری تعلیم کا خوبصورت سنگم 
.........
دینی تعلیم عالمہ تک اور اسکولی تعلیم میٹرک تک،
...........
جھار کھنڈ گورنمنٹ کے
اکیڈمک کو نسل سے منظور شدہ
............
میٹرک میں جامعہ ام سلمہ کا چودہ سال سے مسلسل سو فیصد رزلٹ
........
سال قیام۔ 1996ء

اہل علم حضرات جانتے ہیں کہ جھارکھنڈ اسٹیٹ 2000ءتک صوبۂ بہار کا ایک حصہ تھا، سن 2000ء میں بہار سے کاٹ کر اسے ایک مستقل ریاست کا درجہ دیا گیا۔

اس میں شک نہیں کہ صوبۂ جھارکھنڈ ایک طرف اگر قیمتی معدنیات، سرسبزو شاداب پہاڑ وں اور گھنے جنگلات کی وجہ سے پورے ملک میں ایک ممتاز مقام رکھتا ھے تو دوسری طرف ایک کڑوا سچ یہ بھی ھے کہ یہ اسٹیٹ سیاسی، دینی، تعلیمی اور اقتصادی اعتبار سے ایک پسماندہ اسٹیٹ ھے، یہانتک تک کہ یہاں کے مسلمان بہار کی مسلم کمیونٹی سے بھی بہت پیچھے ہیں، بہار کی طرح یہاں نہ بڑے اسلامی مراکز اور ادارے ہیں، نہ یہاں بڑی شخصیتیں پیدا ھوئیں،

جامعہ ام سلمہ 1996ء میں انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں شروع ھوا، اسوقت گیا بہار کے بعد سے کلکتہ (500کلو میٹر ) تک لڑکیوں کا کوئی ادارہ نہیں تھا،

ام سلمہ کا بنیادی مقصد مسلم لڑکیوں کی ایسی تعلیم وتربیت ھے جو انہیں سچا مسلمان اور ملک کا اچھا شہری بنائے، اسلام، اسکی روح اور اسکے مشن سے اچھی طرح واقف کرائے، خود بھی اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے والی اور اپنے قول وعمل سے دوسروں کو بھی اسلام کی طرف بلانے والی ھوں۔

جامعہ ام سلمہ میں معیار تعلیم۔ ۔ دینی وعربی تعلیم اطفال سے عالمہ تک اور اسکولی تعلیم میٹرک تک کا فی الحال انتظام ھے،

عالمہ کا نصاب : قرآن شریف ناظرہ تجوید کے ساتھ، اردو، عربی گرامر، عربی زبان، ترجمۂ قرآن، فقہ حدیث، تاریخ
اسکولی نصاب میں جھارکھنڈ اکیڈمک کونسل کا مکمل نصاب،

کمپیوٹر، سلائی اور بعض دوسرے ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں، آئندہ سال مزید کچھ ھنر سکھانے کا انتظام کیا جارھا ھے،

مدت تعلیم : اطفال سے عالمہ + میٹرک تک کی مدت تعلیم۔ ۔ ۔ گیارہ سال ہے ‌‌

جامعہ کے ذمہ داروں کی کوشش ھے کہ اسکولی تعلیم گریجویشن تک اور فاضل تک دینی وعربی تعلیم کا انتظام کیا جائے،

اچھی تعلیم وتربیت اور حسن انتظام وانصرام کی وجہ سے بہت جلد جامعہ ام سلمہ کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی، اور تھوڑی ہی مدت میں جھارکھنڈ کے علاوہ بہار، ویسٹ بنگال، اور نیپال تک سے لڑکیاں ام سلمہ میں داخل ھوئیں، ابتک جھارکھنڈ، مغربی بنگال، اڈیشا، بہار اور نیپال کے 72 اضلاع کی بچیاں ام سلمہ میں داخلہ لے کر پڑھ چکی ہیں،

آج سے چودہ سال پہلے جھارکھنڈ گورنمنٹ کے اکیڈمک کونسل نے جامعہ ام سلمہ کو میڑک کی منظوری دی، شروع سے ابتک جامعہ کا رزلٹ سو فیصد رھا ھے، جھارکھنڈ سرکار نے متعدد مرتبہ توصیفی سند دیگر جامعہ کی عزت افزائی کی۔

جامعہ ام سلمہ ساڑھے تیرہ ایکڑ زمین کی مالک ھے، اور یہ واقع ھے دھنباد سے 25 کیلو میٹر پچھم شیر شاہ سوری مارگ (جی ٹی روڈ ) اور اب دلی کلکتہ نیشنل ھائی وے پر۔
چھوٹی لڑکیوں اور بڑی لڑکیوں کا ھاسٹل الگ الگ ھے۔
اکیڈمک بلڈنگ بھی الگ ھے،
کھیل کود کا معقول انتظام ھے،
 طالبات کی تعداد 788 اور اسٹاف کی تعداد 45 ھے۔ سال رواں اس تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

بجٹ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جامعہ ام سلمہ کا سالانہ بجٹ (تعمیرات کے علاوہ ) ایک کروڑ بیس لاکھ ھے، 
صحیح اسلامی ماحول میں مکمل تحفظ کے ساتھ ملت کی بیٹیوں کی تعلیم وتربیت ایک سماجی ملی اور دینی فریضہ ھے، اس کو انجام دینے کیلئے خلوص، لگن اور ملی احساس ذمہ داری کے ساتھ مالی وسائل کی بھی سخت ضرورت ھے، بہتر تعلیم وتربیت اور اعلی انتظام وانصرام مالی وسائل کے بغیر ممکن نہیں، اسٹاف کی تنخواہ، مطبخ، بجلی اور جنریٹر کے مستقل اخراجات کے علاوہ کئ ضروری تعمیری منصوبے اہل خیر حضرات کے تعاون وتوجہ کے منتظر ہیں، جن خوش نصیبوں کو اللہ نے نوازا ھے ان سے درخواست ھے کہ گیسوئے ملت کو سنوارنے میں ھماری مدد کریں،۔ ۔ ۔ (اپیل کنندہ مولانا آفتاب عالم ندوی دھنبادی)

ناشر/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 9506600725

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے