Ticker

6/recent/ticker-posts

آج ایسے ادارے اور دانش گاہوں کی بھی امت کو ضرورت ہے

آج ایسے ادارے اور دانش گاہوں کی بھی امت کو ضرورت ہے


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں تبدیلی اور اصلاح کی جب بھی بات آتی ہے، اس موضوع پر قلم اٹھایا جاتا ہے، تو ایک طبقہ فورا یہ سمجھنے لگتا ہے کہ نصاب و نظام میں تبدیلی کا مطلب یہ ہوگا کہ مدارس کو اسکول میں بدل دیا جائے گا اور وہاں سے دینی تعلیم کو نکال دیا جائے گا، جب کہ بات صرف اتنی ہے کہ زمانہ کی رعایت، اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق اس میں ایسی جزوی تبدیلی لائی جائے کہ دینی نصاب پر بھی کوئی آنچ نہ آئے اور زمانے کی رفتار کو دیکھتے ہوئے، زمانہ کے اسلوب اور زبان میں امت اور قوم و ملت کی اصلاح کی جائے اور ان کو ان کی زندگی کا مقصد بتایا جائے، ظاہر ہے اس کے لیے جدید علوم اور زبان کا سیکھنا اور جدید اسباب و وسائل کا اختیار کرنا لازمی ہوگا۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ موجودہ نصاب تعلیم کوئی منزل من اللہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ منصوص ہے کہ اس میں ذرہ برابر تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔ اس ضد پر ڈٹے رہنا کہ ہم جو کر رہے ہیں وہی بہتر اور وہی افضل ہے، ہمارا اختیار کردہ نصاب و نظام قطعی اور حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے یہ تاریخ سے آنکھیں چرانے اور زمانہ کے تقاضوں سے منھ موڑ لینے کے مرادف ہے، ریت کے طوفانوں میں شترمرغ گردن جھکا لے اور سمجھے کہ وہ محفوظ ہے، تو اسے حماقت اور بیوقوفی نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے۔ نصاب و نظام تعلیم کے تغیر کا یہ عمل تاریخ کے ہر دور، ہر زمانہ اور ہر عہد کا حصہ رہا ہے، تغیرات کے اس دور اور زمانے میں اس سے پہلو تہی اختیار کرنے پر حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے ان الفاظ میں حیرت و استعجاب کا اظہار کیا ہے، ، جو نصاب تعلیم ہندوستان میں برابر بدلتا رہا اور تغیر و ترقی کے منازل طے کرتا رہا اس کا ایسے عہد میں جو سب سے زیادہ پر از انقلابات ہے نہ بدلنا ایک غیر معقول اور ایک غیر طبعی فعل ہے، علمی تاریخ کا یہ ایک عجیب واقعہ ہے کہ اس نصاب کی زندگی میں وقوف و جمود کا سب سے طویل عہد وہ ہے جو سب سے زیادہ تغیر و انقلابات کا طالب ہے، ، ۔ (تعلیم و تربیت ۳۰/۲۹)

نصف صدی سے پہلے حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رح نے مدارس عربیہ کے نصاب میں ترمیم و اصلاح کی غرض سے ایک مضمون سپرد قلم کیا تھا، جس کی تمہید کچھ اس طرح تھی، ، عرصہ دراز سے دینی حلقوں میں مسئلہ نصاب تعلیم زیر بحث ہے اور شدت سے یہ احساس ہورہا ہے کہ موجودہ مدارس دینیہ کا مروجہ نصاب تعلیم قابل ترمیم ہے اور مسائل حاضرہ کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے یہ نصاب کافی نہیں، امت کے مصالح اور وقت کے تقاضے اس سے پورے نہیں ہوسکتے،، ۔ (تعلیم و تربیت از ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی، صفحہ ۳۰)

مفتی شفیع صاحب رح نے پاکستان بنتے ہی فرمایا تھا کہ ہمیں دیوبند، ندوہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے علاوہ ایک چوتھے نظام تعلیم کی بھی ضرورت ہے۔

اس تمہیدی گفتگو اور پس منظر میں نیچے کی تحریر کو پڑھا جائے اور اس کے مطابق تیاری کی جائے۔...

دار العلوم دیوبند کے سب سے پہلے طالب علم

دار العلوم دیوبند کے سب سے پہلے طالب علم اور اس نظام مدارس کے عظیم معمار شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رح ان حضرات میں سے تھے، جو صاف ستھرے اور "اپنے ماحول میں؛؛ عصری تعلیم کی ضرورت کو بھی بہت شدت سے محسوس کرتے تھے، چناچہ انہوں نے ۲۹/اکتوبر /۱۹۲۰ کو "علی گڑھ کالج؛؛ کی مسجد میں ایک نئے ادارے کے قیام کے موقع پر اپنے خطبہ افتتاحیہ میں کہا تھا :"مسلمانوں کی تعلیم مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو، اور اغیار کے اثر سے مطلقا آزاد، کیا باعتبار عقائد و خیالات اور کیا باعتبار اخلاق و اعمال، ہم غیروں کے اثرات سے پاک ہوں، ہماری عظیم الشان قومیت کا اب یہ فیصلہ نہ ہونا چاھئے کہ ہم اپنے کالجوں سے بہت سستے غلام پیدا کرتے رہیں، بلکہ ہمارے کالج نمونہ ہونے چاہئیں "بغداد ؛؛اور قرطبہ؛ ؛کی یونیورسٹیوں کے، اور عظیم الشان مدارس کے جنہوں نے یورپ کو اپنا شاگرد بنایا، اس سے پیشتر کہ ہم ان کو اپنا استاد بناتے ؛؛-

قدیم نظام تعلیم و تربیت کا ایک اور شاندار نمونہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رح نے ایک جگہ لکھا ہے :

میرے نزدیک اسلامی ممالک میں صحیح زندگی کی بنیاد عوام میں صحیح اور طاقتور دینی شعور کا وجود ہے ---اور دوسری مضبوط بنیاد صحیح نظام تعلیم اور وحی نبوت کے ذریعے آئے ہوئے اس علم کو، جو ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے اور جو ہر دور کا علم اور ہر صالح تہذیب کی بنیاد و اساس ہے، ان طبعی علوم، عصری معلومات، اور ان تجربوں اور ایجادات و انکشافات کے ساتھ جمع کرنا ہے، جن میں مغرب فوقیت لے گیا ہے ؛؛-

ہندوستان کے ان دو عظیم ہستیوں اور اسکالرز کے ان اقتباس کو غور سے پڑھیے اور پھر تجزیہ کیجئے کہ آج مسلمانوں کو کیسے علمی اداروں، دانش گاہوں اور مدرسوں کی ضروت ہے اور علم اور تعلیم کے میدان میں کس منصوبہ بندی اور پلانگ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لئے اہل علم اور دانشورران امت کو کس قدر سنجیدگی کے ساتھ اس مہم کو آگے بڑھانا چاہیے۔

مدارس کی ضرورت و اہمیت اور افادیت سے کس کو انکار ہے ؟

لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم مدارس کے لوگ نصاب تعلیم کو اپٹوڈیت کرنے کے اعتبار سے اور جدید آلات اور اسباب و وسائل سے استفادہ اور شرعی علوم کے حصول میں اس سے معاونت کے اعتبار سے بہت پیچھے نہیں ہیں؟۔

آج ضرورت ہے کہ کچھ مدارس اس انداز کے بھی ہوں کہ ان کا اصل مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہو جس کے اندر دو خوبیاں ہوں ایک طرف تو ان کے اندر تقوی و طہارت اخلاص و للہیت علم کی گہرائی اور عمل کی پاکیزگی ہو اور اس سلسلہ میں وہ اسلاف کا نمونہ ہوں، اور ان کے ذوق و مزاج کے وارث ہوں وہ عالم و داعی بنکر دین کی خدمت کریں تو دوسری طرف یہ کوشش کی بھی کی جارہی ہو کہ ان کے اندر عصری اور ماڈرن تعلیم اتنی دے دی جائے اور اتنی صلاحیت اور لیاقت پیدا کر دی جائے کہ اگر وہ قانون، انتظامیہ، سول سروسیز، صحت، تعلیم، سائنس، صنعت و حرفت اور تجارت کے میدان میں اگر آگے جانا چاہیں تو ان کو کوئ دقت نہ اور وہاں جاکر اپنے دائرہ عمل میں وہ اسلام کی نمائندگی کریں اور اس بہانے خدمت خلق اور دعوت دین کا کام ان ماڈرن طبقے میں آسانی سے ہو سکے۔

اس کے لئے ایسے مدارس میں نصاب تعلیم کے ساتھ چوبیس گھنٹے کا نظام الاوقات کھیل کود اور خورد و نوش وغیرہ کا انتظام اعلی پیمانے پر کرنا ہوگا۔ اور خوب سے خوب تر کی تلاش کا عمل بھی جاری رکھنا ہوگا۔

اور پھر ان جدرید طرز کے مدارس کے سامنے یہ ہدف بھی ہو کہ دینی تعلیم کا حصول صرف غریب نادار اور دیہاتی گھرانوں کے بچوں کا فرض نہیں ہے۔ خوش حال اور روشن دماغ گھرانوں کے بچوں کو بھی قرآن و حدیث کے علم سے اپنے دل و دماغ کو منور و تابندہ کرتا چاہیے۔

مدارس میں اہل ثروت اور مالداروں کے بچے کے نہ آنے کی وجہ مدارس اسلامیہ کا بندھا ٹکہ اور فرسودہ نظام اور نصاب بھی ہے۔ تربیت کی کمی بھی ہے، رہن سہن اور خورد و نوش و رہائش کا صحیح انتظام نہ ہونا بھی ہے۔ تنبیہ اور مارپیٹ اور سخت نگرانی ہے بھی ہے جو موجودہ اصول تربیت کے خلاف ہے۔

اگر مدارس اسلامیہ تمام نہیں بعض بھی اپنے نظام تعلیم و تربیت کو درست کرلیں، تعلیم کا معیار حالات کی رفتار کیساتھ کرلیں۔ خورد و نوش زیب و زینت، لباس و پوشاگ اور رہائش و تربیت کا اعلی نظام مرتب کرلیں کہ مالدار گھرانے کے بچوں کو وہاں وحشت و اجنبت نہ ہو، وہ اس ماحول میں اپنے آپ ایڈیجیسٹ کرلیں اور مانوس ہوجائیں، ان کو نگران و اساتذہ کی طرف سے ایسی کسی سختی کا سامنا نہ کرنا پڑے جو اس کو مدارس کے ماحول سے متنفر کردے تو بعید نہیں کہ مالدار گھرانے کے بچے بھی مدارس اسلامیہ کا حصہ بن جائیں اور جب خود کفیل اور مالدار گھرانے کے بچے فارغ ہوکر نکلیں گے تو وہ امت کے لیے بعض اعتبار سے مفید زیادہ ہوں گے اور ان کے اندر حق گوئی، جرآت، اور بے باکی زیادہ ہوگی، وہ علی الاعلان حق بات کہہ سکیں گے، کسی سے متاثر اور مرعوب نہیں ہوں گے۔ اور فکر معاش سے بھی بہت حد تک فارغ البال ہوں گے۔

آج حال یہ ہے کہ مدارس میں اسی فیصد بچے غریب اور پسماندہ گھرانے کے ہوتے ہیں، مالدار گھرانے کے وہ بچے زیادہ تر مدارس میں آتے ہیں جو زیادہ تر ذھنانت کے اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں یا والدین ان سے تنگ آجاتے ہیں، اصلاح سے ناامید ہوجاتے ہیں تو مدارس کے اساتذہ کے حوالے دین داری کا لبادہ دکھا کر کردیتے ہیں۔ الحمدللہ ان بچوں پر محنت کی جاتی ہے اور بھی لائق بن جاتے ہیں۔ میری نظر میں اگر مدارس اسلامیہ غریب مسلمان بچوں کو مفت تعلیم دے کر ان کو کسی لائق بنا دیتے ہیں تو یہ خود ان کا بہت بڑا معجزہ اور کارنامہ ہے۔ لیکن اگر مدارس اسلامیہ سے مالدار گھرانے کے بچے بھی فارغ ہو کر ایک بڑی تعداد میں نکلنے لگیں تو نور علی نور ہوجائے اور دعوت اسلامی کے کاموں کی رفتار بڑھ جائے اور خود دار علماء کی تعداد میں زبردست اضافہ ہو جائے۔

آج دعوت اسلامی کے ایک نئے مرحلے اور دور میں داخل ہونے کی وجہ سے ایسے علماء کی سخت ضرورت ہے جو انگریزی اور دوسری علاقئی اور بین الاقوامی زبانوں پر عبور رکھتے ہوں اور شریعت اسلامی کے گہرے علم کے ساتھ جدید مسائل سے بھی بخوبی واقف ہوں۔

درس نظامی اور مدارس نظامیہ کی افادیت اور اس کے ثمرات و برکات سے کون انکار کرسکتا ہے؟ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے مدارس میں جو نصاب تعلیم اب تک رائج ہے جسے ہم درس نظامی کے نام سے جانتے ہیں، وہ علوم دینیہ کی حفاظت و اشاعت کے لیے تو بلاشبہ کافی ہے، مگر ملکی دفتری ضروریات آج بالکل بدلی ہوئی ہیں، ان میں ہماری قدیم منطق و فلسفہ اور قدیم ریاضی اور فارسی زبان کام نہیں دیتی، آج فارسی کی جگہ انگریزی نے لے لی ہے اور قدیم معقولات کی جگہ نئی سائنس نے، نیز دوسرے علوم جدید نے لے لی ہے، اگر ہمارے اسلاف اور متقدمین اپنے زمانہ کی ضروریات کے پیش نظر فارسی زبان کو اپنا سکتے ہیں، یونانی منطق و فلسفہ اور ریاضی کو نصاب تعلیم کا ایک بڑا جز بنا سکتے ہیں تو ان کی اتباع آج اس میں نہیں کہ ہم اس وقت وہی منسوخ شدہ سکے لے کر بازاروں میں گھومیں، بلکہ وقت کی ضرورت اور حالات کے تقاضے کے مطابق انگریزی زبان کو پڑھنا پڑھانا اور فنون جدیدہ اور نئے اسباب و وسائل کو استعمال میں لانا وہی درجہ رکھے گا جو اس زمانہ میں فارسی اور یونانی فلسفہ کا مقام تھا، اگر ہم ایسا کرلیتے ہیں اور ان علوم کو ان قدیم علوم اور نصاب کی جگہ پر رکھ لیتے ہیں تو یہ کوئی غلط تصرف نہیں ہوگا اور نہ یہ اسوئہ اسلاف کے خلاف ہوگا۔ ۔ بلکہ مضر اسباب سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے انگریزی زبان اور عصری علوم و فنون کو پوری کوشش اور توجہ سے حاصل کیا جائے تو پچھلے منطق و فلسفہ سے زیادہ اسلامی عقائد اور اسلامی علوم کے خادم نظر آئیں گے۔

جدید علوم کو شجر ممنوعہ سمجھنا دانشمندی اور عقل مندی کی بات نہیں ہے۔ ۔ ہمیں علم نافع سے ہر حال میں فائدہ اٹھانا چاہیے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل عمدہ تعلیم وتربیت سے آراستہ ہو اور زمانے سے آنکھیں ملا کر گفتگو کر سکنے کی اس کے اندر ہمت اور طاقت ہو، تو ہمیں دین و دنیا کے بعد کا تصور ختم کرکے دین و دنیا کی جامعیت کا نمونہ پیش کرنا ہوگا اور دینی علوم میں بصیرت کے ساتھ دین کی دعوت و اشاعت کا سائینٹفک انداز اور موجودہ زمانے کے لحاظ سے قریب الفہم طریقہ اختیار کرنا پڑے گا، ورنہ اس سے اغماض برتنے کی صورت میں فرد کا نہیں قوم و ملت کا زیاں، نقصان اور خسارہ ہوگا۔ ۔ اور سچ ہے کہ۔ ۔

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

الحمد بعض مدارس دانش گاہیں اس طرز کے بھی قائم ہوئے ہیں اور ہو رہے، ہیں لیکن ان کی تعداد ابھی بہت کم ہے۔

ناشر / مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے