Ticker

6/recent/ticker-posts

ایک شام معروف ظرافت نگار شکیل اعجاز صاحب کے نام

ایک شام معروف ظرافت نگار شکیل اعجاز صاحب کے نام

اکولہ : 22 جون 2022 بروز بدھ بعد نمازِ عشاء کل ہند بزمِ ادب و ثقافت آکولہ کے زیرِ اہتمام عزیر فارم ہاؤس پر ایک جلسہ ایک شام معروف ظرافت نگار شکیل اعجاز صاحب کے نام منعقد کیا گیا۔

ek-sham-zarafat-nigaar-shakil-ejaz-ke-naam

اس جلسے کی صدارت فصیح اللہ نقیب صاحب نے فرمائی. جس میں مشہور و معروف انشائیہ و طنز و مزاح نگار شکیل اعجاز صاحب اور مشہور و معروف شاعر نعیم فراز صاحب کا اعزاز کیا گیا۔

اس موقع پر کل ہند بزمِ ادب و ثقافت آکولہ کے روحِ رواں رفیق شاد ندوی صاحب نے شکیل اعجاز صاحب کا اعزاز کرتے ہوئے سپاس نامہ پیش کیا جس میں شکیل اعجاز صاحب کو ظرافت نگارِ برار کا خطاب دیا گیا۔

جلسے کا دوسرا پہلو یہ رہا کہ شکیل اعجاز صاحب نے اپنے چار مضامین، جن میں تین خاکے اور ایک رپورتاژ تھا سنائے. شکیل اعجاز صاحب کے مضامین بہت ہر لطف اور مزاحیہ تھے جنھیں سامعین نے بھی خوب پسند کیا اور داد و تحسین سے نوازا. ڈاکٹر محبوب راہی صاحب کے خاکے میں کہا:

” بیڑی کے علاوہ خاص موقعوں پر سگریٹ بھی پیتے ہیں. کسی منسٹر سے ملنا ہوتو منہ میں سیگریٹ ہے. وہاں سے نکل کر کر پھلاری گلی میں آئے اور کسی شاعر سے ملاقات ہوئی تو منہ میں بیڑی نظر آتی ہے. ہم تو اپنی بدلتی اوقات کا اندازہ ان کے منہ میں بیڑی یا سیگریٹ دیکھ کر لگاتے ہیں“

سبیل احمد بمعروف باوا پر خاکہ سناتے ہوئے فرمایا:

” دبلے پتلے آدمی تھے، آواز بہت جاندار اور بھاری تھی، لگتا تھا ان کی نہیں کسی اور کی ہے. اسی طرح باوا کے خاکے سے اس جملے پر بھی سامعین کی طرف داد و تحسین کے ساتھ قہقہے وصولے. فرمایا "لباس دیکھ کر کوئی بھی جان سکتا تھا کہ محض ٹیلرنگ کی مشق کروانے کے لئے کسی سے سلوایا ہے“

فصیح اللہ نقیب صاحب کے خاکے کو بھی سامعین نے خوب پسند کیا کہ موصوف جلسے کی صدارت فرما رہے تھے اور ڈائس پر موجود تھے.اس خاکے میں کہا "مجھ سے کہا فصیح بھائی سے تعارف کرا دیجیے. میں نے کہا یہ فصیح بھائی نہیں ہیں. کہنے لگا کہ پھر کون ہیں؟ میں نے کہا غیر فصیح ہیں. اپنے کام کی چیز نہیں. لیکن سب لوگ تو انھیں فصیح بھائی بلا رہے ہیں. میں نے کہا یہ غلط العام فصیح ہیں. اس نے پوچھا یہ کیا ہوتا ہے؟ ایسا غلط جسے سب صحیح سمجھتے ہیں. اس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا اچھا تو یہ لیڈر ہیں۔“

شکیل اعجاز صاحب کے مضامین کے درمیان شاعری کا دور بھی چلتا رہا، ہر مضمون کے بعد دو تین شعرا اپنا منتخب کلام سناتے رہے. نعیم فراز صاحب اور نبیل اشعر صاحب نے بلترتیب حمد اور سلام پیش کیا. اسی طرح اظہار راشد، اسماعیل عطا، شہزاد انور، طارق فیض، ارشاد حیدر، سید اسد تابش، نعیم فراز، رفیق شاد ندوی، ضمیر احمد ضمیر، التمش شمس اور صدر جلسہ محترم فصیح اللہ نقیب نے اپنا کلام پیش کیا. جلسے کی برجستہ نظامت ضمیر احمد ضمیر نے کی اور اظہارِ تشکر رفیق شاد صاحب ندوی نے پیش کیا. رفیق شاد ندوی صاحب دوہا قطر سے سال دو سال میں جب بھی وطنِ عزیز لوٹتے ہیں، اکولہ رہیں تب تک خوب ادبی مجالس کا انعقاد فرماتے ہیں. انہیں کی کاوشوں سے اس جلسے کی کامیابی منسوب ہے۔

خوشگوار موسم میں کھلے آسمان کے نیچے رات دو بجے تک محفل چلی. جس میں سامعین نے پہلی بار نثر نگاری پر طنزیہ و مزاحیہ خاکے اور رپور تاژ سماعت کیے.

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے