Ticker

6/recent/ticker-posts

غیرت : ایک اچھی انسانی صفت

غیرت : ایک اچھی انسانی صفت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

غیرت انسان کے ان اوصاف میں ہے، جو ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہے، غیرت کی وجہ سے بہن، بیوی، بیٹی، ماں اور وطن تک کی عزت وآبرو کا تحفظ ہوتا ہے، یہ غیرت محبت کی بنیاد پر ہوتی ہے، جس سے جتنی محبت ہوتی ہے، آدمی اس کے سلسلے میں اتنا ہی با غیرت ہوتا ہے، مسلمانوںکو اپنی جان، عزت وآبرو، ماں باپ سب سے زیادہ محبت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے، یہ ہمارے دین وایمان کا حصہ ہے، جب تک کسی کی محبت دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ نہ ہو کوئی انسان کامل مسلمان نہیں ہو سکتا، محبت رسول کے سلسلے میں قرآن کریم اور احادیث رسول میں واضح ہدایات موجود ہیں اور ان کا تقاضہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کوئی بھی گستاخی کرتا ہے تو اسے سخت سزا ملنی چاہیے، کسی خاص پارٹی سے نکال کر اسے تحفظ فراہم کرنا اس کے جرم کی سزا نہیں ہے، نفرت پھیلانے اور مسلمانوں کی دلآزاری کے جرم میں ہندوستان کے موجودہ قوانین میں جو سزا ہے وہ بھی دی جاتی تو غصہ کچھ ٹھنڈا ہوتا، لیکن اب غصہ کی یہ آگ ہندوستان کے ساتھ مسلم ممالک تک پھیل گئی ہے، یہ ہماری غیرت کا تقاضہ ہے کہ ہم ناموس رسالت کے تحفظ اور امہات المومنین کے تقدس کی بقاکے لیے ہندوستانی قانون کے دائرہ میں جو کچھ کر سکتے ہوں کریں، ہمیں حکومت کو یہ باور کرانا چاہیے کہ ہم سب کچھ برداشت کر تے رہے ہیں، لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے کہ ہم اس کو کسی بھی حال میں بر داشت نہیں کر سکتے، یہ معاملہ ایسا ہے جس پر ہم صبر کرہی نہیں سکتے، حکومت جتنی جلدی اس بات کو سمجھ لے ملک کے حق میں بہتر ہوگا، یہ تو رہی نبی صلی اللہ علیہ کی محبت اور غیرت کی بات، بے غیرت انسان کو ان چیزوں کی فکر نہیں ہوتی، کسی کے ساتھ کچھ نا زیبا سلوک ہوجائے، کسی کی عزت وآبرو داؤپر لگ جائے، بے غیرت انسان کی پیشانی پر بل نہیں آتا، او روہ ہر حال میں جو کچھ ہے اور جیسا کچھ ہے، قبول کرتا رہتا ہے، لیکن با غیرت انسان، خاندان اور ملک وملت کی عزت کو بٹہ لگتا نہیں دیکھ سکتا، اور اس کے بس میںجو کچھ ہوتا ہے کر گذرتا ہے، اس معاملہ میں عربوں کی غیرت وحمیت ضرب المثل رہی ہے، مشہور ہے کہ ایک میاں بیوی کا جھگڑا مہر کی رقم کی مقدار پر ہو گیا، معاملہ قاضی کے پاس گیا، قاضی نے گواہ طلب کیا اور گواہ نے یہ شرط لگائی کہ پہلے عورت کا حجاب اتارا جائے؛ تا کہ میں اس کا چہرہ دیکھ کر بتاؤں کہ یہی عورت ہے، جس کے نکاح میں، میںموجود تھا، بس اتنی بات پر شوہر کی غیرت جاگ اٹھی، وہ اس بات کو بر داشت نہیں کر سکا کہ اس کی بیوی کا چہرہ غیر مرد دیکھے، اس نے کہا: قاضی صاحب یہ نہیں ہو سکتا، میری بیوی جتنے مہر کا دعویٰ کر رہی ہے میں اس کو دوں گا، لیکن کوئی دوسرا اس کا چہرہ دیکھے یہ میرے لیے ناقابل بر داشت ہے، بیوی نے شوہر کی یہ غیرت وحمیت دیکھی تو اس نے سارا مہر قاضی کو گواہ بنا کر ہی معاف کر ڈالا اور دونوں ہنسی خوشی گھر آگیے، غیرت کے اس قسم کے بہت سارے واقعات سے کتابیں بھری ہوئی ہیں۔

آج بھی انسانوں میں غیرت باقی ہے، وہ اپنے خاندان کی عزت کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے، اور معاملہ قتل وخوں ریزی تک جا پہونچتا ہے، ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ غیرت کے حوالے سے کچھ اور باتیں کی جائیںآپ کویاد ہو گا کہ پاکستانی ماڈل قندیل بلوچی کے بارے میں یہ خبر آئی تھی کہ اس کے بھائی نے اس کی بے راہ روی کو دیکھ کر اس قندیل کو ہی بجھا دیا جو کبھی عمران خان سے شادی کی خواہش ظاہر کرتی، کبھی اس کے اندر شاہد آفریدی کی قربت کی بھوک جاگتی اور کبھی ورلڈ کپ چمپین پاکستان کے بننے پر بر ہنہ ناچنے کا اعلان کرتی، اس کی غلط حرکت اور اعلانات سے پورے خاندان کو شرمندگی اٹھانی پڑ رہی تھی، چنانچہ اس کے بھائی نے فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کو قتل کر دیا۔

غیرت کے نام پر قتل یا تشدد کے واقعات ہندوستان میں بھی وقوع پذیر ہوئے ہیں، پاکستان میں اس کا تناسب بہت ہے، اعداد وشمار کے حوالہ سے دیکھیں تو پاکستان میں ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۴ء تک چار ہزار، ۲۰۰۵ء میں ایک ہزار، ۲۰۰۷ء میں انیس سو سنتاون افراد غیرت کے نام پر قتل کیے گیے، اقوام متحدہ کی رپورٹ پر اعتماد کریں تو معلوم ہو گا کہ ہر سال پانچ ہزار خواتین اس غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتاردی جاتی ہیں، جبکہ بی بی سی کی رپورٹ اس سے چار گنا زیادہ یعنی بیس ہزار کی ہے، ان میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں؛ مگرمردوں کے قتل کے واقعات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔

یہ حالات کیوں پیدا ہوئے ہیں؟ اور ہمارے لڑکے لڑکیاں غیرت وحمیت، حیا وشرم کی چادر اتار کر بے غیرتی اور بے حیائی پر کیوںاتر آتی ہیں، اس کے اسباب کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے، آج صورت حال یہ ہے کہ ثقافت اور کلچر کے نام پر ہمارے تعلیمی اداروں میں ناچ گانے عام ہیں، چھوٹی چھوٹی بچیوں کو اسٹیج پر ناچنے کی مشق شروع سے ہی کرائی جاتی ہے، موسیقی کی دھنوں اور گانے کے بول پر ان کے پاؤں تھرکنے لگتے ہیں، اسکولوں میں جویونی فارم بچیوں کو دیا جارہا ہے، وہ ٹخنے سے اوپر تک کا اسکرٹ ہے، یہ کبھی کبھی اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ آگے جھکنے کی شکل میں پیچھے سے بے پردگی ہوجاتی ہے، یہی حال لڑکوں اور نوجوانوں کے پینٹ کا ہے، عموماًمسجدوں میں یہ نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ سجدے میں جانے کے بعد ستر پیچھے سے کھل جاتا ہے، نماز پر اس کا اثر پڑتا ہے یا نہیں، اس بحث سے قطع نظر دیکھیں تو بھی یہ کیسی بے شرمی کی بات ہے، اس کے علاوہ عصری تعلیمی اداروں میں مہمانوں کا استقبال کرنے کے لیے جوان لڑکیوں کو کھڑا کیا جاتا ہے، گلدستہ اور بو کے پیش کرنا ہو تو عورتوں اور لڑکیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے، بعض اداروں میں بھی اب اس قسم کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، معزز مہمانوں کو ان کی نشست گاہ تک لے جانے کے لیے بھی خواتین اور لڑکیوں کا ہی استعمال کیا جاتا ہے اور اسے عزت افزائی کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، یہ تو گھر سے باہر کا ماحول ہے، گھر کے اندر ڈش انٹینا کے ذریعہ پھیلائی جا رہی فحاشی موبائل اور انٹر نیٹ پر ہزاروں فحش صفحات، فحش ویڈیو کلپ یہ سب مل کر ہمارے لڑکے لڑکیوں سے حیا کی چادر اتروا دیتے ہیں، اس کے علاوہ ماڈلنگ کی چکا چوندھ، کپڑے چھوٹے کرکے اور اتار کر زیادہ کمانے کی ہوس بے غیرتی کے دلدل میں دھنسنے پر مجبور کر دیتی ہے، اب اگر بھائی، باپ ماں اور گھر کے دوسرے لوگوں میں غیرت وحیا باقی ہے تو ان کے لیے یہ سوہان روح ہوتا ہے، اپنے بچیوں کی حرکات وسکنات سے وہ گھٹن محسوس کرتا ہے، سماج میں اس کی بے وقعتی ہوتی ہے، اس پر آوازے کسے جاتے ہیں، ان سب کا اثر کبھی کبھی غیرت وحمیت کے نام پر قتل کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

بر صغیر ہندوپاک کے تناظر میں دیکھیں تو ان ممالک کے اپنے قوانین ہیں، تعزیرات کی اپنی دفعات ہیں اور ان میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یوں بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا کسی طور درست نہیں ہے۔ لیکن ہم ان اسباب وعلل کو دور کرنے کے لیے کام کر سکتے ہیں اور اس میں کہیں بھی قانون رکاوٹ نہیں ہے، اس لیے غیرت کے نام پر انتہا پسندی کے بجائے ہمیں سماج میں ایک ایسا ماحول بنا نا چاہیے اور تعلیمی اداروں سے لے کر گھر تک ایسا تربیتی نظام پروان چڑھانا چاہیے کہ حیا، غیرت وحمیت ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن جائے کوئی کسی کی توہین کرنے کی جرأت نہ کرے، اس کے لیے سماج کے ہر طبقے کو آگے آنا ہوگا، صرف انسانی حقوق کے تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی کے نام اس قسم کی حرکتوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے