Ticker

6/recent/ticker-posts

ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں

ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں




محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیں

بچپن میں (شعور و آگہی آنے کے بعد) گھریلو ماحول میں اپنے والدین، بڑے بوڑھوں اور سرپرستوں سے جو اشعار سنے تھے، اور جو زبان زد تھے، ان میں ایک شعر تھا...

ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیں

گھریلو ماحول میں ہی وہ واقعات بھی سنے اور جن کو بعد میں سیرت کی کتابوں میں پڑھا کہ کس طرح مشرکین مکہ اور قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ظلم و زیادتی کرتے تھے اور ان کو تختئہ مشق بناتے تھے، مسلمانوں کو زک پہنچاتے۔ لیکن ظلم کی طاقت اور حکومت زیادہ وقت نہیں چلی، جلد ہی اللہ تعالی نے ظالموں کو اس کے انجام تک پہنچا دیا اور ان کو ان کے کئے کی سزا دے دی، یا اپنی مصلحت و حکمت سے سزا آخرت کے لئے موخر کر دیا۔

اللہ تعالٰی کو ظلم قطعا پسند نہیں ہے۔ وہ ظالموں کو کبھی پسند نہیں کرتے، قرآن مجید میں اللہ تعالی نے جگہ جگہ ظلم کی شناعت، قباحت اور ظالموں سے اپنی بے تعلقی و بے زاری کو واضح کردیا ہے۔ جس طرح ایک ماں کبھی نہیں چاہتی کہ ان کی اولادیں باہم ایک دوسرے کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کریں، ان کے درمیان جور و جفا اور ظلم و ستم ہو، وہ ایک دوسرے کے ساتھ ترش روی اور سختی سے پیش آئیں۔ وہ اپنی اولاد کو باہم میل جول اور محبت و شفقت اور احترام و عقیدت کے ساتھ رہنا اور دیکھنا چاہتی ہیں۔ اللہ تعالٰی کو اپنے بندے سے ستر ماووں سے زیادہ بڑھ کر محبت ہے، وہ بھلا یہ کیوں پسند کرے، کہ اس کا کوئی بندہ دوسرے بندے پر ظلم و زیادتی اور جبر و تشدد کرے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے کفر و شرک کے بعد ظلم کو سب سے زیادہ ناپسند فرمایا ہے، اس نے ظلم کرنے والے کے لئے بدبختی اور محرومی کا اعلان کردیا ہے و قیل بعدا للظالمین اور یہ بھی اعلان کر دیا کہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے، یعنی ظلم کرنے والے کے لئے کامیابی و کامرانی نہیں ہے۔ انہ لا یفلح الظالمون

حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ قول منسوب ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ شرک و کفر کے ساتھ تو حکومت چل سکتی ہے، لیکن ظلم تشدد اور نفرت کے ساتھ حکومت نہیں چل سکتی۔

دنیا میں جو لوگ اور حکومتیں ظلم و جبر اور تشدد و زیاتی کو اپنا وطیرہ بناتی ہیں، نفرت کی دیواریں کھڑی کرتی ہیں، وہاں کے رہنے والے اپنے جیسے انسان کو تختہ مشق بناتے ہیں، تو ہم سمجھتے ہیں کہ ظالم آزاد ہیں اور اس کو کوئی سزا نہیں مل رہی ہے، تو ہم مایوس و ناامید ہوجاتے ہیں، خدا پر ہمارا ایمان کمزور ہوجاتا ہے، ہمارے یقین و ایمان اور عقیدہ میں اضمحلال پیدا ہوجاتا ہے۔ یہاں ہمیں غور کرنا پڑے گا اور خدائی فیصلے کی حکمتوں کو سمجھنا پڑے گا کہ اللہ تعالی نے بعض حکمت اور مصلحت کے پیش نظر دنیا میں یہ نظام اور اصول و ضابطہ بھی بنایا ہے کہ وہ وقتی طور پر دنیا میں ظالموں اور سرکشوں کو مہلت اور ڈھیل دیتے ہیں۔ اس لئے لوگ ظلم و ستم اور جور و جفا کے راستے اور طریقہ پر چل پڑتے ہیں اور اس روش کو اپنا لیتے ہیں۔ انہیں شروعات میں یقینا مہلت ملتی ہے، انہیں ڈھیل دی جاتی ہے لیکن پھر اللہ تعالی ان کی زبردست پکڑ کرتے ہیں، پھر وہ خدا کی گرفت سے بچ نہیں پاتے ہیں۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ظالم کو ڈھیل اور مہلت دئے جاتے ہیں پھر جب پکڑ کرتے ہیں تو اس کو نجات اور چھٹکارہ نہیں دیتے۔

اسلام عدل و انصاف اور مساوات کا علم بردار ہے، اس نے سماج و سوسائیٹی میں لازمی طور پر عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں رکھا کہ ظلم کرنے والا کون ہے اپنا یا پرایا دشمن یا دوست۔ اسی طرح وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے، ظالموں کا ہاتھ پکڑنے اور مظلوموں کی حمایت کرنے کا تاکیدی حکم دیتا ہے۔ ظلم چاہے ایک فرد دوسرے فرد پر کرے، یا ایک گروہ اور جماعت دوسرے گروہ اور جماعت پر کرے۔ ایک ملک دوسرے ملک پر کرے یا حکمراں جماعت اپنے کچھ خاص شہریوں اور طبقوں پر کرے، جو بھی صورت ہو، ظلم ظلم ہے، اس کے خلاف آواز اٹھانا لازمی اور ضروری ہے، اسلام میں ہر حال میں یہ لائق مذمت اور ناقابل برداشت ہے۔ بلکہ کسی سچے مذھب میں ظلم کی تائید نہیں کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ظلم اور ظلم کرنے والوں کے بارے میں سخت الفاظ میں تنبیھات کی گئ ہیں۔ مظلوم کی دعا ہر حال میں اللہ تعالی کے دربار میں قابل قبول ہوتی ہے۔ ظلم کا انجام دنیا میں بھی برا ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا اور ان کے بعد دوسری قوم کو اٹھایا۔ اسلام کی تعلیم ہے کہ کسی حال میں ظالم کا ساتھ نہ دیا جائے۔ جس شخص نے ظالم کا ساتھ دیا تو وہ اسلام کے دائرے سے نکل گیا۔ ( بیہقی / طبرانی ) جس شخص نے کسی جھگڑے میں ظالم کا ساتھ دیا اس کی مدد کی اس پر اللہ کا غضب ہوگا۔ (ابو داؤد ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا؛ مظلوم کی مدد کرنا تو ہماری سمجھ میں آتا ہے۔ یہ ظالم کی مدد کرنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے ظلم نہ کرنے دو۔ یہ اس کی مدد ہے۔ ظالم کا مقابلہ اور مظلومین کی حمایت نصرت و مدد یہ انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ اور مشن رہا ہے۔ قرآن مجید میں ان انبیاء کرام علیہم السلام کے اس مشن کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ظلم کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ ظالموں کا مقابلہ کرنے اور مظلوموں کی حمایت کرنے کا حکم دیا اور اس سلسلے میں عملی اقدامات بھی کئے۔ بعثت سے پہلے مکہ مکرمہ کے کچھ حساس اور غیرت مند نوجوانوں نے ایک انجمن بنائی، اس کا نام حلف الفضول رکھا اور اس کے تحت ایک معاہدہ تشکیل پایا کہ مکہ کی وادی میں کسی پر، چاہے وہ کہیں کا ہو ظلم ہونے نہیں دیں گے۔ اور مل کر مظلوم کی مدد کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاہدہ میں پیش پیش تھے۔

بعثت کے بعد بھی اس معاہدہ کا ذکر خیر کرتے تھے اور فرماتے تھے، آج بھی اس طرح کا معاہدہ ہوگا، تو ہم اس میں ضرور شرکت کریں گے۔ ضرورت پڑنے پر اسلام میں جو جہاد کی اجازت دی گئی ہے یہ اصلا ظلم کی سرکوبی اور اس کے خاتمہ کے لئے ہے۔ اسلام نہیں چاہتا کہ کوئی خواہ مخواہ کسی پر اپنی مرضی تھوپے کسی شخص کو غور و فکر کی آزادی سے روکے، کسی کو اپنا غلام بنائے۔ اس لئے اسلام نے ان ظالم اور جابر حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانے کا حکم دیا، جو اپنی رعایا کو غلام بنا کر رکھے، اس پر اپنا مذھب اور قانون تھوپے اور ان پر ظلم و ستم روا رکھے۔ ہندوستان میں جتنے بھی مسلمان حکمران رہے، سبہوں نے مذھبی رواداری کا بھرپور خیال رکھا۔ ظالموں کی سرکوبی میں پیش پیش رہے، اپنی رعایا پر بلا فرق مذھب و مسلک ظلم ہونے نہیں دیا۔ اس کی پوری تاریخ ہے۔ افسوس کہ نہ ہم اس کو پڑھتے ہیں اور نہ برادران وطن کو بتاتے ہیں۔

اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بتایا کہ نہ وہ ظلم کریں اور نہ ظلم سہیں۔ ظلم کے خلاف کھڑے ہونا، دوسرے لوگوں کو بھی ظلم سے بچانا یہ اسلام کی پہچان اور شناخت ہے۔

ان تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہوگی کہ اسلام میں ظلم کو کبھی پسند نہیں کیا گیا ہے اور ظالموں سے نبرد آزما ہونا اور ان کو ظلم سے روکنا یہ اسلام کا وطیرہ اور تعلیم ہے۔

ملک عزیز ہندوستان میں پچھلے چند دہائیوں اور سالوں میں اور خاص طور پر گزشتہ چند دنوں میں پورے ملک میں اور خاص طور پر بعض صوبوں اور ریاستوں میں مسلمانوں پر اور دیگر اقلیتوں پر جو ظلم و ستم اور جبر و تشدد اور ناروا سلوک ہوا ہے اور ہو رہا ہے، نفرت کا جو ماحول پیدا کیا جارہا ہے، انسانیت کا جس طرح قتل و خون ہورہا ہے، پیغمبر اسلام کی شان میں توہین کرکے مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیلا جارہا اور مظلوم ہونے کے باوجود مسلمانوں کے ہی گھر اور مکانات کو منہدم کیا جارہا ہے اور مسلم نوجوانوں کو جو جیل کی سلاخوں میں ڈالا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ جبر و تشدد کے جو واقعات پیش آرہے ہیں، ان کے ساتھ جو ناانصافیاں ہو رہی ہیں، اس نے مسلمانوں کو مایوس، کم ہمت، پست حوصلہ اور شکست خوردہ کردیا ہے، وہ ایک طرح سے احساس کمتری اور احساس کہتری کے شکار ہوگئے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو لٹا پٹا محسوس کررہے ہیں۔ ان کو مایوسی، کم ہمتی اور پست حوصلگی سے نکالنے والے قائدین اور رہنما نہیں مل رہے ہیں۔ قیادت کا فقدان ہے، جو قیادت کر رہے ہیں، وہ خود اپنوں کی نگاہ میں غیر دانشمندانہ فیصلوں، قراردادوں اور بیانوں کی وجہ سے مشکوک و متہم ہو رہے ہیں۔ کہیں نہ کہیں وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور ظالم حکومت کے لئے آلئہ کار بن جارہے ہیں۔

دوسری طرف وہ طاقتیں اور حکومتیں جو اپنے ظلم و ستم اور جور و جفا کی وجہ سے سر اٹھانے کے قابل نہیں تھیں، دنیا میں جنہیں انسانیت اور مانوتا کا قاتل سمجھا جاتا تھا آج وہ طاقتیں دنیا میں اپنی ذلت و رسوائی اور بدنامی کو چھپانے کے لئے مسلم جماعتوں اور تنظیموں اور ان کے رہبروں و کارندوں کو لبھانے اور پھسلانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ کس طرح ان کو دام فریب میں لے کر عالمی طاقتوں کے سامنے رسوائی اور جگ ہنسائی سے بچ جائیں۔ اس کے لئے وہ بڑی حکمت منصوبہ بندی اور چالاکی و عیاری سے بعض لوگوں اور فرقوں و مسلکوں کے لوگوں کو اپنے سے قریب کررہے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو ان سازشوں اور عیاریوں سے ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور ان کے ارادوں اور منصوبوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم ظالموں کے ظلم کو فراموش نہ کریں۔ جس نے کبھی اپنے جرم اور ظلم پر معذرت نہیں کی اور نہ مظلموں کے زخم پر مرحم رکھے اور نہ ان کے آنسو پوچھنے کی کبھی کوشش کی، ہم انہیں اور ان کے ظلم و ستم کو کیسے بھول جائیں ہم انہیں کیسے معاف کردیں؟۔ میرے قتل کے بعد بھی تو انہوں نے جفا سے توبہ نہ کیا۔

اللہ تعالٰی نے ہم کو صرف ظلم سے بچنے کا ہی حکم نہیں دیا بلکہ اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ ہم ظالموں کا ساتھ دیں ان کا تعاون کریں ان کی مساعدت کریں۔ ان کا آلئہ کار بنیں۔ 
 مسلمانوں کا یہ شیوہ نہیں ہے، ایک مسلمان کے لیے یہ رویہ درست نہیں کہ وہ حالات سے اور ظالم اور ظالم حکومت سے اتنا خوفزدہ ہوجائے کہ ظالم کو ظالم کہنے کی بھی ہمت نہ کر پائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تم اس امت کو دیکھو کہ وہ ظالم کی ہیبت اور خوف میں یہ کہنے کی بھی ہمت نہیں کرتی کہ تو ظالم ہو تو پھر ایسے لوگوں سے دوری اختیار کر لو۔ ( مسند احمد :۲/۱۶۳)

موجودہ حالات یہ ہیں کہ ایک طرف مسلمان ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں، ان کے مکانات کو منہدم کیا جارہا ہے، ان کے لیے ناطقہ بند کیا جارہا ہے، معاشی سیاسی اور سماجی طور پر ان کو بے حیثیت اور بے وزن کیا جارہا ہے، تو دوسری طرف خودمسلمانوں کو ان ہی کے بعض لوگ اور چند رہنما، مایوسی، احساس کمتری، بے یقینی، اورکم حوصلگی کا شکار بنا رہے ہیں۔ وہ خود ان کی زبان بند کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ایسے حالات میں مسلمانوں کا فریضہ اور ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم اور جبر و تشدد کو فراموش نہ کریں، اپنے سرمائہ غم کو تازہ رکھیں، ظلم کو ظلم کہیں اور ظالموں کو ظلم سے روکنے کے لئے جمہوری حدود، دستور اور آئین کے تحت پوری کوشش کریں، عالمی برادری اور خصوصا عالم عرب کے سامنے صحیح انداز سے آواز آٹھائیں اور ایسی طاقتوں کم کمزور کرنے کی جمہوری نظام میں جو طاقت ہمارے پاس ہے، اس کا صحیح استعمال کریں۔ اور کبھی اس پر راضی نہ ہوں کہ ہم خود مسلمان بھائی پر ظلم کرنے کی وجہ اور سبب بن جائیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اپنے بھائی پر نہ ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ظالموں کے حوالے کرتا ہے۔ (بخاری ) ایسے ظالموں کے ظلم کو فراموش کردینے کی دعوت دینا، ان کی طرف سے صفائی دینا، ان کو باکل کلن چٹ دینا، مسلمانوں کو ظالموں کے حوالہ کر دینے کے مترادف ہوگا۔ اور جو لوگ ایسے لوگوں کی غلط بات کی بھی تائید کریں گے اور بے جا صفائی پیش کریں گے۔ حقائق کو غلط انداز سے پیش کریں گے اور خلط مبحث کرتے رہیں گے وہ بھی یاد رکھیں کہ ان کا شمار بھی ظالموں میں ہوگا۔ اس وقت اس ظلم کے خلاف بلا اختلاف مسلک و مشرب اور عقیدہ سارے مسلمانوں کو متحد ہونا اور سب کا ایک پلیٹ فارم پر آنا ضروری ہے، اس کے بغیر ہم ظالم کے ظلم اور اس کی ریشہ دوانیوں سے بچ نہیں سکتے اور نہ ہی اپنے مذہب اور عقیدہ کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ نوٹ / اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں، دوسری زبانوں میں ترجمہ کرکے برادران وطن تک بھی پہنچائیں، اور اگلے جمعہ میں ظلم کی شناعت پر خطاب بھی اس تحریر کی روشنی میں کریں۔

ناشر / مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 6393915491

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے