Ticker

6/recent/ticker-posts

قربانی کی تاریخ اور روح : خطاب جمعہ ۔۸، جولائی

خطاب جمعہ۔۔۔۔۔۔۔۸/ جولائی

قربانی کی تاریخ اور روح


محمد قمرالزماں ندوی

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

قربانی خدائے وحدہ لا شریک کی بارگاہ میں تقرب، اعتماد و اعتبار حاصل کرنے اور اس کے حضور جان و مال کا نذرانہ پیش کرنے کا نام اور اس کا بہترین ذریعہ ہے۔

اس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنی انسانیت کی تاریخ قدیم اور پرانی ہے۔ قربانی کی ابتداء اور آغاز اور نذرانہ کا رواج حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے کے وقت ہی سے ہو چلا تھا، ان کے دونوں بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی اور نذرانے کا ذکر تو تورات و انجیل کے علاوہ خود قرآن مجید میں سورہ مائدہ میں بھی ہے۔ قربانی کا وجود کسی نہ کسی شکل اور صورت میں ہر نبی اور رسول کے زمانہ میں ملتا ہے، گو کیفیت اور طریقہ الگ الگ رہا ہو۔ اور آج بھی شاید ہی کوئی قوم اور کوئی ملک ہو جہاں اس کا رواج کسی نہ کسی شکل میں نہ ہو۔

زمانہ قدیم میں قربانی کی شکلیں کچھ اس طرح رہی ہیں

جانور کو ذبح کرنے کے بجائے کسی اونچی جگہ یا پہاڑی پر رکھ دینا۔ (پھر آسمانی آگ آتی اور جس کی قربانی درست ہوتی اس کو خاکستر کر دیتی یہ دلیل اور اشارہ ہوتا کہ بارگاہ ایزدی میں اس کی قربانی قبول ہوگئ۔ ہابیل اور قابیل نے اسی شکل میں قربانی پیش کی تھی اللہ تعالی نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی اور قابیل کی قربانی کو قبول نہیں کیا) قربانی کی یہ شکل و صورت حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں رہی، اس زمانے میں ان کے بیٹے اسی طرح کی قربانی پیش کرتے تھے۔

جانور کو اپنے معبود کے نام پر چھوڑ دینا، جیسا کہ ہندوستان میں رواج رہا ہے۔ اس رسم کا سراغ ہمیں حضرت صالح علیہ السلام کے دور میں حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں آنے کے ڈھائی ہزار سال بعد ملتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر اس طرح ہے۔فقال لھم رسول اللہ ناقة اللہ و سقیاھا فکذبوہ فعقروھا۔

عرب میں بھی اس کی مختلف شکلیں رائج تھیں، وہ لوگ قربانی کا گوشت بیت اللہ کے سامنے لا کر رکھتے اور اس کا خون بیت اللہ کی دیواروں پر لٹھیڑتے تھے، قرآن کریم نے بتایا کہ۔ خدا کو تمہارے اس گوشت اور خون کی ضرورت نہیں، اس کے یہاں تو قربانی کے وہ جذبات پہنچتے ہیں جو ذبح کرتے وقت تمہارے دلوں میں موجزن ہوتے ہیں یا ہونے چاہیئں۔ قران مجید نے اہل عرب کی قربانی کے اس جاہلانہ رسم کی تردید کرتے ہوئے اللہ پر افترا اور بے عقلی کا کام قرار دیا : ما جعل اللہ من بحیرة ولا سائبة ولا وصیلة ولا ھام ولکن الدین کفروا یفترون علی اللہ الکذب و اکثرھم لا یعلقون۔

جانور کو ذبح کرکے اس کا خون اور گوشت چڑھانے کا رواج بھی بودھ، جین اور کنفیوشس دھرموں کے علاوہ تمام بت پرست قوموں میں پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے اپنے روایتی طریقوں کے مطابق مختلف جانوروں کو کاٹ کر اس کا خون چڑھاتے ہیں، اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ بعض ملکوں جیسے جنوبی امریکہ کے ملک برازیل کی وحشی قوموں میں مانو بلی ( انسانی قربانی) بھی پایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں یگیہ کی تقریب میں پشو بلی یعنی جانوروں کی قربانی کا رواج رہا ہے۔ دین ابراہیمی میں اس کی پہلی نشانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ خواب کرتا ہے، جس میں انہوں نے اپنے بیٹے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا : قال یا بنیی انی اری فی المنام انی اذبحک۔۔۔۔۔۔۔ من الصابرین۔

قربانی دینے کا ایک رسم یہ بھی رہا ہے کہ منت پوری ہونے پر اپنی اولاد لڑکا ہو یا لڑکی (زیادہ ترلڑکا) عبادت گاہ کی خدمت کے لئے وقف کر دی جاتی تھی۔حضرت مریم علیھا السلام کی والدہ کی نذر کا ذکر قرآن مجید میں ہے : و اذ قالت امرا ة عمران رب انی نذرت لک مافی بطنی محررا فتقبل منی۔۔۔۔۔۔الخ)آل عمران ۴۵/ ۳۶) (مستفاد از پیش لفظ از کتاب قربانی و عقیقہ کے شرعی احکام مولفہ راقم الحروف)
 غالبا انہیں مذکورہ بالا صورتوں اور شکلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا و لکل امة جعلنا منسکا لیذکروا اسم اللہ علی ما رزقھم من بھیمة الانعام۔ ( حج ۳۴)

جب اسلام کی آمد ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منصب رسالت و نبوت ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی لغو۔ بے بنیاد اور رسوم و رواج کو کالعدم کردیا، جبکہ کچھ امور کو چند ضروری اصلاحات و ترمیمات کے بعد برقرار بھی رکھا۔

اسلام نے اپنے ماننے والوں کو یہ بتایا کہ قربانی صرف گوشت اور خون کا نام نہیں ہے، بلکہ اس حقیقت کا نام ہے کہ ہمارا سب کچھ خدا کے لئے ہے اور اسی راہ میں قربان ہونے کے لئے ہے۔

جان دی، دی ہوئی اسی کی ہے
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

قربانی کرنے والا صرف جانور کے گلے پر ہی چھری نہیں پھیرتا بلکہ وہ ساری ناپسندیدہ خواہشات اور رسم و رواج کے گلے پر بھی چھری پھیر کر ان کو ذبح کر ڈالتا ہے۔ اس شعور کے بغیر جو بھی قربانی کی جاتی ہے۔ جانور ذبح کیا جاتا ہے وہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی سنت نہیں، بلکہ ایک قومی رسم اور سماجی رواج و طریقہ ہے، جس میں گوشت و پوست کی کثرت و فراوانی ہوتی ہے، لیکن وہ تقوی ناپید ہوتا جو قربانی کی روح اور اصل ہے۔ اور وہ اسپرٹ نہیں ہوتی جو قربانی کی جان ہے۔

ارشاد خداوندی ہے کہ اللہ تعالی کو جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اس کو تمہاری جانب سے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔

خدا کی نظر میں اس قربانی کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں، جس کے پیچھے تقوی کے جذبات نہ ہوں۔ خدا کے دربار میں وہی عمل مقبول ہے جس کا محرک خدا کا تقوی یعنی خوف و لحاظ ہو۔ فرمان الہی ہے۔ انما یتقبل اللہ من المتقین۔ اللہ تعالٰی صرف متقیوں کا عمل ہی قبول کرتا ہے۔

دوستو، بزرگو اور دینی بھائیو!
ہمیں معلوم ہونا چاہیے اور ہماری نظر میں یہ حقیقت رہنی چاہیے کہ۔۔۔۔۔۔

قربانی در اصل اس عظیم الشان اور معروف و مشہور واقعہ کی یاد گار ہے، جبکہ ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم خلیل اللہ ( علیہ السلام ) نے خدا کی مرضی و خوشنودی حاصل کرنے، امتحان محبت میں پورا اترنے، اور ابتلاء و آزمائش میں کھرا اترنے کے لئے خود اپنے صاحبزادے اور لخت جگر کے حلقوم پر چھری چلائی تھی، اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم اور بے پایاں رحمت سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو بچا لیا اور ان کی جگہ ایک غیبی اور جنتی مینڈھا ذبح کردیا گیا۔

فدا کاری و خود سپردگی، محبت و اطاعت اور تسلیم و رضا کی ایسی مثال تھی کہ شاید چشم فلک نے اس سے پہلے دیکھی ہو اور نہ اس کے بعد، اسلام نے اس عبرت آمیز اور عظمت خیز واقعہ کو امت مسلمہ کے لئے ایک یادگار بنا دیا، جو ہر سال ان سے اطاعت و وفا، تسلیم و رضا اور پاس وفا کے عہد و پیمان کی تجدید کراتا ہے اور ابراہیم علیہ السلام کے نقوش جاوداں کو زندہ و تابندہ کرتا ہے تاکہ اہل ایمان اور رحمن کے بندے اس شاہراہ سے ہٹنے نہ پائے اور ان کے پاوں پھسلنے نہ پائے۔

الغرض یہ قربانی اس عظیم قربانی کی یاد گار ہے جو آج سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے محبوب بیٹے کی قربانی پیش کی تھی اور یہ ثابت کیا تھا کہ اللہ کی محبت، بیٹے کی محبت پر غالب ہے۔

صحابئہ کرام رضی اللہ عنھم نے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی کی حقیقت اور اس کی اصلیت اور روح معلوم کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے جد امجد ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت، شعار اور ان کا طریقہ ہے اور قربانی کے جانور کے ہر بال پر تم کو نیکی ملے گی۔

یوں تو دنیا کی تمام تاریخ قربانی و جانثاری، تسلیم و خود سپردگی اور محبت و فدا کاری کے واقعات و داستان سے بھری پڑی ہے لیکن خانوادئہ ابراہیمی کی یہ قربانیاں خدائے وحدہ لاشریک کو اتنی پسندیدہ ٹھریں اور ایسی مقبول ہوئیں کہ اللہ تعالی نے قیامت تک کے لئے انہیں یاد گار بنا دیا، آج مسلمان عالم انہیں اداوں اور صورتوں کی نقل کرکے اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت اور شعار کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جاری رکھا اور یہ تسلسل اب تک امت محمدیہ علی صاحبھا و التسلیم میں قائم ہے۔

قربانی صرف سنت ابراہیمی کی اتباع اور نقل و پیروی ہی نہیں ہے، بلکہ ایک محبوب و مقبول عمل، عبادت اور تقرب الہی کا اعلی موثر ذریعہ ہے،۔ نیز مشکلات و مصائب کے حل کا ایک کامیاب اور مفید حل بھی ہے۔

قربانی مجبور و بے کس اور معزور و مجبور انسانوں کے ساتھ ہمدردی و غمگساری اور نصرت و تعاون کا عملی مظاہرہ بھی ہے۔ قربانی انسان کو شہرت اور دوام بھی عطا کرتی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خانوادہ کی پوری زندگی مختلف قسم کی قربانیوں سے لبریز ہے، اسی لئے وہ جبین تاریخ پر روشن اور ان کے نقوش تابندہ ہیں۔ ( مستفاد از پیش لفظ مولانا رحمت اللہ ندوی/ کتاب قربانی و عقیقہ کے شرعی احکام مولفہ از راقم الحروف )

آج جو ہم مسلمان قربانی کرتے ہیں اور چار پانچ دن کے بعد پھر جو ایام قربانی کے آرہے ہیں، وہ در اصل اسی سنت ابراہیمی کا امتداد ہے، جس کی اصل روح اور حقیقی مقصود تقوی ہے اور اس کا پیغام تمام مسلمانوں کے نام یہ ہے کہ وہ اس سنت پر کار بند ہوکر خوش دلی سے اپنے رب کے حضور قربانی پیش کریں کیونکہ اس سے قوموں کو عروج و ترقی اور اقبال و دوام ملتا ہے اور ساتھ ہی بندگی کا حق بھی ادا ہوتا ہے۔

غرض یہ قربانی، ایک اہم اورمہتم بالشان عبادت ہے، یہ امت مسلمہ کا شعار ہے، یہ خدا سے تجدید عہد و وفا کا وقت و موقع ہے، جہاں بندہ یہ اعتراف کرتا ہے کہ میری نماز، میرا حج و قربانی میرا جینا اور مرنا یہ اللہ رب العزت کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ہے، اور ایسا ہی کرنے کا مجھ حکم ملا ہے میرے رب کی جانب سے، اور میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ قربانی کا یہ عمل قیامت تک باقی رہے گا اور لوگ حضرت ابراہیم کی اس سنت کو زندہ کرکے اپنے اندر قربانی کا مزاج پیدا کرتے رہیں گے۔ قربانی کے دن اللہ کے نزدیک قربانی سے بڑھ کر کوئی محبوب عمل نہیں ہے، قربانی کا جانور قیامت کے دن سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے یہاں مقبول ہوجاتا ہے، لہذا قربانی دل کی آمادگی اور خوش دلی سے کیا کرو۔ ع

خلیل مست مئے جنون تھے مگر میں تم سے پوچھتا ہوں
رضائے حق کی چھری 🔪 کے نیچے حیات آئی کہ موت آئی

خدا کرے کہ ہم قربانی کی اہمیت اور اس کی روح کو سمجھیں اور جس موڑ اور جس موقع پر ہم سے جس طرح کی قربانی چاہی اور مانگی جائے، بے چوں و چرا ہم اس کے لئے تیار ہوجائیں۔

ناشر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ
نوٹ براہ کرم دوسروں کو بھی یہ پیغام شئیر کریں تاکہ اس کا نفع عام ہو اور یہ ہمارے لئے اور آپ سب کے لئے صدقئہ جاریہ بنے آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے