Ticker

6/recent/ticker-posts

الیکٹرک گاڑیوں سے پھیلتی آلودگی

الیکٹرک گاڑیوں سے پھیلتی آلودگی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند
=========

ڈیزل پٹرول کے مہنگے ہونے اور غیر ملکوں سے بر آمدگی پر انحصار کی وجہ سے الیکٹرک اور بیٹری والی گاڑیوں کو تیزی سے رواج مل رہا ہے، گیس سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، سوسائٹی آف ایرارتھ کا کہنا ہے کہ ایک الکٹرک کا ر بنانے میں سنتاون (۵۷) کلو کچا مال لگتا ہے، جس میں آٹھ کلو لیتھی یم، پینتیس (۳۵) کلو نِکل، چودہ کلو کو بالٹ ہوتا ہے، ان مادوں کو زمین سے نکالنے میں چار ہزار دو سو پچہتّر(۴۲۷۵) کلو ایسڈ کچڑا اور سنتاون کلو ریڈیو ایکٹیوپیدا ہوتا ہے، اس کے علاوہ الکٹرک گاڑیوں کے بنانے میں (۹) ٹن کاربن نکلتا ہے، جب کہ پٹرول میں یہ ۶ء ۵؍ ٹن ہی پیدا ہوتا ہے، یہی حال پانی کے استعمال کا ہے، الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری میں تیرہ ہزار پانچ سو لیٹر پانی لگتا ہے، جب کہ پٹرول کار میں صرف چار ہزار لیٹر پانی کا استعمال ہوتا ہے، اب اگر الیکٹرک گاڑیوں کو کوئلے سے بنی بجلی سے چار ج کریں تو ڈیڑھ لاکھ کلو میٹر چلنے پر پٹرول کا ر کی بہ نسبت بیس (۲۰) فی صد کم کاربن نکلے گا۔

ہندوستان میں ستر فی صد بجلی کی پیداوار کوئلے کے ذریعہ ہی ہوتی ہے اس لیے ہم الکٹرک گاڑیوں کے ذریعہ صرف بیس فیصد فضائی آلودگی کو کم کر سکتے ہیں، یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ہندوستان کا مقابلہ یورپین ممالک سے نہیں کر سکتے، کیون کہ وہاں الکٹرک گاڑیاں ۶۹؍ فی صد کم کاربن پیدا کرتی ہیں، کیوں کہ وہاں ساٹھ (۶۰) فی صد بجلی بغیر کوئلے کی مدد کے پیدا کی جاتی ہے ۔

مرکزی حکومت کا ہدف یہ ہے کہ ۲۰۳۰ء تک ستر فی صد کمرشیل کاریں، تیس (۳۰) فیصد نجی کاریں، چالیس (۴۰) فی صد بائیک، موٹر سائکل اور اسکوٹر نیز اسی (۸۰) فی صد اوٹو گاڑیوں کو الکٹرک انجن میں بدل دیا جائے، اس سے فضائی آلودگی کم ہوگی، لیکن پھر بھی ہندوستان میں آلودگی کا مسئلہ بر قرار رہے گا، کیوں کہ ہمارے یہاں آلودگی صرف گاڑیوں سے نہیں پھیلتی، اس سے زیادہ دوسرے ذرائع سے ہماری فضا آلودہ ہوتی ہے، جب تک درختوں کی کٹائی رکے گی نہیں، گندی نالیوں کا گرنا دریاؤں میں بند نہیں ہو گا، آتش بازی اور پٹاخوں کے شور کو کم نہیں کیا جا ئے گا تب تک فضا آلودہ ہوتی رہے گی اور آلودہ فضا سے جانداروں کو نقصان پہونچتا رہے گا، آج ساری دنیا پر فضائی آلودگی کا مہیب سایہ ہے اور ہمارے سائنس داں اسے دور کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے