Ticker

6/recent/ticker-posts

مرے پیغام سے خائف مرے ہرکام سے خائف : غزل اردو شاعری

غزل : اسانغنی مشتاق رفیقیؔ


مجھ کو لایا ہے بہت سوچ کے لانے والا
میں ترے شہر سے یوں ہی نہیں جانے والا

میں جو کہتا ہوں، فقط بول نہ سمجھو اُس کو
فن بھی آتا ہے مجھے کر کے دکھانے والا

کوئی کہتا ہے مرے شعر میں انگارے ہیں
کوئی لکھتا ہے مجھے آگ بُجھانے والا

یاسیت ہی تمھیں ہاتھ آئے گی مجھ سے مل کر
مجھ کو آتا نہیں انداز لُبھانے والا

واعظوں کے تو بڑے پہرے لگے تھے اُس پر
آگیا شہر میں کیوں کر یہ ہنسانے والا

کیوں مجھے بھول گیا، اس پہ مجھے حیرت ہے
چاند تاروں سے مری دنیا سجانے والا

مجھ کو کیا کیا نہ رہیں اُس سے امیدیں، لیکن
خالی ہاتھ آیا ترے شہر سے آنے والا

کس قدر بھول بُھلّیاں ہیں ترے رستے میں
کھو گیا راہ میں خود راہ بتانے والا

خواب دیکھو نہ رفیقی کہ یہاں بستی میں
کوئی یوسف نہیں تعبیر بتانے والا

مرے پیغام سے خائف مرے ہرکام سے خائف : غزل اردو شاعری

غزل
اسانغنی مشتاق رفیقیؔ

مرے پیغام سے خائف مرے ہرکام سے خائف
ہے کیوں اس شہر کا ہر فرد میرے نام سے خائف

مجھے تیری جہالت سے نہیں ہے کوئی ڈر لیکن
فقیہہ شہر میں ہوں بس ترے اوہام سے خائف

اُسے معلوم ہے کیا ہے تری اوقات بستی میں
امیرِ شہر کیا ہوگا ترے الزام سے خائف

ترے یہ حوریہ جنت مبارک ہوں تجھے واعظ
تجھے ہے فکر دوزخ کی میں ہوں آرام سے خائف

سمجھتا ہےوہ رفتارِ زمانہ اس لئے شاید
نہیں ہوتا کبھی وہ گردشِ ایام سے خائف

مجھے دشواریوں سے حوصلہ ملتا ہے جینے کا
ذرا بھی میں نہیں ہوتا کبھی آلام سے خائف

مسلماں ہو کے بھی اسلام پرعامل نہیں ہوں میں
یہ دنیا پھر بھی رہتی ہے مرے اسلام سے خائف

سلاسل کو جو تمغہ، دار کو انعام کہتے ہیں
نہیں ہوتے رفیقی وہ کسی انجام سے خائف

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے