زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے ؟؟؟
آہ مولانا جلال الدین انصر عمری بھی نہیں رہے
موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس
یوں تو مرنے کو سبھی لوگ مرا کرتے ہیں
مشہور و باوقار عالم دین، علم و عمل، فضل و شرف کے جامع،متعدد علمی تحقیقی کتابوں کے مصنف و مولف، اعلی اخلاق، اوصاف و کردار کے حامل اور جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر حضرت مولانا جلال الدین انصر عمری آج اللہ کو پیارے ہوگئے۔ مولانا ایک متبحر عالم دین، رہبر قوم اور مسیحائے ملت تھے۔ اعتدال، توازن، علم میں گہرائی و گہرائی ان کا خاص وصف تھا۔ اخلاص و للہیت کے پیکر تھے، خلوص ان کے لفظ لفظ سے چھلکتا تھا،جن سے ملتے محبت و شفقت سے ملتے،
ہر شخص محسوس کرتا کہ مولانا اس دور کے ایک منفرد اور بے مثال عالم دین ہیں، ہٹو بچو، کا ان کے یہاں تصور ہی نہیں تھا، عہدہ و منصب کے حرص و ہوس سے کوسوں دور تھے۔جن اہل علم و قلم کی تحریروں کو پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا اور جن کی تحریروں سے بھر پور استفادہ کیا، ان میں مولانا مرحوم بھی سرفہرست ہیں۔ مولانا کا اسلوب، انداز تحریر انتہائی سلیس، رواں اور پر اثر ہے۔ مولانا کی ایک ایک تحریر سے خلوص اور درد چھلکتا ہے، انہوں خوب لکھا اور ہراس موضوع پر لکھا،جس کی امت کو ضرورت تھی۔
مولانا مرحوم اس شعر کے حقیقی مصداق تھے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، اعلیٰ علین میں جگہ دے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے
0 تبصرے