Ticker

6/recent/ticker-posts

صبر کی اہمیت اور ماتم کی شرعی حیثیت

صبر کی اہمیت اور ماتم کی شرعی حیثیت!


تحریر۔ محمد اشفاق عالم نوری فیضی
رکن۔ مجلسِ علماے اسلام مغربی بنگال کولکاتا۔ 136
رابطہ نمبر۔ 9007124164

عزیزان ملت اسلامیہ جب تک انسان اس دنیا میں ہے رنج و غم اور مصیبت و علم سے اسے کم وبیش دو چار ہونا ہی پڑتا ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونے دیا کہ مذہب اسلام میں پناہ لینے سے وہ ہر طرح کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے بچ گئے۔

البتہ اللہ ربّ العزت نے اپنے بندوں کو صبر کی ایک ڈھال دے دی ہے جس سے وہ مصائب وآلام اور حوادثِ زمانہ سے اپنا بچاؤ کرسکتے ہیں۔ انہیں ایک ایسا ہتھیار فراہم کیا ہے جو انکے سکون و قرار کو نازک ترین لمحوں میں بھی سلامت رکھ سکتا ہے ہر شخص جانتا ہے کہ ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیاتواس میں مقابلہ کی ہمت ختم ہوجاتی ہے۔ اور مصیبتیں اسے خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جاتی ہیں۔ تو ہمیں ایسے موقعے سے صبر کا دامن تھامے رہنا چاہیے اور صبر جمیل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

اور وہ لوگ جو مصائب وآلام اور پریشانیوں میں صبر کا دامن تھام لیتے ہیں اللہ ربّ العزت ان باہمت اور بلند حوصلہ والوں کو یہ پیغام دیتا ہے۔ " اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّا بِرِیۡنۡ" کہ بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

محمد اشفاق عالم نوری فیضی

ایک جگہ اللہ کے ولی حضرت بشر حافی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں۔ اَلصَّبۡرُالۡجَمِيۡلُ هُوَالَّذِیۡ لَا شِكۡوٰی فِیۡهِ اِلَی النََّاسِ۔ صبر جمیل یہ ہے کہ کسی بھی تکلیف کی شکایت لوگوں کے سامنے نہ کرے اور عزیمت یہ ہے کہ وہ کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاے(دلائل الخیرات صفحہ 293)

ائمہ کرام کے نزدیک صبر کا مقام ومرتبہ

صبر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں۔ کہ صبر کا ایمان سے اسی طرح تعلق ہے جس طرح جسم کے ساتھ سر کا تعلق ہے جب جسم سے سر جدا ہوجائے تو جسم بھی ختم ہو جاتا ہے اسی طرح جب صبر ختم ہوجائے تو ایمان ختم ہوجاتا ہے۔ اس مقام پر حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ارشاد گرامی کا ذکر کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا بلکہ ایمان میں پختگی کا باعث ہوگا۔ (اصول کافی)

”واقعہ یہ ہے کہ جب غزوۂ احد میں بہت سارے مسلمان اور حضور صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے غلام شہید ہو گئے جن میں خصوصاً مصعب بن عمیر اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہم جیسے جوان مرد بھی تھے۔ تو جب حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میدان احد سے اپنے صحابہ کرام کے ساتھ واپس مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرتِ علی رضی اللہ تعالی عنہ کو غمگین پایا اور آپ کے چہرے پر اداسی دیکھی تو آپ نے پوچھا کہ اے علی!کیا وجہ ہے کہ تو غمگین ہے؟ تو آپ نے عرض کی کہ اے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم! میں کیوں غمگین نہ رہوں جبکہ میرے بہت سے ساتھی جام شہادت نوش فرما چکے ہیں لیکن میں شہادت سے محروم رہا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیہ وسلم نے فرمایا اے علی! عنقریب وہ وقت آئے گا جب آپ کی مانگ سے لے کر آپ کی داڑھی مبارک کو خون سے رنگین کیا جائے گا تو اس وقت صبر کرنا ہوگا سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ یہ سن کر بول پڑے کہ اے اللہ تعالی کے محبوب میں تو اس وقت صبر کروں گا کیونکہ صبر مصیبت پر ہوتا ہے اور اللہ تعالی کی نعمت پر شکر ادا کیا جاتا ہے اور شہادت اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے اس لئے اللہ تعالی کا شکر ادا کروں گا۔

متذکرہ واقعہ سے ہمیں دو سبق ملا۔ 1.حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں صبر کی اہمیت کتنی عظیم تھی۔ 2.جام شہادت نوش کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام نعمت عظمیٰ سمجھ کر قبول فرما لیتے تھے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح ہوگیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مستقبل میں واقع ہونے والے واقعات سے بھی باخبر ہیں۔

ایک انصاری عورت کا بیٹے کی شہادت پر صبرکرنا

غزوہ بدر کے مقام پر ایک انصاری عورت کا اکلوتا بیٹا شہید ہوگیاوہ حضور اکرم صلی اللہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے یہ ارشاد فرمائیں کہ میرا اکلوتا بیٹا جو شہید ہو گیا ہے وہ جنت میں ہے یا دوزخ میں؟ اگر وہ جنت میں ہے تواس پر صبر کروں اور اللہ تعالی کی اس نعمت عظیمہ کا شکر ادا کروں اور اگر وہ جنت میں نہیں تو پھر میں اس پر خوب دل کھول کر رووں اور اس کا ماتم کروں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا بیٹا جنت کے اس مقام پر ہے جس کو فردوس اعلیٰ کہتے ہیں گو یا آپ زمین پر ہوتے ہوئے عالم برذخ کو دیکھ رہے ہیں( بخاری شریف)

اور مصیبت کے وقت صبرنہ کرنا اعمال صالحہ کےضائع ہونے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ حضرت ابوعبداللہ جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا " کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنی ران پر (بے صبری کرتے ہوئے) ہاتھ مارنا اس کے نیک اعمال کا اجر ضائع کر دیتا ہے۔ "(فروع کافی/ 122)

ماتم کرنا زمانہ جاہلیت کی رسموں میں سے ہے

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ماتم کرنا اور نسب میں تہمت لگانا یہ زمانہ جاہلیت کی خصلتوں میں سے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا - اِثنَانِ فِی النَّاسِ هُمَا بِهِمۡ كُفُرٌ اَلطَّعۡنُ فِی النَّسَبِ وَالنِّیَا حَةُ عَلَی الۡمَیِّتِ - کہ لوگوں میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ کفر میں مبتلا ہیں۔

1. کسی کے نسب پر تہمت لگانا 2. اور میت پر نوحہ کرنا

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ نسب پر تہمت لگانا اور ماتم کرنا حرام ہے اور اگر ان کو جائز اور حلال سمجھ کر کیا جائے تو یہ کفر ہے اور علماء نے یہ تصریح فرمائی ہے کہ یہ دونوں خصلتیں زمانہ جاہلیت کی ہیں اور انکی حرمت اس حدیث پاک سے بھی ثابت ہوتی ہے اور وہ آیات طیبات جن میں اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے کا حکم دیا ہے وہ بھی اس کی حرمت اور واضح دلیل ہیں کیونکہ بے صبری کرنا یہ صبر کی ضد ہےاور بے صبری قطعی حرام ہے۔ اور حرام قطعی کا انکار کفر ہے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : یَا یُّهاَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوااسۡتَعِیۡنُوۡ بِا الصَّبۡرِ والصَّلَوٰةِ۔ اے! ایمان والو( مصیبت کے وقت)صبر کرو اور نماز سے مدد حاصل کرو۔

امرؤ القیس کا نام کو ن نہیں جانتا۔ وہ ایک مشہور و معروف شاعر تھازمانہ جاہلیت کی کئی خوبیوں سے آراستہ تھا۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے زمانہ جاہلیت کے رسم و رواج کے مطابق اپنی بیٹیوں کو وصیت کی کہ تم میرے مرنے کے بعد میری قبرپر خیمہ نصب کرکے ایک سال تک میرے مرثیے کہنا خوب سوگ منانا رونا اور ماتم کرنا۔ اور ایک سال کے بعد اسے ترک کر دینا پھر میں تمہیں معذور سمجھوں گا صرف یہی نہیں بلکہ عرب میں ایسی مخصوص عورتیں تھیں جو مرثیہ خوانی اور نوحہ کرنے میں مشہور تھیں وہ انہیں بلاتے اور بھاری رقوم پیش کرتے اور ان سے اپنے مرنے والوں پر مرثیہ خوانی کرواتے۔ اور یہ سلسلہ مسلسل کئی دنوں تک جاری رہتا (بیضاوی شریف)

ان واقعات سے معلوم ہوا کہ یہ رسم بد زمانہ جاہلیت اور کفرعام تھی اور اسلام نے اسے حرام قرار دیا۔

اس سلسلہ میں ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے جو اس مذکورہ بالا کی تائید کرتا ہے حضرت عمر ابن عاص جنہیں مصر فتح کرنے کا شرف حاصل جب ان کا اس دنیا سے رخصت ہونے کا وقت قریب آیا تو وہ بڑے بے چین ہو گےء چارپائی پر کبھی ادھر پہلو بدلتے اور کبھی ادھر پہلو بدلتے اور زاروقطار روتے آپ کے صاحبزادگان میں پوچھا۔ کہ ابّا جان آپ اتنے کیوں پریشان ہیں۔ اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے تمہارے گناہ معاف فرمادے گا۔ تو انہوں نے کہا میری زندگی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ میری زندگی کا پہلا مرحلہ سراپا کفرتھا۔ اگر اس میں میری موت آ جاتی تو میں سیدھا جہنم رسید ہو جاتا اور میری زندگی کا دوسرا مرحلہ وہ تھا جس میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور آپ کی محبت کا شرف نصیب ہوا اگر اس مرحلہ میں مر جاتا تو میں یقینا سیدھا جنت میں چلا جاتا۔ لیکن میری زندگی کا وہ مرحلہ جو آپ کے بعد گزرا ہے۔ اس کے متعلق مجھے معلوم نہیں میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا اس لئے میں پریشان ہوں۔ لیکن میں تمہیں وصیت کرتا ہوں جب میں مر جاؤں اس کے مطابق عمل کرنا-

”جب میں مر جاؤں تو میرے پیچھے نہ تو کوئی نوحہ بین کرنے والی لانا اور نہ ہی آگ۔ اور جب تم مجھے دفن کر دو اور میری قبر پر مٹی ڈال دو تو میری قبر کے ارد گرد اتنی دیر کھڑے ہوکر (کچھ پڑھتے رہنا) جتنی دیر قربانی کا جانور ذبح کیا جاتا ہے اور اس کا گوشت بنا کر تقسیم کیا جاتا ہے تا کہ میں تمہارے ساتھ مانوس رہوں اور میں جان لو ں کہ میں اپنے کے قاصد وں( منکر نکیر) کو کیا جواب دیتا ہوں۔ “(مسلم شریف رواہ مشکوتہ شریف)

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ عربوں کے ہاں یہ عام رواج تھا کہ میت کے پیچھے مرثیے پڑھنے والی اور نوحہ کرنے والیاں نوحہ اور مرثیہ خوانی کرتی تھیں اور میت کے ہمراہ آگ بھی لے جاتے تھے۔ کیونکہ اسلام نے ان دونوں قبیح رسموں کو حرام قرار دیا تھا۔ اسی لئے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی اولاد کی اس سے منع فرما دیا۔

صرف حرام ہی قرار نہیں دیا بلکہ ایسا کرنے والوں کو شدید وعید بھی سنائی ہے "مَنۡ لَطَمَ الۡخُدُودَ وَ ضَرَب الصُّدُوۡرَوَ شَقَّ الۡجُیُوۡبَ وَدَ عَا بِدَعۡوٰی الۡجَاهِلِیَّةِ فَلَۡیۧسَ مِنَّا "۔ ( بخاری شریف) "کہ جس شخص نے میت کے وقت اپنے رخساروں کو بیٹا اور سینہ کوبی کی اور گریبان چاک کۓ اور زمانہ جاہلیت کی طرف غلط دعوے کئے یعنی بین اور واویلا کیا تو وہ ہم میں سے نہیں۔ یعنی وہ ہمارے طریقے پر نہیں۔“

ایک اور جگہ ہے کہ " حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا سے رخصت ہونے کے وقت حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا کو وصیت فرمائی (اے میری لخت جگر) جب میں فوت ہو جاؤں تو میری وجہ سے اپنا چہرہ نہ نوچنا، اپنے بال نہ کھولنا اور ہاے میں اجڑ گئی نہ پکارنا اورمیرے اوپر کسی نوحہ کرنے والی کو کھڑا نہ ہونے دینا۔ "(فروغ کافی228)

ماتم کی ابتداء کس نے کیا؟

اسلام نے جہاں زمانہ جاہلیت کی قبیح رسموں کاخاتمہ کیا وہاں اس بری رسم کو بھی ممنوع قرار دے دیا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک وعید فرمائی کہ جو شخص مصیبت اور کسی کے فوت ہونے پر بے صبری کا مظاہرہ کرے منہ پر طمانچہ مارے، گریبان چاک کرے، واویلا کرے اور میت کی خود ساختہ خوبیاں بیان کرکے روے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں جہالت کے چار کام ہیں (جو ناجائز ہیں) لوگ انہیں نہیں چھوڑیں گے۔

1.حسب ونسب پر فخرکرنا۔
2.نسب میں طعن کرنا۔
3.میت پر نوحہ کرنا۔
4.بارش کے برسنے کی نسبت ستاروں کی طرف کرنا۔ اور فرمایا کہ نوحہ کرنے والی نے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کی تو قیامت کے دن( قبر سے)اس طرح کھڑی کی جاےگی کہ اس پرقمیص قطران یعنی گندھک اور خارش کی قمیص ہوگی۔ لیکن حقیقت میں یہ چاروں ممنوع ہیں۔ (صحیح مسلم شریف 303)

حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت اور حضرت امام حسن کا امام حسین کو اطلاع دینا۔

”جب امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا گیا تو امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہادت کی اطلاع دینے کے لئے خط لکھا کیونکہ وہ مدائن میں تھے۔ (شہادت کا واقعہ کوفہ میں وقوع پذیر ہوا) تو جب امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ خط پڑھا تو کہا کہ یہ کتنی عظیم مصیبت ہے (لیکن اس کے باوجود میں کوئی بے صبری کا لفظ زبان سے نہیں کہوں گا) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم سے جس کو بھی کوئی مصیبت ہو تو وہ میری وفات کی مصیبت کو یاد کرے کیونکہ کسی کو بھی اس سے عظیم مصیبت ہرگز نہیں پہنچائی جائے گی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ “(فروع کافی119)۔

اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں شریعتِ مطہرہ کے تحت زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے