Ticker

6/recent/ticker-posts

یوم آزادی غلامی کی زد میں

یوم آزادی غلامی کی زد میں


مجیب الرحمن، جھارکھنڈ

صبح سویرے نیند سے بیدار ہوکر ٹہلنے کی غرض سے قریبی باغ کا رخ کیا جواپنی تمام تر رعنائیوں اور ذیبائشوں کے ساتھ دنیا کا مرجع بنا ہوا تھا، اس میں انواع و اقسام کےپھول، اور رنگ برنگ کے خوشنما درخت تھے، اور دنیا کی جملہ رنگ ریلیاں اس میں موجود تھیں گویا دنیا سمٹ کر اس میں سما گئی ہو، میری نگاہ ایک ایسے درخت پر پڑی جو بالکل گھنا تھا، اور عجیب وغریب بناوٹ کا تھا۔

مجھے نہیں معلوم وہ پیدائشی طور پر تھا کہ مصنوعی طور پر لیکن دیکھنے میں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کوی سپریم کورٹ یا پارلیامنٹ ہے، دیکھا کہ کچھ پرندے اس پر بیٹھے محو گفتگو ہیں، ان کے چہروں میں حزن و ملال کے آثار ہیں، ماتھے پہ شکن پڑا ہوا ہے نہ جانے وہ کیا گفتگو کر رہے تھے، مین ان کی زبان سمجھنے سے بالکل قاصر تھا، تھوڑا قریب ہوا تو ایک چیز سمجھ میں آئی جوان کا اصل موضوع تھا، وہ آپس میں کہ رہے تھے کہ

کیا اب ہم آزادانہ زندگی نہیں گزار سکتے ؟کیا آزادی ہم سے سلب کرلی جائیگی ؟؟ میری حالت تو بدل چکی تھی اور میں آزادی کے ان متوالوں کی یاد میں کھو گیا جنہوں نے اپنا خون دیکر آزادی کا حق حاصل کیا تھا، اچانک ہوش آیا تو میرا بدن پسینہ سے بھیگا جارہا تھا کیوں کہ سورج اپنی پوری تمازت کے ساتھ نکل چکا تھا، میں بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کی راہ لی، ابھی راستہ ہی میں تھا کہ کچھ تتلیوں کو دیکھا جو جھنڈا لۓ ہوے اپنی معصوم آواز کے ساتھ احتجاج کرنے کیلۓ اور آزادی کو آزاد رہنے دینے کیلۓ اپنا سارا مشغلہ چھوڑ کر سڑکوں پر نکلی جارہی تھی۔

اب تو میری بے چینی میں مزید اضافہ ہو چکا تھا، میری نگاہوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا، کیوں کہ میں بلکل آزاد تھا اور آزادانہ زندگی گزار رہا تھا سوچا بھی نہیں تھا کہ آزادی کیلۓ ہمیں سڑکوں پر اترنا پڑیگا، گھر پہنچا ٹیبل پر موجود اخبار کو ہاتھ میں لیا تو میرے ہاتھوں سے خون جاری ہوگیا، اخبار کے سطر سطر سے ظلم و جور غلامی و غلامیت کی بو آرہی تھی، اب میں پرندوں اور تتلیوں کے مقصد کو مکمل طور پر سمجھ چکا تھا، میں خلقت انسانی کی بناوٹ و سجاوٹ پر غور کرنے لگا کہ انسان جب آزاد پیدا ہوا ہے تو ان سے آزادی کیوں چھنی جارہی ہے۔

جس ذات نے انہیں وجود بخشا اس ذات کی تمام تر نافرمانیوں کے باوجود ظلم و جور کا انسانوں کو سامنا نہیں ہے تو پھر انسان انسان کے خون کے پیاسے کیوں ہوگۓ؟ ذراسا عہدہ و منصب نے انہیں اتنا ظالم و جابر کیوں بنا دیا ہے ؟ کیا کسی انسان کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق پر انگشت نماٸ کرے، اس کی گردن میں غلامی کا طوق ڈالے، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ دنیا والے اور صاحب اقتدار اس طرز کو کیوں اپناۓ ہوے ہیں ؟ پھر میں نے ماضی کے صفحات پلٹنا شروع کیا تو یہ بات نمایاں طور سے معلوم ہوی کہ غلامی کو ہر دور میں معیوب سمجھا گیا ہے۔

ایک بندہ کو صرف خدا کے حکموں کا غلام ہونا ہے ناکہ کسی صاحب اقتدار کا، ہمارے اس چمن میں غلامی کی تحریک شروع ہوئی تو بندوں کو خدا کی غلامی سے نکال کر غیر کی غلامی میں لایا جانے لگا تو یہاں کے گلوں نے خون کا نذرانہ دیکر اپنے گردن سے غلامی کا طوق ہٹا لیا اور اپنے آپ کو اس ذلت والی زندگی سے آزاد کرلیا، جب ان یادوں سے اپنے آپ کو آزاد کیا تو کانوں سے ایک آواز ٹکراٸ لیکن میں نے اس کی جانب توجہ نہیں دی کیوں کہ میرا جسم بالکل بوجھل ہوچکا تھا، اور اب مجھ میں مزید کچھ سننے کی طاقت نہیں تھی، لیکن جب باربار آواز میرے کانوں سے ٹکراٸ تو دل بے قرار ہوکر اس کی جانب کھیچنے لگا آخر کار اس آواز کی جانب چلنے پر مجبور ہوگیا۔

وہاں پہنچا تو عجیب و غریب چہرے نظر آۓ، کچھ چہرے وہ تھے جو ہس مکھ تھے، اور ایک کنارہ پر بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے تھے اورایک دوسرے کی استہزا میں لگے تھے، کچھ چہرے وہ تھے جو بالکل فک پڑے ہوئے تھے، خوشی و مسرت دور تک نہیں دکھائی دے رہی تھی، اس چہرے میں حزن و ملال کے پردے پڑے ہوے تھے، مایوسی ان پر طاری تھی، میرے بدن میں لرزہ طاری تھا، میں سوچ رہاتھا کہ آخر یہ مہینہ تو آزادی کا مہینہ ہے، خوشی کا مہینہ ہے، غم بھلا دینے کا مہینہ ہے، ایک دوسرے کو آزادی کی مبارک باد دینے کا مہینہ ہے، سال بھر کی دشمنی بھلا کر اخوت و مودت کا پیغام دینے کا مہینہ ہے، یکجٹ ہو کر آزادی کا نعرہ لگانے کا مہینہ ہے، اپنے وطن کا ترنگا کونے کونے میں پھیرانے کا مہینہ ہے، لیکن یہاں معاملہ تو برعکس ہے۔

میرے سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ ماجرا کیا ہے ؟ اچانک ایک بھیڑ آئی اور تشدد پھیلا کر وہاں سے گزری جس سے صاف طور پر یہ معلوم ہو رہا تھا کہ اب آزادی ختم ہوچکی ہے، اب تو مذہب مذہب کے نعرے لگ رہے ہیں، اقلیتوں کے خلاف سازشییں رچ کر ان کو دۓ گۓ حقوق سے محروم کرنے کا نعرہ لگ رہا، تھا۔۔ اقلیتوں سے حق آزادی چھین لو اور اس کو در بدر کردو۔۔ یہ نعرہ زوروں پر تھا ان کے حصہ سے انصاف کو ختم کردو، جیسے نعرے لگاۓ جارہے تھے اب میں سمجھ چکا تھا کہ میری جو سوچ تھی وہ تو اس کے مخالف نکلی اب میرے سمجھ میں یہ بات آئی کہ ہم بہت دور نکل چکے ہیں۔

اب ہمارے لۓ اگست اگست نہیں رہا، اس مہینہ میں اقلیتوں کیلۓ غلامی کا جھنڈا لہرایا جاۓ گا، اب ایک طبقہ یہاں کے جھوٹے خداٰٶں کے غلام ہوں گے، ایسا طبقہ جس نے انہیں آزادی دلوائی ہر طرح کی سہولیات فراہم کی، سچ بتاوں تو لکھتے ہوۓ قلم لرز رہا ہے جگر کانپ رہا ہے بدن میں کپکپاہٹ طاری ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ میں ایک خون کے سمندر کے کنارے کھڑا ہوں لیکن میرے پاس صبر و استقامت کی طاقت ہے جو ہمیں مایوسی سے بچاتی ہے ہر دم میرے ساتھ چلتی ہے اور میری مایوسی پر سایہ فگن رہتی ہے وہ میری امید ہے جس سے میرا سارا ڈر و خوف کافور ہوتا ہے وہی میری زندگی کا سہارا ہے اس لۓ میں اس کوکبھی جدا ہونے نہیں دیتا اور مجھے ہمیشہ اس کی فکر رہتی ہے “۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے