Ticker

6/recent/ticker-posts

ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن، جن سے یوم اساتذہ منسوب ہے

ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن، جن سے یوم اساتذہ منسوب ہے


محمد قمر الزماں ندوی

یوم اساتذہ ( استادوں کا دن) ہندوستان کے دوسرے قابل فخر ماہر تعلیم صدرِ جمہوریہ ڈاکٹرسروپلی رادھا کرشنن کی
یاد میں منایا جاتا ہے جو خود ایک بڑے استاد، مفکر اور فلسفی تھے اور جن کے لکچرز سننے کیلئے اعلٰی تعلیم یافتہ لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی - آپ نے ایک ساتھ دو برصغیر میں علم کی شمعیں روشن کیں۔

دراصل ۵/ ستمبر ۱۸۸۸ء کو ان کی پیدائش ہوئی تھی، اس دن پورے ملک میں اساتذہ کے اعزاز میں مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، بعض جگہوں میں ایک دن کے لیے طلبہ کو استاد اور معلم بننے کا موقع دیا جاتا ہےاور اس طرح انہیں یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ یہ کتنی ذمہ داریوں والا عہدہ اور منصب ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن کو ۱۹۵۴ء میں ملک کے سب سے بڑے شہری اعزاز بھارت رتن سے نوازا گیا تھا، انہوں نے اپنی زندگی کے ۴۰/بیش قیمتی سال استاد کے فرائض دئے۔

جب وہ ۱۹۶۲ء میں صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہوئے، تو کچھ شاگرد اور اساتذہ ان کے پاس گئے اور ان کی یوم پیدائش کو یوم اساتذہ کے طور پر منانے کی خواہش ظاہر کی۔ کافی دیر بحث کے بعد طلبہ انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس طرح ۵/ ستمبر کو یوم اساتذہ کے طور پر منانے کا آغاز ہوگیا۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن بے پناہ صلاحیتوں اور خوبیوں کے مالک تھے، لیکن ان کی جس خوبی کا ماہرین نے زیادہ تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کا کام کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طلبہ اور اساتذہ کسی بھی قوم کا سب سے زیادہ اہم سرمایہ ہوتے ہیں۔ اساتذہ قوم کے معمار ہیں، جن سے بہت کچھ سیکھ کر طلبہ ملک اور قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔

ذیل کی تحریر میں ہم ان کی زندگی اور خدمات کے حوالے سے ایک نوٹس اور تذکرہ پیش کرتے ہیں، تاکہ نئی نسل کو بھی معلوم ہوسکے کہ جن کے نام سے یوم اساتذہ منایا جاتا ہے، ان تعارف اور ان کی زندگی کا خاکہ کیا ہے، اکثر طلبہ کو یہ معلوم ہی نہیں کہ یوم اساتذہ کیوں اور کس کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔

ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کی پیدائش تیرو تانی گاوں (مدراس موجودہ چنئی تمل ناڈ)کے مقام پر 5/ستمبر 1888ء کو ایک تیلگو برہمن خاندان میں ہوئی - یہ گاؤں آندھرا پردیش اور تمل ناڈو کی سرحد پر واقع ہے۔

ان کے والدکا نام ویرا سوامی اور ماں کا سیتاماتھا،تھا ان خاندان والدین کے علاوہ پانچ بھائی اور ایک بہن کا خاندان تھا -

رادھا کرشنن کی ابتدائی تعلیم تیروپتی شہر کے لوتھیرن مشن اسکول میں ہوئی- یہ شہر ہندوؤں کی مشہور زیارت گاہ ہے- اس اس کے بعد ویلور کالج اور مدراس کے کرسچن کالج میں انکا تعلیمی سفر جاری رہا -

ایم اے کرنےکےبعد 1909ء میں انہیں مدراس شہرکے پریسیڈنسی کالج میں ملازمت ملگئی- انکا لکچرطلبہ کو بہت پسند آتا تھا- یہیں سے انکی شہرت بڑھنا شروع ہوئی- - 1918ء میں وہ میسور یونیورسیٹی میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے - یہ ان کی پڑھانے کی قابلیت کا اعتراف تھا - 1923ء میں انہیں کلکتہ کی دانش گاہ میں بلایا گیا جو ایک بڑا اعزاز تھا - 1928ء میں انہیں انگلینڈ کی آکسفورڈ یونیور سیٹی میں ہندوستانی فلسفہ پڑھانے کے لئے منتخب کیا گیا - وہ 24 سال تک وہاں طلبہ کو سیراب کرتے رھے اور ان کی علمی تشنگی دور کرتے رہے - وہ پہلےہندوستانی پروفیسر تھے، جنہیں  انگریزوں نے آکسفورڈ میں پڑھانے کے لئے بلایا تھا -

وہ ایک انوکھے معلم تھے، ان کی کلاسوں میں ڈسپلن کا پورا لحاظ رکھا جاتا تھا۔ آپ نے جو کتابیں لکھیں ان میں دی فلاسفی آف رویندر ناتھ ٹیگور اور دوسری دی رین آف ریلجین ان کنٹمپریری فلاسفی شامل ہیں، ان کتابوں اور بین الاقوامی جرائد میں شائع ہونے والے مضامین نے انہیں خاص شہرت بخشی، امریکا نے بھی ۸۸۳/ صفحات پر محیط تصنیف،، دی فلاسفی آف ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن،، شائع کرکے انہیں اعزاز سے نوازا۔

ڈاکٹر رادھا کرشنن صرف اعلٰی درجہ کے استاد ہی نہیں بلکہ اچھے انتظام کار بھی تھے - 1931ِء میں انہیں آندھرا یونیور سیٹی کا وائس چانسلر بنایا گیا - انہوں نے پانچ سال کے اندر اس یونیور سیٹی کو تعلیمی بحران سے نکال کر نئی پہچاندی - اس میں آنرس اور پوسٹ گریجویشن کے شعبے قائم کئے اور آرٹس اور سائنس فیکلٹی کے ڈھانچے کو نئے سرے سےمضبوط کیا- 1936ءمیں اس یونیورسٹی سےالگ ہونےکےبعد ہندوستان کےوائسرائے لارڈ ارون ( Lord Irwin ) نے انہیں لیگ آف نیشن میں ہندوستان کی نمائندگی کرنے کے لئے چنا-

1939ء میں انہیں بنارس یونیور سیٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا - یہ یونیور سیٹی بھی بحران کا شکار تھی - رادھا کرشنن نے اس کے حالات درست کیے- ہندوستان چھوڑو
تحریک کے دوران جب بنارس میں طالبِعلموں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تو یوپی کے گورنر سر مارس ھیلٹ نے یونیور سیٹی کی مالی امداد بند کر دی - رادھا کرشنن نے پورے ملک کا دورہ کر کے یونیور سیٹی کے لئے سرمایہ جمع کیا اور اسطرح یہ یونیور سیٹی بند ہونے بچ گئی -

آزادی کے بعد 1948ء میں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے انہیں یونیور سیٹی ایجوکیشن کمیشن کا صدر مقرر کیا تاکہ تعلیم کا اعلٰی معیار قائم کیا جا سکے- 1949ء میں انہیں سویت یونین کے اولین سفیر کا عہدہ دیا گیا-

انہوں نےدونوں ملکوں کےتعلقات مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا - 1952 ء میں ڈاکٹر رادھا کرشنن کو ہندوستان کا نائب صدر چنا گیا تو سیاست دانوں کو خاصی حیرت ہوئی -

وہ دس سال تک نائب صدرکےعہدہ پر کام کرتے رہے اور 1963ء میں انہیں صدرکا عہدہ ملا - یہ ان کی مثالی شخصیت اور کار ناموں کا ملک کی طرف سے سب سے بڑا اعتراف تھا - صدر بننے کے بعد ڈاکٹر رادھا کرشنن 1963ء میں امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے، اور بہت سے مقامات پر لکچر دیے جنہیں بہت پسند کیا گیا - ان کےدورِ صدارت میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے - 1962ء میں چین کے ساتھ جنگ، 1964ء میں پنڈت نہرو کا انتقال اور 1965ء میں پاکستان کے ساتھ جنگ -1967ء میں وہ صدر کےعہدے سےسبک دوش ہوئے-اپنی زندگی کےباقی دن انہوں نےمدارس 
میں گزارے - ہندوستان کے بے لوث خدمات کر نے والے اس عظیم فلسفی کا انتقال 17/ اپریل 1975ء کو ہوا -

نوٹ ۔ یوم اساتذہ منانے کی دینی اور شرعی کوئی حیثیت نہیں ہے، نہ اسلام کسی ایک دن کو اساتذہ کی تکریم و تعظیم کے لیے خاص کرتا ہے، اسلام تو پوری زندگی اور ہر لمحہ استاد کی عزت اور اس کی تکریم کا حکم دیتا ہے، اس لیے اس مضمون کو صرف معلوماتی مضمون کی حیثیت سے پڑھا جائے کہ یہ ملک کا ایک ثقافتی اور تعلیمی حصہ ہے اور ہم اس ملک کے باشندے ہیں اور یہاں کی دانش گاہوں سے خوشہ چینی کرتے ہیں۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے