Ticker

6/recent/ticker-posts

بارہ ربیع الأول حقیقت کے آئینہ میں

بارہ ربیع الأول حقیقت کے آئینہ میں


قسط نمبر (١)

مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ،

اسے دعوت سے روگردانی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے کہ مسلم معاشرہ میں بدعات و خرافات کارواج ہے، باطل نظریات اور غلط عقائد وافکار کی حکمرانی ہے، اہل باطل ان بدعتوں پر دین کا لیبل چسپاں کرکے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور عوام اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں، رفتہ رفتہ وہ بدعتیں پھیل جاتی ہیں اور معاشرہ میں اس کی جڑیں مضبوط ہوجاتی ہیں۔ ان بدعتوں میں سرفہرست ’عید میلاد النبی‘ ہے، جسے معاشرہ کے اکثر افراد دین تصور کرتے ہیں اور عبادت سمجھ کر منائی جاتی ہے، جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں کا اہتمام کیاجاتا ہے، محفل میلاد منعقد کی جاتی ہے۔حالانکہ یہ سب محض بدعات ہیں، دین سے ان کا کوئی تعلیق نہیں ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ برصغیر ہند، پاک میں12 ربیع الاول باقاعدہ ایک جشن اور ایک تہوار کی شکل اختیار کر گئی ہے۔

بارہ ربیع الاول کی حقیقت کیا ہے ؟

ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے تو ملک بھر میں سیرت النبی اور میلاد النبی کا ایک غیر متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک تذکرہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس کے برابر کوئی اور سعادت نہیں ہوسکتی۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ معاشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک تذکرہ کو اس ماہ ربیع الاول کے ساتھ بلکہ محض12 ربیع الاول کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا ہے۔ربیع الاول کے شروع ہوتے ہی عید میلادالنبی کی تقریبات کے انتظامات شروع ہوجاتے ہیں۔12ربیع الاول کو نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کی خوشی منائی جاتی ہے بلکہ اسے’ تیسری عید‘ سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔یومِ ولادت کی تاریخ تمام مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت پیر کے دن ہوئی جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایاکہ یہی وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کیا گیا۔’کسی کو شک ہو تو وہ مسلم: کتاب الصیام: باب استحباب صیام ثلاثة ایام ؛1162سے رجوع کرلے۔

بارہ ربیع الاول منانا کیسا ہے؟

البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت کیا ہے۔ حافظ ابن کثیررحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یعنی جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر سے بیت اللہ شریف پر حملہ کیا، پیدا ہوئے۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس میں بھی اختلاف نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے روز پیدا ہوئے۔ نیز لکھتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کے اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اس میں مورخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا۔ پھر حافظ ابن کثیررحمة اللہ علیہ نے ان اقوال میں سے دو کو راجح قرا ردیا، ایک بارہ اور دوسرا آٹھ اور پھر خود ان دو میں سے آٹھ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو راجح قرار دیا۔ تفصیل کیلئے البدایہ والنھایہ کے صفحات259 تا262 ج2موجود ہیں۔

مومن نہیں ہو سکتا

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بخاری و مسلم روایت ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یوں فرمایا ہے کہ ’کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنی اولاد اور والدین اور باقی تمام لوگوں کے مقابلے میں مجھ سے زیادہ محبت نہ کرتا ہو۔‘وہ محبت جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کرنا نہ سکھائے محض جھوٹ اور نفاق ہے۔وہ محبت جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی غلامی کے آداب نہ سکھائے وہ محض دکھاوا اور ریا ہے۔حضور علیہ السلام کی پیروی کی جائے۔ فرنبرداری اور آپ کی سنت پر عمل کیا جائے۔تمام اقوال و افعال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کیا جائے۔جن باتوں سے منع کیا گیا ہے ان سے احتراز (پرہیز) کیا جائے اور ممنوع افعال سے اعراض کیا جائے۔خوشی و شادمانی، عیش و مسرت اور مصائب و پریشانی ہی نہیں بلکہ ہر حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے نصیحت و موعظت حاصل کرے۔اپنی خواہشاتِ نفسی کے مقابلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی پیروی کی جائے احکام شریعت پر عمل کیا جائے اور ہر حال میں ان کو ترجیح بلا مرجیع دی جائے۔کثرت سے ذکرِ محبوب کیا جائے کیونکہ محب ہر حال میں محبوب کا تذکرہ حرزِ جاں رکھتا ہے۔قرآنِ پاک سے محبت کرے اس کی تلاوت مع ترجمہ اپنی سمجھ کیلئے پڑھے۔اس کے احکام کو جاننے کی کوشش کرے۔امتِ مسلمہ کیساتھ شفقت سے پیش آئے غربآء،مساکین، یتیموں،اور کمزوروں سے محبت رکھے ان کی خیر خواہی کرے اور انہیں کلماتِ خیر سے یاد رکھے جبکہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی امت سے بے حد محبت فرماتے اور مہربان ہیں۔محبت کا دعوے دار تارک الدنیا، زاہد صفت ہو اور فقر و فاقہ کا خوگر ہو اور یادِ محبوب پاک میں ہر لمحہ آنکھیں پرنم ہوں۔ ورنہ وہ اپنے دعویٰ محبت میں سچا نہیں

سورة النور میں اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے کہ ۔۔۔اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں اور اس کی نا فرمانی سے بچتے رہتے ہیں تو وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔۔

منکرات کاارتکاب:

جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے