Ticker

6/recent/ticker-posts

دستر خوان نبویﷺ ایک جائزہ

دستر خوان نبویﷺ ایک جائزہ


محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ

(اس مضمون میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ غذاؤں کا خصوصی تذکرہ کیا گیا ہے، امت کے سامنے اس کا تذکرہ آنا چاہیے، کیونکہ اس کے استعمال میں سنت نبوی ﷺ کی پیروی بھی ہوگی اور بھر پور غذائیت بھی ملے گی، جس میں کوئی سائڈ ایفیکٹ بھی نہیں ہے، آج بھی جدید طب اور میڈیسن کو اعتراف ہے کہ سب سے زیادہ غذائیت اور پروٹین اس کھانے میں ہے، جس کو نبی کریم ﷺ نے پسند فرمایا، اللہ کرے ان غذاؤں کو اختیار کرنے کی خدا تعالیٰ ہم سب کو توفیق بخشے آمین)

عمرو ( یا عمیر) بن سلمہ رضی اللہ عنہ لڑکپن میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلمؐ کی زیر تربیت تھے، عمروبن سلمہ ام المؤمنین ام سلمہؓ کے پہلے شوہر ابو سلمہ کے پہلے لڑکے تھے، آنحضرت ﷺ اولاد کی طرح ان کی تربیت کاخیال رکھتے تھے ۔ یہی عمرو بن سلمہ روایت کرتے ہیں کہ کھانے کے وقت میراہاتھ پوری پلیٹ میں چکر لگایا کرتاتھا، آپ ﷺ نے فرمایابسم اللہ پڑھو، دائیں ہاتھ سے کھایاکرو، اور جو قریب ہو (پلیٹ کاجوکنارہ اپنے سامنے ہے ) وہیں سے کھاؤ ۔ ساری پلیٹ میں ہاتھ نہ گھماؤ ۔ لیکن یہ ادب اس وقت ہے، جب کھانا ایک قسم کاہو، اگر برتن کے اندر مختلف قسم کی چیزیں رکھی ہوں، تو اس صورت میں اپنی پسند اور مطلب کی چیز لینے کے لیے ہاتھ ادھر ادھر دائیں بائیں جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، چنانچہ حضرت عکراشؓ ایک صحابی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ اک مرتبہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کسی جگہ دعوت میں تشریف لے جانے لگے تو انھوں نے مجھے بھی ساتھ میں لے لیا، جب ہم وہاں پہنچے تو دسترخوان پرثرید لا یاگیا، جب میں نے ثرید کھاناشروع کیاتو میں نے بسم اللہ نہیں پڑھا، آپ ﷺ نے فرمایا کھانا کھانے سے پہلے اللہ کانام لو، بسم اللہ پڑھو۔ اس کے بعد مجھ سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ میں کھانے کے دوران ایک نوالہ یہاں سے لیتا، دوسرا آگے سے لیتا، کبھی ادھر سے کبھی ادھر سے، آ پ ﷺ نے جب میری یہ حرکتیں دیکھیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا، اے عکراش !’’اپنے سامنے سے کھا ؤ، اس لئے کہ ایک ہی قسم کاکھانا ہے، چنانچہ میں نے ایک ہی جگہ سے کھانا شروع کردیا ۔ جب کھانے سے فارغ ہوا تو ہمارے سامنے ایک بڑاتھال لایاگیا، جس میں قسم قسم کی کھجور یں تھیں، چونکہ حضور ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تلقین فرمائی تھی کہ اپنے سامنے سے کھانا چاہئے اس لئے میں صرف اپنے سامنے کی ہی کھجور یں کھاتارہا، اور میں نے دیکھاکہ آنحضور ﷺ کا ہاتھ کبھی یہاں جارہا ہے اور کبھی وہاں جارہا ہے، جب آپ ﷺ نے مجھے دیکھاکہ میں ایک ہی جگہ سے کھارہاہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا اے عکراش ! اب جہاں سے چاہو کھاؤ اس لئے کہ یہ کھجوریں مختلف قسم کی ہیں، اب الگ الگ جگہ سے کھانے میں کوئی حرج اور مضائقہ نہیں ۔

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا اور نہ کسی کھانے کی برائی کی اور کھانے کی خواہش ہوئی تو کھالیتے اور اگر کھانے کی خواہش نہ ہوئی تو اس کو چھوڑ دیتے، ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ہم کھاتے ہیں لیکن آسود گی نہیں ہوتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ شاید تم لوگ الگ الگ کھاتے ہو صحابہ نے عرض کیاجی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا ملکر کھایاکرو اور اللہ کے نا م کاذکر بھی کیاکرو تمہارے کھانے میں برکت ہوگی، ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے دریافت کیاکہ آپس میں محبت اور میل جول بڑھانے کاعملی طریقہ کیاہے؟ ۔ آپ ﷺ نے حکیمانہ جواب دیتے ہوئے فرمایا، مل جل کر کھایا کرو، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دسترخوان پرمل جل کر کھانے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور بڑے سے بڑا دشمن کابھی ایک ساتھ کھانے سے دشمنی کاجذبہ سرد پڑجاتاہے، ایک حدیث میں آپﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے تمام عمر بھر چپاتی نہیں کھائی اور نہ میز پر کھانا کھایا(شمائل ترمذی)، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کی روٹی کھانا ثابت ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں، ، کہ حضور ﷺ نے تمام عمر میں کبھی بھی جو کی روٹی سے بھی دو دن پے در پے پیٹ نہیں بھرا۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے گھر میں کبھی جو کی روٹی نہیں بچتی تھی۔ یعنی اگر جو کی روٹی کبھی پکتی تو وہ اتنی مقدار میں نہیں ہوتی تھی کہ بچتی اس لیے پیٹ بھرنے کو کافی نہیں ہوتی تھی اور اس پر حضور ﷺ کے مہمانوں کی کثرت اور اہل صفہ تو مستقل طور پر حضور ﷺ کے مہمان تھے ہی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ کے گھر والے کئی کئی رات پے در پے بھوکے گزارتے تھے کہ رات کو کھانے کے لیے کچھ موجود نہیں ہوتا تھا۔ اور اکثر آپ کی غذا جو کی روٹی ہوتی تھی، کبھی کبھی گیہوں کی روٹی بھی مل جاتی تھی۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آنحضرتﷺ نے کبھی سفید میدے کی روٹی بھی کھائی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور ﷺ کے سامنے اخیر عمر تک کبھی میدہ نہیں آیا ہوگا، پھر سائل نے پوچھا کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں تم لوگوں کے یہاں چھلنیاں تھیں؟ انہوں نے فرمایا نہیں، سائل نے پوچھا کہ پھر جو کی روٹیاں کیسے پکاتے تھے؟ سہل نے فرمایا کہ اس کے آٹے میں پھونک مار لیا کرتے تھے جو موٹے موٹے تنکے ہوتے وہ اڑ جاتے تھے باقی گوندھ لیتے تھے۔۔۔شمائل ترمذی۔۔

آپ ﷺ اکثر زمین پر دسترخوان بچھا کرکھا ناتناول فرماتے ۔ عام طور پر گھٹنوں کے بل یااکڑوں بیٹھ کرکھانا کھاتے، ٹیک لگاکر یاسہارا لگاکر نہ کھاتے تھے ۔ کھانا تین انگلیوں سے کھاتے ۔ بسم اللہ سے شروع کرتے، اللہ کی حمد اور تعریف پرختم فرماتے ۔ کھانے میں عام اصول آپ کایہ تھاکہ جوحلال غذا سامنے رکھدی جاتی آپ ﷺ اسے تناول فرمالیتے، البتہ اگر طبعا کوئی چیز مرغوب نہ ہوتی تو اسے نہ کھاتے، سامنے سے کھاتے، ادھر ادھر ہاتھ نہ بڑھاتے، عموما بھوک رکھ کر کھانا کھاتے آپ ﷺ یہ کبھی فرماتے کہ مؤمن کی شان یہ ہے کہ غذا کم کھایاکرے، جن کھانوں سے آپ ﷺ کو زیادہ رغبت تھی ان میں سے چند یہ ہیں ۔


گوشت :

گوشت صحت کے لیے مفید غذا ہے ۔ آنحضرت ﷺ کھانے میں گوشت پسند فرماتے تھے آپ ﷺ نے فرمایا دنیا والوں اور جنت والوں، دونوں کے کھانے کا سردار گوشت ہے، کتب احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بھیڑ، دنبہ، اونٹ، گھائے، مرغ، اور مچھلی کاگوشت کھایاہے، ایک موقع پرآپ ﷺ نے فرمایا دنیا اور آخرت میں بہترین سالن گوشت ہے آں حضرت ﷺ دست کے گوشت کو زیادہ پسند فرماتے تھے، اس طرح ایک روایت کے مطابق کاندھے کا گوشت بھی حضور ﷺ کو سب سے زیادہ پسندتھا، آں حضرت ﷺ سے پرندوں کاگوشت استعمال کرنابھی ثابت ہے، سفینہ رض کہتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کے ساتھ حباری کا گوشت کھایا ہے، حباری ایک پرندہ ہے، اس کے ترجمے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے بٹیر اور بعض نے سرخاب اور بعض نے چکا چکوئی کہا ہے، فارسی میں ہوبرہ اور ہندی میں چرز کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر مرغ بھی پیش کیا جاتا تھا۔

دست کا گوشت آ پ ﷺ اس لئے پسند فرماتے تھے کہ دست کا گوشت جلد گل جاتا ہے ۔

ثرید و حلو ہ :

ثرید آ پﷺ کو بہت مرغوب تھی، ثرید اس کھانے کوکہا جاتا ہے جو شور بے یاپتلی دال میں روٹی بھگوکر تیار کیاجاتا ہے، ثرید کی ایک قسم اور ہے جومیٹھی ہوتی ہے، اس کو حلوہ بھی کہا جاتا ہے، یہ ستو میں خشک کھجور اور گھی ملاکر مالید ے کی طرح بنایا جاتاہے، آ پﷺ دوسرے کھانوں پرثرید کوفوقیت دیتے تھے اور اسے کھانے کاسر دار کہتے تھے ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رض فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، ، کہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر۔
 
ثرید میں لذت و قوت کے ساتھ یہ فائدہ بھی ہے کہ جلد تیار ہوجاتا ہے اور اس میں سرعت ہضم بھی ہے۔ عرب میں بھی اس کھانے کا عام دستور تھا۔


کدو، لوکی :

آپ ﷺ کوسبزیوں میں سب سے زیادہ کدو (لوکی) پسند تھا، حضرت انسؓ راوی ہیں، کہتے ہیں کہ ایک درزی نے آں حضرت ﷺ کی دعوت کی، کھانے میں جوکی روٹی اور شوربہ پیش کیا، شوربہ میں کدو اور گوشت تھا، میں نے دیکھاکہ اللہ کے نبی ؐ پیالے کے کناروں سے کدو کے ٹکڑے تلا ش کرکے نکال لیتے اور تناول فرماتے، اس دن سے ہی میں نے کدو کے بغیر کھانا نہیں کھایا، رسول اللہ ﷺ کثرت سے کدو (لوکی) کااستعمال فرماتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوکی کھاؤ ۔ یہ دماغ کوتقویت دیتاہے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہؓ جب تم ہانڈی پکانے کے لیے تیار کرو تو اس میں زیادہ مقدار میں کدو ڈال دو اس لئے کہ کدو دلوں کومضبوط کرتا ہے ۔

سرکہ :

آں حضرت ﷺ کو سرکہ بھی پسندتھا، حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺنے ایک مرتبہ اہل خانہ سے دریافت فرمایا کہ کوئی سالن ہے، تو اندر سے آواز آئی سرکہ کے سوا کچھ نہیں ہے، تو آپ ؐ نے فرمایا کہ وہی لے آؤ ۔ اور تناول فرمایا، آپ ؐ کھاتے جاتے اور فرماتے سرکہ کتنا اچھاسالن ہے ۔ پھرآپ ؐ نے فرمایا جس گھر میں سرکہ ہووہ لوگ غریب (بھوکے ) نہیں (ترمذی) آپ ﷺ فرماتے تھے بہترین سالن سرکہ ہے، اے اللہ تو سرکہ میں برکت ڈال یہ مجھ سے پہلے نبیوں کاسالن تھا، اور وہ گھر غریب نہ ہوگا جہاں سرکہ ہوگا۔


پنیر :

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پنیر کھانا بھی ثابت ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور ؐ کی خدمت میں پنیر پیش کیاگیا توآپ ؐ نے چھری طلب کی اور اس سے بسم اللہ پڑھ کرپنیر کاٹا اور آپ ﷺ نے استعمال فرمایا، الغرض کھانوں میں سے پنیر بھی آں حضور ﷺ کوپسند تھا ۔

شھد :

شہد بھی صحت بخش غذا ہے، قرآن نے اسے شفاء للناس کہاہے بہت سی بیماریوں کی دوا ہے شہد کی اہمیت اور افادیت کااندازہ حضور ﷺ کے اس قول و ارشاد سے نکالا جاسکتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا دوچیز وں سے صحت حاصل کرو، شہد اور قرآن سے، آپ ﷺ نے متعدد مریضوں کے لیے شہد کو بطور دو اتجویز فرمایا، ایک صحابیؓ نے اپنے بھائی کے پیٹ میں درد ہو نے کی شکایت کی آپ ﷺ نے فرمایا اسے شہد پلاؤ ۔ وہ شخص چلاگیا اور پھر واپس آکر عرض کرنے لگا کہ میں نے شہد پلایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، نبی کریم ﷺ نے پھر شہد پلانے کاحکم دیا، دوتین بار ایسا ہی ہوا، جب چوتھی بار آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ نے سچ فرمایا ہے، اور تیرے بھائی کاپیٹ جھوٹا ہے، اس ارشاد کوسن کر وہ شخص چلاگیا اور پھر شہد پلایا، اور وہ صحت یاب ہوگیا ۔


کھجور اور چھوہارا :

کھجور ایک بہترین غذا ہے اورعمدہ میوہ ہے ۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پراس کا ذکر موجود ہے، ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جوشخص روز آنہ صبح کوسات عمدہ کھجور یں کھالیاکرے اسے اس دن جادو اور زہر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، ایک صحابی اور صحابیہ کایبان ہے کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں مکھن اور کھجور یں پیش کیں، اور آ پﷺ مکھن اور کھجور کوپسند فرماتے تھے، ایک موقع پرآپ ﷺ نے فرمایا، جس گھر میں (چھوہارا ) نہ ہو اس کے رہنے والے بھوکے ہیں، یزید بن الدعودؓ ایک صحابی ہیں وہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ آں حضور ﷺ کے دست مبارک میں جوکی روٹی کاایک ٹکڑا ہے، آپ ﷺ نے اس پر چھوہارا رکھا، اور فرمایایہ اس کا سالن ہے، حدیث میں آتا ہے کہ آ پﷺ پکی ہوئی تازہ کھجور (رطب) سے روزہ افطار کرتے تھے اگر وہ نہ ہوتی تو پرانی کھجور (تمر) سے اور اگر وہ نہ ہوتی تو پانی اور ستو سے، ایک موقع پرکھجور کی غذائی اہمیت بتاتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا صبح نہار منھ کھجور یں کھایا کرو کہ ایسا کرنے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں، عجوہ کھجور کے بارے میں آپﷺ کاارشاد ہے، عجوہ کھجور ہربیماری کی شفا ہے نہار منھ کھانے سے یہ زہروں کاتریاق ہے ۔ (مسلم )


دودھ :

نبی اکرم ﷺ کو دودھ بھی بہت پسند تھا، کبھی خالص دودھ نوش فرماتے کبھی اس میں پانی ملالیتے، آپ ﷺ اکثر بکری کا دودھ استعمال فرماتے، اور گائے کابھی، گائے کے دودھ کے متعلق آ پ ﷺ نے فرمایا گائے کا دودھ استعمال کرو اس میں شفا ہے، اور اس کے گھی میں دو ا کی تاثیر ہے اور ایک موقع پرآپ ﷺ نے فرمایا، دودھ کے علاوہ دوسری چیز نہیں جانتا جوکھانے پینے دونوں کے لیے کافی ہو ایک موقع پرآپ ﷺ نے فرمایا ۔گائے کادودھ ایک علاج ہے ۔ اور اس سے بناہوا مکھن (گھی )ایک دوا ہے، بخاری اور مسلم کی متعدد احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضور ﷺ اکثر دودھ نوش فرماتے ۔


پھل 🍎🍊🍌🍉🍇🍒🍍 کا استعمال پیارے آقاﷺ کے یہاں۔۔

حضور ﷺ ککڑی کو کھجور کے ساتھ نوش فرماتے تھے۔ ککڑی چونکہ ٹھنڈی ہوتی ہے اور کھجور گرم، اس طرح دونوں کی اصلاح ہوکر اعتدال پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کھانے کی چیزوں میں ان کے مزاج کی رعایت رکھنا مناسب ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ تربوز کو تازہ کھجوروں کے ساتھ نوش فرماتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اس کی ٹھنڈک اس کی گرمی کو اور اس کی گرمی اس کی ٹھنڈک کو زائل کردیتی ہے۔ روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہر موسم کا پھل پیش کرتے تھے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ آج سے چودہ سو سال قبل نبی اکرم ﷺ نے جن غذائی اشیاء کی افادیت بتائی، آ ج بھی اس کی افادیت مسلم ہے، سائنس نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے کہ زندگی کی اور صحت کی تندرستی کے لیے جن غذائی اشیاء کی نشاندہی اسلام نے کی ہے اور جس کی افادیت و اہمیت آپ ﷺ نے بتائی ہے وہ صحت اور زندگی کے لیے لازم ہے، ہم مسلمانوں کا فرض اور لازم ہے کہ آپ ﷺ جن غذاؤں کوپسند فرماتے تھے ہم بھی ان کو پسند کریں، کیونکہ یہ بھی حضور ﷺکی پیروی کاایک حصہ ہے، اللہ ہم سب کو نبوی ؐ غذا استعمال کرنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔

ناشر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے