Ticker

6/recent/ticker-posts

سعودی گزٹ کے سابق مینیجنگ ایڈیٹر طارق غازی صاحب سے ایک ملاقات

سعودی گزٹ کے سابق مینیجنگ ایڈیٹر طارق غازی صاحب سے ایک ملاقات

کہتے ہیں جستجو کا سفر ایک ایسا سفر ہے جو تاحیات چلتا رہتا ہے اور یہ وہ سفر ہے جس میں انکشافات کی ایک دنیا آباد ہے جستجو تہہ در تہہ موجود حقائق کو سمجھنے میں معاون ہوتی ہے۔ ایسے ہی سفر کے ایک مسافر طارق غازی صاحب بھی ہیں جو سالہا سال سے تجسس اور تلاش کی سفر میں مسلسل سرگرداں ہیں۔ پچھلی آٹھ دہائیوں سے وہ اسی فکری دشت کی خاک چھان رہے ہیں، ان کے ذہنی اعصاب عمر کے اس حصے میں علم کی طلب اور اس کی تشنگی کی تسکین میں لگے ہوئے ہیں۔

طارق غازی صاحب ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس نے علمی بساط پہ ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہے ان کے والد مولانا حامد الانصاری غازی صاحب تحریک آزادی کے گمنام سپاہی تھے۔ انہوں نے اسلامی نظام سیاست اور آئین پر پہلی مبسوط کتاب اسلام کا نظام حکومت لکھی تھی دادا مولانا محمد میاں منصور انصاری ۱۸۵۷ کے بعد ہندستان کی آزادی کی اولین مہم ریشمی رومال تحریک کے روح رواں تھے ماہر تعلیم عابد اللہ غازی صاحب ان کے بھائی تھے۔


طارق غازی صاحب پہلو دار شخصیت کے حامل ہیں انھوں نے ہمیشہ زندگی کو ہر پہلو سے دیکھنے کی کوشش کی کسی خاص خیال و نظریہ کا اسیر ہونے کے بجائے انھوں نے وسیع علمی افق پہ کمندیں ڈالنے کی کوشش کی ہے، وہ ایک صحافی بھی ہیں شاعر بھی اور کہنہ مشق قلمکار بھی۔ کتاب و قلم سے ان کا گہرا ناطہ ہے صحافت کے میدان میں انھوں نے تقریبا چالیس سال طبع آزمائی کی ہے ٹائمز آف انڈیا کے ساتھ جڑ کے انھوں نے اردو صحافت کے ساتھ انگریزی صحافت کا بھی تجربہ حاصل کیا، اس دشت کی سیاحت کے دوران انھوں نے اپنی قوم بالخصوص مسلمانوں کے فکری زوال کے اسباب پہ سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کیا۔


طارق غازی صاحب سعودی گزٹ جیسے مؤقر اور مستند اخبار میں مینیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، ان کا ظ۔انصاری، جاں نثار اختر، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عادل رشید، مدن موہن کالیہ، قاضی اطہر مبارکپوری، اکرم الہ آبادی، سلامت رضوی جیسی معتبر علمی شخصیتوں خاص قریبی تعلق رہا، ایسی ذی علم شخصیات کی صحبت کا اثر ہے کہ طارق غازی صاحب میدان علم کے غازی بن گئے، انھوں نے مغرب اور مشرق کی روایت و ثقافت کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے ان کی تحریروں میں ان کے عکوس صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ طارق غازی صاحب کی دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں جن میں سے ایک کتاب 'دی کارٹونس کرائی' ہے جو اپنے موضوع کے اعتبار سے انتہائی منفرد کتاب ہے، طارق غازی صاحب کے سامنے اس وقت میں سوالات کی فہرست لئے حاضر ہوں ان کی گوناگوں خصوصیات کی بارے میں انھیں سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور کوشش ہے کہ ان کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو مختصراً اس انٹرویو میں سمیٹ سکوں۔


علیزے نجف: سب سے پہلے میں آپ کا تعارف چاہتی ہوں ۔ اور یہ بھی جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کا تعلق کس خطہ سے ہے اور اس وقت آپ کہاں مقیم ہیں؟

طارق غازی: نسبی تعلق مدینہ منورہ میں میزبان رسول بنی نجار کے سردار حضرت ابو ایوب انصاری سے ہے۔ ساتویں صدی کے وسط میں ان کے بیٹے ابو المنصور محمد کو ہرات، افغانستان، میں اسلامی صوبہ خراسان کا والی وقاضی مقرر کیا گیا۔ تیرھویں صدی میں چنگیزی طوفان بلاسے منتشراس قبیلہ کے بیشتر افراد ہندستان چلے آئے۔کچھ مدت جالندھر میں قیام کیا۔ پھر سلطان فیروز شاہ تغلق نے شمالی صوبہ کے ضلع سہارنپور میں ایک چھاونی تعمیر کی ۔ وہ بستی آموں کی بڑی منڈی بھی تھی اس لئے انبہٹہ(آم کی ہاٹ) کے عرف سے مشہور ہوگئی۔ اس کے نواح میں ہمارے بزرگوں کو درس و تعلیم، تبلیغ دین اور اصلاح و تزکیہ کے لئے سلطان نے بلالگان جاگیر عطا کی۔ میری پیدائش اسی ضلع کے قصبہ دیوبند کی ہے۔ انبہٹہ میں رہنا کبھی نہیں ہوا۔ اس قصبہ کی خصوصیت ہے کہ اس کے باشندے ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں اور علم و فضل کی راہ سے اسلام اور ملت کی خدمت کرتے آئے ہیں۔ یہ خوبی شاید کسی اوربستی کا مقدر نہیں بنی۔ایسے بہت سے افراد کا ذکرمیں نے سوانحی موسوعہ ـتذکار الانصارـ میں کیاہے۔ وہاں دیکھ لیا جائے۔


علیزے نجف: آپ کی پیدائش علمی تاریخی سرزمیں دیوبندمیں ہوئی۔ بچپن بجنور میں گزرا۔ زمانہ طفلی میں آپ کے ارد گرد کے ماحول میں کس طرح کی تہذیب کا غلبہ تھا اور وہ کیا اقدار تھیں جنہوں نے آپ کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا؟

طارق غازی: ایک جملہ میں وہ اعلی علمی تہذیب کا دور تھا۔ آزادی سے پہلے اس زمانہ میں والدین اپنی نوکریوں سے زیادہ اپنی اولاد کی تربیت کو اہمیت دیتے تھے، بتاتے تھے کہ تعلیم کا مقصد تہذیب بنانا اور اسے بچانا ہے، مال بنانا اور مال کو بچانا نہیں۔ بچوں میں مطالعہ کی عادت ڈالی جاتی تھی تاکہ ذہن بنے اور فکرکا سلیقہ آئے۔ہمارا خاندانی ماحول علمی ادبی تھا۔قیام بجنور کے زمانہ میں والد صاحب کے قریبی دوستوں میں جگر مراد آبادی اور علامہ اکبر شاہ خاں نجیب آبادی تھے جنہوں نے والد صاحب کے مشورہ پر مشہور عالم ـ‘‘تاریخ اسلام’’ تین جلدوں میں لکھی۔میں بہت چھوٹا تھا مگر سکول مدرسہ کی شکل دیکھنے سے پہلے پانچ چھ برس کی عمر میں گیارہ بارہ برس کی عمروں کی کہانیوں کی کتابیں پڑھ چکا تھا۔ شاہ قم قم، چنن منن، شیشے کا شہزادہ، مرغی اجمیر چلی کے علاوہ بچوں کے شاعر شفیع الدین نیر کی نظموں کی تمام کتابیں پڑ ھ لی تھیں ۔یہ سب کتابیں میری ذاتی لائبریری میں تھیں۔ اس عمر میں اپنی لائبریری بنانے کی تربیت دے دی گئی تھی۔محمد وارث کامل صاحب بچوں کے ہفتہ وار رسالہ غنچہ کے اڈیٹر بھی تھے۔ وہ ہر اتوار کو غنچہ برادری کا جلسہ کرتے تھے جہاں ہم بچے علمی، ادبی، دینی، اسلامی، تاریخی معلومات کے مقابلوں میں حصہ لیتے تھے۔


بمبئی آئے تو والد صاحب کے دوستوں میں اس زمانہ کے تمام بڑے علما، ادیب وشاعر تھے۔ بعض گھر پر آتے تھے۔اگرچہ بعض گھرانوں میں بڑوں کی مجلسوں سے بچوں کو دوررکھا جاتا تھا۔ مگر ہمارے والد کے دوست آتے تو اباجان ہمیں ان مجلسوں بیٹھنے کی ہدایت کرتے۔ ان دینی عالموں، ادیبوں، شاعروں کی مجلسوں میں ہمیں زندگی اور اس کے مقاصد کا فہم پیدا ہوا۔ والدین ہم سے اکثر علمی ادبی موضوعات پر بات کرتے تھے، ان امور پر اپنی رائے قائم کرنے میں مدد دیتے تھے۔والد صاحب اکثر ہم بھائی بہنوں کو ساتھ لے کر بیٹھتے تھے اور دنیا، خاص طور سے ملت مرحومہ، کے موضوع پر بات کرتے تھے۔ان مجلسوں میں غور و فکر کا سلیقہ سیکھا۔ بس یہی پونجی ہے۔


ہمیں باہر سڑک پر کھیل کود کی اجازت نہیں تھی کہ زبان بازاری ہوجائے گی۔چنانچہ سکول کے زمانہ ہی میں ظ۔انصاری، جاں نثار اختر، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عادل رشید، مدن موہن کالیہ، شکیل بدایونی، مہر محمد خاں شہاب مالیرکوٹلوی، نجیب اشرف ندوی، عادل رشید، قاضی اطہر مبارکپوری، اکرم الہ آبادی، سلامت رضوی جیسے اہل علم و ادب سے میرے ذاتی تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ یہی بزرگ میرے دوست تھے۔ہم عمر دوست تو دو ایک ہی تھے۔ ان چھتنار درختوں کے سایوں نے کھیل کود کے زمانہ میں زندگی کا سنجیدہ رخ متعین کردیا تھا۔

البتہ ایک طرف تہذیب اور رواداری کے یہ مظاہر تھے اور دوسری طرف اس عمر میں آزادی کے ساتھ خصوصا شمالی ہند میں پھوٹنے والے مسلم کش فسادات تھے۔وہ قصے سنتاتھا تو سوچنے والے دماغ میں انسان سوال بن جاتا تھا۔آزادی بڑی خونی اورخوفناک تھی۔ خونی آزادی کے بعد گاندھی جی کا قتل ہوگیا۔ مجھے وہ دودن آج بھی یاد ہیں۔ ان حادثات نے مجھ سے بچپن چھین لیا تھا۔میں نے ساری عمر بوڑھی زندگی گزاری ہے۔


علیزے نجف: آپ نے ہندستان کے مختلف شہروں اور بیرونی ملکوں میں سفر کیا ہے۔ اب آپ کینڈا میں مقیم ہیں۔ اس دوران آپ کو کس خطہ کے ماحول اور اس کی اقدار نے زیادہ متاثر کیا اور اس تاثر کی وجہ کیا رہی؟

طارق غازی: یہ خاصی طویل داستان ہے۔
ہم جوگی بستی بستی کے، ملکوں میں گئے، شہروں میں پھرے

کشمیر، کنیڈا، مصر، عرب، کہیں دل کی بات نہیں بنتی
دنیاتہذیب کے پہاڑ سے نیچے گررہی ہے۔دامن کوہ میں پہنچے گی تو لہولہان ہوگی۔ایک آدھ جگہ کو چھوڑ کر مسلم ملکوں میں اسلام تھا، نہ تہذیب دکھائی دی۔بے شک نماز روزہ کااہتمام تو دیکھا مگر معاشرت پر اس کا اثر نہیں دیکھا۔ان ملکوں کے برعکس مغربی ملکوں میں مذہب یعنی عیسائیت، سے بیزاری عام ہے مگر لوگ مہذب ہیں۔کسی جگہ ایک ہی کام کے لئے جمع ہوں تو مستعدی سے قطار بنالیتے ہیں اور سکون سے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔چرچ یا کانفرنس میں کسی کے کہے بغیر خود ہی اپنے سیل فون بند کردیتے ہیں۔مسجدوں میں ضروری نہیں مصلی ایسا کریں۔اونچی آواز میں بات نہیں کرتے۔ بازاروں اور ریستورانوں میں شورشرابہ نہیں کرتے۔ ریستورانوں میں باہمی گفتگو دھیمی آواز میں کرتے ہیں۔ دونوں جگہ ہلکی آواز میں موسیقی چلتی رہتی ہے۔ چیختے چنگھاڑتے گانوں اور ہیجانی موسیقی سے پرہیز کرتے ہیں۔پولس رشوت خور دہشت گردوں کا منظم ٹولہ نہیں ہے، عوام کو سہولت پہنچانے والا ادارہ ہے۔ لوگ سرکاری ٹیکس بخوشی ادا کرتے ہیں بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں۔ایشیائی اور عرب اس کے برعکس عمل کرتے ہیں۔حکومتیں عوامی خدمات پوری دیانت داری سے ادا کرتی ہیں۔ سیاست داں، دفتر دار یا فوجی افسر دوسرے ملکوں میں جائدادیں نہیں بناتے اور اپنی جائز یا ناجائزدولت سے اپنے ہی ملکوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔


مسلم یا ایشیائی اور افریقی ملکوں میں ان میں سے کوئی خوبی نہیں پائی جاتی۔مستقبل کی تباہی کا پہلا پڑاؤ یہی قومیں ہوں گی۔اور ہوتی نظر آرہی ہیں ـ۔

مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ یاں سب میٹھا ہے۔ہمارا دور سترھویں صدی کے یورپ کا معاشرتی انحطاط ہے جو ہمارے دیسوں تک اب پہنچا ہے۔جمہوریت کے سیاسی پردہ کے پیچھے سرمایہ دار لشکریت کے غلام ہیں لوگ۔ یورپ میں روشن خیالی (Enlightenment) کا آغاز ہوا تو کساد نظر کے نتیجہ میں معاشرہ میں عام افسردگی پھیل گئی اور آخر کار عیسائی دنیا نے کرسمس کے میلوں ٹھیلوں، اولمپک جیسے کھیلوں، اورسالانہ سیر سپاٹوں میں افسردگی(depression) سے پناہ ڈھونڈی۔ یورپ کو راستہ نہ ملا۔ مسلم نفسیات اسی تاریکی کو روشنی سمجھنے پر بضد ہے۔ ۔مغربی ملکوں میں عورت اور مرد باہم وقت گزاری کا ذریعہ رہ گئے ہیں۔انسانی حقوق کا نعرہ رہ گیا انسان نہ رہا۔عورتوں نے مساوات کا جھنڈا اٹھایاتو معاشرہ میں ان کی عزت ختم ہوگئی۔ عورتوں کے اس درد کو محسوس کرنے والا دنیا میں کوئی نہ رہا، خودعورت بھی نہ رہی۔مغرب میں کبھی کبھی فطرت موثر ہوجاتی ہے۔ افسردگی کی وجہ موجودہ صورت حال ہے، زندگی بجائے خود نہیں۔ مگر عام آدمی کو یہ احساس نہیں ہے۔ تعلیمی نظام اور ابلاغیہ اسے دوسرا سبق پڑھاتے رہتے ہیں۔


ماضی قریب میں ہمارے کئی تہذیبی بزرگ خاص طور سے انگلستان گئے، وہاں سے متاثر ہوکر آئے اور ہمیں نئے زمانہ کی نقل کرنے کی نصیحتیں کرتے رہے۔ ان نصیحتوں کی فصلیں سارے جنوبی ایشیا میں کاٹی جارہی ہیں۔مجھے یورپ نے متاثر نہیں کیا۔ انگلستان میں انگریزوں کے وہ مظالم یاد آتے رہے جو انہوں نے آّدھی دنیا کے کروڑوں انسانوں پر ڈھائے تھے محض اس جرم میں کہ وہ انسان گورے نہیں تھے اور ان سب کی اپنی زیادہ قدیم اور بڑی تہذیبیں اور عمرانی روایتیں تھیں۔میں آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیاں دیکھنے بھی نہیں گیا کیونکہ وہیں تو انسان کشی کے وہ پیکر تیار ہوتے تھے۔لندن میوزیم اور کین سنگٹن سائنس میوزیم البتہ دیکھے۔ ایک جگہ ایشیائی اور افریقی ماضی کے نوادرات کی زیارت کے دام لگے ہوئے تھے اور دوسری طرف کوہ ہیکل مشینوں میں انگلستان کا وہ مستقبل ذخیرہ تھا جس کے نتائج اب نظر آرہے ہیں۔سابق مغربی جرمنی میں ۱۷ شہروں کے سفر کے دوران ہرجگہ دوسری عالمی جنگ کے زخم دیکھے۔ مسلم دنیا میں سعودی مملکت، ترکی، مصر ہرجگہ بس دعا کے لئے ہاتھ اٹھتے رہے۔


آپ اسے مایوسی اور قنوطی سوچ کہہ سکتی ہیں۔مگر یہ ایک گھنے جنگل کی گھور اندھیری رات میں سورج کی ایک کرن اور دور جلتے ایک چراغ کی ٹمٹماتی روشنی میں راستہ ڈھونڈنے کی پیہم سعی ہے ۔ دنیا ایک بہت بڑے انقلاب کے دہانے پر کھڑی ہے جس کاانتظار کسی کو نہیں۔

علیزے نجف: آپ کینڈا میں مقیم ہیں اور وہاں کی تہذیب و ثقافت سے بخوبی واقف ہوچکے ہیں ۔ وہاں رہتے ہوئے آپ نے ہندستان کی کن روایات و ثقافت کی کمی سب سے زیادہ محسوس کی اور کونسی تین چیزیں ہیں جو ہندستان میں مفقود ہیں؟

طارق غازی: ہندستان میں کونسی تہذیب وثقافت باقی رہ گئی ہے کہ کہیں باہر اس کی کمی محسوس کی جائے۔ سیاست داں، دفتر دار، پولس، تاجر بددیانت ہیں، پڑھے لکھے لوگوں کی بڑی تعداد کو بھی جہالت پر اصرار ہے، انسان سے نفرت اور حقارت کو آج بھی تہذیب سمجھا جاتا ہے۔مگر ہم بے وطن لوگوں کو اپنے تاریخی اور عمرانی تسلسل سے کٹ جانے کا غم ضرور ہے۔ہماری نسل اپنی جڑوں سے کٹ گئی ہے۔ اور یہ غم بھی چند بوڑھوں تک محدود ہے۔


علیزے نجف: آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے؟آپ کے تعلیمی سفر کا آغاز کس ادارہ سے ہوا۔ آپ کے تعلیمی سفر میں کس نے ایک مربی (mentor)کا کردار ادا کیا ؟

طارق غازی: لیاقت کچھ بھی نہیں ہے۔تعلیم ایک مسلسل سفر کا نام ہے۔ اس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔مربی وہی ہوتا ہے جو دائمی طور پر نگرانی کرے۔ میرے مربی والدین تھے۔علم کے۔ اس سفر میں اساتذہ بہت اچھے ملے۔ ان سے کسب علم کیا مگر ان کی تمناؤں کی تکمیل نہ کرسکا۔اللہ سب سے راضی ہو اور ان کے مقامات بلند ہوں۔بمبئی میں اساتذہ میں سکول کے پرنسپل عبداللہ بورا صاحب، اردو فارسی کے استاد محمد علی شیخ صاحب، پانچوٰیں سے ساتویں تک اردو کے استاد محی الدین قریشی صاحب، سائنس کے استاد شیخ قادر صاحب اور خطیب صاحب، اور علی گڑھ میں انگریزی کے استاد مسعود الحسن صاحب اور طارق عزیز صاحب، سیاسیات کے استاد سید ناصر علی صاحب، تاریخ کے استادافتخار ملک صاحب، نعمان صدیقی صاحب اوراقتدار عالم خان صاحب کی درس گاہوں میں روشنیٗ طبع سے ذہن میں اجالا ہوا۔ باقی جو کچھ حاصل کیا بے سود رہا۔

دنیا وہی مردود مصائب ہے ابھی تک
ہم نے جوپڑھا سیکھا کسی کام نہ آیا


علیزے نجف: آپ کا تعلق اایک ایسے خاندان سے ہے جس نے علم و قیادت کے میدان میں نمایاں کردار اد کیا ہے۔حضرت مولانا حامدلانصاری غازی اور عابداللہ غازی جیسی شخصیات آپ کے خاندان کا حصہ ہیں۔اپنے خاندان کے بارے میں مخٹصراً بتائیں

طارق غازی: ہمارا خاندان میزبان رسول، حضرت ابوایوب الانصاری رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ہے۔ والد صاحب تحریک آزادی کے گمنام سپاہی تھے۔ انہوں نے اسلامی نظام سیاست اور آئین پر پہلی مبسوط کتاب اسلام کا نظام حکومت لکھی۔دادا مولانا محمد میاں منصور انصاری ۱۸۵۷ کے بعد ہندستان کی آزادی کی اولین مہم ریشمی رومال تحریک کے روح رواں تھے۔ ساری زندگی جلاوطنی میں گزاری۔ افغانستان میں انتقال ہوا۔ پردادا مولانا عبداللہ انصاری انبہٹوی سرسید کے رفقا میں تھے۔ ان کے والد مولانا انصار علی سندھیا کی ریاست گوالیار میں صدرالصدور تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تحریک کے ماتحت دیسی رجواڑہ ریاستوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے علماء کی بڑی تعداد اعلی عہدوں تک پہنچی تھی۔ اس مہم میں ہمارے خاندان کے کئی بزرگ حیدرآباد، بہاولپور، مالیر کوٹلہ، الور، اندرگڑھ، خیرپور سندھ، بھوپال، قلات بلوچستان وغیرہ مختلف ریاستوں میں اعلی عہدوں پر فائز تھے۔ہم ان کی خاک پا ہیں۔

کھوٹا ہو بیوہار تو متوا، کیسی من کی ساکھ
جھاڑی جلے تو لابھ نہ ہووے، کوئلہ بھئے نا راکھ


علیزے نجف: تعلیم اور تعلیمی نظام کسی بھی قوم کا مستقبل متعین کرتے ہیں ۔آج مسلمان قوم کی حالت زارظاہر ہے۔آپ کے خیال میں کیا مسلمانوں کی پستی کی وجہ ان کے تعلیمی نظام کی بدحالی ہے۔ آج کے مدرسوں میں رائج تعلیمی نظام کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟

طارق غازی: مدرسہ کی تعریف پر جواب کا انحصار ہے اگر مدرسہ سے مراد ہر نوع کی تعلیم گاہ ہے تو جواب اثبات میں ہے اور اگر مراد دینی مدارس ہے توجواب جزوی طور پر اثبات میں ہے۔مسئلہ صرف مسلمانان ہند کا نہیں اگرچہ بے علمی کا زہر ہندستان میں زیادہ پھیلا ہوا ہے۔ دنیامیں علم کا کوئی مقصد نہیں رہا اور زندگی سے تعلیم کا تعلق محض روزی روٹی کی حد تک رہ گیا۔سادہ لفظوں میں مارکسی معاشی نظریہ کے بدترین ظاہری دشمن امریکہ اور یورپ بھی اصل میں مارکس ہی کی اندھی پیروی کرتے ہیں جس نے انسان کو معاشی جانور قرار دیا تھا۔ چنانچہ علم اور تعلیم خواہ دنیاوی یونیورسٹیوں میں ہو یا دینی مدررسوں میں زندگی کو مقصد حیات دینے میں ناکام ہے بلکہ اس سے دلچسپی نہیں ہے ۔یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں ناقص نظام تعلیم کی ذمہ دار حکومتیں ہیں کیونکہ وہاں انہی کی بانی بولی جاتی ہے اور دور اندیش اہل دانش اور ارباب فکر کا وجود نہیں ہے۔رہے دینی مدرسے تو وہ اسی فرسودہ درس نظامی کو اسلام کی اساس سمجھنے پر بضد ہیں جو اورنگ زیب کی ایما پر ملا نظام الدین سہالوی نے مغل سلطنت کو دفتردار امراء اور وزرامہیا کرنے کے لئے مرتب کیا تھا۔ مسلمان دونوں طرف سے اس عام بے شعوری کا شکار ہیں۔ایسی صورت میں والدین اور خاندانوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ والدین اسی بے اصول نظام تعلیم کے پروردہ ہیں مگر نئی نسلوں کی خاطر انہیں اپنے اساسی علمی مطالعہ کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے، بشرطیکہ وہ اپنے ذریعۂ روزگارکی ترقی پر اولاد کی ترقی کو فوقیت دینے پر تیار ہوں۔ ورنہ انحطاط بڑھتا جائے گا ۔ اس کی شکایت فضول ہے۔


علیزے نجف: آپ کے بارے میں پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوا کہ آپ کے لاشعور میں ہمیشہ ایک تلاش تھی، ایک نامعلوم سی جستجو جس کی شناخت برسوں بعداس وقت ہوئی جب آپ زندگی کا پیشتر حصہ گزار چکے ہیں۔ تو کیا آپ کی تلاش کا سفر منزل پاچکا ہے یا کوئی ادھورا خواب اب بھی آپ کی آنکھوں میں بسیرا کئے ہوئے ہے؟

طارق غازی: یہ بڑی پہلو دار بات کئی عمرانی پرتوں میں بیان ہوسکتی ہے۔ لاشعور ایک ناقبل گرفت کیفیت ہے۔ میری تلاش ایک شعوری مہم تھی اور ہے۔ اس کا ایک پہلو انفرادی ہے، کسی ہم نوا کی تلاش۔ ہم نوا نہیں ملا اور اس کی وجہ خودمیرا اپنا تصور حیات ہے۔اپنی تحریروں کی بازگشت مجھ تک نہیں پہنچی۔کبھی ہنگامی واہ وا ہوگئی مگر اسے ہم نوائی نہیں کہتے۔ تازہ فکر جوابی فکر انگیزی کا تقاضا کرتی ہے۔ اب یا تو خود ہماری فکر ناقص ہے اور وقت سے ہم آہنگ نہیں ہے، یاذہن فکر سے خالی ہوچکے ہیں اورسنگین ہنگامی واقعات کا اجتماعی عمرانی تجزیہ کرنے سے عاری ہیں۔ دوسرا پہلو معاشرتی ہے جو تیسرے مرحلہ میں ملت تک وسیع ہوجاتا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ تین سوسال سے خود فراموشی کے عالم میں ملت ایک سیلاب بلا میں بے حقیقت تختہ کی طرح بہتی جارہی ہے۔ حادثات کے تلاطم میں اس ملت کو تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہندستان میں مسلم پرسنل لا بورڈ نہ توشرعی پیمانوں پر ملک کے مروجہ قوانین کا جائزہ لینے اور ان میں جمہوری راہ سے اصلاح کرانے کا اہل ثابت نہ ہوا اور نہ ملت کو نئی قیادت دینے کے قابل ہوا۔شاہین باغ ایک ہنگامی ابال تھا، کوئی تعمیری مہم نہ بن سکا۔ مسکان خان کی جرأت مندی انعامات کے انبار میں ضا ئع ہوگئی اوراجتماعی حوصلہ کا نقطۂ اول نہ بن سکی۔ میں نے اس سلسلہ میں ایک مضمون بھی اخباروں کو بھیجا تھا جو قابل اشاعت نہ ہوا۔مسلم کہلانے والے ملکوں کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ اس اعتبار سے جستجو کسی منزل کو نہیں پہنچی۔خواب دیکھنا اور دیکھتے رہنا آنکھوں کا مقدر ہے سو اسی پر گزر بسر ہے۔

تنہا یہ سفر طے کئے جاتا ہوں میں دن رات
ہمراہ کوئی چلنے کو دوگام نہ آیا


علیزے نجف: آپ نے مسلسل ۴۰ برس صحافت کی خدمت کی ہے۔آپ نے صحافی ہی بننے کا فیصلہ کیوں کیا۔کیا آپ نے شعور کی سطح کو پہنچنے کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا یا کسی سے متاثر ہوکر میدان صحافت میں داخل ہوئے تھے؟

طارق غازی: صحافت کا کارخانہ اپنا گھر تھا۔علی گڑھ سے واپس آیا تو زندگی تھی اور مقصد سے تہی تھی۔ خود اپنی حالت یہ تھی کہ محض بی اے کی ڈگری کے بعدآگے کوئی راہ کھلی نہیں تھی۔اس لئے علی گڑھ قیام کے زمانہ ہی میں صحافت کی سمت رجحان پیدا ہوگیا تھا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ قومی سیاست میں روز بروز غلاظت بڑھ رہی تھی۔چنانچہ سیاسی محاذپر اصلاح کے نقطۂ نظر سے صحافت ہی مناسب راستہ نظر آئی۔


علیزے نجف: آپ نے صحافت کے سفر کے آغاز میں ہفتہ وار ابوالکلام جاری کیا جو بہت جلد بند ہوگیا۔ پھر اردو ماہنامہ سائنس نکالا۔ اس کا دورانیہ بھی مختصر رہا۔ آپ نے کسی جاری اخبار سے منسلک ہونے بجائے اپنا اخبار کیوں نکالا؟ کیا دوسری جگہوں پر کام کرتے ہوئے آپ کو من چاہی آزادی میسر نہیں تھی یا کوئی اور وجہ تھی؟

طارق غازی: آزادی کے بعد ہندستانی صحافت کا مزاج اور رویہ بدل گیا تھا۔ البتہ اردو صحافت کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔جنوبی ایشیامیں انگریزی صحافت تو بنیادی طور پرتجارتی مزاج رکھتی تھی، آزادی کے بعد ہندی صحافت بھی دیگر صنعتوں کی طرح مال بنانے کی مشین بن چکی تھی۔ اس کے پاس زرومال کی کمی نہیں تھی۔ اردو صحافت اس صنعتی معیار پر پوری نہیں اترتی تھی۔ اسے دانستہ اشتہاروں سے محروم رکھا جاتا تھا۔ کیا آپ یقین کریں گی کہ اخباروں کی ردی خریدنے والا انگریزی اور ہندی، گجراتی اخباروں کی ردی کے مقابلہ میں اردو اخباروں کی ردی کے دام کم لگاتا تھا۔اردو اخباروں میں وہی ‘‘ ـعظیم قومی مقصدـ’’ کا راگ الاپا جارہا تھا جس کی ایک ہی لے تھی نہرو اور کانگریس کی چشم بند تائید و حمایت۔ اس طرح ہندستان کا مسلمان اور اردو صحافت دونوں ہی آزادی کے بعد کے قومی تسلسل سے کٹ گئے تھے۔ میں سوچ کو آزاد رکھنے کا داعی تھا اور غلط کو غلط، درست کو درست کہنے کا حوصلہ دکھانا چاہتا تھا۔ابوالکلام جاری کرنے کا مقصد اس نقطۂ نظر پر اصرارتھاکہ آزادی نے صرف مسلمانان ہند کو تقسیم اور کمزور کیا تھا اور اسی بدنصیبی سے مولانا آزاد اس قوم اور ملک کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ اس سوچ کے انسان ہندستان میں وہ تنہا تھے۔ جناح اور لیاقت ہی نہیں نہرو، پٹیل، پنت وغیر بھی ملک اور مسلمانوں کی تقسیم کے حامی اور وکیل تھے۔میرا پہلااخبار مولانا آزاد کی طرح ملک میں تنہا آواز تھا۔ سو بند ہوگیا۔اس تجربہ سے خیال آیا کہ مسلمانوں کا رویہ اور سوچ سائنسی نہیں ہے۔ اس خیال کے ماتحت ماہنامہ سائنس کا اجرا کیا۔دونوں مہموں کو نہ اشتہار ملے نہ خریدار۔اتفاق سے مجھے اللہ نے بھوک سے بھی کچھ حصہ عطا کیا تھا۔ تو مچھندر روٹی کمانے کی طرف متوجہ ہوگیا۔


علیزے نجف: آپ نے صحافت کی وسیع و عریض بساط پر اپنے فکری مہرے رکھے ہیں اورعالمی سیاسی قائدین کے طرز فکراور عملی طریق کارکو گہرائی سے سمجھا ہے۔عالمی سیاسی افق پر مسلم ممالک کے ملکی نظام اور ن کی سیاست کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟مزید یہ کیا مغربی طاقتوں کے ساتھ ان مفاہمانہ رویہ کیا ان کی کمزوری ہے یا ان کی حکمت عملی ہے؟

طارق غازی: عالمی سیاسی قائدین فکر و عمل کے کسی ایک محکم نکتہ پرہم آہنگ نہیں ہیں۔مستقل سیاسی، اقتصادی اور حربی آویزش قویٰ کو مضمحل کر رہی ہے۔مغربی ملکوں میں عمل کی جہت وہاں کی سات سوسالہ سیاست اور عیسائی اعتقاد نے متعین کی ہے۔مشرق، بالخصوص جنوبی ایشیا میں دوسوسال کی یورپی غلامی نے کوئی آزاد و منفرد سیاسی جہت متعین ہی نہیں ہونے دی۔جن افراد اور گروہوں کو آزادی ‘‘دی’’ گئی تھی وہ یورپ کے پردردہ ذہن تھے اس لئے ان خطوں میں آزادی کا مطلب مقامی حکومت سازی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ مغلیہ دور کی قومی اقتصادیات کے برعکس آج کی سیاست اور اقتصادیات بدستوریورپی نظریات کی محکوم ہیں۔میرا ٰیہ تجزیہ اور نقطۂ نظرہماری دانشوری تک کے لئے قابل قبول تو کیا قابل غور بھی نہ ہوا۔ لہٰذا ہم پلاسی اور بکسر سے آگے نہیں بڑھے۔سرنگا پٹم ہماری فکری تاریخ کا سنگ میل نہ بن سکا۔


رہی بات مغربی طاقتوں کے ساتھ سابق غلام قوموں کے مفاہمانہ رویہ کی تو انہیں اسی رویہ کا حکم ہے اور اس سے ذرسا بھی اختلاف لیڈر یا قوم کے لئے جسمانی یا سیاسی موت کا حکم بن جاتا ہے۔یوگنڈا کے عیدی امین، کانگو کے لممبا، مصر کے ناصر، چیلی کے الندے، لبیا کے قذافی، انڈونیشیا کے سوکارنو کا انجام کسی یاد ہے یا یاد بھی نہیں ہے۔تو مغربی ملکوں کے ساتھ مفاہمانہ رویہ سیاسی زندگی کا واحد راستہ ہے۔آزادحکمت عملی کی شرط اول فکری آزادی ہے اوراس کے بعد مقامی آبادیوں کی فلاح پر مبنی اقتصادی عمل ۔ صنعتی انقلاب کے وقت سے اس کا راستہ مسدود ہے، سوائے ان قوموں اور لیڈروں کے لئے جنہوں نے عالمی ناکہ بندی کے جواب میں آقاؤں کے تھوپے ہوئے افلاس کے خلاف داخلی قومی جدوجہد کا تعمیری راستہ اختیار کیا۔ اس کی مثالیں کم ہیں۔


علیزے نجف: آپ نے اردو کے ساتھ انگریزی صحافت میں بھی طبع آزمائی کی ہے اورٹائمز اف انڈیا اور اکنومک ٹائمز کے ذریعہ اس کا تجربہ حاصل کیاآپ اردو صحافت اور انگریزی صحافت کے درمیان کیا فرق دیکھتے ہیں؟ اردو صحافت کی بدحالی کیا اردو زبان کی وجہ سے ہے یا زبان کے گرتے ہوئے معیار کی وجہ سے ہے؟

طارق غازی: جنوبی ایشیا میں انگریزی صحافت پہلے دن سے سرمایہ دار تجارت اور صنعت تھی اور اب تک ہے۔ اردو صحافت پہلے دن سے غریبوں کی آواز رہی ہے۔ دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اردو صحافت آج بھی ناداری کا شکار ہے۔کتنے اخبار اور رسالے ہیں جو اپنے اہل قلم کی دماغ سوزی کو قابل معاوضہ سمجھتے ہیں یا اس قابل ہیں کہ انہیں مناسب معاوضہ دے سکیں۔کاتب، کاغذی، پریس اپنی مرضی کا معاوضہ لے لیتا ہے۔ اوراس کے بعد جب اہل قلم کا ذکر آتا ہے تو قوم کی خدمت کا راگ شروع ہوجاتا ہے۔آپ کو یہ جان کر ہنسی آئے گی کہ میں نے اپنی کتاب نظریۂ تہذیب ایک خاصے مقبول اوربڑے اردو اخبار کے پاس برائے تبصرہ بھیجی۔ جواب ملا ہمارے پاس کتابوں پر تبصرہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آپ خود تبصرہ لکھ کر بھیج دیجئے ہم اسے چھاپ دیں گے۔


اردو صحافت نے ایک اور مقام پر اپنا فریضہ ادا نہیں کیا۔ وہ تھا اردو زبان و محاورہ کی حفاظت اور ترقی کا۔میر، غالب، اقبال، حسرت، جگر تک شاعر اردو زبان کا قانون ساز اور مفتی ہوتا تھا۔ترقی پسنددور میں شاعر اور ادیب کو اس منصب سے اتار دیا گیا۔ اس وقت چند صحافیوں نے یہ ذمہ داری قبول کی تھی۔ ظفر علی خان، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر، چراغ حسن حسرت، عبدالرزاق ملیح آبادی، قاضی عبدالغفار، حافظ علی بہادر خاں، شائق احمد عثمانی، شاہد ا حمددہلوی، میرزا ادیب، تاجور نجیب آبادی، نصر اللہ خاں عزیز، ابو سعید بزمی، حامد الانصاری غازی، سید انیس الرحمان، اعجاز صدیقی، ماہر القادری، عبدالوحید صدیقی، اسحٰق علمی نے زبان کو بڑی حدسنبھالے رکھا۔ مگر ایک طرف تو ہندستان کی اکثر ریاستوں میں اردو سکولوں سے خارج ہوگئی تھی، اخباراور کتاب پڑھنے والے معدوم ہوگئے اور دوسری جانب گھروں میں اپنی زبان کی حفاظت کا تصور باقی نہ رہا۔


پاکستان میں توقع کے برخلاف زیادہ خراب حالت ہوئی۔چوک چوراہے پر املا تک درست نہیں ہے۔ وہاں لوگوں کو ہلالی اور حلالی کے ہجے معنی میں فرق تک کی خبر نہ رہی۔ ٹیلی وژن پر غلط اور انگریزی زدہ اردو یا ہندستانی ٹی وی کے بعض بازاری فقروں کے بے شعور استعمال نے اردوکو اس قابل نہیں چھوڑا کہ اس میں علمی کام ہوسکے۔ البتہ شعر کے معاملہ میں وہ لوگ ہندستانیوں سے بلند ہیں۔

ہندستان میں نئی نسل کے چند صحافی اردو کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔میرے محدودعلم کی حد تک مقبول احمد سراج، معصوم مرادآبادی، سہیل انجم، مظفر حسین غزالی، غزالی خان، عبدالباری مسعود، محمد علم اللہ، وسیم الحق جیسے مجاہد اپنی زبان کو قلعہ بنانے کی مہم کا حصہ ہیں۔یہ سب قابل مبارکباد ہیں۔ البتہ ان سے توقع ہے کہ وہ ادبی اور علمی مطالعہ کی وسعت کے ساتھ ا ردو کو اس کو کھویا ہوا مقام دلانے میں کامیاب ہوں۔ان کے علاوہ بھی ہوں گے۔ مگر سب کی تحریروں تک میری رسائی نہیں ہے اس لئے جواب نامکمل ہے۔


علیزے نجف: اردو صحافت پر ایک عام الزام یہ ہے کہ اس کا کوئی باعزت مستقبل نہیں ہے کیونکہ اردو میں رپورٹنگ نہیں ہوتی اور اس کے اخبارات ترجمہ پر چل رہے ہیں۔کیا واقعی اردو صحافت کا کاروبار محض ترجمہ کے سہارے قائم ہے اور کیا اس کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہے؟

طارق غازی: میں کہہ چکا ہوں کہ اردو صحافت کے پاس سرمایہ کبھی نہیں رہا۔ ماضی میں قریبی قصبوں اور نواحی شہروں میں ان کے بلا معاوضہ نامہ نگار ہوتے تھے جو اپنی بستی کے شادی بیاہ، مقامی مشاعرہ، مقامی ادیبوں کے اجلاس یا سیای اجتماع کی خبریں بھیج دیتے تھے۔ قومی اور علاقائی اور عالمی خبروں کے لئے مغربی خبر ایجنسیوں پر تکیہ تھا اور ہے۔ اردو والوں نے اپنی خبررساں ایجنسیاں قائم کرنے کی چند کوششیں کیں جو مالی اعتبار سے ناکام ہوگئیں۔ آزادی کے بعد نافین(NAFEN - Near and Far Eastern News)، دیوان بیرندر ناتھ عرف ظفرپیامی کی پریس ایشیا انٹرنیشنل، مقبول احمد سراج کی فانا(FANA - Feature and News Alliance) ضروری تعداد میں خریداراخباروں اورخبروں کی قلت کے باعث عالمی تو کیا قومی سطح پر کاروبار نہ پھیلا سکیں۔بنیادی مسئلہ اقتصادی بھی ہے اور اردو اخبارات کے مالکان کے ذہنی روئیے کا بھی ۔ نہ ان کے پاس ضروری سرمایہ ہوتا ہے اور نہ ان کا مزاج تجارتی بن سکا۔سیاست حیدرآباد، راشٹریہ سہارا، اور ہندی روزنامہ جاگرن کے ساتھ انقلاب بمبئی کا معاہدہ بہتری کی سمت کا سفر ہیں مگر سفر بہت طویل ہے اورہمراہی کم ہیں۔
بے شک اردو اخبارات انگریزی سے ترجمہ کی اساس پر قائم ہیں۔ اس لئے ان میں معدودے چند کو چھوڑ کر فکری بالیدگی کی راہ نہیں کھلتی۔گھنٹوں لفظوں پر لفظوں کی چاندماری کے بعد غریب اردوصحافی سے علمی فکری رہنمائی کی امید کرنا اس پر ظلم ہے۔


علیزے نجف: آپ کو سعودی مملکت کے موقر روزنامہ سعودی گزٹ میں کام کرنے کا موقعہ بھی ملا جہاں آپ ترقی کرتے ہوئے مینیجنگ اڈیٹرکے منصب تک رسائی حاصل کی۔ اس اخبار سے وابستگی کے کیا تجربات ہیں؟

طارق غازی: کسی عرب ملک میں کام کرنے کا تجربہ دوگونہ تھا۔وہاں عالم عرب کے سیاسی نشیب و فراز اور عام مسائل پر عوامی نفسیات اور تاثرات کا بہتر اندازہ ہوا۔دسیوں صدیوں کے دوران وہاں قبائلی نفسیات نے جابر بادشاہتوں کے نظام کو ارتقا سمجھا اور اس پرقانع ہیں خواہ وہ آمریتوں کی صورت ہی میں ہو۔اس نظام نے وہاں کے عام انسان کو عملی زندگی میں جبریہ نظریہ سے وابستہ کردیاہے کہ گناہ اور غلط کاری بھی تقدیری فیصلہ ہے اور انسان مجبور ہے۔لہٰذا جو ہورہا ہے اسے قبول کرو۔دانشوروں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے افکار میں مغربی سیاست اور فلسفوں سے عرب تال میل کا اندازہ ہوا اوربالخصوص فلسطین کے مسئلہ پرتیزی سے بدلتی ہوئی عرب سیاسی اور اقتصادی ترجیحات کے اسباب کے ساتھ عرب اور مسلم دنیا کے بارے میں مغربی زاویۂ فکر کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقعہ ملا۔وہاں قیام کے دوران ہی یہ معلوم ہوا کہ مغرب و مشرق میں بنیادی فرق غیر جذباتی حکمت کار اور مسلم دنیا کی شدید جذباتیت کی بے ثمر آویزش ہے۔ وہ سنجیدگی اور متانت سے کھیل کھیل جاتے ہیں اورہم جذباتی نعروں سے ان کے عملی اقدامات کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر محاز پر وہ کامیاب ہیں اور ہم ہر مہم کی ناکامی کے بعد مایوسی کا شکار اور مغرب کے زیادہ پابند ہوجاتے ہیں۔اس خطہ میں ۱۹۱۷م کے بالفور اعلامیہ کے بعد سے اب تک کی تاریخ اسی سمت اشارہ کرتی ہے۔


دوسری جانب وہاں خاص طور سے ہندستان کے بے یارومددگار مسلمانوں کا تعارف کرانے کا بھی مو قعہ مل جاتا تھا۔پاکستان کے محنت کش مزدوراور ہندستان کی نرسوں اور خاکروب گروہوں کی بڑی تعداد نے وہاں یہ تاثر قائم کیا تھا کہ امریکہ، انگلستان، آسٹریلیا کے برعکس ان بے علم ہندستانیوں پاکستانیوں، بنگلہ دیشیوں کی نہ کوئی تہذیب ہے نہ علمی شناخت۔ اس عام غلط فہمی کو رفع کرنے کاموقعہ بھی ملا۔اس باب میں میر ایوب علی خان، محمود صابری، نواب (این اے) مرزا، لطافت علی صدیقی، شاہد علی خان، سراج وہاب وغیرہ کی خدمات قابل ذکر ہیں۔

علیزے نجف: جدہ کا قیام ترک کرکے آپ نے کینڈا کا رخ کیوں کیا؟ اس کی کوئی خاص وجہ تھی؟

طارق غازی: میرے اکلوتے بیٹے کی تعلیم امریکہ میں ہوئی۔ تعلیم کے بعدوہ کینڈا آگیا۔اس کا بچپن جدہ میں گزرا۔ گیارہویں جماعت میں تھا کہ تعلیم کے لئے امریکہ گیا۔ ثقافتی اساس پر وہ ہندستان کے ماحول سے دور ہوگیا تھا۔ وہاں آئے دن کے مسلم کش فسادات لاتعداد دوسروں کی طرح اس نوجوان کو کسی نئی شناخت کی تلاش پر مائل کرہے تھے۔ امریکہ اور کینڈا اس پیمانہ پر کشادہ دل اور مہذب معاشرے ہیں۔ اس نے کینڈا کی شہریت لے لی اور اس کی چاروں بچیاں بھی یہیں پیدا ہوئیں۔ میرے لئے دوسرا راستہ نہیں تھا۔


علیزے نجف: آپ ایک صاحب کتاب مصنف ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انگریزی میں دی کارٹونس کرائی(The Cartoon Cry) اور اردو میں نظریۂ تہذیب اور تذکار الانصار۔یہ کتابیں منفرد نوعیت کی ہیں۔ ان کا نفس مضمون تفکر اور تدبر سے مربوط ہے۔ ان کتابوں کے بارے کچھ بتائیے؟

طارق غازی: ڈنمارک کے ایک شیطانی اخبار جللینڈس پوسٹن(Jyllands Posten) کے اڈیٹر اور کارٹون کار نے ۲۰۰۶ میں رسول للہ صلی اللہ علیہ سلم کی شخصیت کو فرض کرکے چند کافرانہ کارٹون شائع کئے۔ قدرتی طورپر مسلمانوں کو تکلیف ہوئی ۔ یہی اس حرکت کا منشا تھا۔یورپی تعلیمیہ اور ابلاغیہ کی اس روایتی غیر مہذب حرکت پر دنیا بھر میں احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔مگر حیرت ہے کہ یورپ کے عیسائیوں سے تین چار سوسال کے تعلق کے باوجود دنیا کے اور خاص طور سے جنوبی ایشیا کے مسلمان یورپی مزاج اور نفسیات کو نہیں سمجھ سکے اور نہ اس مدت میں انہوں نے یورپی اجتماعی اور انفرادی نفسیات اور ثقافتی پہچان کے سنجیدہ مطالعہ کی ضرورت محسوس کی، جبکہ جنوبی ایشیا( ہندستان، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، برما، نیپال) کی حد تک اہل یورپ نے جان گلکرائسٹ کے زمانہ سے مسلم، ہندو، بدھسٹ سماجی رسم رواج، مزاج عادات، ادبی مذاق یا بدمذاقی، مذہبی طور طریقوں بلکہ فرقوں تک پر بے شمار تحقیقات شائع کرکے ان اقوام کے کمزور اور توانا پہلوؤں کی نشان دہی کردی تھی۔ ڈنمارکی اور پھر فرانسیسی کافرانہ کارٹون اسی یورپی تحقیق کا شاخسانہ تھے۔ انہیں پتا تھا کہ ان کارٹونوں پر مسلم رد عمل کیا ہوگا۔ اس کا مقصدمسلمانوں کو برہم کرنا اور ان کے جذباتی رد عمل کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف استعمال کرنا تھا۔ وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ آج کا اسلاموفوبیا(اسلام کا خوف/نفرت) اسی مہم کا نتیجہ ہے۔ ادھر ہم ہیں کہ بدستور جذبات کے بم داغ رہے ہیں یہ جانے بغیر کہ اہل مغرب جذباتی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے۔


اس مسئلہ پر میں نے انگریزی میں دی کارٹونس کرائی(کارٹون روتے ہیں) کتاب لکھی جو امریکہ ہی سے شائع ہوئی ۔ مسلمانوں میں یہ کتاب مقبول نہیں ہوئی بلکہ غالبا ڈان کراچی کے تبصرہ نگارنے تو اس ‘‘ناگوار’’ کتاب کو مسترد کردیا تھا؛ البتہ ایک ا مریکی اخبار کی تبصرہ نگارنے لکھا تھا کہ کارٹونوں کے مسئلہ پر ‘‘مسلمانوں کی طرف سے یہ پہلی تحریر ہے جس کا مصنف نہ تو اسلامی اصول پسند(فنڈامنٹلسٹ) ہے نہ سیکولر معذرت پسند اور سوال کرتا ہے کہ جب مغربی میڈیا میں عیسائی اور یہودی انبیاء کی توہین کی جاتی ہے تو اہل مغرب اس کی مذمت کیوں نہیں کرتے۔’’کتاب کا یہی مقصد تھا کہ اہل مغرب مدافعت پر مجبورہو جائیں۔ میں نے یہ نکتہ مطالعہ سیرت مبارکہ سے حاصل کیا ہے کہ رسول اللہ نے مخالف کو ہمیشہ مدافعت پر مجبوررکھا تاکہ اس کی اقدامی صلاحیت کمزور رہے۔ میرے لئے مطالعہ سیرت کا سب سے بڑا سبق یہی ہے۔۔


نظریہ تہذیب تاریخ نویسی کا ایک بالکل نیا اسلوب ہے۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آج جس عالمی(مغربی) تہذیب کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں اور اس کو ناقابل زوال اور دائمی قرار دیا جاتا ہے وہ اسی طرح ایک روز مٹ جائے گی جیسے ماضی کی آج سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیبیں مٹ چکی ہیں جن کا ذکر خاص طور سے قرآن حکیم میں آیا ہے۔اس کتاب میں تاریخی شواہد اور دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ عاد، ثمود، نمرود(بابل) کی تہذیبیں تہذیب رواں سے زیادہ بلند مرتبہ تھیں اورعروج و زوال کے فطری اصول کی بنا پر انتہائے ترقی کے بعد نیست و نابود ہوگئیں۔ تیسری کتاب تذکار الانصار انصار مدینہ کی ان نسلوں کے انفرادی سوانحی شذرات اورسب کے شجروں پر مبنی منفردتحقیقی کتاب ہے جو افغانستان، پاکستان، ہندستان اور اب انگلستان، جرمنی، امریکہ، کینڈا وغیر ہ میں آباد ہیں۔


علیزے نجف: شاعری ایک صنف لطیف ہے جس میں احساسات اور جذبات کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ لب اظہار تک لایا جاتا ہے۔ آپ نے ہزاروں شعر کہے ہیں۔ شاعری کی کس خوبی نے آپ کو اس صنف کی طرف متوجہ کیااورکن شعرا کے کلام نے آپ کی شعری صلاحیت کو مہمیز کیا؟

طارق غازی: شعرگوئی کی فطری صلاحیت آٹھ دس سال کی عمر سے تھی ۔ مگر ایک قول نے میری شاعری کو ایک الگ رخ دے دیاتھا۔ مجھ تک اپنے دادا موانا محمد میاں منصور انصاری کا قول پہنچا کہ علم اور شعر جمع نہیں ہوتے۔ شعر کا عروج علم کا زوال ہے اور علم کا عروج شعر کا زوال ہے۔مثال اسلام سے دی کہ جاہلی عرب میں شاعری اس بلند مقام پر پہنچ گئی تھی کہ دنیا کی کسی بھی زبان کی شاعری کو وہ مرتبہ حاصل نہ ہوا۔ پھر علم یعنی قرآن آیا تو شاعری کا چراغ بجھ گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کے بعد عربی زبان میں سبعہ معلقات کے معیار کی شاعری دوبارہ نہ ہوئی۔ 
یہ قول علم میں آیا توباغی دماغ نے سوچا کہ شعر اور علم دونوں ہی بنیادی طور تہذیب کے مظاہر ہیں۔ تو کیا ان میں کوئی ربط قائم کیا جاسکتا ہے۔ بس اسی خیال کی شرح میری شاعری ہے۔


شاعری میں فکر و فن کے اعتبار سے تو میں کسی ے متاثر نہیں ہوں، البتہ جانتا ہوں کہ غالب اردو کا پہلا اور سب سے بڑا مفکرو فلسفی شاعر ہے۔اردو کا کوئی شاعر اس مقام تک نہیں پہنچتا۔ اقبال بھی میرا پسندیدہ شاعر ہے۔نئے دور میں محشر بدایونی، خالد علیگ، ناصر کاظمی، پیرزادہ قاسم، اور ہندستان میں وسیم بریلوی کے پاس فکر کا پہلو جاندار ہے۔ کلیم عاجز نے ذاتی درد کو آفاقی آہنگ دیا ہے۔ یہ بڑی بات ہے۔ فارسی میں صائب اور نظیری پر نظر ٹکتی ہے۔نئے دور کی فارسی شاعری پر میرا مطالعہ زیادہ نہیں ہے۔

علیزے نجف: آپ نے اب تک بہت کچھ لکھا اور بہت سی شخصیات کے ساتھ کام کیا ہے؛ ان میں آپ کس کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے ہیں اور کن مصنفوں کی تحریروں نے آپ کے زاویۂ نظر کو متاثر کیاہے؟

طارق غازی: میں سب سے زیادہ اپنے والد مولانا حامد الانصاری غازی سے علم اور فکرمیں متاثرہوں۔ اس لئے نہیں کہ وہ والد تھے، بلکہ اس لئے کہ علم اور تازہ کار فکر کے میدانوں میں وہ عجیب و غریب شخصیت کے مالک تھے۔ ہمارا خاندان خود پوشی میں کمال رکھتا ہے، اس لئے میرے والددنیا سے پنہاں رہے۔کسی سے متاثر ہونا بڑاوزنی لفظ ہے۔ سکول کے زمانہ میں میرے ہم عمر دوست تو دو ایک ہی تھے، بزرگ دوستوں کی تعداد زیادہ تھی۔ میں نے ان بزرگ دوستوں میں سے مولانا مہر محمد خاں شہاب مالیر کوٹلوی، ظ۔ انصاری، مدن موہن کالیہ، جاں نثار اختر، راجندر سنگھ بیدی سے بہت کچھ سیکھا۔زندگی کے بہت سے رموز ان کی بدولت مجھ پر کھلے۔


مصنفوں میں امام ابویوسف، امام غزالی، امام رازی، ابن خلدون، شاہ ولی اللہ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی، علی شریعتی، اور والد صاحب مولانا غازی نے میری سوچ کی رہنمائی کی ہے۔اہل مغرب میں رینے ڈی کارٹ، ژان ژاکس روسو، ولیم ہیزلٹ، ورڈسورتھ، شیلی، بائرن، برنارڈ لوئس نے متاثر تو نہیں کیا مگر انہوں نے اوران کے علاوہ شیخ فاروق عبداللہ، اسماعیل راجی فاروقی، شیخ سراج وہاج، شیخ زید شاکر، جیک شاہین، شرمن جیکسن، اڈورڈ سعیدنے مغرب شناسی میں میری مدد کی ہے۔

مغرب سے متاثر نئی نسلوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ امریکہ اور کینڈا کے علما میں سے ڈاکٹرجمال بدوی، شیخ حمزہ یوسف، شیخ محمد ابن یحیٰ نینوی، ڈاکٹر عمر سلیمان، ڈاکٹر حاتم بازیان، ڈاکٹر رانیہ عواد، ڈاکٹر دالیہ فہمی، عبید اللہ ایوانس، یحی رھوڈس وغیرہ کے افکار اور تحریروں سے استفادہ کریں۔


علیزے نجف: اب تک آپ زندگی کی ۸۰ بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ آپ نے بڑے نشیب و فراز دیکھے اور بہت کچھ سیکھا اور حاصل کیا۔ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا حاصل کیا ہے؟

طارق غازی: زندگی انسان کی سب سے بڑی استاد ہے۔اسے استاد مان لو تو قدم قدم پر نیا سبق پڑھاتی ہے۔ اس کا ایک مستقل سبق تھا کہ اپنی تلاش کر

تنہا نوائے درد علاجِ جہاں نہیں
زخمہ سے سازِ کونیہ میں ارتعاش کر

امروز کو سراغ نہ فردا کا جب ملے
تاریخ کے زمانوں میں اپنی تلاش کر

چالیس سال صحافت کے کوچہ میں گرد اڑانے کے بعد کچھ حاصل نہ ہوا ۔ زخمہ ٹوٹ گیا اور ساز کونیہ تک رسائی نہ ہوئی، تواس کوچہ پر نگاہ واپسی کی۔زندگی میں پہلی بارفرصت ملی اور میں نے تلاش کی سمت بدل دی۔ان دنوں سنجیدگی سے صحاح ستہ، دیگر اہم کتب حدیث اور اہم تفاسیرنیز سیرت رسول اللہ کا مرتب مطالعہ کیا اور یوں اپنی بازیافت کی۔زندگی کا سب ے بڑا انعام خود شناسی ہے۔

تو اس کا راز ہے جو ترے دل کا راز ہے
اپنے وجودکو بھی ذرا خود پہ فاش کر


علیزے نجف: انسان کی زندگی میں تعمیر اور تفریح دونوں ہی پہلو بہ پہلوہوتے ہیں جن میں توازن ضروری ہوتا ہے۔ کیا آپ ان مشاغل کا ذکر کریں گے جو تفریح طبع کے طور پر آپ کی زندگی میں شامل ہیں اور آپ اپنی فرصت کے لمحے جس کی نذر کرتے ہیں؟

طارق غازی: چھ برس کی عمر تک میں ایک عام سا بچہ تھا۔ آزادی کے دن مجھے آزادی پر فخر ہوتھا۔ مگر دوماہ بعد جب بجنور میں عید الاضحیٰ کے دن فساد کا اندیشہ پھیلا اورایک فسادی گروہ آتش زنی اور لوٹ مار کے لئے محلہ مردھگان کی طرف بڑھ رہا تھا تو عورتوں بچوں کو مولوی مجید حسن کے گھر میں منتقل کردیا گیا تھا۔ اس دن آزادی پر میرے فخر کا کھلونا ٹوٹ گیا تھا۔ پھر گاندھی جی کا قتل ہوا اور فساد کے اندیشہ کے تحت ہم ایک بارپھر مولوی مجید حسن کے گھر میں محبوس ہوئے۔ اس دن میرا بچپن گم ہوگیا تھا اور میں بڑھاپے کے ریگستان میں آگرا تھا۔تو مجھے کھیلوں سے دلچسپی رہی اور نہ بڑے ہونے کے بعد فلموں کا شوق ہوا۔ میں لکھتے یا پڑھتے ہوئے تھک جاتا ہوں تو کچھ اور لکھنا یا پڑھنا شروع کردیتا ہوں۔ یہی میری تفریح ہے۔ البتہ سکول کے زمانہ میں عموماً اتوار کے دن ا پنے ہم عمردوستوں ریاض افندی، تاجدار احتشام، رؤف آذر کے ساتھ بمبئی کے کسی ساحل یا پہاڑی باغ میں جاکر بیٹھ جاتے اور ہم لوگ وہ باتیں کیا کرتے تھے جو اصل میں بڑوں کے کرنے کی تھیں، مگر وہ بڑے یا توکرکٹ ٹیسٹ پر پانچ پانچ دن قربان کردیتے تھے یا سنیما گھروں میں قید کو پسند کرتے تھے۔

آزادی کے بعد میں عام انسان نہیں رہ گیا تھا۔ اب بھی نہیں ہوں۔

انٹرویو نگار علیزے نجف

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے