Ticker

6/recent/ticker-posts

آنے والا دن....! ایک فکری جائزہ

آنے والا دن....! ایک فکری جائزہ

بے شک کل کی سچی خبر صرف اللہ وحدہ لا شریک کو ہی ہے مگر قرائن ملکی اور غیر ملکی سطح پر حالات کے انتہائی خطرناک صورت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہم محشر صغریٰ میں داخل ہو چکے ہیں۔ ملکی حکومتیں لگ بھگ آوارہ ہو چکی ہیں۔ہر جگہ فرعونیت اپنے عروج پر ہے۔ دنیا میں لگ بھگ 60 مسلم (اسلامی نہیں) ممالک ہونے کے باوجود امت مسلمہ پوری دنیا میں بے وزن ہو چکی ہے۔اسلام دشمن شیطانی سازشوں کو اب ہم یاد بھی کرنا نہیں چاہتے ہیں، تاکہ زندگی کا کاروبار آسانی سے چلتا رہے اور امت مسلمہ کو جنت الفردوس کی ٹھنڈی چھاؤں مل جائے۔شاید انہی کوتاہیوں کی وجہ سے شیطانی سازشوں کا بند ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ کورونا کے سازشی اور جادوئی دور کے ذریعہ عوام بے لگام اور قائدین کمزور کردیئے گئے ہیں۔ مسلکی اختلافات نے امت مسلمہ کی ہوا ہی اکھاڑ دی ہے۔ کچھ سلجھے ہوئے لوگ سماج سے خود کو الگ تھلگ کر چکے ہیں۔ غیر اپنے قائدین کے بتائے ہوئے راستے پر ایک جٹ ہو کر چل رہے ہیں اور ہم آپسی اختلافات میں پڑ کر کسی کے پیچھے چلنے کو تیار نہیں ہیں۔


دنیا حرص و ہوس کا شکار ہو چکی ہے۔پیسے سے پیسہ بنانے کا فارمولا پروان چڑھ چکا ہے نتیجتاً سماج میں امیر اور غریب کے بیچ کی کھائی بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ ہر دن ہولی اور رات دیوالی کی طرح منانے میں مصروف ہیں۔ فضول خرچی عام بات ہو گئی ہے۔ہر امیر آدمی ایک تاج محل کا مالک بننا چاہتا ہے اور غریب اپنی طرز رہائش بلند کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔شادیات میں نمائش کے لئے زندگی بھر کی کمائی جھونکنے میں اب ذرا بھی جھجھک اور تردد نہیں ہوتا ہے۔ ہر والدین اپنے بچوں کو بچپن میں ہی نیوٹن، شیکسپیئر اور علامہ ابن تیمیہ بنا دینا چاہتے ہیں۔ سہولتیں بڑھ گئی ہیں اور خیر خواہی دم توڑ رہی ہے۔ " دنیا ہی کے لئے دوستی اور دنیا ہی کے لئے دشمنی" کا نیا محاورہ گھڑ لیا گیا ہے۔ شاعر وادیب جلسوں، مشاعروں اور کتابوں کے اجراء میں ہی نجات تلاش رہے ہیں۔مقرر اپنی گفتگو کو صحیح ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شاید کوئی بھی ملی و مذہبی ادارہ میر جعفر سے خالی نہیں ہے۔ مدارس اور ادارے لگ بھگ ذاتی ملکیت بن چکے ہیں۔یہاں تک کہ اداروں اور جماعتوں کی رکنیت بھی دنیا کے حصول کا ذریعہ بن چکی ہے، الا ماشاءاللہ۔


عورتوں کو گھروں سے باہر نکال کر بازار کی رونق بنا دیا گیا ہے۔عورتوں کو آسانی سے روزگار مہیا کراکر مردوں کو نکما بنانے کی منظم سازش تیار کر لی گئی ہے۔ مرد اب گھروں میں اپنی وقعت لگ بھگ کھو چکے ہیں۔ بیوی بچوں کی بے جا خواہشوں نے حرام مال کمانے کا راستہ مزید کشادہ کر دیا ہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان ایک ایسا کمپٹیشن قائم ہو چکا ہے جس میں ہار جیت تو واضح نہیں ہاں بربادی منظر عام پر نمایاں ہے۔ نقاب کی آڑ میں ساری برائیاں پنپ رہی ہیں۔تعلیم کے نام پر لڑکیاں بے غیرت ہو چکی ہیں۔ پتہ نہیں کیسی تہذیب گڑھ لی گئی ہے کہ مائیں نقاب میں ہیں اور جوان بیٹیاں بے پردہ گھوم رہی ہیں۔ فیس بک پر مردوں سے زیادہ عورتیں جلوہ افروز رہتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ غیر مسلم کے چنگل میں پھنس کر لڑکیوں کے مرتد ہونے کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے جس کے ذمہ دار پہلے والدین پھر سماج ہے۔شادیوں میں مخلوط تقریب کے ساتھ دولت کی بے انتہا نمائش اب کوئی عیب کی بات نہیں رہ گئی ہے۔نکاح کے تخت پر اب غیر اسلامی رسم و رواج کا جن اور بت براجمان ہو چکا ہے۔ گھریلو مشینوں کے بے جا استعمال نے عورتوں کو جسمانی طور سے ناکارہ بنا دیا ہے۔


نئی نسل اپنی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ غذا کے نام پر ڈبہ بند اشیاء نئی نسل کی صحت کو لگ بھگ تباہ کر چکی ہے۔ بڑوں کا ادب قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ چھوٹے بچے ورچوئل دنیا میں جینا چاہتے ہیں۔موبائل اب ان کے لئے افیون بن چکا ہے۔ مستقبل میں Artificial Intelligence ہمیں ذہنی غلام بنانے کو تیار ہے۔ کتابیں پڑھنا اب کم عقلوں کا کام رہ گیا ہے۔ نوجوانوں کو صرف زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی تعلیم دی جارہی ہے۔تعلیم کے لئے لاکھوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں اور تربیت کو دقیانوسی خیال کہہ کر ہوا میں اڑا دیا گیا ہے۔ " کھاؤ پیو اور مست رہو"، نوجوانوں کا شعار بن چکا ہے۔ والدین اپنی اولاد کے آگے ہارتے جا رہے ہیں اور اولاد اب کسی بھی تنبیہ کو برداشت کرنے کے تیار نہیں رہی۔ خاندان کا شیرازہ لگ بھگ بکھر گیا ہے۔


دین کو مذہب کا چولا پہنا دیا گیا ہے۔ اسلام کی سربلندی کے آگے مسلک کا فروغ اب جنت کی ضمانت دینے لگے ہیں۔ مال و جان کی قربانی کے قصے اب کتابوں میں دھول پھانک رہے ہیں۔ دینی مشاغل میں بھی لوگ مستی تلاش کرچکے ہیں۔پاک سرزمین کو بھی دشمنوں کی سازشوں نے پامال کر دیا ہے۔جہاں پہنچ کر خوف خدا سے دل لرزنا چاہیے اور دلوں میں رقت طاری ہونا چاہئے وہاں بھی ویڈیو بناکر نمائش کی جسارت عام بات ہو چکی ہے۔ آس پاس فلک بوس عمارتیں خانہ کعبہ اور خانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منھ چڑھا رہے ہیں۔ توحید کا حال تو اللہ جانے، مگر لگتا ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج اب ظاہری اعمال بن کر رہ گئے ہیں۔اس لئے کہ" نیکی کر فیس بک پر ڈال " کے دور سے ہم گزر رہے ہیں۔رشتہ داروں سے دوری اور غیروں پر اعتماد اب عام سوچ بن چکی ہے۔اپنی دنیا میں خوشحال رہنا اب زندگی کا مقصد خاصہ بن گیا ہے۔انسانی تعلقات پر جیسے کالے جادو کا قبضہ ہو گیا ہے۔کورونا دور کے بعد اخلاقی قدروں میں بے حسی واضح طور پر محسوس کیا جانے لگا ہے۔


غرض زندگی کا ہر شعبہ اپنی اصلی پہچان کھو چکا ہے۔صراط مستقیم پر چلنا تو اب پل صراط پر چلنے سے زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔جہاد یعنی جدوجہد تو زندگیوں میں برداشت ہی نہیں کیا جا رہا ہے۔بس آسانی اور فراوانی کے لئے تگ ودو کرنا جاری ہے۔ اللہ جانے کیا ہوگا آگے.! امت مسلمہ اب اپنی دینی ذمہ داریوں سے لگ بھگ مبرہ ہو چکی ہے۔" اپنی ڈفلی اپنا راگ "کی سوچ نے ہماری اجتماعیت کو کفن پہنا دیا ہے۔پتہ نہیں اللہ نے اس امت مرحومہ کے لئے کیا فیصلہ کر رکھا یے۔ہمارے آنے والے دن کا اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے۔کیسا ہوگا ہمارا آنے والا دن؟ حساس دلوں کے سامنے مایوسی رقص کر رہی ہے اور امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔بحرحال اللہ تعالیٰ تو وہی ہے۔کوڑے کا دن بھی پھرتا ہے۔امت مسلمہ پھر اللہ سے رحم کی امیدوار ہے۔شاید کہ بدل جائے ہمارا حال۔


اندھیرا چاہے کتنا بھی گہرا ہو زیادہ دیر نہیں رہتا ہے۔ اسلام کا روشن چراغ جل چکا ہے۔کبھی مشرق تو اب مغرب سے اسلام کا سورج اگنے تو تیار ہے۔ اللہ تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے اسلام کی لو جلاتا رہتا ہے۔آج تاریک زدہ مغربی ممالک میں اسلام کے درخت پر ہر پل ایک کلی کھل رہی ہے، بھلے ہم بے خبر ہوں۔ ہم خاندانی مسلمان صرف یہ فکر کریں کہ اللہ تعالیٰ اس جلتے ہوئے اسلام کے چراغ کو روشن کرنے میں ہمیں بھی شامل کرلے۔ہم غور کریں کہ ہماری کن غلطیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اب اسلام کا جھنڈا اہل مغرب کو دینے جا رہا ہے۔


گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی رمضان المبارک میں پوری دنیا کے مسلمانوں نے اللہ کے سامنے گریہ وزاری کی ہے پھر بھی ہم ذلیل و رسوا ہیں، آخر کیوں؟ یہ سوچنا ہوگا کہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ قرآن مجید میں اللہ کا اعلان ہے کہ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کچھ اور چاہتا ہے جو ایک مومن کے لئے ضروری ہے۔ وہ ہماری حالت بدلنے کے لئے کیا چاہتا ہے اس پر عوام کے ساتھ اکابر امت کو بھی سوچنا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کے عروج کا زینہ مومنین کی جانی ومالی قربانیوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں مومن کے غلبہ کا صرف ایک ہی فارمولا کل بھی تھا اور قیامت کی صبح تک رہے گا، اور وہ ہے " ادخلو فی السلم کافۃ" پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ۔آئیے اللہ سے عہد کریں کہ ہم اپنی زندگی کو اسلامی طریقہ پر گزاریں گے۔اپنی صبح وشام کے تمام غیر اسلامی حرکتوں کو چھوڑ دیں گے۔دولت کی نمائش سے توبہ کریں گے جس کا حساب اللہ تعالیٰ بہت سختی سے لے گا۔

aane wala din ek fikri jaiza


اللہ ہماری مدد فرمائے اور کم از کم صحیح سوچ والا دل عطا فرمائے تاکہ ہم اپنی حفاظت خود کر سکیں۔ ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اسلام نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں ہمت کرکے خود کو اسلامی رنگ میں رنگنے اور بدلنے کی جنگ اپنے گھروں سے شروع کرنی ہوگی۔ قرآن کہتا ہے جو اپنے آپ کو نہیں بدلتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کو نہیں بدلتا۔
( سورہ رعد 11 )

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
وما علینا الا البلاغ
سرفراز عالم
عالم گنج پٹنہ
رابطہ 8825189373

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے