Ticker

6/recent/ticker-posts

سیاہ خضاب احکام اور شبہات کا تحقیقی جائزہ

سیاہ خضاب احکام اور شبہات کا تحقیقی جائزہ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مفتی رضوان اللہ بن مولانا محی الدین لدھیانوی جواں سال عالم دین ہیں، گذشتہ سال ہی وہ دار العلوم دیو بند کے شعبۂ تکمیل افتاء سے فارغ ہوئے ہیں اور اب امارت شرعیہ کے دار القضاء سے تربیت لینے کے لیے ان کا پھلواری شریف یہ کتاب ا نہیں مفتی رضوان اللہ صاحب کی تالیف لطیف ہے، جس کے لیے انہوں نے جامع ومرتب کا لفظ استعمال کیا ہے، دعویٰ مصنف ہونے کا نہیں جمع وترتیب کا ہے، مجھے یہ کتاب انہوں نے دعا لینے کی غرض سے دی، لیکن میری سوچ اور طریقۂ عمل یہی رہا ہے کہ ایسے نو جوان اہل علم کی حوصلہ افزائی کی جائے؛ تاکہ وہ مستقبل میں بڑے کام کر سکیں، اس لیے میں اس بات پر ہمیشہ زور دیتا ہوں کہ نئے لکھنے والوں کی تحریر وتحقیق کا مقابلہ پرانے اور مشاق محققین اور مصنفین سے کرنا زیادتی ہوگی، کوئی بھی مرتب، مؤلف اور مصنف بیک وقت بڑا نہیں ہوجاتا، مستقل محنت اور لگن سے اس کی تحریر پُرکشش اور اس کی تحقیق قابل داد ہوجاتی ہے، یقینا بعض مصنفین کی ایک ہی کتاب یا ایک ہی مضمون نے انہیں اہل علم میں درجۂ اسناد کو پہونچا دیا، لیکن یہ شاذ ہے۔ اور الشاذ کالمعدوم انتہائی مشہور مقولہ ہے، آپ اسے مستثنیات کے خانہ میں بھی ڈال سکتے ہیں۔


’’سیاہ خضاب احکام وشبہات کا تحقیقی جائزہ‘‘ اس موضوع پر عمدہ اور جامع کتاب ہے، جو مؤلف کے روشن مستقبل کی غماز ہیں، وہ جو مثل مشہور ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آتے ہیں، وہ مفتی رضوان اللہ صاحب پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے، میں نے ملاقات میں بھی پایا کہ ان کے اندر مختلف مسائل کے سلسلے میں تجسس ہے، وہ سوال کرکے مطمئن ہونا بھی چاہتے ہیں، ذہن میں سوال کاپیدا ہونا، جواب تلاشنے کی فکر کرنا ان کے اخاذ ذہن کی علامت ہے، ذہن اخاذ ہو تو کتابوں سے معلومات کا حصول کچھ دشوار نہیں، مولانا کو مرتب کرکے چیزوں کو پیش کرنا بھی آتا ہے، جس کا ثبوت زیر تبصرہ کتاب ہے، اس کا مطلب ہے کہ ان کے اندر قوت اخذ بھی ہے، اور طاقت عطا بھی۔


یہ کتاب چھیانوے صفحات پر مشتمل ہے، کتاب کا انتساب والدین، بھائی اور دومادر علمی کے نام ہے، جن کی عنایتوں اور توجہات سے مؤلف اس مقام تک پہونچ سکے، فہرست میں باب اول کو عرض مرتب کے بعد ہونا چاہیے تھا جیسا کہ کتاب کے اندرونی صفحات میں ہے، لیکن یہ سب سے اوپر درج ہو گیا ہے، دعائیہ کلمات مولانا مفتی محمد سلمان منصور پوری، کلمات تبریک مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب مہتمم دار العلوم دیو بند، رائے عالی مولانا مفتی افروز عالم قاسمی مہتمم مدرسہ سراج العلوم محمدیہ بانگڑیاں، پنجاب کا ہے اور عرض مرتب خود مؤلف کا، اس میں ایک غلطی تو یہ ہے کہ حفظ مراتب کا خیال نہیں رکھا گیا ہے، مہتمم دار العلوم دیو بند سے قبل مفتی محمد سلمان منصور پوری کی عظمت تسلیم کرنے کے باوجود دعائیہ کلمات کا رکھنا سمجھ میں نہیں آیا، دوسری غلطی یہ ہوئی ہے کہ فہرست میں جو صفحہ نمبر درج ہے، وہ ایک نمبر آگے ہے، مثلا انتساب صفحہ ۹؍ پر ہے، لیکن فہرست میں صفحہ ۱۰؍ درج ہے، یہ غلطی بعد کے صفحات میں بھی ہوتی چلی گئی ہے۔ اسی طرح کتاب میں پروف کی بہت ساری غلطیاں ہیں، یقینا غلطیاں نظر سے اوجھل رہ جاتی ہیں اور کمپیوٹر کے زمانہ میں اس میں کچھ اضافہ ہی ہوا ہے، پھر بھی اس معاملہ میں حساس ہونے کی ضرورت ہے، تاکہ قارئین پریشان نہ ہوں۔


کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں خضاب کی لغوی تحقیق کے بعد خضاب کے اقسام کا ذکر کیا گیا ہے، جو مؤلف کتاب کے نزدیک بشمول سیاہ خضاب چھ ہے، اس کے بعد خضاب کے احکام پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور خضاب بالزعفران پر خصوصی تحقیق مؤلف نے پیش کیا ہے، دوسرا باب سیاہ خضاب لگانے کی ممانعت پر ہے، اس میں مؤلف نے مختلف صورتوں کو آثار واقوال سلف، ائمہ ومحدثین، قدیم وجدید فقہاء اور فقہ کی مشہور کتابوں کے حوالہ سے سیاہ خضاب لگانے کی حرمت ثابت کی ہے، ہندوستان کے بڑے مفتیان کرام کے فتووں سے استشہاد کیا ہے اور بتایا ہے کہ فوجیوں کے علاوہ کسی کو بھی خضاب لگانے کی اجازت نہیں ہے، حتی کہ بیوی کو خوش کرنے کے لیے شوہر سیاہ خضاب نہیں لگا سکتا، تیسرے باب میں سیاہ خضاب لگانے کے جو از پر جن لوگوں کی تحریریں ہیں، اس کا تحقیقی جائزہ لے کر سارے شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے، چوتھے باب میں اس مسئلہ سے متعلق مختلف احکام ومسائل کو جمع کر دیا گیا ہے،حضرت مہتمم صاحب دار العلوم دیو بند نے بجا فرمایا ہے کہ ’’مرتب کتاب نے خاصی محنت کی ہے اور مسئلہ کے ہر پہلو کو واضح کر دیا ہے۔ مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری کی یہ رائے بھی سوفی صد صحیح ہے کہ ’’موضوع سے متعلق حتی الامکان ضروری معلومات جمع کر دی ہے، ‘‘ موصوف کی یہ محنت بہت قابل قدر ہے۔


اس مسئلے پر احقر کی رائے بھی یہی ہے کہ سیاہ خضاب لگانا ممنوع ہے۔ تاکہ دوسرے لوگ دھوکہ نہ کھائیں، فوجیوں کو اس کے لگانے کی اجازت اس لیے ہے کہ ’’الحرب خدعۃ‘‘ کہا گیا ہے، جن لوگوں نے بیوی کے لیے شوہر کو کالے خضاب لگانے کی بات کی ہے ان کے پیش نظر یہ ہے کہ بیوی سیاہ خضاب لگانے سے دھوکہ نہیں کھائے گی، اس لیے کہ وہ شوہر کے تمام احوال سے واقف ہے اور خوب جانتی ہے کہ کالا خضاب لگا کر جوان بننے کی بہ تکلف کوشش کی جارہی ہے۔


siyah-khizab-ahkam-aur-shahadat-ka-tahqeeqi-jaiza


کتاب اپنے موضوع پر انتہائی جامع اور مدلل ہے، لیکن بعض غلطیاں ایسی داخل ہو گئی ہیں، جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا، مثلا صفحہ ۵۰؍ پر فتاویٰ دار العلوم دیوبند سے ایک فتویٰ نقل کیا گیا ہے، مستفتی نے بیوی کے اصرار کا ذکر کیا ہے کہ وہ ڈاڑھی میں خضاب سیاہ لگانے کو کہتی ہے، ایسے میں سیاہ خضاب لگانا جائز ہے یا نہیں؟ جواب میں لکھا گیا ہے کہ عورتوں کے لیے سیاہ خضاب کرنا مکروہ ہے، اس کو کہتے ہیں، سوال دیگر اور جواب دیگر، اگر واقعۃً فتاویٰ دارالعلوم میں اس سوال کا یہی جواب مذکور ہے تو ہم جیسے لوگ تعجب کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں، لیکن اگر یہ الٹ پلٹ مؤلف کی وجہ سے ہوا ہے تو یہ تحقیق کا اتنا بڑا نقص ہے کہ ساری محنت پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔

کتاب مکتبہ عبد الرحمن ہنو کندن پوری سول لائن لدھیانہ، پنجاب سے حاصل کی جا سکتی ہے، قیمت کہیں درج نہیں ہے، اس لیے مفت حاصل ہونے کے امکانات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے