Ticker

6/recent/ticker-posts

غلط فیصلہ بھیانک نتائج

غلط فیصلہ بھیانک نتائج


تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

ابھی چند روز پہلے News 18 digital پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر محترم بیرسٹر اسدالدین اویسی کا خطاب Live سن رہا تھا یہ خطاب غالباً جے پور میں ہورہا تھا۔ اویسی صاحب نے واضح طور پر کہا کہ 75 سال قبل ہمارے قائدین نے مسلمانوں کی سیاسی پارٹی تشکیل نہ دینے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ غلط تھا، آج ہم بھارت میں جو کچھ بھی بھگت رہے ہیں وہ سب اسی غلط فیصلے کا نتیجہ ہے، اویسی صاحب مذکورہ بات کئی سال سے اپنے بیانوں میں کہتے رہے ہیں۔

میرے خیال میں اویسی صاحب کا مذکورہ بالا تجزیہ بالکل صحیح ہے، کسی بھی انسانی سماج کے لیے زندگی گزارنے کے لیے جس قدر ضروری مذہب اور روزی روٹی ہے ایسا ہی ضروری سیاست ہے اور جمہوری ملکوں میں تو یہ ضرورت فرض کے درجے آجاتی ہے۔ ترک سیاست کا تباہ کن انجام صرف یہ ہی نہیں نکلا کہ مسلمان معاشی طور پر بچھڑ گئے جیلوں میں قید کردیے گیے مسجدیں توڑ دی گئی فسادات میں جلادیے گئے وغیرہ وغیرہ، بلکہ ترک سیاست کا انتہائی تباہ کن انجام یہ بھی نکلا کہ مسلمانوں کے ہر قسم کے قائدین —خواہ وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی— چاپلوسی میں مبتلا ہوگئے تمام کے تمام چاٹو کار بن گئے دل بدلو بن گئے، اپنے آپ کو مسلمانوں کا نمائندہ بتاتے ہیں اور مسلمانوں ہی کے مسائل نہیں اٹھاتے صرف اس خوف سے کہ کہیں ”آقا“ ناراض نہ ہوجائے۔ مذکورہ صورتِ حال تباہ کن اس لئے ہے کہ قائدین کی یہ حالت بتلاتی ہے کہ قوم مکمل طور پر غلام بن چکی ہے، یہ غلامی 75/ سال قبل ترک سیاست کے غلط فیصلے کے نتیجے میں آئی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کے بعد مولانا علی میاں ندوی، ڈاکٹر جلیل فریدی اور ڈاکٹر سید محمود کی کوششوں سے مسلم مجلس مشاورت اور مسلم مجلس نے 1965 کے آس پاس میں بھارتی مسلمانوں کے اندر سیاسی شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی جس میں یہ لوگ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے، تجزیہ نگاروں کے مطابق ڈاکٹر جلیل فریدی مرحوم کے سیاسی فارمولوں اور لائحہ عمل کو مشہور دلت رہنما کاشی رام نے اپنے سماج کی بھلائی کے لئے آزمایا تو یوپی میں کانگریس اور بی جے پی دونوں کو سائڈ کردیا گیا تھا اور بھرپور کامیابی حاصل کی تھی مگر ان فارمولوں کا خالق ڈاکٹر جلیل فریدی اپنے سماج کا بھلا نہ کرسکا ؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ یوپی میں شیطان صفت ملا بہت چالاک تھا وہ کانگریس کے لئے مسلمانوں کے مخلص قائدین کے خلاف ہر قسم کی عیاری کرتے تھے، بدقسمتی سے اس وقت شیطان صفت ملاؤں نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر اس کوشش کو مٹا کر ہی دم لیا اور شعور و آگہی کی اس کوشش کو بزور طاقت ختم کیا گیا۔ دراصل ڈاکٹر جلیل فریدی ڈاکٹر سید محمود اور مولانا علی میاں ندوی وغیرہ نے کعبے کے برہمنوں کے خلاف محاذ کھول دیا تھا جس میں یہ لوگ تو ناکام ہوگئے، دلتوں نے بھی مندروں کے برہمنوں کے خلاف محاذ کھولا مگر وہ پیچھے نہیں ہٹے اور آج ایک سیاسی طاقت بن گئے۔

آزادی کے بعد آج کل دوسری کوشش بیرسٹر اسدالدین اویسی کی پارٹی ”مجلس اتحاد المسلمین“ کررہی ہے جو کہ ماشاءاللہ کامیابی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جن لوگوں نے پہلی کوششوں کو دفن کیا ان کے چمچے آج بھی باقی ہیں مگر اب کی بار کچھ الگ یہ ہؤا کہ ان شیطان صفت ملاؤں پر ایک تو مسلم قوم کو بالکل بھروسہ نہیں رہا دوسرے ان کے جو ”سیکولر آقا“ تھے وہ بھی کسی کام کے نہ رہے اس لئے مجلس اتحاد المسلمین بہت تیزی سے کامیابی کی طرف بڑھ رہی ہے، اگر مسلمان اپنی سیاسی پارٹی تشکیل دینے کے لیے اویسی صاحب کا بھرپور تعاون کردیں تو اس کا فائدہ 70 برس بعد نہیں بلکہ پندرہ بیس سالوں میں ہی ملنا شروع ہوجائے گا کیونکہ 25 کروڑ ووٹوں کی طاقت کم نہیں ہوتی۔

آخر میں صدرِ مجلس سے گزارش ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین کے کیڈر کو مضبوط کیا جائے پارٹی کے اندر ڈسپلن کو مزید بڑھایا جائے پارٹی کے اصول و ضوابط پر سختی سے عمل کرایا جائے سماج میں متحرک حضرات کو مجلس سے جوڑنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ضرور بنانا چاہیے، عوام کو پارٹی سے جوڑنے کے لیے مختلف قسم کے پروگرامز اور مہم چلائی جائیں۔ کانگریس اور بی جے پی سمیت دنیا بھر کی اکثر پارٹیوں کے صدر و جرنل سکریٹری حضرات وغیرہ بدلتے رہتے ہیں، بعض پارٹیوں میں تو ہر دو سال میں نیچے سے اوپر تک کے افراد بدل دیے جاتے ہیں، اگر اویسی صاحب مجلس اتحاد المسلمین کو مسلمانوں کی ”نمائندہ پارٹی“ بنانا چاہتے ہیں تو کیا وہ تیار ہیں کہ ہر دو سال یا پانچ سال یا دس سال میں ایماندارانہ الیکشن کی بنیاد پر پارٹی کے صدر و جرنل سکریٹری وغیرہ حضرات منتخب کریں گے۔ ایسا کرنے سے پارٹی کو جہاں قابل افراد ملیں گے وہیں کام اور عوام دونوں دونوں ہی کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا جائے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے