Ticker

6/recent/ticker-posts

غزل کی تعریف : مصرع، شعر، ردیف، قافیہ، بحر، مطلع، حسن مطلع، مقطع کیا ہے؟

غزل کی تعریف : مصرع، شعر، ردیف، قافیہ، بحر، مطلع، حسن مطلع، مقطع کیا ہے؟


غزل کے لغوی معنی

غزل عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنے یا عورتوں کی باتیں کرنے کے ہیں۔ یہاں عورت سے مراد معشوقہ ہے۔ چونکہ غزل میں روایتی طور پر وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کو بیان کیا جاتا ہے۔ اصطلاح شاعری میں غزل سے مراد وہ صنف نظم ہے جس کا ہر ایک شعر الگ اور مکمل مضمون کا حامل ہو اور اس میں عشق و عاشقی کی باتیں بیان ہوئی ہوں بھلے ہی وہ عشقِ حقیقی ہو یا عشق مجازی اس لیے اس صنف شاعری کا نام غزل پڑا۔

یہ غزل کیا ہے کیا پتہ بسملؔ
بات دل کی مگر سناتا ہوں

غزل میں عام طور پر عشقیہ باتیں بیان کی جاتی ہیں، لیکن غزل میں ہر قسم کے مضامین کی گنجائش ہے۔ آج کل کی غزل میں عشق و عاشقی کے علاوہ اور بھی مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پریم ناتھ بسملؔ کی غزل کا ایک شعر دیکھئے کہ ؀

اب سیاست بھی ہے بسملؔ اک تجارت کی طرح
ووٹ دینا نوٹ لے کر اور وطن کا بھرنا دم


غزل کے اجزائے ترکیبی کتنے ہیں؟

مصرع کے لغوی معنی کیا ہیں؟

مصرع
مصرع عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی دروازے کے ایک پٹ کے ہیں۔ اصطلاح میں کسی شعر کے آدھے حصے کو مصرع کہتے ہیں۔

شعر کے لغوی معنی کیا ہے؟

شعر
شعر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی جانتا یا دریافت کرنا ہے۔ اصطلاح میں دو موزوں مصرعے جو ایک وزن کے ہوں اور کسی ایک خیال کا مجموعہ ہوں شعر کہلاتے ہیں۔ ایک شعر میں دو مصرعے ہوتے ہیں۔ پہلے مصرعے کو مصرع اولی اور دوسرے کو مصرع ثانی کہتے ہیں۔ شعر کو ہندی ادب میں ”دوبا“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ردیف لغوی معنی کیا ہے ؟

ردیف
ردیف عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی سواری پر پیچھے بیٹھنے والے کے ہیں۔ اصطلاح میں وہ لفظ یا الفاظ جو شعر میں قافیہ کے بعد بار بار آئیں۔

قافیہ کے لغوی معنی کیا ہے ؟

قافیہ
قافیہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی پیچھے پیچھے آنے والے کے ہیں۔ اصطلاح میں وہ ہم آواز الفاظ جو شعر میں ردیف سے پہلے آئیں۔

بحر کے لغوی معنی کیا ہے ؟

بحر
بحر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی سمندر کے ہیں۔ اصطلاح میں شعر کے وزن کو بحر کہتے ہیں۔ علم عروض میں شعر کے ۱۹/ انیس اوزان ہیں۔ جن کو بحر کہا جاتا ہے۔ جیسے بحر کامل، بحر متقارب وغیرہ۔

غزل کی تاریخ


غزل کا با قاعدہ آغاز فارسی زبان سے ہوا مگر اس کا سراغ عربی شاعری تک لگایا جا سکتا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ عربی صنف قصیدہ کے تخیب نامی حصے سے غزل کی ابتدا ہوئی۔

غزل کا ہر شعر اپنی جگہ مکمل ہوتا ہے، اس میں صرف ایک خیال یا ایک تاثر نظم کیا جاتا ہے اور عام طور پر ایک شعر کا دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر غزل کے اشعار آپس میں ملتے ملتے مضمون کے حامل ہوں تو ایسی غزل کو غزل مسلسل کہتے ہیں۔

غزل میں کم سے کم پانچ اور زیادہ سے زیادہ بیس اشعار ہوتے ہیں۔ غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم وزن اور ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔ قافیے اور ردیف کی وجہ سے آوازوں کی تکرار ہوتی ہے اور یہ غزل میں دلکشی پیدا کرتی ہے۔ غزل کا آخری شعر منقطع کہلاتا ہے بشرطیکہ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے۔ غزل کا سب سے اچھا شعر بیت الغزل یا شاہ بیت کہلاتا ہے۔ وہ بحر ردیف اور قافیہ جس کے لحاظ سے غزل کہی جاتی ہے غزل کی زمین کہلاتی ہے۔ جس غزل میں ردیف نہ ہو صرف قافیہ ہو ایسی غزل کو ” غیر مردف “ غزل کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر:

غزل

آج پھر اک غزل سناتا ہوں
درد دل کا زباں پہ لاتا ہوں

عشق میں جان و دل لٹاتا ہوں
زخم کھا کر بھی مسکراتا ہوں

تو ستمگر ہے ! جانتا ہوں میں
اپنی قسمت کو آزماتا ہوں

تیرا شکوہ کروں صنم کس سے
رسمِ الفت کو میں نبھاتا ہوں

جب بھی جاتے ہو چھوڑ کر تنہا
خود کو مضطر، اُداس پاتا ہوں

دیکھ لے آ کے آج تو دلبر
تیری دنیا سے دور جاتا ہوں

راہِ الفت میں ہر گھڑی سب کو
راستہ اک نیا بتاتا ہوں

یہ غزل کیا ہے؟ کیا پتہ بسملؔ!
بات دل کی مگر سناتا ہوں

اس غزل میں پہلا شعر مطلع ہے۔ اور دوسرا شعر حسن مطلع ہے ۔ سناتا، لاتا، لٹاتا وغیرہ قافیے ہیں۔ ” ہوں “ ردیف ہے۔ آخری شعر مقطع۔ جس میں بسملؔ تخلص آیا ہے۔ عام شہرت کے مطابق اس غزل کا دوسرا شعر بیت الغزل یا شاہ بیت کہا جا سکتا ہے۔

مطلع اور دوسرے اشعار میں فرق یہ ہے کہ پہلے شعر کے دونوں مصرعوں میں قافیہ سناتا اور لاتا کے ساتھ ساتھ کی ہوں آیا ہے باقی اشعار کے صرف دوسرے مصرعے میں ردیف اور قافیہ کی تکرار نظر آ رہی ہے۔ ان اشعار کے پہلے مصرعے میں ردیف اور قافیہ موجود نہیں ہے۔

غزل کے متعلق اقوال


* غزل نیم وحشی صنف شاعری ہے (کلیم الدین احمد)

* غزل اردو شاعری کی آبرو ہے (رشید احمد صدیقی)

* غزل بڑی کا فر صنف ہے ( آل احمد سر رو)

* غزل نقاب پوش آرٹ اور چاول پر قل ہو اللہ لکھنے کا آرٹ ہے ( آل احمد سرور )

* غزل ہے وقت کی راگنی ہے (حالی)

* غزل انتہاؤں کا ایک سلسلہ ہے (فراق گورکھپوری)

* غزل شاعری نہیں عطر شاعری ہے (فراق گورکھپوری)

* غزل مختلف پھولوں کی مالا ہے (فراق گورکھپوری)

* غزل کی گردن بے تکلف آرا دینی چاہیئے ( عظمت اللہ خان )

* دنیا سے جاتے ہوئے غزل کو فراق کے ذمے کئے جا رہا ہوں (یگانہ چنگیزی)

* غزل اگر اردو شاعری کی آبرو ہے تو غالب اردو غزل کی آبرو ہیں (رشید احمد صدیقی)

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے