Ticker

6/recent/ticker-posts

غزل کی تعریف، غزل کا فن، اردو غزل کا آغاز و ارتقاء، غزل کی خصوصیات

غزل کی تعریف، غزل کا فن، اردو غزل کا آغاز و ارتقاء، غزل کی خصوصیات


غزل کیا ہے ؟ غزل وہ صنفِ سخن ہے جس میں عشقیہ جزبے کی ترجمانی کی جائے۔ غزل کے لغوی معنی عورتوں سے بات چیت کرنا یا عورتوں کے متعلق بات کرنے کے لیے ہیں۔ اردو غزل کے اولین نمونے امیر خسرو کے کلام میں ملتے ہیں۔ ان کے مندرجہ ذیل اشعار بطور نمونہ پیش کئے جاسکتے ہیں:

’’ زحال مسکیں مکن تغافل دراۓ نیناں بناۓ بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہوکا ہے لگاۓ چھتیاں‘‘

غزل کے مذکورہ اشعار میں ہندی اور فارسی الفاظ کی جھلک ملتی ہے پھر بھی انھیں اردو غزل کا نمونہ تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ امیر خسرو کے بعد اور دغزل کے ابتدائی نقوش دکنی ادب میں ملتے ہیں۔ اس امر میں قلی قطب شاہ کا نام خصوصیت سے لیا جا سکتا ہے۔ قلی قطب شاہ کواردو غزل کا صاحب دیوان شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ ولیؔ، غواصی، نصرتی، شاہی اور شوقی کے کلام میں غزل کے نمونے ملتے ہیں۔ مگر ان کی زبان پر دکنیت کا اثر کافی گہرا ہے۔


اردو غزل کو واقعی غزل کا رنگ و روپ عطا کرنے میں جس شاعر نے اہم رول ادا کیا وہ ولی دکنی ہیں۔ انھوں نے تصوف اور اخلاق کے مسائل کو اپنی غزلوں میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کی غزلوں کے اشعار زندگی کی حقیقت کو پیش کرتے ہیں:

’’مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے‘‘

ولیؔ کے بعد اردو غزل میں میر، درد اور سودا کا عہد آتا ہے۔ اسے اردو غزل کا عہد زر یں کہا جا تا ہے۔ میراردوغزل کے بادشاہ تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ان کی غزلیں حقیقی و مجازی عشق کا خوب صورت بیان ہیں۔ درد اردو غزل کے سب سے بڑے صوفی شاعر رہے ہیں۔ سودا نے اردو غزل کو خارجیت کی طرف موڑا۔


اس کے بعد اردو غزل کو ترقی دینے میں لکھنوی شعرا نے اہم رول ادا کیا۔ ان میں انشا، جرات ناسخ، اور آتش کے نام خاص طور سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی غزلیں دہلوی شعرا کی داخلیت کے بجاۓ خارجیت کی علمبردار ہیں۔ ان کے یہاں سطحی لذتیت اور جنسی جذبات کی عکاسی کثرت سے ملتی ہے۔ اردو غزل کا اگلا دور غالب ذوق اور مومن سے عبارت ہے۔ غالب نے اردو غزل کو فکر وفلسفہ کے موضوعات سے روشناس کرایا اور اردو غزل کے دائرے کو وسعت بخشی۔ مومن نے حسن وعشق کے موضوعات کو بر تنے میں ہی نئے نئے تجربے پیش کئے ہیں۔


غالب کے بعد اردو شاعری میں حسرت موہانی اور علامہ اقبال اپنے گہرے نقوش ثبت کئے ہیں۔ حسرت خالص غزل گو شاعر ہیں انھوں نے اردو غزل کو نیا رنگ و آہنگ عطا کیا۔ اس دور میں علامہ اقبال کی شاعری کو بھی عروج حاصل ہوا۔ اقبال نے بیک وقت نظمیں بھی لکھی اور غزلیں بھی کہیں۔ ان کے بعد ترقی پسندی کا دور شروع ہوتا ہے۔ ترقی پسند شعرا نے نظم کو ترجیح دی مگر جذبی، مجروح خلیل الزمن اعظمی وغیرہ نے غزل گوئی کو اپنایا اور یہ ثابت کر دیا کہ غزل ترقی پسندانہ خیالات و نظریات کے اظہار پر بھی قادر ہے۔

جدید غزل گو شعرا میں شہر یار، بشیر بدر، ناصر کاظمی وغیرہ کا نام آتا ہے۔ ان شعرائے کرام نے علامتی اسلوب اختیار کیا ہے۔ ان کا طرز احساس اور طرز خیال دونوں پہلے کے شاعروں سے جدا ہے۔ اس طرح اردوغزل عہد بہ عہد ترقی کے زینے طے کرتی رہی۔


غزل کو رشید احمد صدیقی نے اردو شاعری کی آبرو کہا ہے۔ اردو شاعری کے سرمائے کا تجز یہ کریں تو اس صنف کی مرکزیت تسلیم کرنے میں کوئی کلام نہیں۔ انیسویں صدی تک اردو شاعری کا کم از کم پنچانوے فی صد حصہ غزل کے حوالے رہا۔ بیسویں صدی میں نثر اور شاعری کی مختلف صنفوں کے باوجود غزل کا سرمایہ نصف سے کم معلوم نہیں ہوگا۔ ہر دور میں غزل گو شعرا اپنے عہد میں امتیاز حاصل کرتے رہے اور شاید ہی کبھی بھی ایسی صورت پیدا ہوگی کہ اپنے زمانے کا سب سے اہم شاعر غزل گو نہ ہو۔ ہماری مجلسی زندگی پر غزل کے اشعار اس طرح سے حاوی رہے ہیں کہ اکثر و بیشتر غزل کے سرمائے کو ہی پوری اردو شاعری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اردو اگر کسی تہذیب کا نام ہے تو غزل واقعتا اس کی روح ہے۔ اردو کے دو عظیم شعرا میر اور غالب بھی غزل کے شاعر ہوئے۔ غزل کی اہمیت کے تعلق سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دکن کے ابتدائی شعرا سے لے کر آج تک تمام قابل ذکر شعرا نے اس صنف کو اپنی حقیقی صلاحیت اور تکنیکی ہنر مندی کا میدان اول تسلیم کیا ہے۔ میرا جی جیسے نظم نگار کے کلیات میں سوسے زیادہ غزلوں کی موجودگی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ غزل کا کوئی جادو ہے جواردوشاعری کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔


غزل کا دائرہ صنفی اعتبار سے

غزل کا دائرہ صنفی اعتبار سے کچھ خاص حدود سے مکمل ہوتا ہے۔ یہ صنف قصیدے کی تشبیب سے علاحدہ کی گئی اور اس کا آزادانہ نام غزل ہے۔ جیسے تشبیب میں کسی موضوع کی قید نہیں تھی، وہ آزادی غزل گو شاعر کے نصیب میں بھی ہے۔ ہر شعر کا دوسرا مصرع ہم قافیہ و ردیف ہونا لازم ہے۔ قصیدے کی روایت کی ان دومرحلوں میں تابع داری کے بعد غزل کا شاعر قصید ے سے اس اعتبار سے الگ ہو جا تا ہے کہ اسے ہر شعر میں ایک نئے مضمون کی داغ بیل رکھنی ہے۔ عہد قدیم میں یہ لازم کر دیا گیا کہ ایک شعر سے دوسرے شعر میں کسی قیمت پر کوئی معنوی رابطہ نہیں ہو۔ اب اگر کسی دو شعر میں معنوی تعلق پیدا ہو گیا تو شاعر کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ’’ ق‘‘ لکھ کر اشعار کے قطع بند ہونے کا بطور اعتذارا علان کرے۔


غزل کی تعریف

غزل کی تعریف میں ایک اور بات تقر یا لازم مانی گئی کہ چا ہے جو بھی صورت ہو لیکن غزل کا شاعر عاشقانہ گفتگو ضرور کرے گا۔ جس کے سبب عشق و عاشقی کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ غزل ہو گئی۔ یہ سلسلہ حالات اور ا تصور کے بدلنے کے باوجود اب تک قائم ہے۔ اس لیے غزل کا اصطلاحی معنی عورتوں سے باتیں کرتا یا کلام میں عورتوں سے متعلق موضوع کو شامل مانا گیا۔

غزل کی ہیئت

ہیئت کے اعتبار سے غزل مشکل صنف نہیں۔ اگر آپ کے پاس پانچ سات قوافی ہیں تو موز ونیِ طبع کے سہارے ایک غزل تیار ہوسکتی ہے۔ مطلعےمیں دو قافیے اور پھر ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں ایک ایک قافیہ استعمال میں آۓ گا۔ ہر شعر میں موضوعات بدل جاتے ہیں، اس لیے مختلف قوافی میں معنوی التزام کی کوئی قید بھی نہیں۔ شاید یہی وجہ ہوگی کہ اکثر نو آموز شعرا اپنا سفر غزل گوئی سے شروع کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے یہ مطلب برآمد نہیں کیا جانا چاہیے کہ غزل بے حد سادہ اور آسمان صنف ہے۔ اس نے صرف نو آموزوں کو متوجہ نہیں کیا بلکہ اپنے عہد کے بہترین اور قادر الکلام شعرا کو بھی اسی طرح اپنے حصار میں لیا ہے۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں اب یہ عام خیال ہے کہ غزل میں مبتدی اور بزرگ دونوں طرح کے شعرا کے لیے کشش کے اسباب موجود ہیں۔ مختلف شعرا کی مثالوں سے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تخلیقی جلال آمیزی کے عروج پر شاعر جیسے ہی پہنچتا ہے، غزل کے سائے میں اسے علم ومعرفت اور تجربے کی وسعت و گہرائی کو شاعری بنانے کا موقع نصیب ہوا۔ سعدی، حافظ اور امیر خسرو کے ساتھ ساتھ اقبال کی مثال سامنے رکھی جائے تو یہ یقین ہو جائے گا کہ شعر اپنے فن کے عروج پر کس طرح غزل کو اپنے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔


غزل کا ابتدائی زمانہ دکنی عہد

دکنی عہد میں مثنویوں کا سرمایہ ہر لحاظ سے وقیع ہے لیکن اردو شاعری کا یہ ابتدائی زمانہ غزلوں سے خالی نہیں۔ قلی قطب شاہ، ملا وجہی، نصرتی، میر بُلاقی، فیروز جیسے شعرا کے دواوین میں اچھی خاصی تعداد میں غزلیں موجود ہیں۔ ستر ہو یں صدی کے اواخر سے قبل تک دکنی غزلوں کا سرما یہ اپنی مخصوص افتادِ طبع، نئے لسانی تجربے اور موضوعات کی سطح پر ایک اشتراک کے سبب اپنی شناخت رکھتا ہے۔ لیکن دکنی غزل کا وہ شناخت نامہ جسے تاریخ کا اعتبار حاصل ہوا، اس کے لیے اردو ادب کو سترہویں صدی کے آخری دور تک منتظر رہنا پڑا۔ ولی اور بعد میں سراج اورنگ آبادی ارضِ دکن سے ابھرنے والے ایسے شعرا ہیں جن کی غزل گوئی نہ صرف دکنی شاعری کے لیے تاج کا درجہ رکھتی ہے بلکہ یہ ایسے شعرا ہیں جنھیں دہلی کی اردو شاعری کو نئے سرے سے بنانے سنوارنے اور راستہ دکھانے کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ دکن کے دوسرے شعرا کے مقابلے میں ولی اور سراج غزل کے بڑے شاعروں کی صف میں اس وجہ سے شامل ہو سکے کیوں کہ انھوں نے غزل کی اس مخصوص روایت کو بھی سمجھنے کی کوشش کی جس کے سبب غزل فارسی میں طرۂ امتیاز حاصل کر سکی مثنوی اور غزل کی فضائیں واضح فرق ہے، اسے ولی سے قبل کے دکنی شاعروں نے صحیح طریقے سے سمجھنے میں کامیابی نہیں پائی۔


اردو کا پہلا بڑا غزل گو شاعر ولی دکنی

ولی کا کارنامہ یہ ہے کہ غزل کی آزمائی ہوئی دنیا کو انھوں نے دکن کے مخصوص مزاج کے ساتھ شیر وشکر کر کے ایک ایسا کامیاب تجربہ کیا جس کی وجہ سے انھیں اردو کا پہلا بڑا شاعر قرار دیا جا تا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اٹھارویں صدی کے آغاز میں فارسی کے مسلم الثبوت شعرا کی ایک بھیڑ دہلی میں موجو تھی۔ اس کے باوجود ولی کی شاعری میں کون سا ایسا جادو تھا جس نے انھیں دہلی کے شعرا کو اپنی غزلوں پر غزلیں کہنے کے لیے دوسرے لفظوں میں اپنا تابع دار بن جانے کے لیے مجبور کیا۔ یہی سلسلہ سراج اورنگ آبادی نے بھی اپنے انو کھے شاعرانہ رنگ سے آگے بڑھایا۔ دکنی شاعری کی تاریخ میں غزل کے تعلق سے ولی اور سراج دوا ایسے چمکتے ہوئے ستارے ہیں جنھوں نے خود بہترین شعری سرمایہ یادگار چھوڑا اور شمالی ہندستان کے شعرا کی کامیاب رہنمائی کی۔


غزل دہلی میں اٹھارویں صدی سے قبل

اٹھارویں صدی سے قبل دہلی میں اردو شعر و شاعری کا کیسا ماحول تھا، اس کا انداز ہ لگانا مشکل نہیں۔ اسی زمانے میں جب مسعود سعد سلمان اور امیر خسرو نے اس زبان کو اظہار کا ذریعہ بنایا تھا، یقینا اس وقت اردو کا ایسا ماحول ہو گا جس کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہلی میں اردو پیدا ہوئی لیکن بیچ کے چار پانچ سو برس دہلی میں اردو کے لیے چٹیل میدان رہے۔ اردو کے ماحول پر فارسی کی حاکمیت حاوی رہی۔ شعرا کو فارسی میں ہی طبع آزمائی کرنے سے فائدہ تھا۔ اردوتقریبا نامانوس زبان کی طرح اس درمیان دکھائی دیتی ہے۔ کم از کم شاعروں، ادیبوں اور علما کی حد تک یہ بات صد فی صد کی ہے۔ ایک اور لسانی حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ علما کی زبان اور عوامی زبان میں شد ید تفاوت ہے۔ اسی لسانی ماحول میں جب ولی کا کلام دہلی پہنچا تو کلام ولی کی شاعرانہ صفات نے ایک نیا ادبی منظر نامہ پیدا کیا۔ شاعری کی یہ نئی دنیا تھی۔ دہلی کے فارسی گوشعر امختلف روایات سے وابستہ تھے۔ مقامی موضوعات کے مقابلے انھیں ایران و عرب کے تلازمے پسند تھے۔ اس وجہ سے بھی دہلی کی فارسی شاعری مقامی باشندوں کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں نا کام رہی۔ ولی کی غزلوں نے دہلی کی اردو شاعری کو راستہ دکھایا۔ سامنے کے لفظ، قرب و جوار کی زندگی اور رسوم ورواج کو شاعری کا حصہ بنانا، اخلاق اور تصوف کے ساتھ ساتھ احساس اور جذبوں کی سچائی شعراے دہلی کے لیے ایسے رہنما اصول تھے جن کی بنیاد پر دہلی کی نئی شاعری قائم ہوئی۔


غزل کے شاعر ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی

ولی اور پھر سراج اورنگ آبادی نے اہل دہلی کے لیے جو نشان راہ طے کیے، اگلے پچاس برسوں میں تین نسلیں دہلی میں شعرا کی سامنے آئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایہام گو، اصلاح زبان کے موید ین اور میر و سودا کے ہم عصر۔ ادب کی تاریخ لکھنے والے واقف ہیں کہ ان تینوں نسلوں پر ولی کے براہ راست اثرات پڑے۔ ایہام گو شعرا میں آبرو، فائز، شاکر ناجی جیسے اہم شعرا کی نگرانی میں شمالی ہندستان میں غزل گویوں کی ایک پوری جماعت قائم ہوئی۔ ولی سے ان شعرا نے ہندوی اظہار کو تو سیکھا لیکن نفس ِمضمون کی گہرائی سے دور رہے۔ تجر بہ پسندی بہت تھی لیکن ہدف صحیح نہیں ہونے کی وجہ سے اس عہد میں شاعری بھی لفظوں کا گورکھ دھندا بن جاتی ہے تو بھی لذت کوشی کا منبع۔ انھیں وجوہات سے اصلاح زبان کے مجاہدین نے اردو شاعری کے دامن کو یہام گویوں کی غلط کاریوں سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسے بجا طور پر ردِ عمل کی تحریک کہتے ہیں۔ مظہر جان جاناں کی قیادت میں شاہ حاتم، انعام اللہ خاں یقین کے ساتھ مل کر اصلاح زبان کی تحریک کا ایک بڑا مقصد فارسی اور دکنی روایت کی آپسی مخاصمت ہے۔ متروکات کی جوفہرست تیار کی گئی، اس میں دکن میں آزماۓ لفظوں کا حصہ بنانوے فی صدی تھا۔ یہ ہلی کے فارسی گو اساتذہ فن کے مقابلے میں دکن کے ولی کے اثرات کو محدود کرنے کا ایک لائحہ عمل بھی تھا۔ بڑی حد تک اصلاح زبان کے شعرا اس مہم میں کامیاب بھی ہوئے۔ شاہ حاتم نے اپنی کمسنی کے باوجود نیاد یوان تیار کیا اور مثال قائم کی کہ پرانی شاعری اور اصلاح زبان کے بعد کی شاعری میں واضح فرق ہے۔ جہاں تک غزل کا تعلق ہے، ایہام گویوں میں آبرو اور اصلاح زبان کے شعرا میں حاتم اور انعام اللہ خاں یقین ایسے افراد ہیں جنھیں اہمیت دی جاسکتی ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اس پاۓ کا شاعر نہیں جسے اہم غزل گو شاعر کی حیثیت دی جا سکے۔ اصل میں اردو کے عہد زریں کے لیے ان دونوں مخالف تحریکوں نے تجربے کی وہ بنیادی زمین تیار کی جس کی بدولت میر، سودا اوردرد جیسے شعرا دہلی کے آسمان پر ابھرے۔


اردو شاعری کی تاریخ | اردو شاعری کا منظر نامہ

اصلاح زبان کی تحریک کے بعد دہلی میں اردو شاعری کا جو منظر نامہ تیار ہوا، وہ تین عظیم شاعروں کی کوششوں سے ممکن ہو سکا۔ ۱۷۳۰ سے ۱۷۵۰ء کے دوران سودا ورد اور میرتقی میر نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا لوہا منوانا شروع کر دیا۔ یہی وہ شعرا ہیں جن کی بدولت اردو شاعری کی تاریخ میں اس مخصوص زمانے کو عہدِ زرّیں کے نام سے یاد کیا جا تا ہے۔ دہلی کے یہ تین شاعر نہیں بلکہ اردو غزل کے تین مکاتب فکر اور علاحدہ علاحدہ تین اسالیب غزل ہیں۔ سودا کے یہاں غزل کا مردانہ آہنگ پہلی بار اظہار کا ململ سلیقہ پاتا ہے۔ قصیدے سے الگ سودا کی غزل گوئی اردو شاعری کا وہ مخصوص لہجہ ہے جس سے استفادہ کر کے غالب اور آتش نے اپنی شاعری کی زمین تیار کی۔ درد اردو غزل میں صاحب تصوف شعرا کے سرخیل ہیں۔ وہ نہ صرف ایک صاحب طریقت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ان کی شاعری میں تصوف اور معرفت جیسے دقیق موضوعات پر سیکڑوں اشعار موجود ہیں۔ درو نے منتخب مضامین پیش کرنے کا ہنربھی اردو غزل گوئیوں کو عطا کیا۔ لیکن سودا اور درد کی وجہ سے نہیں بلکہ اردو غزل کی تاریخ اس عہد کو میر کی وجہ سے جانتی ہے۔ میر کی عمر طویل رہی اور وقت نے بھی انھیں تجربوں کا بڑا سرمایہ عطا کیا۔ تاریخ کا وه ایک ایسا موڑ ہے جہاں سماجی اور سیاسی قدر یں زیر و زبر ہو رہی تھیں۔ میر نے ان سب کو جوڑ کر ایک ایسی شاعری بنائی جسے آج دل اور دلی کا مرثیہ کہا جا تا ہے۔ میر نے شاعری سے وہ کام لیا جس کے لیے عام طور پر تاریخ اور تہذیب و ثقافت کے وقوعے تصرف میں لائے جاتے ہیں۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ اردو غزل کے قارئین میر کی معنویت قائم پاتے ہیں تو اس کے پیچھے انہیں اسباب کا دخل ہے۔


غزل کا عہد زریں مصحفی، نظیر اکبرآبادی، جعفر علی حسرت اور اشرف علی فغاں


عہد زریں میں کئی اور شعرا ہیں جنھوں نے دہلی کو اپنی ادبی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ مصحفی، نظیر اکبرآبادی، جعفر علی حسرت اور اشرف علی فغاں جیسے شاعروں نے شمالی ہندستان کی اردو شاعری بالخصوص غزل گوئی کی طرف توجہ کی۔ مصحفی کو اردو کا سب سے بڑا قادر الکلام شاعر کہا جاتا ہے۔ جس طرح وہ دہلی میں ممتاز ہیں، اسی طرح لکھنو میں ایک دو نہیں بلکہ کل آٹھر دواوین یادگار چھوڑے۔ شاگردوں کی پوری ایک فوج کھڑی ہوگئی۔ زبان کی صفائی اور محاورات کا استعمال اردو میں مصحفی سے لوگوں نے سیکھا۔ نظیراکبرآ بادی یوں تو صنف نظم کے سب سے بڑے شاعر ہیں لیکن سودا کی طرح ہی وہ بھی اچھا خاصا غزلیہ سرمایہ پیش کر چکے تھے۔ زبان کا عمومی سطح پر آ کر استعمال اور تجربوں کی وسعت ان کی شاعری بالخصوص غزل کا امتیاز ہے۔ حسرت اور فغاں کو دہلی کے مہاجر شعرا کا اولین نمائندہ مانا جا تا ہے۔ جنھوں نے لکھنو پہنچ کر شاعری کا ایک نیا سلسلہ اور جہان معنی تیار کیا لکھنو اسکول کے ابھرنے سے پہلے دہلی غزلیہ شاعری کے معاملے میں سب سے اونچے مقام پر موجودتھی۔ میر کو اگر نا خداے سخن کہا جا تا ہے اور غالب نے بھی انھیں استاد اور خود ان کا پیروکار مانا تو یہ اردوشاعری میں میر کا امتیاز ہے جس کے مقابل کوئی دوسری شخصیت بھی ابھر نہیں سکی۔


اردو غزل کا ایک نیا انداز

دہلی کے مہاجر شعرا اور اودھ کے خطہ میں شعراے اردو کی پہلی نسل نے مل کر اردو غزل کا ایک نیا انداز وضع کیا۔ یہ صحیح ہے کہ جو شعرا دہلی سے اودھ تشریف فرما ہوئے، ان کی شاعری میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو جاۓ گی، اس کا زیادہ امکان نہیں۔ دہلی اور لکھنؤ کے سیاسی اور سماجی ماحول میں کوئی ایسا امتیاز شاید ہی دیکھنے کو ملے جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ دونوں مقامات کی شاعری میں آسمان زمین کا فرق ہونا چاہیے۔ شعراے لکھنو اور مہا جر شعرا نے مل کر ایک مختلف رنگ سخن قائم کرنے کی کوشش کی۔ خاص طور پر میر سودا اور درد نے اردو غزل کا جو سلسلہ قائم کیا تھا، اس سے گریز کی صورت پیدا ہوئی۔ انشا اللہ خاں انشا، سعادت یار خاں رنگیں، امام بخش ناسخ، قلندر بخش جرات نے واقعتا ارض لکھنو میں اردو غزل کی ایک نئی دنیا آباد کی۔ اردو تنقید نے جس شاعری کے نفس مضمون کے بارے میں چوما چاٹی کہا تھا، وہ اصل میں انھیں شعرا پر نافذ ہوتا ہے۔ استادانہ رکھ رکھاؤ کے نام پر م ’’ ٹھیس‘‘ شاعری کا کاروبار عام ہو گیا۔ محاورہ بندی، معاملہ بندی، رعایت لفظی کا اس زمانے کی غزل میں دور دورہ رہا۔


میر حسن مثنوی نگار کے ساتھ غزل کے شاعر

میر حسن نے پانچ سو سے زیادہ غزلیں کہیں لیکن ان کی شناخت مثنوی نگار کے طور پر ہوئی۔ میرحسن کی غزلوں میں مثنوی جیسی روانی محاورات اور حالات و جذبات نگاری یا تہذیب و ثقافت کی جلوہ گری بھلے موجود نہ ہولیکن زبان اور جذبوں کی شفافی انھیں قابل ذکر غزل گو بناتی ہے۔ دبستان لکھنو میں خواجہ حیدر علی آتش تنہا ایسے غزل گو ہیں جن کے سرمایۂ سخن پر اودھ کو ناز کرنا چاہیے۔ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ آتش ایسے واحد لکھنوی شاعر ہیں جنھوں نے دہلی اور لکھنو کی شاعری کے نیچے نقطہ مفاہمت ڈھونڈنے کی کامیاب کوشش کی لہجے کی سطح پر آتش نے سودا کے رنگ سخن کی طرف دھیان کیا اور مضمون کے لیے خواجہ میر در کو نشان راہ بنایا۔ زبان کے سارے لکھنوی کرتب بھی ان کے پیش نظر ر ہے۔ اس طرح ممکن ہوا کہ لکھنو میں اردو غزل کی ایک قد آور شخصیت سامنے آئی۔ جس طرح مثنوی میں میرحسن، مرثیہ میں انیس اور دبیر نے اپنی صلاحیتوں سے ایسا ادبی منظر نامہ قائم کیا جسے ایک ہی وقت میں لکھنو اور دہلی دونوں میں قبولیت ملنے لگی، اسی طرح خاک لکھنو سے ابھرے غزل گویوں میں صرف خواجہ آتش کی سی حیثیت ہے کہ انھیں ہر دبستان کے لوگ یکساں امتیاز عطا کریں۔


اٹھارویں صدی میں دہلی کے شعرا

اٹھارویں صدی میں دہلی کے شعرا کے لیے مشکلات بہت تھیں لیکن شعر و ادب کی محفلیں سونی نہیں ہوئیں۔ انیسویں صدی کے پہلے ربع میں پھر غالب مومن اور ذوق کی شکل میں شعرا کا ایک ایسا قافلہ سامنے آیا جس نے اردو غزل کے سرمائے میں اپنی صلاحیتوں سے واضح اضافے کیے۔ یہ دوسرا موقع ہے جب دہلی میں’’ عہدِ زریں‘‘ کی سی کیفیت پیدا ہوئی۔ غالب نے مضمون آفرینی، جدت طرازی، بلند خیالی اور فلسفہ پیمائی کی بنیاد پر ایک ایسا شاعرانہ طلسم قائم کیا جس کی معنیاتی دنیا اب بھی صاحبان ذوق کے لیے حیرت زائی کا باعث ہے۔ اپنے دیوان کے اختصار سے غالب نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ شاعری کے دفتر سجادینے سے بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا جا تا بلکہ منتخب جذبوں کی پر اثر تر جمانی شاعر کا فریضہ ہے۔


حکیم مومن خان مومنؔ غزل میں اپنا ذاتی اسلوب

حکیم مومن خان مومنؔ، غالب جیسے جلیل القدر ہم عصر کے باوجود اردو غزل میں اپنا ذاتی اسلوب قائم کرنے میں کامیاب ہوۓ۔ سادہ سے الفاظ اور عشق و عاشقی کے معصومانہ جذبات، انسانی زندگی کی سچی ترجمانی مومنؔ کا وصفِ خاص ہے۔ غزل کو میرؔ نے اپنے عہد کے حقائق کا ترجمان بنایا اور غالبؔ نے افکار کی بلند یاں عطا کیں۔ اس مرحلے میں نازک، نرم اور ملائم جذبوں کی ترجمانی بڑے غزل گو یوں کے لیے دور کی کہانی ہوگئی تھی۔ حالاں کہ غزل کی تاریخ عاشقانہ جذبوں کے بےر یا اظہار سے بھری پڑی ہے۔ مومن کا یہ شاعرانہ کمال ہے کہ انھوں نے غزل کو اس کی نازک خیالی کے ساتھ پھر سے زندہ کیا۔


شیخ محمد ابراہیم ذوق قصیدہ گو کی حیثیت سے

ذوق قصیدہ گوئی اور استادانہ رکھ رکھاو کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ مشکل قوافی اور روایف میں غزلیں کہہ کر انھوں نے یہ جتانے کی کوشش کی کہ استادشہ کی قادر الکلامی کیسی ہوتی ہے۔ ذوق نے سادہ لفظوں میں بھی بعض غزلیں کہیں۔ قصیدہ گو کی حیثیت سے بھی ان کی شہرت انھیں غزل کا تاج نہیں پہنا سکی۔ ذوقی کے شاگردوں میں داغ دہلوی ایک نئے انداز کو قائم کرنے میں مشہور ہوئے۔ لکھنو میں ’’ زبان کی شاعری‘‘ کا بڑا چرچا تھا۔ داغ دہلوی نے دہلوی معاشرے میں اسے بہ کمال آزمایا۔ محاوروں سے کھیلنا اور دہلی کی زبان کا شعری نگار کھانہ تیار کرنا، دورِ آخر کے شاعروں میں صرف داغ کے حصے میں آیا۔ داغ نے مومن کی طرح سلجھی ہوئی عاشقانہ شاعری کو برتنے کے بجائے جرات اور رنگین کی طرح غیر تہذیبی زمروں میں سیر کرنے کی کوشش کی۔ یہی داغ کی شاعری کی حد ہے۔ آج داغ کی تاریخی اہمیت زبان کے شاعر کی حیثیت سے ہے۔


انیسویں صدی کے غزل کو شعرا

انیسویں صدی کے نصف دوم میں داغ کے علاوہ جن غزل کو شعرا نے اپنی شناخت قائم کیں ان میں حالی اور اکبر اہم ہیں۔ ہر چند کہ حالی کی پرانی اور نئی غزلوں کی تقسیم ایک مشہور بات ہے اور خود حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں غزل گوئی کے تعلق سے اپنے ذہنی تعصبات ظاہر کیے ہیں لیکن حالی کی غزلیں بالخصوص پرانی غزلیں اردوغزل کا ایک علاحدہ رنگ ہیں۔ جذبوں کی حقیقی ترجمانی اور زبان کا سلجھا ہوا انداز حالی کا وہ معیار سخن ہے جس سے ان کی شناخت قائم ہوئی۔ رشید حسن خاں نے حالی کے مقدمے سے پہلے والی شاعری یعنی پرانی شاعری کی تعریف کی ہے اور ۱۸۹۳ء کے بعد کی غزلوں کو ’’بے رس‘‘ کہا ہے۔ حالی دور اول میں بہترین غزل گو، دور دوم میں ممتاز نظم نگار اور دور سوم میں ناقد اور سوانح نگار ہیں۔ حالی کے ہم عصروں میں اکبرالہ آبادی یوں تو اپنی ظریفانہ شاعری کے لیے اہم ہیں لیکن ان کے دیوان میں شامل غزلوں کے مطالعے سے ان کی غزل گوئی قابل توجہ ہو جاتی ہے۔ حالی اوراکبر دونوں اردو میں قومی ضرورتوں کے اعتبار سے شعر گوئی کرنے والے ایسے فن کار ہیں جنھیں سیاسی اور سماجی احوال کے پیش نظر غزل کو بدلنے کی ذمہ داری ملی تھی۔ اس کام میں دونوں شعرا بے حد کامیاب رہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس روایت کا مینارہ نو را قبال نہیں بن سکتے تھے۔


جدید غزل کا معمار اقبال، شاد اور حسرت

اقبال، شاد اور حسرت کواردو کی جدید غزل کا معمار کہا جاتا ہے۔ عمر کے اعتبار سے شاد کو اولیت حاصل ہے۔ دبستانی تفوق کے ماحول میں شاد عظیم آبادی نے لکھنو اور دلی کی صالح قدروں کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ فارسیت کے ساتھ ہندی اسلوب کو بھی ان کی شاعری میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اب تک کسی استاد شاعر نے ’’ فارسی شاعری کا نمک‘‘اور’’ ہندی شاعری کا درد یکجا کرنے میں کامیابی نہیں پائی تھی۔ یہ شاد عظیم آبادی کا بڑا کارنامہ ہے۔ اقبال دو راول سے ہی لکھنو اور دلی سے الحاق کے خلاف تھے۔ اقبال کے غزلیہ سرمائے کے مقابلے میں نظمیں زیادہ ہیں لیکن جب بال جبریل کی غزلوں اور اقبال کی بعض مشہور نظموں کے غزلیہ انداز کا جائزہ لیا جا تا ہے تو انھیں نہ صرف اپنے عہد میں ایک نئی غزل بنانے والے شاعر کے طور پر پہچانا جاتا ہے بلکہ اردو کے عظیم شعرا کی صف میں بھی انھیں میر و غالب کے بعد جگہ دی جاتی ہے۔ اقبال اردو کے ایسے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے نظم اور غزل کے درمیان کی دوری کو کم کیا۔ شمیم حنفی نے تو تجزیہ کر کے یہ بتا دیا ہے کہ اقبال کی غزل میں نظم اور نظم میں غزل گھل مل گئی ہے۔ غالب نے غزل کو فکری اڑان عطا کی تھی لیکن اقبال نے اسے با ضابط فکر وفلسفہ کا ترجمان بنایا۔ قومی ضرورتوں کا پاس اقبال کی شاعری کا جزو اعظم ہے۔


نئی غزل کے شاعر حسرت موہانی

حسرت موہانی کو اردو کی نئی غزل تیار کرنے کا ذمہ دار مانا جاتا ہے۔ حسرت نے اردو کی عاشقانہ غزل کو نئے عہد کے اعتبار سے بدلنے میں کامیابی پائی۔ حسرت کی شاعری میں محبوبہ ہم مشرب ہے۔ اظہار عشق کے لیے بھی حسرت نے عورت کو موقع دیا۔ محبوبہ گھر یلو عورت یا بیوی ہوسکتی ہے، غزل میں یہ تصور حسرت کے تعلق سے اجا گر ہوا۔ بعد کی غزل پرشاد، اقبال اور حسرت تینوں کے گہرے اثرات ہیں۔


غزل کے لیے مشکل دور ترقی پسند تحریک

اقبال کی زندگی میں ہی ترقی پسند تحریک کا آغاز ہو چکا تھا۔ ترقی پسندی کے ابتدائی دور میں غزل کو جاگیردارانہ عہد کا علمبردار مان کر احتراز برتنے کی کوشش ہوئی۔ یہ بات مشہور ہوئی کہ’’ شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کل‘‘۔ جوش سے لے کر جگر مرادآبادی تک شعرا اپنی غزلوں پر عنوان ڈال کر رسائل اور مجموعوں میں منظومات کے بطور شائع کراتے رہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ غزل کے لیے مشکل دور تھا۔ ترقی پسندی کے ابتدائی زمانے میں تحریک سے الگ تھلگ رہنے والے دو شاعروں نے غزل گو کی حیثیت سے اپنی جگہ قائم کی۔ فراق اور یگانہ چنگیزی اس عہد میں اردو غزل کے دو مستند اسالیب کے روح رواں مانے گئے۔ اقبال کے بعد اردو غزل کا ایک سلسلہ ترقی پسندوں سے ملتا ہے، بقیہ دو دھارے فراق اور یگانہ سے۔


غزل کا مستقبل اور فراق گورکھپوری

فراق نے ابتدا میر کے لہجے کو اپنے شعور کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔ ترقی پسندوں کے انقلابی تصور کے سامنے فراق نے شاعری کی ہند ایرانی عاشقانہ روایتوں کو اپنی ذات میں مدغم کرنے کا کام کیا۔ فِراق اسی وجہ سے غزلیہ شاعری کے ایک نئے اسلوب کو وضع کرنے میں کامیاب ہوئے اقبال کے بعد فراق بلاشبہ غزل گو کی حیثیت سے سب سے توانا اور محکم آواز ہیں۔


اردو غزل اور یگانہ چنگیزی کی غالب شکنی

یگانہ چنگیزی کی غالب شکنی زیادہ مشہور ہوئی اور شخصیت کے تشدد آمیز رویے نے ان کی شاعری کو نقصان پہنچایا۔ میر سودا، غالب اور آتش جیسے شعراء کے اسالیب کے امتزاج سے اگر کوئی علیحدہ اسلوب غزل پیدا ہو سکتا ہے تو وہ یگانہ کی شکل میں ہوگا یگانہ کی لیے اضافی بدنصیبی ہے کہ انھیں صرف لفظوں کے توڑ پھوڑ کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ یگانہ میں سوز اور دردمندی بھی ہے۔ رقت آمیزی ان کی شاعرانہ شخصیت کا جزو خاص ہے۔ ان سب پر مستزاد مردانہ آہنگ محاورات کا بڑے پیمانے پر استعمال اور کسی بھی لفظ سے معنی نکال لینے کا ہنر یگانہ کا شناخت نامہ ہے۔ سادہ لفظوں پر انحصار کر کے غزل بنانا بیسویں صدی میں صرف یگانہ کو آیا۔ ایک ہی ساتھ کالاسکیت اور باغی لہجہ یگانہ کے علاوہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ شاد عارفی مظفّر حنفی، شجاع خاور منور رانا اور خورشید اکبر جیسے شعرا بھرے جن پر یگانہ کی شخصیت کا پرتو یکھا جاسکتا ہے۔


ترقی پسندوں کے حلقے میں عام طور پر غزل گو شعرا کے لیے اچھے خیالات نہیں پیش کیے جاتے تھے۔ اس کے باوجود مجروح سلطان پوری اور غلام ربانی تاباں نے غزل گوئی کو ہی اظہار کا آئینہ بنایا۔ مجروح کی غزلیں مخصوص ترقی پسندانہ مفاہیم کی وجہ سے بھی زیادہ مشہور ہوئیں۔ مجروح نے تو نظموں سے بھر پور بے اعتنائی برتی۔ مجروح کا سرما یہ سخن زیاد نہیں لیکن ترقی پسندانہ شعور کوغزل کے ذریعہ عام کرنے میں ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ مجروح نے بعض روایتی اصطلاحوں کو ایسے ترقی پسندانہ مفاہیم عطا کیے جو آج مقبول خاص و عام ہیں۔ فیض نے ابتدا کم غزلیں کہیں لیکن دھیرے دھیرے اگلے مجموعوں میں غزلوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ فیض کی شخصیت میں جوفکری اور جذباتی توازن تھا، اس نے انھیں ایسا ترقی پسند شاعر بنایا جسے ہر حلقے میں قبولیت کی۔ فیض نے روایت سے روشنی لی اور اپنے عہد کی جفاکشی سے اسے جوڑا معین احسن جذبی کے مختصر سرما یہ سخن میں غزلیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ مخدوم محی الدین نے محض اکیس غزلیں لکھیں لیکن ترقی پسندوں کے درمیان غزل کے جو کامیاب شعرا ہیں، ان میں مخدوم کا شمار ہوتا ہے۔


غزل کے جديد دور کے شعراء

جمیل مظہری، روش صدیقی، سیماب اکبرآبادی، جگر مراد آبادی اور بزرگ شعرا میں فائی اور اصغر اصل میں روایتی دبستان کے غزل گو میں فلسفہ طرازی، تصوف، انسانی دردمندی اور کبھی کبھی با غیانہ انداز ان تمام شعرا میں موجود ہے۔ اس کے باوجود انھیں اپنے بعد کے لوگوں کومتاثر کرنے والا شاعر قرار دینا صحیح نہیں۔ ان میں سے کئی ترقی پسندوں سے متعلق بھی ہوئے لیکن ترقی پسندی ان کے مزاج کا حصہ نہیں بن سکی۔

دوسرے ترقی پسند شعرا میں جن کی بعض غزلیں پہچانی جاتی ہیں، ان میں ساحر لدھیانوی، پرویز شاہدی کیفی اعظمی علی سردار جعفری اہمیت کے حامل ہیں۔ ترقی پسند عہد میں غزل کو نظم نگاروں کے مقابلے زیادہ نہیں ابھر سکے۔ اس کے باوجودترقی پسند غزل اردو کی تاریخ کا ایک مکمل باب ہے اور عہد اقبال اور عہد جدید یت کے درمیانی وقفے میں یہ شعرا اپنی شناخت قائم کرنے میں پورے طور پر کامیاب ہوئے۔


۱۹۳۷ء کے بعد دھیرے دھیرے ترقی پسندانہ تصورات کی ادبی پہچان زائل ہونے لگی۔ ترقی پسندوں کا ایک حلقہ اشتراکیت کوکل کا ئنات سمجھے لگا۔ جس کی وجہ سے غزلیہ شاعری نعرے میں تبدیل ہونے لگی۔ ترقی پسندوں کی نئی نسل ان مسائل پر توجہ دے رہی تھی۔ ترقی پسندوں سے باہر بھی اردوغزل کی بعض معتبر آواز یں موجود تھیں۔ اسی موقعے سے اتباع میر اور فراق کے لہجے کواپنانے کے مرحلے میں اردو کے تین ایسے غزل گو سامنے آئے جنھیں عہد جدیدیت کی غزل گوئی کا نمائندہ مانا جا تا ہے۔ ناصر کاظمی، ابن انشا اور خلیل الرحمن اعظمی نے ایک ایسی غزل ایجاد کی جس میں ذات کی محرومی، اکیلے پن اور شہری زندگی کے عذاب موضوع بن رہے تھے۔ ان تینوں شاعروں نے ترقی پسندی سے گریز کا راستہ تو طے کیا لیکن اردو کی روایتی شاعری کے انداز سے فائدہ بھی اٹھایا۔ ابن انشا کا بیراگی روپ، ناصر کاظمی کی گم شدگی، اپنے زمانے کے سچے حالات کے مقابل خلیل الرحمن اعظمی کی طرح کھڑا ہونا اردو کی جدید غزل کو قبول بنانے میں کامیاب حربے کے طور پر سامنے آۓ۔ حسن، نیم، مظہر، امام، باقر مہدی جیسے شعرا جدید غزل کے ان ابتدائی بنیاد گزاروں میں ہیں جنھوں نے ۱۹۷۰ء سے قبل نئی غزل کا خاکہ تیار کیا۔


۱۹۶۰ء کے آس پاس اردو کی جو نئی غزل سامنے آئی، اس کے درنگ واضح تھے۔ سب سے مقبول لہجہ جس سے جدید شعرا پہچانے گئے، وہ انٹی ( ٖغزل کا تھا۔ تجربہ پسندی کے انتہا مقام پر پہنچ کر شعرا نے غزل کے سارے روایتی گوشوں کو تیاگ کر اک ایسی غزل تیار کرنے کی کوشش کی جس کا سلسلہ پیچھے نہیں ملتا تھا۔ عادل منصوری محمد علوی، افتخار عارف، کمار پاشی، انیس ناگی نے جو غزلیں کہیں، ان کے الفاظ مضامین اور اسالیب نے غزل کی روایت سے پورے طور پر خودکوا لگ کیا۔ شاید اسی لیے ان غزل گو شعرا کالطف بیان کے طور پر تو ذکر ہوتا ہالیکن جدید غزل کوانھوں نے کوئی نیا رنگ دیا ہو اسے ماننے والا شاید ہی کوئی ملے اس زمانے میں جو بے سرو پا نظمیں کہی جارہی تھیں، ان کے بھی اثرات ان غزلوں پر ر ہے۔


اینٹی (Anti ) غزل کے دور میں ہی سلجھے ہوئے انداز میں زندگی کے نئے حقائق کو پیش کرنے والے شعرا کم نہیں تھے۔ شکیب جلالی، پانی، زیب غوری، سلطان اختر، بشیر بدر، ندا فاضلی شهریار، بشر نواز، حسن کمال، لطف الرحمن، علقمہ شبلی، قیصر شمیم جدید یت کے عہد کے دہ نمائندہ غزل گو ہیں جن کی غزل گوئی نے ۱۹۶۰ء کے بعد کی اردو شاعری کی نئی تصویر قائم کی۔ انھیں شعرا کی بدولت ریہب ممکن ہوا کہ نظم نگاری کے مقابلے پھر ایک بار غزل گو شعرا نے اپنی حقیقی قوت سے اپنے عہد کا ادبی امتیاز پایا۔ جدیدیت کے سارے مشہور مضامین، تراکیب، پرانی غزل سے واضح نقطہ انحراف، اس عہد کی غزل کا امتیازی نشان ہے۔ اینٹی (Anti ) غزل سے جدیدیت کی غزل کو جو نا مقبولیت ملی تھی، اس کی بھر پائی نئے غزل گویوں سے بہ حسن ہو گئی۔ ان میں سے اکثر غزل گو اپنا علاحدہ رنگ سخن قائم کرنے میں مصروف ہیں۔


۱۹۷۰ء کے بعد غزل گویوں کا ایک نیا حلقہ سامنے آیا جس کا ایک سلسلہ جد ید شعرا سے متعلق تھا تو دوسرا بدلتی ہوئی زندگی سے مل رہا تھا۔ عرفان صدیقی، ظفر گورکھ پوری، اسعد بدایونی اور شجاع خاور جیسے شعرا کو نہ تو جدید بیت کے زمانے کا پروردہ کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے الگ تھلگ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان شعرا نے جدید یت سے الگ ہونے کا اعلان تو نہیں کیا لیکن ایک علاحدگی کا انداز یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ جس کا واضح رنگ ۱۹۸۰ء کے بعد کے شعرا میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شہپر رسول، عبدالاحد ساز، خورشیدا کبر، عالم خورشید، خالد عبادی، جمال اویسی، مہتاب حیدر نقوی، فرحت احساس جیسے شعرا واضح طور پر جدیدیت کی غزل سے الگ پہچانے جاتے ہیں۔

ان کی لفظیات موضوعات اور طرز حیات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب ترقی پسندوں اور جد یدیوں سے الگ ہیں۔ سہولت کے لیے انھیں ما بعد جدید غزل گو قرار دیا جا تا ہے۔ اردوغزل کے آسمان پر موجودہ زمانے میں جدید شعرا کی آخری نسل اور مابعد جد ید شعرا کی پہلی اور دوسری نسل سرگرمِ سفر ہے۔


موجودہ عہد کے غزل گو شعرا کی تخلیقی سمت و رفتار پر غور کرنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ ان کے یہاں مختلف روایتوں کا واضح نشان موجود ہے۔ کلاسیکیت سے گریز، ترقی پسندی، جدید یت جیسے مختلف اور متضاد عناصربیکجا ہو گئے ہیں۔ غزل گوئی میں یہ امتزاجی رنگ نہایت خوش آئند ہے۔ اقبال کے عہد کے بعد اردوغزل میں کچھ انفرادی لہجے ضرور ابھرے لیکن غزل کے تئیں ایک عمومی بہتری کا ماحول نہیں پیدا ہو سکا۔ ترقی پسندی میں نظم گوئی زیادہ اعتبار حاصل کر سکی اور جدیدیت کے زمانے میں بھی نظم نگار چھاۓ رہے۔ ۱۹۷۰ء کے بعد اور خاص طور پر ۱۹۸۰ء کے بعد غزل گوئیوں کا ایک مضبوط قافلہ میدان میں آیا۔ ان غزل گویوں کے متعلق آپ آسانی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ کلاسیکیت کو یہ نہیں سمجھتے۔ عرفان صدیقی، اسعد بدایونی، شہپر رسول، عبدالاحد ساز اور خورشید اکبر کے یہاں بھر پور کلاسیکی شعور بھی ہے۔ ترقی پسندوں پر یہ الزام تھا کہ رنج کی باتیں ان کے یہاں نہیں ہیں۔ لیکن موجودہ عہد کے غزل گویوں میں اکثر شعرا کے یہاں دلی واردات و کیفیات اپنی گہرائی کے ساتھ موجود ہیں۔ تجر بہ پسندی کا ہنر بھی اگر دیکھنا ہوتو شجاع خاور منور رانا خالد عبادی اور خورشید اکبرکی شاعری بطور مثال سامنے رکھی جاسکتی ہے۔ ایک طویل مدت کے بعد ایسا موقع غزل گو شاعروں کے ہاتھ آیا ہے جب غزل گوئی کے خلاف کوئی اعلان شدہ ممانعت نہیں ہے۔ مختلف تجربوں میں دو تین نسلوں نے یہ دیکھ لیا کہ غزل کا بکامیاب سلسلہ امتزاج میں ہے۔ میر اور غالب نے جس طرح کائنات اور ذات کے تجربوں کو غزل کے قالب میں ڈھالا تھا، وہی اب بھی غزل کے لیے بہترین ماڈل ہے۔ اس عہد کے شعرا اس نہج پر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔


غزل کی طویل تاریخ اچھے خاصے نشیب و فراز کے دور سے گزری۔ اکثر اس کی صنفی حیثیت پر اعتراضات ہوئے اور ہر زمانے میں اس کی ترقی کے بارے میں شبہات روا رکھے۔ مثنوی، قصیدہ، مرثیہ اور نظم جیسی صنفوں سے الگ الگ زمانے میں غزل کا مقابلہ رہا۔ حقیقت یہی ہے کہ غزل تمام مورچوں پر خود کو سر بلند رکھنے میں کامیاب رہی۔ یہ سوال اہم ہے کہ ہر دور میں غزل کیوں کامیاب ہوتی گئی۔ ہر زمانے کے مستندغزل گو شعرا کے کلام کے مطالعے سے یہ ندازہ ہوتا ہے کہ غزل گو شعرا کی شاعری کی بنیاد حقیقی جذ بات اور روح عصر پر رکھتے ہیں۔ اردو کی کوئی کلاسیکی صنف ایسی نہیں جس کے لیے یہ دونوں باتیں کہی جاسکیں۔ ولی سے لے کر موجودہ عہد کے شعرا تک غزل کا ہر شاعر ظاہراور باطن دونوں دنیا کی سیر کرتا ہے۔ کلاسیکی دور میں اسے غم دوراں اور غم جاناں سے یاد کیا جاتا تھا۔ میر کے یہاں اسے دل اور دہلی کا مرثیہ کہتے ہیں۔ غزل کی مقبولیت کو سمجھنے کے لیے غزل کی داخلی دنیا کی طرف توجہ ضروری ہے۔ عاشقانہ شاعری کے لیے سب سے بہتر حر بہ غزل، صوفیانہ شاعری کے لیے آزمائی ہوئی صنف غزل، رندی و سرمستی کے لیے غزل، موسیقی کے لیے غزل، فاسقانہ جذبات کے لیے غزل، خدا ترسی کے لیے غزل، زندگی کی کون سی منزل ہے جہاں غزل گو ہمیں خالی ہاتھ بھیجتا ہے۔ غزل کی محدودیت جس کی طرف حالی اور کلیم الدین احمد متوجہ کرتے ہیں، وہ اپنی جگہ درست ہے لیکن اردو شاعری میں کوئی دوسری ایسی صنف نہیں جس کے پاس اتنا وسیع نقطہ نظر اور گہرا انسانی اور فنی شعور ہو۔ یہی وجہ ہے کہ غزل مختلف ادوار میں ضرورت کے اعتبار سے اپنی صورت کو بدلتے ہوۓ نہ صرف ہمارے عہد میں قائم ہے بلکہ آئندہ بھی اس کی طاقت ور موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

Ghazal Ka Fun, Ghazal Ki Tareef, Ghazal Ka Aghaz o irtiqa

اپ تمام حضرات سے گزارش ہے کہ اگر تحریر میں کہیں بھی غلطی ہو تو کمنٹ باکس میں ٹائپ کر کے ضرور بتائیں تاکہ اس میں ضرورت کے مطابق سدھار کی جا سکے۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے