Ticker

6/recent/ticker-posts

غزل اور نظم میں فرق

غزل اور نظم میں فرق


غزل کا ارتقا

غزل لفظ عربی زبان کا ہے۔ عربی میں قصیدے کا پہلا حصہ تشبیب کہلاتا ہے۔ فارسی شاعری میں غزل عربی قصیدے سے نکل کر غزل کے روپ میں مقبولیت پائی۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ غزل پہلے پہل عربی زبان سے فارسی میں آئی ہے۔ اس کے بعد فارسی شاعری سے اردو غزل تک کا سفر اس نے امیر خسرو کے زمانے میں ہی پورا کر لیا۔ اس کے بعد اردو میں غزل واحد صنفِ سخن کے طور پر مقبول ہوئی، جو غمِ جاناں، غمِ ذات اور غمِ دوراں کو تخلیقی اظہار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کچھ محقق ایسا بھی مانتے ہیں کہ غزل ایک ایرانی صنف ہے جو فارسی شاعری کے ساتھ ہندوستان میں داخل ہوئی اور اب اردو میں مقبول ہے۔

غزل کی تعریف

اردو میں غزل ایک ہر دل عزیز صنفِ شاعری ہے۔ غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کے متعلق باتیں کرنا ہیں۔ ہرن کے بچے کے منہ سے نکلنے والی دردناک آواز کو بھی غزل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ غزل لفظ دراصل غزال سے نکلا ہے۔

غزل کی تشریح و توضیح

غزل ہیت کے لحاظ سے ایک ایسی صنفِ سخن ہے جو چند اشعار پر مشتعمل ہوتی ہے۔ غزل کا ہر شعر ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتا ہے۔ اگر کسی غزل میں ردیف نہ ہو تو ایسی صورت میں اس غزل کو غیر مردف غزل کہتے ہیں۔ غزل کا پہلا شعر مطلع ہوتا ہے، مطلع کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتا ہے۔ پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں مطلع کہلاتا ہے جبکہ آخری شعر جس میں شاعر کا تخلص ہوتا ہے مقطع کہلاتا ہے۔ غزل کا ہر شعر اپنے آپ میں ایک مستقل اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کے ہر شعر میں الگ الگ مفہوم باندھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی ایک پوری غزل بھی ایک مضمون پر مبنیٰ ہو سکتی ہے۔ ہر غزل ایک بحر میں لکھی جاتی ہے۔

غزل میں چند چیزیں خاص اہمیت کے حامل ہوتی ہیں۔ جس میں عاشق، محبوب اور رقیب شامل ہیں۔ غزل کا شاعر شاعری میں ہمیشہ اپنے محبوب کے حسن و جمال کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے، اپنے محبوب کے ظلم و ستم کو بھی بیان کیا کرتا ہے۔ ان تمام باتوں کے ساتھ اپنے رقیب کو بھی برا بھلا کہہ جاتا ہے۔ شاعر غزل میں یہ تمام صورتِ حال ایک خاص ترتیب سے بیان کرتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شعر میں اگر محبوب کے حسن کی کیفیت بیان کر دی جاتی ہے تو دوسرے شعر میں ظلم و ستم اور تیسرے میں ہجر کا دکھ بیان کیا جاتا ہے۔ اس طرح دل کے مختلف جذبات کا اظہار، ہجر و وصال کی کیفیت، شکایت زمانہ، تصوف اورحقیقت و عرفان کے موضوعات سے بحث کی جاتی ہے۔ غزل کا دائرہ وسیع ہے اس میں آج کے دور میں ہر طرح کا موضوع بیان کیا جاسکتا ہے۔ اور اقبال کی شاعری میں تو غزل نے ایک نئی اکائی کی صورت میں جنم لیا ہے۔ آج کے دور میں بھی غزل میں نئی نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

اردو شاعری کا شمار ایک پر اثرار طریقہء اظہارِ خیال کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کی مختلف اوضاف اور رنگینی ہے۔ آج اردو شاعری کو دنیا بھر میں ایک مقبولیت حاصل ہے۔ مختلف انداز میں مختلف افراد سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اظہار خیال کے لیے شاعری پیش کی جانے لگی ہے۔ مگر دکھ اس وقت ہوتا ہے جب بظاہر کئی کئی کتابوں کے مصنف اور ان گنت غزلوں اور نظموں کے خالق شاعری کے بنیادی رموز سے بھی واقفیت نہیں رکھتے۔ جب ان سے ان کے ہی کلام کے بارے میں پوچھا جائے کہ یہ کیا ہے غزل ہے یا نظم تو کافی مایوس کن جواب ملتا ہے۔

اردو غزل

غزل شاعری کی ایک خوبصورت صنف ہے جو اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے اور جس کو با ضابطہ منظوم ہونے کی وجہ سے گایا جاسکتا ہے۔ اس کا آغاز دسویں صدی میں فارسی شاعری سے ہوا اور بعد میں اس پر عربی اور فارسی ادب کے بھی اثرات دکھائی دینے لگے۔ اسی اثر نے اردو غزل میں صوفیانہ رنگ بھر دیا۔ اردو غزل ایک غیر معمولی طریقہ اظہار ہے جس میں آپ اپنے بے انتہا اندرونی رومانی جذبات کی عکاسی کر سکتے ہیں۔ لفظ غزل کا ادبی مطلب اپنے محبوب سے گفتگو کرنا ہے۔ تاریخِ الفاظ کی رو سے یہ عربی زبان کے لفظ غزال سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہرن کے ہیں جو ایک خوبصورت معصوم جانور ہے عام فہم زبان میں غزل ایک ایسی پابند منظوم صنف ہے جس میں سات، نو، یا درجن بھر ایک ہی وزن اور بحر کے جملوں کے جوڑے ہوتے ہیں۔ اس کا آغاز جس جوڑے سے ہوتا ہے وہ مطلع کہلاتا ہے اور اختتام کے جوڑے کو مقطع کہتے ہیں جس میں شاعر اپنا تخلص یا نام بھی استعمال کرتے ہیں تمام جوڑے اور ہر جوڑے کے ہر انفرادی جملے کا ایک جیسا برابر وزن ہونا لازم ہوتا ہے۔

پابند جملوں کے یہ جوڑے شعر کہلاتے ہیں اور زبان اردو میں شعر کی جمع اشعار کہلاتی ہے۔ غزل کے بنیادی نظریہ اور تعریف کے مطابق اس کا ہر شعر اپنی جگہ ایک آزاد اور مکمل منظوم معنیٰ رکھتا ہے۔ کسی بھی شعر کے خیال کا اس سے اگلے شعر میں تسلسل ضروری نہیں ہوتا۔ ایک غزل کے اشعار کے درمیان مرکزی یکسانیت کچھ الفاظ کے صوتی تاثر یا چند الفاظ کا ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں تکرار سے ہوتا ہے۔ اس سے ہٹ کر بھی کسی غزل کے ایک سے زیادہ اشعار کسی ایک ہی خیال کو مرکزی ظاہر کر سکتے ہیں۔ لیکن ہر شعر اپنی جگہ منظوم قواعد و ضوابط کا پابند ہونا چاہیے۔ جن غزلوں میں ایک سے زائد اشعار ایک ہی مرکزی خیال لئے ہوتے ہیں ان کو نظم یا نظم نما غزل بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ارودو زبان میں لفظ نظم کا واضح مطلب جملوں کے اختتام پر وزن اور صوتی اثر کا ایک جیسا ہونا ہے۔ غزل کے ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں آخری ایک دو یا زیادہ سے زیادہ تین الفاظ پوری غزل کا توازن برقرار رکھتے ہیں اور غزل کے مطلع کا پہلا مصرعہ بھی انہی الفاظ پر ختم ہونا چاہیے۔ اسے غزل کا ردیف کہتے ہیں ردیف سے پہلے کا لفظ منظوم ہونا ضروری ہے جو قافیہ کہلاتا ہے۔ یہ اردو غزل کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔

اردو نظم

اردو نظم سے واقفیت ہونے کے لئے ضروری ہے کہ پڑھنے والا غزل اور نظم کا تقابلی تجزیہ کر سکتا ہو۔ کیونکہ دونوں اصناف میں بہت سی قدریں مشترک بھی ہیں اور کہیں کہیں ان میں مماثلت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ فرق کی باریک لکیر کو دیکھنے کے لئے بہت غور کرنا پڑھتا ہے۔ اس کے باوجود یہ دونوں اصناف اپنی اپنی جگہ منفرد اور آزاد حیثیت بھی رکھتی ہیں۔

اردو زبان میں نظم بنیادی طور پر شاعری کی ایک ایسی قسم ہے جس میں کسی ایک ہی خیال کو الفاظ کے ہموار بہاؤ کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ جہاں تمام اشعار لکھنے والے کے خیال کے تسلسل کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب غزل کا ہر شعر اپنی جگہ مکمل اور مختلف معنیٰ رکھتا ہے۔ اگر وسیع پیمانے پر دیکھا جائے تو نظم اردو شاعری کی ان تمام اقسام کی نمائندگی کرتی ہے جن کو کسی اور تعریف کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن ادبی نکتہ نظر سے نظم شاعری کی ایک بہت منظوم اور منطقی لحاظ سے غیر محسوس طور پر ٹھوس صنف ہے جس میں شاعری کا مرکزی خیال ایک ہوتا ہے اگرچہ روایتی نظم میں بھی پابندیاں ضروری ہیں لیکن کئی جگہوں پر ہمیں کئی شاہکار آزاد نظموں کی بھی مثالیں ملتی ہیں۔

نظم کے ادبی معنیٰ نثر کی ضد

نظم کے ادبی معنیٰ نثر کی ضد کے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ نظم کی ظاہری شکل میں بھی تغیر رونما ہواہے۔ انیسوی صدی کے آخری عشروں میں تو اس کی ترکیبوں میں واضح تبدیلیاں آگئیں۔ لیکن پھر اس کی قدیم تاریخ کے باعث اس کی انفرادیت اور کشش میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ نظم میں طوالت کی کوئی پابندی نہیں ہوتی اس میں شاعر کا تخیل ارتکاز کے ساتھ ساتھ تفصیل سے بیان ہوتا ہے اور اس میں ایک خیال کی مرکزیت کو بگاڑے بغیر بہت وسیع انداز سے مضمون کو پھیلانے کی گنجائش ہوتی ہے۔

اسی ممکنہ پھیلاؤ کی گنجائش کے باعث نظم کو اردو ادب میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ نظم لکھنے کے لئے شاعروں کا ہر دور میں مرغوب ترین موضوع محبت رہا ہے اور یہی رومانوی انداز تمام اردو شاعری کی اساس بھی ہے نظم کے ذریعے محبت کی خوبصورتی کو بہت باوقار سادہ اور نازک انداز میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ نہ صرف محبت بلکہ فطرت کا حسن غم خوشی زندگی کی چمک و موت کا درد ہر موضوع کے لئے نظم ایک بہترین ذریعہ اظہار ہے جس میں اس موضوع کے معنیٰ اور مفہوم کو ذہن میں رکھ کر طویل بات کی جا سکتی ہے بیشتر مقام پر نظم کا مرکزی خیال قاری کو افسانوی دنیا کے بجائے موضوع کی ایک منطقی اور ٹھوس وضاحتی تصویر فراہم کرتا ہے۔ نظم غزل کے مقابلے میں زیادہ حقیقی طریقہ اظہار ہے جبکہ غزل عام طور پر قاری کو محض افسانوی سرابوں کا شکار بناتی ہے۔

غزل اور نظم کے درمیان فرق

نظم کے ان غیر نکتوں کو سمجھنے کے لئے نظم اور غزل کو آمنے سامنے رکھ کر تقابلی جائزہ لینا بہت مددگار ہوتا ہے جہاں دونوں اصناف کی ضد اور مماثل ہونے کا اندازہ کیا جا سکے۔ نظم ایک اور بھی اہم انداز سے غزل سے قدرے مختلف ہوتی ہے غزل کو یہ افتخار حاصل ہے کہ بنیادی طور پر یہ نظم ہونے کے باوجود اپنے اشعار کے ایک دوسرے سے تسلسل اور بندھے ہونے کی پابند نہیں ہوتی غزل کا شاعر اگر چاہے تو غزل میں تمام منظوم پابندیوں کے ساتھ ساتھ پہلے شعر میں محبت دوسرے میں موت تیسرے میں حسد اور چوتھے میں تصوف وغیرہ پر الگ الگ اظہار کر سکتا ہے جبکہ نظم کا حال اس سے بالکل مختلف ہے جہاں بنیادی خیال کو ہی مرکزیت حاصل ہے اور ابتداء سے اختتام تک اسی خیال کا ارتقاء ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر نظم کا باقائدہ ایک موضوع ہوتا ہے نام ہوتا ہے جسے ٹائٹل کہا جاتا ہے جبکہ غزل اس نکتے سے آزاد یا یوں کہیں کہ اس ضلاحیت سے محروم ہوتی ہے۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے