Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو غزل اور تصور عشق - Urdu Ghazal aur Taswwur e Ishq

اردو غزل اور تصورِ عشق


اردو غزل میں تصور عشق کے رجحانات اردو شاعری کی ابتدائی دور میں ہی داخل ہو گئے تھے یہی وجہ ہے کہ ابتدائی دور کے تمام شعرا نے کم و بیش اپنی غزلوں میں عشق و محبت کی باتیں پیش کی ہیں۔

اردو غزل اور اردو شاعری ابتدائی دور سے ہی عشق کے ارد گرد گھومتی رہی ہے۔ قدیم شعراء کے یہاں غزل کا بنیادی موضوع ہی عشق رہا ہے۔ عشق کو انسانی زندگی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ عشق کی ناآسودگی کی وجہ سے غم وجود میں آتا ہے۔ اور عشق ہی کے ذریعے زندگی کی شناخت بھی ممکن ہو پاتی ہے۔ قدیم زمانے میں شاہی درباروں میں شعر و شاعری کی محفلوں کا آراستہ ہونا ایک عام سی بات تھی کیوں کہ اسی کے ذریعے ہی خوشی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔

ولیؔ دکنی، میر تقی میرؔ اور مومن خان مومنؔ سے لے کر حسرتؔ موہانی، ناصرؔ کاظمی اور فراقؔ گورکھپوری تک کی غزلوں میں تصور عشق کے موضوعات بھرے پڑے ہیں۔


اردو شاعری میں تصور عشق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ابتدائی شاعری میں عشق مجازی پر زیادہ زور دیا گیا تھا لیکن جیسے جیسے زمانے گزرتے گئے اردو شاعری میں عشق حقیقی کا تصور بھی نظر آنے لگا۔ اردو شاعری کے ابتدائی دور کی غزلوں میں عشق مجازی کو زیادہ اہمیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ خاتم، آبرو اور مضمون وغیرہ کے یہاں عشق کا تصور سر چڑھ کر بولتا ہے اور رنگ رنگینیوں اور نشاط تک محدود نظر آتے ہیں۔ مگر رفتہ رفتہ یہ سفر اگے بڑھتا ہے اور میر حسن مثنوی ’ خواب و خیال ‘ میں عشق کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ” عشق محض خوشی یا مسرت نہیں بلکہ اظہار کا ذریعہ ہے۔ “ میر تقی میر کے یہاں بھی غزلوں میں عشق و عاشقی کا یہی تصور پیش کیا گیا ہے۔ لیکن میر کی شاعری میں صرف لذت و انبساط نہیں بلکہ قربانی و ایثار کا جذبہ بھی موجود ہے۔


تصور عشق کو مختلف شعراء نے مختلف ڈھنگ سے اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ میر حسن نے پوری مثنوی ’ خواب و خیال ‘ میں اس کی وضاحت کی ہے اور کہا ہے کہ اصل عشق شکست نفس ہے۔ عشق مجازی عشق حقیقی تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہو سکتا ہے۔ میر درد کے کلام میں عشق کا یہ تصور موجود ہے۔ عشق مجازی کے ذریعے ہی عشق حقیقت تک پہنچا جا سکتا ہے۔ میر تقی میر کے یہاں عشق ایک آرزو اور ایسا جذبہ ہے جو تمام عالم میں موجود ہے۔ سودا کے یہاں عشق ایک ایسی سرمستی ہے جو غم کو خوش دلی کے ساتھ گزارنا سکھاتی ہے۔


تصور عشق کے متعلق میر تقی میر نے فرمایا ہے کہ:


محبت نے ظلمت سے گاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

کچھ حقیقت نہ پوچھو کیا ہے عشق
حق اگر سمجھو تو خدا ہے عشق

اردو غزل میں تصور عشق

اردو غزل میں تصور عشق کے حوالے سے ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ عشق مجازی کے اظہار میں شاعر کو بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے سرے ہوس پرستی سے جا ملتے ہیں۔ اس لئے وہ شعراء جو مجازی شاعری کرتے ہیں انھیں بھی ایک حد میں رہ کر شاعری کرنی پڑتی ہے۔ لیکن یہی حقیقت ہے کہ ابتدائی شاعری میں ہمیں اس طرح کی مثالیں بھی ملتی ہیں جو عشق حقیقی کی تمام حدیوں کو پار کر دیتی ہے۔ اور یہ مثالیں ہمیں دبستان لکھنؤ میں ضرورت سے زیادہ ہی ملتی ہیں۔


غالبؔ بنیادی طور پر مجازی شاعر ہیں مگر ان کی روح میں اہل نظر بنائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مجازی شاعری میں بھی حقیقت کا عکس نظر آتا ہے۔

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ عشوہ و ادا کیا ہے

اردو غزل اور شاعری میں تصور عشق کو خاص طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اردو شعراء نے عشق مجازی اور عشق حقیقی دونوں کو اپنی شاعری میں پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ولی دکنی جیسا شاعر جنہوں نے اردو غزل میں نہ صرف وسعت پیدا کی بلکہ اردو شاعری کو ایک نیا مجازی رنگ دیا۔ انہوں نے دنیا کے تمام مسائل کو اپنی شاعری میں پیش کرکے اردو غزل کے دامن کو وسیع کر دیا۔ ولی جیسا شاعر بھی عشق کی دیوانگی میں یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ ؀

شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا


ہر دور کے اردو شعراء اپنی غزلوں میں مجاز کے ساتھ ساتھ حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی دور میں تصوفانہ مسائل بھی اردو شاعری میں تیزی سے اپنی جگہ بناتے گے۔ میر درد نے عشق حقیقی کو خاص طور پر اپنی غزلوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ درد چونکہ صوفی مزاج کے شاعر تھے اس لیے ان کے یہاں عشق حقیقی کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ عشقیہ شاعری کا اعلی مقام عشق حقیقی ہی ہے۔ عام طور پر عشق حقیقی اور عشق مجازی میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ مجاز کو حقیقت کا دروازہ کہا گیا ہے۔ دنیاوی اور مجازی عشق چاہے کتنا بھی فلسفیانہ کیوں نہ ہو انسان کو اپنی ذات کی تنہائی سے نجات نہیں دلا سکتی اسی لئے انسان کی مکمل سپردگئی ذات الٰہی میں ممکن ہے۔ جسم اور روح دونوں کو اس کی ذات میں فنا کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عشق حقیقی کا مرتبہ عشق مجازی سے اعلی و بہتر ہے۔ درد کے کلام میں روحانی تجربے کو پیش کیا گیا ہے ان کا کلام عشق حقیقی کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ کیوں کہ درد فطرتاً صوفی تھے اس لئے ان کے کلام میں تصوف پوری طرح ہم آہنگ نظر آتا ہے۔

جگ میں گر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی نظر آیا جدھر دیکھا


اردو شاعری کے ابتدائی زمانے میں عشق خالص بت پرستی کی شکل میں ابھرتا ہے یعنی محبوب کے سراپا اور اس کے ظاہری حسن کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔ مگر بعد میں تصور عشق میں تبدیلی ہوتی ہے اور عشق حقیقی کی طرف بھی شعراء توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے تقریباً تمام شعراء چاہے وہ ولی ہوں یا پھر خاتم، میر تقی میر ہوں یا غالب اور مومن، ان سب کے یہاں عشق حقیقی کے اشعار نظر آتے ہیں۔ یہ وہ شعراء ہیں جو مزاجاً صوفی نہیں تھے پھر بھی اس دور کو دیکھتے ہوئے وہ اسی کے مطابق شاعری کر رہے تھے۔

اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ عشق کا تصور مختلف شعراء کے یہاں مختلف انداز میں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ولیؔ دکنی سے لے کر غالب اور غالب سے لے کر مومن تک عشق کے تصور میں نمایاں تبدیلی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو غزل کا بنیادی موضوع عشق ہے چاہے وہ عشق مجازی ہو یا عشق حقیقی اور یہی غزل کی خوبصورتی ہے۔ جب بھی ہم اردو شاعری میں غزل کے جمالیاتی پہلو کا ذکر کرتے ہیں تو ان تمام چیزوں کا ذکر کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔

اور پڑھیں 👇

Urdu Prem

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے