Ticker

6/recent/ticker-posts

کیفی اعظمی کی شاعری کی شاعرانہ کیفیت

کیفی اعظمی کی شاعری کی شاعرانہ کیفیت


ترقی پسند تحریک سے وابستہ شاعروں میں کیفی اعظمی کا نام بے حد خاص ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا نئے تغیرات اور نئے امکانات سے روبرو ہو رہی تھی۔ دنیا کے کئی حصوں میں اشتراکی نظام نے اپنی بنیاد مستحکم کر لی تھی۔ اس دور میں سائنس کے ذریعے لوگوں نے بہت سی نئی نئی ضرورتوں کو پورا ہوتے دیکھا ۔ ایشیا کے دوسرے ملکوں میں بھی یہ ہوا تیزی کے ساتھ پھیلنے لگی تھی۔ مگر غلامی نے ہندوستان کے دروازے اور کھڑکیوں کو بند کر رکھا تھا۔ حالانکہ آزادی کی بے چینی لوگوں کے دلوں کو بے چین کرنے لگی تھی لیکن کوئی خاص طریقہ ہائے کار ابھی تک مقرر نہیں ہوا تھا۔ چونکہ ہندوستان کی نئی نسلیں یورپین خیالات سے واقفیت رکھتی تھی اور اس کے قریب تر بی تھی پھر بھی کوئی خاص طریقہ کار کی کمی کی وجہ سے ان کی بھرپور رہنمائی نہیں ہو پا رہی تھی۔ ایسے حالات میں میں مہاتما گاندھی اس طرح سامنے آئے جیسے اندھیری رات میں سورج نکل گیا ہو۔ انہوں نے اپنی دور اندیشی سے اہل وطن کو قومیت کانعرہ دے کر اپنا آندولن شروع کردیا۔ گاندھی جی اور ا ن کے رفقا کار کی کوشش اور جدوجہد سے رفتہ رفتہ ہندوستان میں آزادی کی تحریک ایک مثبت سمت میں پیش رفت کرنے لگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں عام بیداری کی لہر پیدا ہوگئی۔ ادھر 1930 کے بعد ایک بار پھر فسطائی قوتوں نے زور پکڑ لیا اور قہرناکی کاوہ منظر پیش کیا کہ انسانیت درد سے کراہ اٹھی۔ اس وقت دنیا کے گوشے گوشے میں جہاں کہیں بھی امن، مساوات اور آزادی کے متوالے تھے، وہ صف آرا ہوگئے اور ثقافت بچاﺅ کی مہم شروع ہوگئی۔ یہی وہ مہم تھی جس کی برکت سے دنیا کی تمام زبانوں میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔


کسی بھی ادب کی یہ خاصیت رہی ہے کہ وہ اپنے سینے میں اپنے عہد اور سماج کے سیاسی معاشرتی حالات اور راز کو دفن کئے رہتا ہے یہی حال ہمارے اردو ادب کا بھی ہے۔

اس وقت ہندوستان آزادی کی جد وجہد میں اپنی جان کی بازی لگائے ہوئے تھا اور اس کی ساری قوتیں آزادی کے حصول کی کوشش میں صرف ہورہی تھی۔ ایسے حالات میں ادب وفن کا ان اثرات سے بچنا ناممکن تھا، چنانچہ اس عہد کا سارا ادب آزادی کی جد وجہد کا آئینہ بردار بن گیا۔ اس عہد کے زیادہ تر فنکار جاگیر دارانہ نظام کے پروردہ تھے ۔ اس لہذا ان کی شخصیت اور مزاج میں بھی زندگی کی کیف آور رنگینی اور رومانیت رچی بسی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندی کے ابتدا ئی اعہد کے سارے فنکاروں کے یہاں رومانیت کا غلبہ پایاجاتا ہے۔ اگر ہندوستان میں ترقی پسندی کے اس جوش وخروش اور شوق و اخلاص سے پروان نہیں چڑھایا جاتا تو بہت ممکن تھا کہ اس عہد کے زیادہ تر فنکار رومانیت کے شکار ہوکر رہ جاتے اور فکری وعملی فراریت کا ایسا نمونہ پیش کرتے کہ خوش آئند زندگی کا خواب ہی رہ جاتا۔ یہ ترقی پسند تحریک کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے جاگیر دارانہ نظام کے پروردہ رومانی فنکاروں کو زندگی کے حقیقی راستوں پر گامزن کیا اور ان کی تخلیقی اور فکری صلاحیتوں کو ارضی صداقت سے ہم آہنگ کرکے ملک اور عوام کے مسائل کا ترجمان بنایا۔


یہی رومانی فنکار جو اپنی تخلیقیت خیزی کی ساری قوتیں رومانی جذبات کی عکاسی میں صرف کررہے تھے۔ جب واپس حب الوطنی کے ساز پر انقلاب و بغاوت کے رجز گانے پر آمادہ ہوئے تو جوش عمل کا ایسا ولولہ پیدا کردیا گیا کہ انگریزی سامراجیت کے ایوان لرز اٹھے اور آخر کا ر انہیں ہندوستان چھوڑنا پڑا۔

کیفی اعظمی جد وجہد آزادی کے آخری جاں باز تھے۔ مخدوم اور سردار جعفری کی طرح کیفی اعظمی بھی ایسے دلیر، نڈر، اور با حوصلہ شاعر تھے، جنھوں نے غریب و محنت کش انسانوں کی بے کسی اور جد و جہد میں نہ صرف یہ کہ عملی حصہ لیا بلکہ کئی محاذوں پر قائدانہ رول بھی ادا کیا۔ یہ اسی عملی اقدام کی حوصلہ مندی تھی جس نے انہیں تاحیات استقلال سے اپنے موقف پر جمے رہنے کی قوت عطا کی۔


کیفی اعظمی کی شاعری کی خصوصیات یہ ہے کہ وہ پوری طرح سے عوامی شاعر تھے ان کی شاعری کا پورا دارومدار عوام کی زندگی زندگی پر ہے انہوں نے اپنے لئے ایک خاص نظریہ یہ اختیار کیا کہ جس کے تحت وہ اپنی تخلیقات کے دوران ایک خاص معیار پر قائم رہتے تھے۔ حالاںکہ کے اس معیار پر وہ اپنی تاریخی نظم’’ آوارہ سجدے‘‘ کو لکھنے کے بعد ہی پہنچے۔ ان کی ساری تخلیقات پر مادیت اور رومانیت کے گہرے اثرات ہیں حالاں کہ بعد میں چل کر یہ اثرات کم ہو جاتے ہیں اس لیے کہ رومانیت فریب نہ آسودگی اور عیش پرستی کی پیداوار نظر آتی ہے اور کھوکھلی آسودگی اور جھوٹی تسکین کا باعث بنتی ہے۔


جب جیب میں پیسے بچتے ہیں جب جیب میں روٹی ہوتی ہے
اس وقت یہ ذرہ ہیرا ہے اس وقت یہ شبنم موتی ہے

شاعر نے بڑی ہی حقیقت پسندی کے ساتھ زندگی کی سچائیوں کو پیش کیا ہے اور اور عشق کے چہرے سے سے نقاب اب اتارا ہے۔ جو انسان بھوک بیماری بے روزگاری فرقہ وارانہ منافرت مثالی نظام کے ظلم و ستم سے جوجھ رہا ہو اسے عشق کے خیالات اور تصورات برے ہی دکھائی دیں گے جو ہر وقت بیروزگاری کی مار جھیل رہا ہوں وہ عشق کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایسے ماحول میں زندگی کے حسین لمحہ کی تصویر نہیں اتاری جا سکتی۔ معاشرے کی ان تلخیوں نے شعراء کو داخلیت سے انحراف کرنے پر مجبور کر دیا وہ عشق و محبت کے ترانے بھول گئے اور امن وامان، مساوات اور آزادی کے متوالے ہو اٹھے۔ ان کی شاعری سے ترقی پسندی کی خوشبو آنے لگی۔ ادب نے سماج کے ساتھ ایسا فطری رشتہ قائم کیا جس سے عوام کو بے حد حوصلہ اور امیدوں کا سہارا ملا اس سارے نے عوام کی بڑی رہنمائی کی لوگوں کو لگنے لگا کہ اب منزل دور نہیں اس دور کے ادب دے عوام کو نئے نئے حسین خواب دکھلائے ان خوابوں کی آگے چل کر تعبیر بھی ہوئی۔


کیفی اعظمی کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا۔ ابتدا میں کیفی صاحب پر بھی اس گھرانے کے ماحول کے اثرات کے مطابق مزاج میں رومانیت کی کیفیت تھی۔ انہوں نے جب شعر کہنا شروع کیا تب انیس و دبیر کی مرثیہ گوئی سے بے حد متاثر ہوئے اور انہیں کے رنگ سخن کو اپنایا لیکن یہ اثر زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکا اور وہ رومانیت کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس رومانیت میں انہوں نے ایسی دلکشی اور تاثیر بھر دی کہ جس کا اثر آج تک باقی ہے۔ اس میں غضب کی روانی اور موسیقیت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے واردات حسن و عشق کو بے حد خوبصورت اور شاعرانہ انداز میں بیان کیا ہے ان کے اس بیان میں ندرت صفائی بیان کی پاکیزگی اور سنجیدگی دکھائی دیتی ہے۔ ’’ جھنکار‘‘ ’’ آخری شب‘‘ اور’’ آوارہ سجدے‘‘ کیفی کے اہم مجموعہ کلام ہیں۔’’ جھنکار‘‘ اس مجموعے میں شاعر کا لہجہ تھوڑا سخت معلوم ہوتا ہے۔ جو شاعری کے محاسن کو نکھارنے نہیں دیتا۔ اس میں حکومت کے خلاف بغاوت، جذبات کی برانگیختہ عوام کی کشمکش بے چینی اور بے قراری کا ذکر ملتا ہے۔ دوسرے مجموعے’ آخری شب‘ میں روایت، رومانیت اور شہریت کی آمیزش ملتی ہے۔ اس آمیزش میں سر مستی دلکشی اور غضب کی اثر آفرینی ہے اس کے ہر شعر غنائیت اور رعنائی سے بھر پور ہے۔ آخری شب میں شامل تمام تخلیقات کیفی اعظمی کی تخلیقی زندگی کے بیش قیمتی انمول ہیرے ہیں۔ اس کی اہمیت اس قدر ہے کہ اگر اس کے علاوہ کیفی اعظمی اور کچھ نہ لکھتے تب بھی ادبی دنیا میں وہ زندہ و جاوید رہتے ہیں۔


نقش ونگار، تصور، مجبوری، احتیاط، پشیمان، بوسہ، اندیشے، ملاقات، نرسوں کی محافظ، تم، اور اسی طرح کی بےشمار نظمیں کیفی کی رومانی شاعری کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان تمام نظموں میں جو دلکشی، رعنائی، غنائیت، کیفیت، سراپانگاری، تازگی اور خوابناکی موجود ہیں۔ وہ اپنے آپ میں دل کشی اور جادو بیانی سنجو ئے ہوئے ہے۔

کیفی اعظمی کی کچھ نظموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:


اے بنت مریم گنگنا اے روح نغمہ گائے جا
جیسے شگوفوں میں سماکر گنگناتی ہے ہوا
جیسے خلا میں رات کو گھونگھرو بجاتی ہے ہوا

نغمگی
حلاوتوں کی تمنا، ملاحتوں کی مراد
غرور کلیوں کا، پھولوں کا انکسار ہو تم
جسے ترنگ میں فطرت نے گنگنایا ہے
وہ بھیر ویں ہو وہ دیپک ہووہ ملہار ہو تم

تم
کلی کا روپ پھول کا نکھار لے کر آئی تھی
وہ آج کُلخزانۂ بہار لے کر آئی تھی
جبینِ تابناک میں کھلی ہوئی تھی چاندنی
چاندنی میں عکس لالہ زار لے کے آئی تھی
تمام رات جاگنے کے بعد چشم مست میں
یقیں کارس امید کا خمار لے کے آئی تھی
گلابی انکھڑیوں کی سحر کاریوں میں خندہ زن
غرور فتح ورنگِ اعتبار لے کے آئی تھی
وہ سادہ سادہ عارضوں کی شکریں ملاحتیں
ملاحتوں میں سرخیِ انار لے کے آئی تھی

ملاقات
یہ کس طرح یاد آرہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
کہ جیسے سچ مچ نگاہ کے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہو
یہ جسم نازک، یہ نرم بانہیں، حسین گردن، سڈول بازو
شگفتہ چہرہ، سلونی رنگت، گھنیرا جوڑا، دراز پلکیں
نشیلی آنکھیں، رسیلی چتون، دراز پلکیں، مہین ابرو
تمام شوخی، تمام بجلی، تمام مستی، تمام جادو
ہزاروں جادو جگارہی ہو
یہ خواب کیسا دکھار ہی ہو

تصور
بند کمرے میں جو خط میرے جلائے ہوں گے
ایک اک حرف جبیں پہ ابھر آیا ہوگا
میز سے جب مری تصویر ہٹائی ہوگی
ہر طرف مجھ کو تڑپتاہوا پایا ہوگا

اندیشے
یہ تتلیاں جنہیں مٹھی میں بھینچ رکھا ہے
جواڑنے پائیں تو الجھیں کبھی نہ خاروں سے
تری طرح کہیں یہ بھی نہ بجھ کے رہ جائیں
تپش نچوڑ نہ اڑتے ہوئے شراروں سے
نرسوں کی محافظ


کیفی اعظمی کی نظموں کی یہ جھلکیاں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات پوری طرح صاف ہوجائے کہ یہ نظمیں جس دور میں وجود میں آئی بے حد مقبول ہوئیں لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ آج اس کی مقبولیت اہمیت اور افادیت میں کوئ کمی آگئی ہے۔ بلکہ آج بھی ان نظموں کی اہمیت اور افادیت مسلم ہیں۔

کیفی اعظمی کی شاعری میں اصناف سخن کی تمام تر خصوصیات کو فطری اور داخلی طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پی پی نے ان خصوصیات کی مدد سے اپنی شاعری کو آفتاب کی مانند روشن کر دیا ہے جس کی روشنی ہر کہیں ہر جگہ موجود ہے۔ ان کی شاعری میں لفظوں کے بے شمار ایسے خزانے ہیں جن سے شاعری کے حسن کو نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ منفرد انداز اور جدید لب و لہجہ میں پیش کیا گیا ہے۔

کیفی اعظمی نے جب رومانیت اور شعریت کی دنیا کو خیر باد کہہ کر اشتراکیت اور ارضیت کی حقیقی دنیا میں داخل ہوئے تو ان کا انداز بالکل بدلہ بدلہ سا تھا:

مرے مطرب نہ دے ﷲ مجھ کو دعوت نغمہ
کہیں ساز غلامی پر غزل بھی گائی جاتی ہے


یہی وہ بدلہ بدلہ سا انداز آگے چل کر اس دور کے عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگا اور رفتہ رفتہ میدان شاعری میں کیفی اعظمی کے قدم مضبوط ہوتے چلے گئے اور اس کے بعد کیفی اعظمی اپنی تمام عمر عوام کی بیداری اشتراکیت کی بحالی اور انسانی زندگی کے امن و امان کو مستحکم کرنے میں لگے رہیں اس مشغلے میں وہ اس طرح غرق ہوئے کہ اپنے وجود اپنی ہستی تک کو بھلا دیا۔ اور رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچا کے ان کی حیثیت محض ایک ترقی پسند شاعر کیا عوامی شاعر کی نہ ہو کے ایک جاں باز سپاہی کی ہوگئی۔’ آوارہ سجدے‘ کے دیباچے میں کیفی صاحب نے اپنی کیفیت کچھ یوں بیان کی ہے :

”میری شاعری نے جو فاصلہ طے کیا ہے، اس میں وہ مسلسل بدلتی اور نئی ہوتی رہی ہے (بہت آہستہ ہی سہی) آج وہ جس موڑ پر ہے۔ اس کانیاپن بہت واضح ہے۔ یہ رومانیت سے حقیقت پسندی کی طرف کوچ کاموڑ ہے۔“

یہ بات بالکل درست ہے کہ ان کی شاعری میں تبدیلیوں کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ ان کے ابتدائی رومانیت سے لبریز شاعری پر بھی حقیقت پسندی کی ہلکی پھلکی جھلک مل جاتی ہے اور جو شاعری بعد میں حقیقت پسندی سے متاثر ہو کر کہیں گئی ان میں بھی رومانیت دی جھلک صاف طور پر دکھائی دیتی ہے ان کی شاعری حقیقت اور رومانیت کی آمیزش ہے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لیے

فرض کا بھیس بدل لیتی ہے فضا تیرے لیے
قہر ہے تیری ہر اک نرم ادا تیرے لیے

ہاں اٹھا جلد اٹھا پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں میں کبھی رکنے کا نہیں

اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے


سماج کی بیداری اور عورت کی استحصالی سے متعلق خیالات کو ظاہر کرتی کیفی اعظمی کی یہ شاہکار نظم چند جس میں عورت کو استحصالی اور ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے اور بغاوت کرنے کے لئے حوصلہ دیا جا رہا ہے۔ اس میں گہری معنویت اور لب و لہجہ کی خوبصورتی ہے۔ لیکن کیفی کا یہ لہجہ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تبدیلی لاتا رہتا ہے لہذا کہیں کہیں سختی کرختی اور برہنہ گفتاری بھی پائی جاتی ہے مثلا :

بیلچے لاؤ کھودو زمیں کی تہیں
میں کہاں دفن ہوں کچھ پتہ تو چلے

کیفی اعظمی کی اشتراکیت کے ساتھ سچی اور گہری وابستگی تھی اور انہیں اپنے دفتر آ کی ہونے پر بڑا فخر تھا۔ جس وقت چین نے ہندوستان پر حملہ کیا اس وقت کیفی اعظمی فلمی دنیا سے وابستہ ہو چکے تھے ہندوستانی عوام اور چین سے لڑرہے فوجیوں کو حوصلہ فراہم کرانے کے لیے اور ان کے حالات کو بیان کرنے کے لیے انہوں نے یہ نغمہ لکھا جو اپنی مثال آپ ہے :

کر چلے ہم فدا جان وتن ساتھیو
اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو


کو یہ اس وقت کی بات ہے جب کومنٹ دو خیموں میں تقسیم ہو گئی تھی اس واقعے سے کیفی اعظمی کو بڑا دھچکا لگا انہی دنوں انہوں نے’ آوارہ سجدے‘ جیسی شاہکار نظم لکھیں :

راہ میں ٹوٹ گئے پاؤں تو معلوم ہوا
جز مرے اور مرا راہ نما کوئی نہیں

کیفی اشتراکی نظام کے دلدادہ، ترقی پسندی، حب الوطنی اور انسان دوستی کے جذبے سے لبریز شاعر تھے وہ اکثر کہتے تھے :

”غلام ہندوستان میں پیدا ہوا، آزاد ہندوستان میں بوڑھا ہوا اور سوشلسٹ ہندوستان میں مرجاؤں گا۔ “

انسان کیفی اعظمی ایک سچے فنکار اور عمدہ انسان تھے انہوں نے اپنی شاعری میں جن باتوں کو بیان کیا اس کر عمل بھی کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری حقیقت سے ہمکنار ہوتی چلی گئی۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اپنے دور کے حالات کی بہترین تصویر اتاری ہے۔ جو انعامات اور اعزاز ان کو دیے گئے ‏ کیفی ان کے حقیقی حقدار تھے۔

پریم ناتھ بسملؔ

Urdu Prem

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے