Ticker

6/recent/ticker-posts

نظیر اکبر آبادی کی حالات زندگی | نظیر اکبر آبادی کی شاعری نظم نگاری کا جائزہ

نظیر اکبر آبادی کی حالات زندگی | نظیر اکبر آبادی کی شاعری نظم نگاری کی کی خصوصیات


نظیر اکبر آبادی کا اصل نام شیخ ولی محمد اور تخلص نظیر تھا۔ والد کا نام شیخ محمد فاروق تھا۔ ان کی پیدائشیں 1740 اور بعض روایت کے مطابق 1735 میں دہلی میں ہوئی۔ ان کا انتقال 1830 میں آگرہ میں ہوا۔ نظیر اکبر آبادی کا زمانہ انتشار و خلفشار کا تھا۔ جب مغلیہ سلطنت تیزی سے زوال آمادہ ہو رہی تھی۔ نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی کے پے در پے حملے اور ان سے پیدا شدہ ہنگامی صورت حال، افرا تفری اور لوٹ کھسوٹ نے ملکی حالات کو تہ و بالا کر دیا تھا۔ انھوں نے حالات کے پیش نظر اپنی ماں اور نانی کو لے کر آ گرہ کوچ کر گئے اور محلہ تاج گنج کو اپنا مسکن بنا لیا اور تادم حیات یہیں رہے۔آگرہ وطن ہونے پر انھیں فخر ہے، جس کا اظہار مختلف مقامات پر کیا ہے۔ وہ ٹیوشن پڑھا کر زندگی گزر بسر کرتے تھے۔ نظیر کی مکمل زندگی آگرہ میں بسر ہوئی جہاں ان کے چاروں طرف کے علاقے میں کرشن بھکتی کی تحریک پھیلی ہوئی تھی۔ ہر چہار جانب سور داس اور میرا بائی کے گیت اور بھجن کا بول بالا تھا۔ رادھا اور کشن کی محبت اور بھکتی کے نغمے گونج رہے تھے اور عقیدت و احترام کے ساتھ گائے جار ہے تھے۔ وہ بہ نفس نفیس متھرا اور بر ندا بن کے میلوں اور تہواروں میں شریک ہوتے تھے۔اسی ماحول میں نظیر کی زندگی اور شاعری کا سفر شروع ہوا، جن کے مکمل اثرات ان کی نظموں پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ نظیر اکبرآبادی بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔ لیکن انھوں نے غزلیں بھی لکھی ہیں۔ان کی بیشتر غزلیں " غزل مسلسل " کی ذیل میں آتی ہیں۔ان غزلوں میں بیشتر مقامات پر قطعہ بند اشعار بھی موجود ہیں۔ نظیر کی نظموں کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے اپنی نظموں کے آخری بند میں اپنا تخلص اسی التزام کے ساتھ پیش کیا ہے، جس طرح غزل گو شعرا کرتے ہیں۔


نظیر اکبر آبادی عوامی شاعر ہیں

نظیر اکبر آبادی عوامی شاعر ہیں۔ اسی لیے ان کی شاعری عوامی زندگی، عوام کے احساسات و جذبات اور خیالات کی مکمل ترجمان ہے۔

نظیر اکبر آبادی کی شاعری کی شاعری کی خصوصیات

نظیر اکبر آبادی نے اپنے پیش روؤں، معاصرین اور بعد کے شعرامیں بھی اپنی انفرادی شان کے ساتھ نمایاں و منفرد نظر آتے ہیں۔ نظیر کی شخصیت و شاعری کا غالب رجحان شاد باش، زندہ دلی اور انسانی سر گرمیوں میں والہانہ دلچسپی ہے۔ ان کی پوری شاعری حقیقت پسندی اور واقعیت نگاری کی آئینہ دار ہے۔ وہ جس ماحول سے گزرتے ہیں، جو کچھ ہوتا دیکھتے ہیں، اور جو کچھ ان کے تجربات و مشاہدات میں آتا ہے وہی انھیں شعر کہنے پر اکساتا اور آمادہ کرتا ہے۔ جس طرح ایک بہترین غزل گو فرمائشی غزل یا فی البدیہ غزل تخلیق کرنے پر دسترس رکھتا ہے، اسی طرح نظیر بھی فرمائش اور فی البدیہ نظم تحریر کرنے پر قدرت کاملہ رکھتے ہیں۔


نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری کی خصوصیات

نظیر اکبر آبادی کی نظموں میں شیخ سعدی کی مشہور تصانیف ” گلستاں اور بوستاں “ کی حکایات کے اثرات نمایاں ہیں۔ وہ ایک انسان دوست اور سادہ لوح انسان تھے۔ مزاج میں سادگی اور بے ریائی تھی۔اسی لیے ہر طبقہ کے لوگ ان کے دوست تھے۔ بھکاری اور خوانچے والے بھی ان سے نظمیں لکھوا لیا کرتے تھے۔

نظیر اکبرآبادی کی شاعری کا جائزہ

نظیر اکبرآبادی کو کسی دبستان، تحریک یا ازم سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ وہ خود نئی طرز روش کے موجد ہیں۔ وہ کسی بنائی ہوئی یا طے شدہ ڈگر پر چلنے کے بجاۓ اپنی ایک الگ راہ بنائی، جو پائیدار اور مستحکم ہے۔ الطاف حسین حالی اور مولانا محمد حسین آزاد جدید نظم کے معمار اول ہیں۔ انھوں بھی نظیر کے اثرات قبول کرتے ہوۓ ان کی طرح نظمیں لکھی ہیں۔ شاعری سے زندگی کا اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے، جس کی زندہ مثال نظیر کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک مفکر اور مصلح بھی ہے۔انھوں نے زندگی کے ہر شعبہ کا گہرائی و گیرائی سے مشاہدہ کیا اور انسان کو کامیاب زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا۔ ان کی شاعری انسانی زندگی کا آئینہ خانہ ہے، جس میں ہر شخص اپنا خد و خال دیکھ سکتا ہے۔


نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں صداقت، ایمان داری، واقعیت، وطن پرستی

نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں جو صداقت، ایمان داری، واقعیت، وطن پرستی گنگا جمنی تہذیب، مذہبی رواداری، عام زندگی سے قربت اور واقفیت، انسان سے محبت، وسعت قلبی اور سادگی ملتی ہے وہ اس سے قبل کسی شاعر کے یہاں نہیں پائی جاتی ہے۔

نظیر پہلے شاعر ہیں جن کی شاعری مکمل طور پر ہندوستانی فضا میں سانس لیتی نظر آتی ہے۔ ان سے قبل اردو شاعری میں ہندوستانی فضا اور ہندوستانی عوام کی زندگی اس طرح نہیں پیش کی گئی تھی کہ ان سے زندگی کے تمام نشیب و فراز ہمارے سامنے آ جاۓ۔


ان کی نظموں میں جہاں عوامی زندگی جیتی جاگتی، ہنستی بولتی اور چلتی پھرتی نظر آتی ہے اسی طرح در باروں، شہروں، بازاروں، خانقاہوں اور مندروں کی رونق اور چہل پہل بھر پور انداز میں دکھائی دیتی ہے۔ انھیں ہندوستان کے ذرے ذرے سے بے پناہ محبت و عقیدت ہے۔ اس لیے انھوں نے ہندوستان کے مختلف تیوہاروں، تقریبوں، میلوں ٹھیلوں اور مذہبی رہنماؤں کی شان میں کثرت سے نظمیں لکھی ہیں۔ انھوں نے جہاں عید، شب برات اور حضرت سلیم چشتی کے حوالے سے نظمیں تخلیق کی ہیں وہیں ہولی، دیوالی، راکھی، کنھیا جی، رام کرشن جی، بلد یو جی اور گرو نانک پر بھی نظمیں تحریر کی ہیں۔ان نظموں کے امتیازات یہ ہیں کہ ان میں موقع محل کی مناسبت سے امیر و غریب اور اعلی و ادنی، امیر اور متوسط و نچلے طبقے کی زندگیوں اور ان کے مابین فرق و امتیاز بڑے خوب صورت انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ نظیر نے تیوہاروں سے متعلق جتنی نظمیں لکھی ہیں ان سب میں ان کی مذہبی حیثیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے، بلکہ امید و رجا، ملاقات اور میل ملاپ کے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ ان ساری نظموں میں ہندوستان کی سوندھی سوندھی مٹی کی خوشبو ملتی ہے۔ ان کی نظموں میں مذہبی رواداری، قومی یکجہتی وطن پرستی، انسان دوستی، بے تعصبی، وسیع النظری اور اخلاص و اخلاق وغیرہ کو غالب رجحان کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ہندو و مسلم، قوم و قبیلہ اور مذہب و ملت کے اختلافات کو بیکار سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے اہم یہ ہے کہ انسان مذہب و ملت، اعلی و ادنی، امیر و غریب، انسانی نابرابری و نا انصافی اور کالے و گورے کے امتیازات کو فراموش کر کے صرف اور صرف انسانیت کے مضبوط بندھن کو اپنی ذات سے باندھ لے۔انھوں نے اس تفریق و امتیاز کو مٹانے کے لیے جگہ جگہ موت کا تذ کرہ کیا ہے۔


نظیر مختلف مقامات پر عوامی زندگی اور ان کے احساسات و جذبات اور خیالات کی ترجمانی کی ہے۔ ان کے عقائد، توہمات، نظریات، خوشیاں، مصائب، کیفیات اور ان کی دلچسپیوں کی عکاسی کی ہے۔

ان کی نظموں کا ایک بڑا حصہ اتحاد و یگانگت، بھائی چارگی، انسانی ہمدردی کا تر جمان ہے۔ انھوں نے مناظر قدرت کے حوالے سے بھی نظمیں لکھی ہیں، جن میں انسان اور انسانی زندگی سانس لیتی نظر آتی ہے۔ نظیر کی نظموں میں تمثیل کے نمونے جا بہ جا بکھرے ہوۓ ہیں۔ انھوں نے بہت ساری نظموں میں پند و نصائح اور سبق آموز حکایات کو تمثیلی پیرایے میں بیان کیا ہے۔ ان کے یہاں کثرت سے ایسی نظمیں موجود ہیں جن میں حکیمانہ، فلسفیانہ اور متصوفانہ افکار و خیالات نظم ہوۓ ہیں۔ انھوں نے انسان کے ساتھ ساتھ حیوان، چرند پرند اور حشرات الارض پر بھی نظمیں لکھ کر محبت کی عمدہ مثال قائم کی ہے۔


مذہبی رہنماؤں پر لکھی گئی نظموں سے قدیم ہندوستان معاشرت، اقدار و روایات، اور رسوم و رواج کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے ہندوستان کے مختلف موسموں اور موسم کی کیفیات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ نظیر اکبر آبادی نے ایک اثر انگیز اور پر درد " شہر آشوب" بھی لکھا ہے۔ اس میں متوسط طبقے بالخصوص دستکاروں اور پیشہ وروں کی زبوں حالی کو موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس شہر آشوب میں چھتیس 36 قسم کے مختلف پیشہ وروں اور دستکاروں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ انھوں نے نظم " شہر آشوب" میں سماجی و سیاسی صورت حال، امراء و سلاطین کی بے بسی و مجبوری، متوسط و نچلے طبقے کی ابتری و زبوں حالی کا بھی خاکہ پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اخلاقی قدروں کے زوال کا نوحہ بھی قلم بند کیا ہے۔


ان کی نظموں کی سب سے نمایاں انفرادیت و خصوصیت جزئیات نگاری ہے۔انھوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کو مکمل جزئیات کے ساتھ بے نقاب کیا ہے۔ انھوں نے پوری جزئیات کے ساتھ سماجی زندگی کی چلتی پھرتی اور منھ بولتی تصویر میں پیش کر دی ہیں۔ اس طرح ان کی نظمیں تفصیلات کا خزانہ ہے۔

نظیر کی زبان آگرہ کی زبان سے بے حد قریب ہے۔ انھوں نے زیادہ تر عام بول چال کی زبان استعمال کی ہے اور کہیں کہیں کھڑی بولی اور برج بھاشا کا سنگم بھی نظر آتا ہے۔ مندرجہ ذیل نظموں کا مطالعہ طلبا و طالبات کے لیے سودمند ہوگا: کلجگ، بنجارہ نامہ، آدمی نامہ، موت، دنیا و دارالمکافات، روٹی کی تعریف، مفلسی، شب برات، عید، بابا نانک شاہ گرو، کنھیا جی کا جنم، شری کرشن جی، درگا جی کے درشن، مہا دیو کا بیاہ، حضرت علی، حضرت شیخ سلیم چشتی، دیوالی، ہولی۔ راکھی، ہنس نامہ، کوے اور ہرن کی دوستی، ریچھ کا بچہ، کبوتر بازی، جھونپڑا، برسات کی بہاریں، برسات اور پھسلن، جاڑے، اومس، شہر آشوب۔


نظیر اکبر آبادی سے متعلق چند اہم سوالات اور ان کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:
سوال ۱

نظیر اکبر آبادی کا اصل نام کیا تھا؟

جواب : نظیر اکبر آبادی کا اصل نام شیخ ولی محمد اور مخلص نظیر تھا۔
سوال ۲

نظیر اکبر آبادی کے والد کا نام کیا تھا؟

نظیر اکبر آبادی کے والد کا نام شیخ محمد فاروق تھا۔
سوال ۳

نظیر اکبر آبادی کی پیدائش کب ور کہاں ہوئی؟

نظیر اکبر آبادی کی پیدائش 1740 اور بعض روایت کے مطابق 1735 میں دہلی میں ہوئی۔
سوال ۴

نظیر اکبر آبادی کا انتقال / موت کہاں ہوا؟

نظیر اکبر آبادی کا انتقال 1830 میں آگرہ میں ہوا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے