Ticker

6/recent/ticker-posts

ساحر لدھیانوی کی زندگی اور غزل گوئی | Sahir Ludhianvi Ki Ghazal Goi

ساحر لدھیانوی کی زندگی اور غزل گوئی


تمام اصنافِ شاعری میں غزل کو ممتاز ترین اور اہم ترین صنفِ سخن تسلیم کیا جاتا ہے۔ غزل وہ صنف سخن ہے جو ہر دور میں لوگوں کے دلوں پر راج کرتی رہی ہے۔ اردو کے تمام شعراء نے اپنی شاعری کا آغاز غزل ہی سے کیا ہے۔ موجودہ غزل دراصل عربی اور فارسی روایت کی پروردہ ہے۔ غزل کے لغوی معنی عورتوں سے گفتگو کرنے کے ہیں۔ زمانہ قدیم کے اکثر شعراء نے اپنی غزلوں میں عورتوں کے تعلق سے اشعار کہے ہیں۔ عورتوں کے رویوں، خوبصورتی، ناز و ادا، سراپا اور حسن و عشق کے واردات کو تحریر کیا ہے۔


دبستان دہلی اور لکھنو کی خصوصیات

دبستان لکھنو کے شعرا کو اس میدان میں خاص مہارت حاصل تھی۔ کہتے ہیں کہ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے لہذا جیسے جیسے زمانہ بدلتا گیا ادب بھی اپنے آپ کو نئے رنگ اور ڈھنگ سے سجاتا اور نکھارتا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غزل نسوانیت کے طلسم کو توڑ کر تمام طرح کے خیالات کو اپنے دل میں بسانے لگی۔

تمام اصنافِ سخن میں غزل ایسی صنف ہے کہ جس کی سحرکاری اور جادوگری سے آج تک کوئی بھی اہلِ دل اور اہلِ علم خود کو محفوظ نہ رکھ سکا۔غزل نے اپنی ابتدا سے لے کر آج تک ادب کو بےشمار جادوگر دئے ہیں آج ہم انہیں میں سے ایک خاص جادوگر کی بات کرنے جا رہے ہیں جو ہمارے ادب اور ہمارے لئے بھی اہم ہیں ۔یہ اپنے نام سے بھی اور کام سے بھی ساحر تھے۔

ساحرؔ نے جس دور میں اپنی شاعری کا آغاز کیا وہ جوشؔ ملیح آبادی اور احسان دانشؔ جیسے باکمال اور شہرت یافتہ شعراء کا تھا۔ اسرار الحق مجازؔ ، فیض احمد فیضؔ اور علی سردار جعفری جیسے معاصرین شعرا نے اپنی شاعری سے دھوم مچا رکھی تھی۔ لہذا ابتدا میں ساحرؔ کی شاعری بھی فیضؔ، جوشؔ، مجازؔ اور اس دور کے دوسرے مشہور شعراء کے کلام سے اثر انداز ہوتی رہی ساحرؔ کو شاعر بنانے میں فطرت، ماحول، معاشرتی کشمکش، بے چینی، بے کیفی و بے دلی ان تمام محرکات کا ہاتھ رہا ۔ ساحرؔ نے لوگوں کی بھیڑ میں رہتے ہوئے بھی خود کو کو تنہا سمجھا۔ سماج کی ناہمواریاں اور المیہ ان کے خون میں گھل مل گئے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ تمام چیزیں ساحر کی شاعری میں ابھر کر سامنے آنے لگی۔ ساحر کی شاعری زندگی کے مختلف موضوعات بیان کرتی ہے۔ یہ عصری آگہی اور بیداری کا اہم ثبوت ہے۔ ساحر کو فطرت نے بے حد حساس ذہن و دل اور غنائیت بخشی تھی۔ لدھیانہ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہاں کے اہل ذوق حضرات کی صحبت سے ساحرؔ بھی شاعری کی سحر سے لطف اندوز ہوتے رہے اور رفتہ رفتہ انہیں بھی شاعری کا چسکا لگا۔ ساحرؔ کا مزاج شرمیلا نفاست پسند اور طبیعت درد مندتھی۔ وہ دوسروں کے تمام دکھ درد کو اپنا سمجھتے اور ان میں ڈوب جاتے۔ ساحرؔ نے محسوس کیا کہ میں جس سماج کا حصہ ہوں اس میں میرا مقام نمایاں اور بلند ہے لہذا میری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ میں معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں اور نا ہمباریوں کو اپنے قلم کا نشانہ بناؤں۔ ساحرؔ کی اس سوچ کی وجہ کہیں نہ کہیں ان کا سوسلزم کا گہرا مطالعہ اور ان سے دلی وابستگی تھی۔


ساحر لدھیانوی کی زندگی

ساحرؔ کا رشتہ خواص سے زیادہ عوام سے رہا ساحرؔ نے جوکچھ بھی دیکھا سمجھا اور محسوس کیا اپنے ذہن و دل تک محدود نہیں رکھا بلکہ عوام کے سامنے لا کر رکھ دیا یہی وجہ ہے کہ عوام سے ان کا رشتہ بے حد گہرا اور مضبوط رہا۔ جہاں دیگر شعرا اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کرتے آئے ہیں وہی اس کے برعکس ساحرؔ نے اپنی شاعری کا آغاز نظم نگاری سے کیا اس طرح ساحر نے پہلی بار اپنے روایت شکن رویہ کا اظہار کیا انہوں نے پہلی مرتبہ سماج کی روایت کو توڑا تھا۔ حالاں کہ ان کی اس نظم نگاری میں بھی غزل کے اوصاف اور خوشبو ملی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ ان کی شاعری اور زندگی دونوں پہلوؤں میں عشق کا گہرا دخل رہا ہے اور عشق ہمیشہ ہی اردو شاعری کا خاص حصہ رہاہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ساحرؔ نظم نگار کی حیثیت سے زیادہ مشہور و مقبول ہوئے۔ رفتہ رفتہ انہیں نظم کا شاعر تسلیم کرلیا گیا۔ شاید اس کی ایک صاف وجہ یہ ہے کہ انہوں نے نظمیں زیادہ لکھی ہیں اور غزلیں بہت کم یہاں تک کہ ناقدوں نے بھی ان کی غزل پر کوئی خاص نظر ِعنایت نہ کی حالانکہ ساحرؔ کے یہاں غزلوں کی تعداد کم ہونے کے بعد بھی وہ ایک بہترین غزل گو قرار دیئے جا سکتے ہیں۔

جب کبھی فنکار کو ایک خاص فن میں مقبولیت اور مہارت حاصل ہوجاتی ہے تو اس کے دیگر فنون کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مومنؔ کو ہر کوئی شہنشاہ تغزل تسلیم کرتا ہے جبکہ وہ ایک بہترین نجومی، موسیقار اور طبیب بھی تھے۔ لیکن ان کی غزل گوئی میں مہارت کی وجہ سے ان کے دوسرے سبھی فنون کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ساحرؔ کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ اس دور کے نقادوں نے ان کی غزل گوئی کو ملحوظ نظر نہیں رکھا مانا کہ ساحر ایک نظم نگار کی حیثیت سے زیادہ مقبول ہوئے مگر سچائی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی غزلوں کو بھی ایک منفرد انداز اور لب و لہجہ بخشا ان کی تمام تر غزلوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بہترین غزل گو بھی ہیں ان کی ان غزلوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کے ناقدوں نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ساحرؔ فطرتا غزل گو تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثر نظموں میں غزلیہ رنگ وآہنگ پایا جاتا ہے ۔ غزل گوئی پر ساحرؔ کو مہارت حاصل ہے نظیر صدیقی نے لکھا ہے :


’’ ساحر اردو کے معد چند شاعروں میں سے ایک ہیں جو نظم وغزل پر یکساں قدرت رکھتے ہیں ان کی کامیابی کا راج یہی تھا کہ وہ ایک کامیاب غزل گو تھے یہ بات جس طرح اقبال اور فیض پر صادق آتی ہے تو اسی طرح ساحر پر بھی منطبق ہوتی ہے۔‘‘

ویسے تو ساحر نے غزلیں بڑے ہی خوبی کے ساتھ کہیں پھر بھی ان کی غزلیں روایت سے انحراف کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں عشق کے موضوعات اور انداز بیان ایرانی غزلیہ روایت کے برعکس نظر آتی ہیں۔ روایتوں سے یہ بغاوت اور انحراف ساحرؔ کی انفرادیت بن جاتی ہے۔ ساحر نے موضوعات کے بیان میں ندرتِ خیال اور تازگی کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے اپنے شعروں کو پرویا ساحر نے غمِ عشق اور محبت کے علم کو نئے انداز سے برتا ہے۔ مجنوں گورکھپوری نے ساحر کے متعلق لکھا ہے :


’’ ساحر چاہے غزل نما نظم لکھیں یا نظم نما غزل، وہ بہرصورت شاعری کا پورا حق ادا کرنے کی قابلیت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ وہ خارجی عوارض اور داخلی تاثرات کو سلیقے کے ساتھ سمو کر ایک اہنگ بنانے کا فن خوب جانتے ہیں۔ ان کے ہر مصرعے میں مادی محرکات و مؤثرات کے احساس کے ساتھ وہ کیفیت گھلی ملی ہوتی ہے جو صرف بے ساختہ داخلی ابھار سے پیدا ہو سکتی ہے۔ ان کے کلام کی ناقابلِ انکار خصوصیت غزلیت یا غزل ہے‘‘۔

مجنوں صاحب کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ساحر کی غزل گوئی میں عمدگی اور ندرت کی کوئی کمی نہیں ہے اور وہ ایک بہترین غزل گو شاعر قرار دیے جا سکتے ہیں۔ بس اب اس بات کی تفتیش ضروری ہو جاتی ہے کہ ساحر نے اپنی استعدادِ شعری کو کس طرح پیش کیا ہے۔ یاد رہے کہ غزل تفصیل اور وضاحت نہیں بلکہ اختصار اور اشارے کی زبان کا نام ہے۔ یہ ہوا کا وہ ملائم جھونکا ہے جو آندھیوں کو بھی ہلا دیتی ہے۔ دراصل غزل کی دلکشی بے ساختہ پن اور اثر آفرینی رمزیت اور اشاریت کی ہی پروردہ ہیں۔ ساحر نے اپنی غزلوں میں استعاروں کا عمدہ استعمال کیا ہے۔ ایک ایسا موثر شاعر جو تخلیقی ذہن و ہنر کا مالک ہے، جب غزلوں میں اپنے خیالات و احساسات کو پروتا ہے، تو لاکھوں دلوں میں اپنے شعر کے ذریعے جادو جگاتا ہے۔ ساحر اکثر اپنی غزلوں میں روایتی موضوعات سے گریز کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی غزلوں میں نادر استعاروں کو بے حد عمدگی کے ساتھ سلیقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے ایک نئی فضا قائم کرنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ساحر کا غزلیہ کمال بھی ہے اور ان کا خاص حسن تغزل بھی۔ کبھی کبھی نظم کی چند خصوصیات کو غزلوں میں شامل کرکے نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کے تجربات کو پیش کرنے میں میں ساحر کو مہارت حاصل ہے۔ ساحر کی جن غزلوں میں موضوع مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور مضامین میں ربط و تسلسل ہیں انہیں غزل کی جگہ شعر کے طور پر پیش کیا ہے۔ پھر بھی یہ گہرے ہیں اس لئے کہ ان میں بھی اثر آفرینی اور منفرد خیالات ہیں۔


جہاں کہیں بھی ساحر نے اپنے سماجی شعور و احساس کی بیداری اور ندرت تشبیہ کی مدد سے اشعار رقم کیے ہیں ان کی معنویت میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ وہ غزل جو انہوں نے ابتدا میں کہی ہے ان میں اتنی وسعت اور رعنائی تو نہیں ہے لیکن ندرت اور خلوص زیادہ ہیں۔ ان غزلوں میں قنوطیت نہیں رجائیت ہے۔

ساحر کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ جن خیال کو عام طور پر نظم کے لیے مخصوص ٹھہرا دیا گیا ہے اسے بھی وہ اپنی غزلوں میں پیش کر دیتے ہیں اس طرح انہوں نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ غزل میں بھی ہر طرح کے مضامین اور خیالات کو پیش کیا جاسکتا ہے۔


ساحر نے جتنی بھی غزلیں کہی ہیں ان میں عام طور پر دو رنگ ہیں۔ پہلا رنگ ان غزلوں اور اشعار کا ہے جو انہوں نے سماجی اور سیاسی مسائل کے پس منظر میں کہیں ہیں اور دوسرا رنگ ان غزلوں کا ہے جن میں عشقیہ جذبات و احساسات کو اور دکھ درد اور تکلیفوں کو بیان گیا ہے۔جن غزلوں میں میں معاشرتی اور سماجی کشمکش کو بیان کیا گیا ہے ان میں اہم موضوع سیاسی سرگرمیاں آزادی کی جدوجہد اور دنیا میں امن و امان کے خیالات کو داخل کیا ہے۔ عشقیہ شاعری میں واردات قلبی، بےوفائی،جسم فروشی، اورمجبوریِ عشق جیسے تجربات کو بیان کیا ہے۔ دونوں ہی رنگوں کی غزلوں میں ساحر کی انفرادیت صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ ساحر کے یہاں تصور عشق میں اپنے محبوب سے وصل کا لمحہ بے حد مختصر رہا ہے۔ یہ وصل کی کمی اور حسرت و یاس و ناامیدی کی زیادتی انہیں تمام عمر بے چین رکھتی ہے۔ یہی بے چینیاں، ناامیدی اور میدان عشق کی محرومیاں ساحر کی غزلوں کے محاسن بن کر ابھرتے ہیں۔ یہی وہ تمام چیزیں ہیں جو ساحرکو ایک عظیم شاعر اور خلوص سے لبریز عاشق کا درجہ دلاتی ہیں۔ ساحر کی زندگی میں اتنے درد دکھ تکلیف اور محرومیاں تھی کہ انہیں عشق کی ناکامیوں اور محرومیوں کے مسائل کو حل کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور اگر انہوں نے اپنی زندگی سے عشق کے لئے چند حسین لمحے چرائے بھی تو سماج کے ظالمانہ رویے نے ان کے اوپر پہرے لگا دئیے۔ ساحر کی اکثر غزلوں میں ان مجبوریوں کا بیان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثر غزلوں میں عشق کے درد و تکلیف کا بیان زیادہ ملتا ہے اور خوشیاں کم دکھائی دیتی ہیں۔


ساحرؔ کے یہاں ایسی غزلیں بھی ملتی ہیں جن میں محبت کے دکھ درد سے تنگ آکر محبت ترک کرنے کا خیال پیش کیا گیا ہے۔ ان غزلوں میں بھی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اپنے خاص انداز کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسے موقع پر انہوں نے ایک دوسرے کو رلانے اور شکوے نہ کر کے حوصلہ دینے کا کام کیا ہے۔ یقینا یہ بڑی ہمت اور دلیری کا کام ہے جو صرف ساحر ہی کر سکتے تھے۔

جہاں دوسرے ترقی پسند شعرا کا ایسا خیال رہا ہے کہ انسانی زندگی کے مسائل سماجی اور سیاسی عمل کا نتیجہ ہے وہی ساحر کا یہ خیال ہے کہ یہ مسائل قدرتی ہیں۔ ساحر نے اپنی غزلوں میں سیاست اور زندگی سے متعلق مسلوں اور پیچیدگیوں کو اس خوبی کے ساتھ پیش کیا کہ ان میں گہری معنویت اور اثر آفرینی دکھائی دیتی ہیں ۔ل اور قاری محسوس کرتا ہے کہ یہ غم یہ درد اور یہ سارے مسائل تو ہماری زندگی کے ہیں۔ اس کے علاوہ ساحر کی غزلوں میں ایک خاص خوبی یہ ہے کہ ان میں پیکر تراشی اور مرقع نگاری کی خوبصورت مثالیں ملتی ہیں اور اس خوبصورتی کی وجہ یہ ہے کہ ساحر نے فارسی تراکیب اور اردو مرکبات کو بے حد چابکدستی اور مشاقی کے ساتھ سدھے ہوئے انداز میں فنکاری کے ساتھ انجام دیا ہے۔ساحر نے شاعری کی تمام سمتوں سے استفادہ کیا ہے اور اپنی غزلوں کے حسن کو دوبالا کیا ہے کسی خاص الفاظ کی تکرار سے ساحر نے غزلوں کو ترنم اور موسیقیت میں کمال پر پہنچا دیا ہے۔


ساحر نے اپنی غزلوں کے لئے الفاظ کا انتخاب کرتے وقت اس کی موزونیت دلکشی اور شیرنی کا خاص خیال رکھا ہے۔ محاورے اور تلمیحات کا برمحل استعمال نے کلام کوحسن بخشا ہے ۔ ان کی غزلوں میں کوئی بھی الفاظ غیر ضروری نہیں معلوم ہوتے ہیں۔ غزل کا ہر مصرع بےحد کسا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ہر کہیں ان کی ماہرانہ فنکاری کی چمک دمک صاف دکھائی دیتی ہیں۔ساحر نے اپنی شاعری کو مرصع سازی بنا دیا ہے اور الفاظ کا بڑی خوبصورتی سے انتخاب کرتے ہوئے اپنی شاعری میں ایسے پیرو یا جیسے کوئی موتی پروتا ہے۔ ان کی شاعری میں ہر کہیں ساحری کی جھلک ملتی ہے۔ ساحر کی نظم نگاری ہو یا غزل گوئی دونوں ہی میدانوں میں انہیں مہارت حاصل ہے ان کی شاعری میں جو غنائیت اور ایمائیت کی خصوصیات ہیں اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی طبیعت غزلیہ شاعری سے کس طرح ہمکنار ہوگئی تھی یہی وہ خاص وجوہات ہیں جنہوں نے ساحر کو غزل گوئی میں عروج پر پہنچایا۔ برجستگی، بے ساختگی، اشاریت، کنایہ ندرت خیال، رمزیت، جدید آہنگ اور نئے نئے ڈھنگ سے پیکر تراشی ان تمام چیزوں نے مل کر ساحر کو بڑا اور منفرد لب و لہجہ کا شاعر بننے میں کافی مدد پہنچائی۔ ان کی غزلوں میں رومان، احتجاج اور جدید امکانات کی آمیزش ہیں۔ انہوں نے رومانیت اور زندگی کی حقیقتوں کو ایک ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔


ساحر کے یہاں غزلوں کی تعداد زیادہ تو نہیں ہیں لیکن جتنے بھی ہیں سب کے سب ترشے ہوئے ہیرے ہیں اور ویسے بھی کوئلے کے بڑے کھانوں میں ہیرے کم ہی ہوتے ہیں۔ یہ چند ہیرے ہمارے لئے اور ادب کی نئی نسلوں کے لیے بھی بے حد انمول ہیں۔ ڈاکٹر منور انجم ساحر کی غزلوں کی خوبیوں پر بات کرتے ہوئے :

’’ ساحر کے کلام میں غزل کا سرمایا یقینا محدود ہے۔ پھر بھی ان کی غزلیہ شاعری میں عشقیہ خیالات و سیاسی حالات کے ساتھ حیات انسانی کے دوسرے مسائل کا تذکرہ بھی، نہایت موثر انداز میں ملتا ہے۔ ان کی غزلوں میں ہر شعر کی انفرادیت مسلم ہے۔ اور ہر جگہ تغزل کی کیفیت محسوس ہوتی ہے‘‘۔

ساحر نے اپنی غزلوں کے لئے الگ سے کوئی مجموعہ نہیں چھپایا بلکہ نظموں کے مجموعے ’’آؤ کہ کوئی خواب بنے‘‘ اور ’’پرچھائیاں‘‘ میں ہی ان کی غزلیں بھی شامل ہیں۔’’پرچھائیاں‘‘ میں دس غزلیں ملتی ہیں جن پر کوئی عنوان نہیں ہے اور شعر کے عنوان سے تین غزلیں ہیں۔اسی میں سترہ غزلیں ایسی ہیں جو مختلف عنوان کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔یہ تمام عنوانات ان غزلوں کے مصرعے اور ردیفوں کے الفاظ پرمنحصر ہیں۔عام طور پر غزلوں کے دیوان میں اشاریہ کی ترتیب ردیف کے مطابق ہوا کرتی ہیں لیکن ساحر کے یہاں ایسا بالکل نہیں ان کے مجموعہ میں اشاریہ کا طریقہ اس طرح ملتا ہے کہ ہر غزل کے اشعار کی تعداد درج ہے اور مجموعے کے جس صفحہ پر غزل درج ہے وہ صفحہ نمبر درج کیا ہے اور غزل کا مطلع یا آخری شعر کو درج کیا ہے۔

شاعری کا مزاج ابتداء سے ہی ایسا رہا ہے کہ اس میں بدلتے ہوئے عہد اور زمانے کے تغیرات و انقلابات جیسے موضوعات بھی شامل ہوتے رہے ہیں۔ ساحر کے ہاں بھی یہ رویہ ملتا ہے ان کو شکوہ شکایت اور واردات قلبی کے علاوہ سیاسی معاشرتی اور انقلابی معاملات کو بھی بھرپور طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ ساحر نے غمِ دوراں اور غمِ جاناں کی آمیزش سے اپنے لیے ایک الگ دنیا بنائی۔ان کے یہاں غم عشق اور محبت کے الم کے پرانے تجربات کا بالکل نئے انداز میں سادگی صفائی ندرت اور منفرد لب و لہجہ کے ساتھ بیان ملتا ہے۔ جو غزلیں ساحر نے عشقیہ موضوعات کے تناظر میں لکھی ہیں۔ ان میں بھی عہد جدید کی سیاسی سماجی اور تہذیبی و معاشی و معاشرتی کشمکش دشواریوں کی ہلکی پھلکی جھلک مل ہی جاتی ہیں۔ ساحر نے اپنی دور اندیشی اور چابکدستی سے کام لیتے ہوئے نہایت ہی فنکارانہ انداز میں اپنی سیاسی و سماجی بصیرت اور احساسات و تجربات کو ان غزلوں میں پیش کیا اور غزل کی کلاسکیت کو بنائے رکھا۔ ساحر نے غزل کی رمزیت کو اور زیادہ پہلو دار بنا دیا۔اس طرح انہوں نے اپنی غزلوں میں ایک نیا رنگ و آہنگ پیدا کیا جو اپنی مثال آپ ہیں۔ اس نئے رنگ وآہنگ میں سیاسی اور سماجی مسائل ترقی پسند عناصر کی رنگا رنگ پیش کش ہے۔ اس طرح ساحر کے یہاں سیاسی مسائل میں انسانی زندگی کے دیگر مسائل بھی شامل ہوگئے ہیں ۔ مختلف عناصرکے شامل ہونے سے ساحر کی غزلوں کے حسن میں اور زیادہ نکھار اور اضافہ ہوا ہے۔

ہر چند مری قوتِ گفتار کہ محبوس
خاموش مگر طبع یے خدآرا نہیں ہوتی

یعنی کے حکومت کے خلاف سچ بولنے کی اجازت نہیں ہے پھر بھی میری فطرت تو خود آرا ہے لہذا میں خاموش نہیں رہ سکتا اور میں ظلم و تشدد اور ناانصافی کے خلاف تا عمر اپنی آواز بلند کرتا رہوں گا۔

کچھ ایسا ہی خیال مرزا غالب کا بھی ہے وہ فرماتے ہیں:

گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا

دوسری جگہ ساحر نے اپنی دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شعررقم کیا ہے :

بھرکا رہے ہیں آگ اب نغمہ گر سے ہم
خاموش کیا رہیں گے زمانے کے ڈر سے ہم

ساحر یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک کے ہر ایک فرد بہادری اور دلیری کے ساتھ حکومت کے خلاف آواز بلند کرے اور اس ظلم و تشدد اور ستم کے درخت کو کو اکھاڑ پھینکے۔

لب پہ پابندی تو ہے، احساس پر پہرا تو ہے
پھر بھی اہل دل کو، احوالِ بشر کہنا تو ہے


ساحر نے حکومت کے ظلم و ستم کے رویے کے متعلق بات کرتےہوئے کہا ہے کہ مانا کے حکومت نے ہم ہندوستانیوں پر مختلف اقسام کی پابندیاں لگا رکھی ہیں، حکومت یہ چاہتی ہے کہ ہم اپنی حالت اور اپنے خیالات کا تذکرہ نہ کریں۔یہی تو وہ وجوہات ہیں جس کی بنا پر سارے اخبارات کی اشاعت اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔پھر بھی ہم ایسے باہمت باعزم اور باحوصلہ مجاہدین آزادی ہیں کہ اپنے ملک کے باشندوں کے حالات اور المناکیوں کو حکومت کے سامنے اپنی شاعری کے ذریعے پیش کرتے رہیں گے۔

اپنی غیرت بیچ ڈالیں ، اپنا مسلک چھوڑ دیں
رہنماؤں میں بھی کچھ لوگوں کا یہ منشا تو ہے

بے شک ہمارے مجاہدین آزادی جانثاری اور دلیری کے ساتھ انگریزی حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے لیکن انہیں میں کچھ ایسے غدار بھی شامل تھے جو اپنی ضمیر فروشی اور حکومت کی جی حضوری کر کے ہم ہندوستانیوں کی حب الوطنی کے جذبے کو کمزور کر رہے تھے۔ساحر کی دور اندیش نظریں ایسے غداروں پر تھیں۔ ساحر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے کچھ عوامی رہنما ایسے بھی ہیں جو ہمارے سامنے آزادی کی بات کرتے ہیں لیکن ہماری غیر حاضری میں وہ انگریزی حکومت کی چاپلوسی کرتے ہیں اور اپنی لالچ کو پورا کرنے کی خاطر اپنی غیرت اور ملک کو بھی فروخت کرنے سے گریز نہیں کرتے۔

ہے جنہیں سب سے زیادہ دعوائٰ حب الوطن
آج ان کی وجہ سے حب الوطن رسوا تو ہے


ہندوستان میں جہدِ آزادی کے دوران کثیر تعداد میں ایسے بھی رہنما تھے جو دیگر رہنماؤں کی حب الوطنی کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ ان رہنماؤں کا یہ خیال تھا کہ ہماری حب الوطنی سب سے بہتر اور اعلی درجہ کی ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ حقیقت بھی ظاہر ہو ہی گئی اور انہیں اپنی غلطیوں کا بھرپور احساس ہوا یہاں تک کہ انہیں اپنی غلطیوں کی وجہ سے سے سرعام رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے آج بھی حب الوطنی کا جذبہ بد نام ہو کر رہ گیا کیا ہے۔ دراصل یہ لوگ وطن پرستی نہیں بلکہ خود پرستی میں لگے ہوئے تھے۔

ساحر کے یہاں اس طرح کے اشعار کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ان اشعار کی خوبی یہ ہے کہ دیگر شعراء کے مانند ان میں فقط نعرہ بازیاں نہیں بلکہ یہ اشعار معنویت اور حقیقت سے لبریز ہیں۔ حقیقت اس لیے کہ آغاز شاعری کے زمانے میں ساحر کسانوں مزدوروں اور دبے کچلے لوگوں کی مجلسوں میں اکثر جایا کرتے تھے اور وہاں ان کے حالات کو اپنی شاعری میں بیان کیا کرتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ تحریک آزادی کے جلسوں میں بھی شامل ہونے لگے اور اس وقت کے سیاسی مسلوں کو اپنی شاعری میں داخل کرنے لگے۔ اس خاص میدان میں ساحر کو کافی مقبولیت ملی اور انہیں احترام کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ساحر نے اپنی غزلوں کے ذریعے انسانی زندگی کی لاچاری، بے بسی ، بے کسی اور معاشرت کی تلخیوں کو شاعرانہ انداز میں پیش کیا ہے ۔دراصل ساحر خود بھی تمام عمر معاشرتی زندگی کی پریشانیوں اور تلخیوں کا سامنا کرتے رہے ہیں اس لئے ان کو زمانے کا غم اپنا دکھائی دیتا تھا انہوں نے معاشرے کے غم کو خود سے ہمکنار کر لیا تھا۔

میں اور تم سے ترکِ محبت کی آرزو
دیوانہ کر دیا ہے غمِ روزگار نے

ساحر کو اپنے محبوب سے اتنی گہری محبت ہے کہ وہ ترک محبت کے متعلق کبھی سوچ بھی نہیں سکتے لیکن غمِ روزگار بھی ان کے نزدیک ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور جب تک یہ اہم مسائل حل نہیں ہو جاتے تب تک کچھ بھی کہنا ممکن نہیں نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ انسان کی پہلی ضرورت روٹی ہے۔ اس کی تلاش میں مصروف آدمی کسی کو بھی بھول سکتا ہے۔

اب اے دلِ تباہ ترا کیا خیال ہے
ہم تو چلے تھے کاکل و گیتی سنوارنے

یعنی جس طرح میرے محبوب کی زلفوں کے پیچ و خم ہیں عین اسی طرح اس معاشرے کی تلخیاں اور مسائل بھی ہیں ۔ ان میں بھی اسی قسم کی الجھنیں اور پریشانیاں ہیں۔ ان دونوں کو سلجھا نا بڑا ہی مشکل اور محال کام ہے۔ کتنے ہی جدوجہد کے بعد بھی اس میں کامیابی نہ مل سکی۔
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گو ڈوب گئے ہیں بارِ غمِ زندگی سے ہم

مضمون نگار : پریم ناتھ بسملؔ
مرادپور، مہوا، ویشالی۔بہار


Urdu Prem

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے